Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا محمد ناظم ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا محمد ناظم ندوی
ARI Id

1676046599977_54338414

Access

Open/Free Access

Pages

620

مولانا محمد ناظم ندوی
اخباروں سے یہ افسوس ناک خبر ملی کہ ماہ جون ۲۰۰۰؁ء مین مشہور عالم اور عربی زبان و ادب کے قابل ادیب و شاعر جناب مولانا محمد ناظم ندوی کا پاکستان میں انتقال ہوگیا۔ اِنا ﷲ وَاِنا اِلیہ رَاجِعونْ۔
وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اس روشن دور کی آخری نشانی تھے جو حضرت مولانا سید سلمان ندوی کی سرپرستی اور مولانا حیدر حسن خاں ٹونکی اور علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی کی تربیت و محنت سے سب سے زیادہ فیضیاب ہوا، گزشتہ صدی کی تیسری، چوتھی دہائی میں مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی، مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی، مولانا محمد عمران خاں ندوی اور مولانا محمد اویس ندوی رحمہم اﷲ جیسے سیارگان علم و فضل ایک ہی وقت میں برج سلیمانی میں جمع ہوگئے تھے، مولانا محمد ناظم ندوی بھی اس مجموعہ نجوم کے تابناک ستارے تھے۔ انہوں نے خاص طور پر علامہ ہلالی مراکشی سے استفادہ کیا۔ اس باب میں وہ مولانا مسعود عالم ندوی اور مولانا سید ابوالحسن ندوی کے بعد ثالث ثلثہ ہوئے۔
بہار کا مردم خیز خطہ مونگیر ان کا وطن تھا، گھر اور پٹنہ کے مدرسہ شمس الہدیٰ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ انیس بیس سال کی عمر میں دارالعلوم ندوہ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے داخل ہوئے، فراغت حاصل کرنے کے بعد وہ ڈابھیل کی اس درس گاہ میں درس و تدریس کے لئے منتخب کئے گئے جو اس وقت مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا محمد یوسف بنوری جیسے جلیل القدر علماء کی موجودگی سے مرکز نگاہ بنی ہوئی تھی، کئی سال گزارنے کے بعد وہ حضرت سید صاحب کی خواہش پر ندوہ میں عربی زبان و ادب کے استاد کی حیثیت سے واپس تشریف لائے اور تقسیم ہند تک یہیں رہے، پاکستان بنا تو انہوں نے وطن کو خیرباد کہہ کر وہاں کی سکونت اختیار کی اور مشہور جامعہ بھاول پور کے شیخ الجامعہ مقرر ہوئے وہاں سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے وابستہ ہوئے، اس طرح ان کی زندگی کا زیادہ حصہ عربی زبان و ادب کی خدمت میں گزرا، ان کو خاص طور پر عربی ادب، شعر و لغت اور نحو سے دلچسپی تھی، حافظہ اس قدر قوی تھا کہ برجستہ سینکڑوں عربی اشعار ان کی زبان پر آجاتے، خود بھی عربی میں شاعری کرتے، ان کا ایک دیوان ان کی اس زبان پر غیرمعمولی قدرت کی یادگار ہے۔
عربی تحریر و تصنیف میں بھی ان کو ملکہ حاصل تھا، ندوہ کے مشہور عربی رسالہ الضیاء سے ان کے سلیقہ تحریر کو جلا ملی، بعد میں انہوں نے المنھج الجدید الدراسۃ اللغۃ العربیہ کے نام سے چار جلدوں میں ایک وقیع کتاب بھی سپرد قلم کی۔
حضرت مولانا سید سلمان ندوی کی خطبات مدراس کا شہرہ ہوا اور انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ ہوا، حضرت سید صاحب کی خواہش تھی کہ وہ خود اس کو عربی میں منتقل کریں لیکن یہ عمل کثرت مشاغل سے آسان نہ تھا، چنانچہ اس کے لئے سید صاحب کی نظر انتخاب مولانا محمد ناظم ندوی پر پڑی، جنھوں نے اس کو بڑی خوشی سے قبول کیا، حضرت سید صاحب کے الفاظ میں ’’فاستجاب لذلک الاخ الصالح الادیب الفاضل محمد ناظم الندوی‘‘ یہ الفاظ مولانا مرحوم کے لئے بڑی سند کا درجہ رکھتے ہیں، ان کا ترجمہ الرسالۃ المحمدیہ کے نام سے طبع ہوا اور عالم عرب میں بے حد مقبول ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے حضرت سید صاحب کی ایک اور مایۂ ناز کتاب سیرت عائشہ کو عربی میں منتقل کیا، اب اس کے شایان شان طبع جدید کی کوشش ہورہی ہے۔
اردو میں بھی وہ وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے، ۴۶؁ء کے معارف میں باب التقریظ والانتقاد کے تحت انہوں نے مجمع فواد الاول للغۃ العربیہ پر دو قسطوں میں ایک نہایت بلند پایہ تبصرہ کیا، انہوں نے اس کے مضامین اور مجمع کے اصول و ضوابط کا جس مہارت و بصیرت سے جائزہ لیا وہ آج بھی اس لائق ہے کہ اہل علم خصوصاً عربی کے اونچے درجات کے طالب علم اس سے استفادہ کریں۔
وہ معارف اور دارالمصنفین کے محب و قدرداں رہے، اس تعلق میں ان کے جلیل القدر استاذ حضرت سید صاحب سے محبت کا جذبہ فطری تھا، اس کا اظہار جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم کے پاکستان کے سفر ناموں سے ہوتا ہے، ہر سفر میں سید صاحب سے ان کی ملاقات ہوتی اور وہ ان سے قریبی عزیزوں کی طرح ملتے، علمی نشستوں کے علاوہ نجی محفلوں میں بھی وہ باوجود پیرانہ سالی کے شریک رہتے، مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی شریک ناظم دارالمصنفین ان کے خاص دوستوں میں تھے، ان کا انتقال ہوا تو ان کا تعزیت نامہ معارف میں شائع ہوا، جس میں انہوں نے اپنے دیرینہ تعلقات اور مولانا قدوائی کی شرافت نفس، تواضع، انکسار، دوست نوازی اور ان کی علمی خوبیوں کا بڑا موثر اظہار کیا۔
پاکستان جانے کے بعد وہ اپنے وطن اصلی کم ہی آئے، ۸۱؁ء میں وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ایک بین الاقوامی سمینار میں اپنے محب صادق اور رفیق دیرینہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی دعوت پر تشریف لائے، اسی سمینار میں ڈاکٹر فتحی عثمان نے جب حضرت سید صاحب اور دارالمصنفین کی خدمات کا شاندار الفاظ میں ذکر کیا تو انہوں نے اٹھ کر ڈاکٹر صاحب کو گلے لگالیا۔ سمینار کے بعد جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم کی دعوت پر وہ دارالمصنفین بھی تشریف لائے۔ ان کے انتقال سے دنیائے علم خصوصاً ندوہ و دارالمصنفین اور عربی زبان و ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، اﷲ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور اعمال حسنہ کو شرف قبولیت بخشے، آمین۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، جولائی ۲۰۰۰ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...