Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > سید علی سردار جعفری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

سید علی سردار جعفری
ARI Id

1676046599977_54338415

Access

Open/Free Access

Pages

621

جعفری، سید علی سردار
اردو کا سردار چلا گیا
مدت سے اردو کا گلشن صیادوں اور گل چینوں کے نرغے میں ہے، بادِ حوادث بھی اس میں خاک اڑا کر اسے ویرانے میں تبدیل کرنے کے درپے ہے، اردو کے پرانے بادہ کش اٹھتے جارہے ہیں۔ ابھی مجروح ۱؂ سلطان پوری کے غم میں آنسو تھمے نہیں تھے کہ یکم اگست کو اردو کا بہت ممتاز اور قدر آور شخص بین الاقوامی شہرت کا حامل انقلابی شاعر، وسیع النظر ادیب و نقاد، اچھا مقرر و خطیب اور ترقی پسند تحریک کا میرکارواں، سید علی سردار جعفری بھی چل بسا۔ جس کے جانے سے اردو کی دلکش اور رنگارنگ گنگاجمنی تہذیب کا خاتمہ ہوگیا اور اردو دنیا میں ویرانی اور تاریکی چھاگئی، اردو والے بے قرار ہوکر کہہ رہے ہیں:
؂ اس غم کی تلافی کیا ہوگی ، اس درد کا درماں کیا ہوگا
جناب سید علی سردار جعفری کے بزرگ ریاست بلرام پور میں اونچے عہدوں پر فائز تھے۔ اس لئے ان کا خاندان آگرہ سے بلرام پور چلا آیاتھا۔ یہیں نومبر ۱۹۱۳؁ء میں سردار کی ولادت ہوئی اور اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوئی، وہ طلبہ کے لیڈر بھی رہے اس وقت ملک میں قومی اور سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں، ہر طرف سرفروشان وطن نے انگریزوں کے خلاف پرچم بغاوت بلند کر رکھا تھا اور پورا ملک انقلاب کے نعروں اور آزادی کے ترانوں سے گونج رہا تھا۔ سردار بھی اقبال سہیل کا یہ رجز پڑھتے ہوئے، آزادی کے دیوانوں کے لشکر میں جاملے۔
قید غلامی و حیات ننگ ہے، ننگ کائنات

Mلعنتِ بندگی کے ساتھ صووت زندگی نہ دیکھ
Mپھاڑ کے جیب و آستیں کر علمِ جنوں بلند

Gعشق کے میرکارواں پرچم خسروی نہ دیکھ
~ ابتدا ہی سے وہ مارکس کے خیالات سے متاثر تھے جو برابر ان کی شاعری پر بھی چھائے رہے، ۱۹۳۶؁ء میں منشی پریم چند کی سربراہی میں ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑی تو وہ اس میں شامل ہوگئے اور اپنی انقلابی شاعری سے مجاہدین آزادی کے دلوں میں فرنگیوں کے خلاف نفرت کا جذبہ بھڑکاتے رہے، وہ ترقی پسند تحریک کو جنگ آزادی ہی کا ایک بازو سمجھتے تھے، اس کے زیر اثر ان کے انقلابی خیالات اور انگریزوں کے خلاف باغیانہ جذبات میں مزید شدت پیدا ہوئی اور وہ عمر بھر اس تحریک کو قوت و توانائی دیتے اور اس کے ادبی سرمائے کو مالا مال کرتے رہے۔ ’’ترقی پسند ادب‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کی اشاعت اور سجاد ظہیر کے انتقال کے بعد ترقی پسند تحریک کی نظریاتی باگ دوڑ عملاً انہی کے ہاتھ میں آگئی تھی، ان کے خیال میں ترقی پسند تحریک میں سوویٹ یونین کے زوال کے بعد بھی کوئی بکھراؤ نہیں ہوا، البتہ تحریک کے ابتدائی دور میں جس پائے کے شاعر اور افسانہ نگار پیدا ہوئے، بعد کی نسل میں اس پائے کے لوگ نہیں پیدا ہوسکے مگر اس کو وہ اس عجیب و غریب تاریخی عمل کا نتیجہ بتاتے ہیں جس میں بہار کے بعد خزاں اور خزاں کے بعد بہار آتی ہے۔ اس وقت ساری دنیا میں ادب اور معاشرہ خزاں کے دور سے گزر رہا ہے جو نئی بہار کی آمد کا اعلان ہے۔
وہ ۱۹۴۲؁ء میں ممبئی گئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے، چنانچہ جوہو قبرستان ان کا مدفن بنا۔ ممبئی میں وہ فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے اور متعدد فلموں کے لئے گیت، مکالمے اور منظرنامے لکھے۔ مگر اس کی چمک دمک سے ان کی نگاہیں خیرہ نہیں ہوئیں، انہوں نے شعر و ادب کا وقار اور رکھ رکھاؤ قائم رکھا۔
سردار اردو کے ادبی افق پر نصف صدی سے زیادہ عرصے تک چھائے رہے، نظم و نثر میں یکساں ان کا قلم رواں رہا، جس زمانے میں شعرگوئی شروع کی اسی زمانے میں نثرنگاری شروع کی اور افسانے اور ڈرامے لکھے، ان کا پہلا افسانہ ’’عالم گیر‘‘ میں اور پہلا ڈرامہ طالب علمی کے زمانے میں ’’علی گڑھ میگزین‘‘ میں شائع ہوا۔ متعدد ادبی، تنقیدی اور سوانحی مضامین بھی لکھے، شاعری کی طرح اپنی نثری نگارشات سے بھی ترقی پسند تحریک کو تب و تاب عطا کی، نثرنگاری کا انہیں اچھا سلیقہ تھا، وہ بڑی اچھی اور خوب صورت نثر لکھتے تھے، ان کا خاص اور منفرد اسلوب نگارش تھا، ان کی کتاب ’’لکھنؤ کی پانچ راتیں‘‘ ان کی نثر کا دلآویز نمونہ ہے، ان کی پہلی نثری کتاب افسانوں پر مشتمل تھی جو ’’منزل‘‘ کے نام سے ۱۹۳۸؁ء میں شائع ہوئی، میر، غالب، میرابائی اور کبیر کے انتخابات اردو اور ہندی دونوں میں اپنے مقدمات کے ساتھ شائع کئے جو بعد میں ’’پیغمبران سخن‘‘ نام کی کتاب میں شامل ہوئے۔ اس سے ان کی تنقیدی ژرف نگاہی کا پتہ چلتا ہے۔ وہ حافظؔ، رومیؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے عاشق تھے، ان کے اکثر اشعار ان کو یاد تھے، ’’اقبال شناسی‘‘ ان کی مشہور کتاب ہے، ترقی پسند اور تاریخی اہمیت کی حامل کتاب ہے، جس کے حوالے کے بغیر ترقی پسند ادبی تحریک کی کوئی تاریخ نہیں لکھی جاسکتی۔ انہوں نے دوسرے اہل قلم اور مصنفین کی کتابوں پر جو دیباچے اور مقدمے لکھے ہیں وہ بھی ان کے حسن اور سلاست وبرجستگی کے دلکش نمونے ہیں۔
نثر کے مقابلے میں ان کی طبیعت کا رجحان شاعری کی طرف زیادہ رہا، غزل میں بھی فکر سخن کی، مگر ان کا جوہر نظموں میں زیادہ کھلتا تھا، زبان و بیان پرپوری قدرت تھی اور فن کی نزاکتوں اور باریکیوں سے اچھی طرح واقف تھے، ان کی نظمیں اپنے جلال و جمال کی وجہ سے اردو شاعری میں جاوداں ہیں۔ ان میں انسان دوستی اور انسان سے محبت، عام لوگوں کے دکھ، درد، امن اور صلح و آتشی کو اصل موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کی شاعری سامراجیت، جبرواستبداد اور طبقاتی امتیاز کے خلاف ایک للکار معلوم ہوتی ہے جس سے وہ ہندوستان ہی نہیں ایشیا بلکہ دنیا کی پسماندہ تمام اقوام کو بیدار کرنا چاہتے تھے اور غریب، مزدور، محنت کش طبقہ اور دبے کچلے عوام کے دلوں میں انقلاب کی شمع روشن کرکے ان کو ہمت و حوصلہ اور وقت و جرأت عطا کرنا چاہتے تھے۔
ان کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو حسین پیکر تراشی بھی ہے، ’’نئی دنیا کو سلام‘‘، ’’پتھر کی دیوار‘‘ اور ’’اودھ کی خاک حسین‘‘، جیسی نظمیں پیکر تراشی کے کامیاب نمونے ہیں۔
جعفری صاحب ظلم و ناانصافی، فرقہ پرستی اور تنگ نظری کے خلاف نبرد آزما رہنے کے علاوہ کمزور اور پس ماندہ لوگوں اور اقلیتوں کے حقوق و مفاد کے لئے زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے، ملک کی تقسیم، بابری مسجد کے انہدام اور ان دونوں واقعات کے بعد ہونے والے فسادات سے وہ بہت دل گیر اور دل شکستہ تھے، بابری مسجد کے انہدام کے خلاف بڑی جرأت و بے باکی سے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا اور اس پر نظم بھی لکھی۔
ہندوپاک کی دوستی ان کی شاعری کا اہم موضوع تھا، اپنی مشہور نظم ’’سرحد‘‘ میں بتایا ہے کہ سرحد مصنوعی اور انسان کی خودساختہ ہے، اس سے ہمیں کیا غرض؟ ہمارا تو پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ ۹۸؁ء میں وزیراعظم باجپائی بس سے لاہور گئے تو اس نظم کو بھی اپنے ساتھ لے گئے، اس میں سردار کہتے ہیں:
اسی سرحد پہ کل ڈوبا تھا سورج ہوکے دو ٹکڑے

Oاسی سرحد پہ کل زخمی ہوئی تھی صبح آزادی
Qیہ سرحد جو لہو پیتی ہے اور شعلے اگلتی ہے

Uمیں اس سرحد پہ کب سے منتظر ہوں صبح فردا کا
ہندوپاک دوستی کے موضوع پر ان کی کئی نظمیں ہیں، جن میں ’’صبح فردا‘‘ اور ’’دشمن کون‘‘ وغیرہ بہت مشہور ہوئیں۔ ایک نظم ’’گفتگو بند نہ ہو‘‘ بھی ہے۔
گفتگو بند نہ ہو بات سے بات چلے
صبح تک شامِ ملاقات چلے
ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے
۹۸؁ء میں دونوں ملکوں میں ایٹمی دھماکے ہوئے تو ان کی امن و آتشی پسند طبیعت کو بڑا دھکا لگا اور انہوں نے اس کی شدید مذمت کی۔
رعنائی خیال اور ذوق جمال کی کارفرمائی کے باوجود ان کی غزلیں حسن و عشق کی فرسودہ داستان نہیں بلکہ انسانی زندگی کے مسائل و مشکلات کی ترجمان ہیں، انہوں نے اردو کی کلاسیکل روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان میں اپنے انقلابی افکار کو بڑی خوبصورتی سے سمودیا ہے۔
سردار جعفری کے کلام کے کئی مجموعے شائع ہوئے اور بہت مقبول ہوئے ان کی نظموں کا سب سے پہلا مجموعہ ۱۹۴۳؁ء میں ’’پرواز‘‘ کے نام سے چھپا، ملک کے علاوہ دنیا کی کئی بڑی زبانوں میں ان کے کلام کے ترجمے کئے گئے، اسی لئے وہ دنیا کے اکثر ملکوں میں روشناس تھے اور اردو کی طرح دوسری زبان والوں میں بھی محبوب و مقبول تھے، انہوں نے کئی بیرونی ملکوں کے سفر بھی کئے اور ہندوستان کے بڑے شاعروں کی طرح ترکی اور یورپ کے ملکوں کے شعراء سے متاثر بھی تھے، اردو اور ہندی کو قریب لانے کے لئے انہوں نے جو کوششیں کیں، ان کا ذکر پہلے ہوچکا ہے، قرۃالعین حیدر کے ساتھ مل کر غالب کے اردو کلام کا انگریزی ترجمہ بھی کیا تھا۔
سردار کئی زبانوں سے واقف تھے اور غالباً ہندی اور سنسکرت پر عبور رکھتے تھے، مگر ان کی تگ و تاز کا اصل میدان ان کی مادری زبان اردو ہی تھی جس سے ان کو عشق تھا، اسی زمین میں وہ تا عمر گل بوٹے کھلاتے رہے اور اس وقت وہ اس زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے تھے، وہ اس کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، زندگی کے آخری لمحے تک اسے وقار و افتخار عطا کرنے میں برابر سرگرم، متحرک اور فعال رہے۔ اردو ہی کی طرح طویل عرصے تک گوناگوں خدمات کی بناء پر ان کو بڑے بڑے اعزازات سے نوازا گیا، پدم شری خطاب ملا، اردو اکیڈمیوں، ریاستی و مرکزی حکومتوں اور مختلف اداروں کے کئی درجن ایوارڈ کے علاوہ حکومت کے سب سے بڑے ایوارڈ گیان پیٹھ سے سرفراز کئے گئے۔ ۶۷؁ء میں سوویٹ لینڈ نہرو ایوارڈ ملا، ۷۷؁ء میں پاکستان میں اقبال میڈل پیش کیا گیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈاکٹر آف لٹریچر کی ڈگری سے نوازا۔
آزادی کے بعد اردو کے ساتھ جو معاندانہ رویہ اختیار کیا گیا اس کی انہیں بڑی تکلیف تھی اور وہ اس کی بقا و ترقی کی جانب سے فکر مند رہنے لگے تھے، ان کے خیال میں تعلیمی نظام اور نظم و نسق سے الگ ہوجانے کے بعد یہ ایک تفریح بن کر رہ گئی ہے، اردو رسالے، بیشتر کتابیں، مشاعرے، ریڈیو اور ٹی۔وی وغیرہ اس حقیقت کے گواہ ہیں، وہ کہتے تھے کہ دوسری زبانوں میں جو آہنگ اور موضوع ہے، وہ اردو میں باقی نہیں رہ سکا ہے، اب کتابیں بھی پانچ سو اور چھ سو کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔ غالباً اردو کے بقا اور ارتقا کے مسئلے میں تشویش ہی کی وجہ سے ایک دفعہ انہوں نے اردو رسم الحظ کے معاملے میں ایک متنازعہ بیان دے دیا تھا، جس میں ان کی بدنیتی تو نہیں تھی مگر اس سے رسم الحظ بدلنے والوں نے فائدہ اٹھایا۔
مرکزی حکومت نے کئی برس پہلے اردو کو فروغ دینے کے لئے گجرال کمیٹی کی تشکیل کی، اس کی سفارشات پر نظرثانی کے لئے جعفری کمیٹی بنی، مگر اس کی سفارشات پر نہ سیکولر حکومتوں کے دور میں عمل ہوا اور نہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے۔ سردار کے محب وطن اور سیکولر ہونے کا اعتراف ان کے دوست اندر کمار گجرال اورسماج وادی پارٹی کے رہنما امرسنگھ کی طرح وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی اور وزیر اطلاعات ارون جیٹلی کو بھی ہے۔ جعفری صاحب کو بہترین خراج عقیدت یہ ہے کہ حکومت ان کی محبوب زبان کی بقا و ارتقا کا سامان کرے اور اس کے معاملے میں فراخ دلی سے کام لے۔
سردار جعفری بڑی وجیہ اور دلکش شخصیت کے مالک تھے، ان کی سیرت کا اصل جوہر ان کی شرافت، محبت، دل نوازی، انسان دوستی اور حسن اخلاق تھا، میری ان کی ملاقات چند بار ہی کی ہے مگر ابھی تک اس کے لطف و لذت سے سرشار ہوں۔ وہ دل کو موہ لینے والی باتیں کرتے تو جی چاہتا تھا کہ ع وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔
اﷲ تعالیٰ اردو کے اس شیدائی، باکمال شاعر و ادیب اور شریف انسان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا معاملہ فرمائے، آمین!! (ضیاء الدین اصلاحی، اگست ۲۰۰۰ء)

۱؂ افسوس ہے کہ ابھی تک معارف میں ان پر کوئی تحریر شائع نہیں ہوسکی۔ ان کی غزل گوئی پر مفصل مضمون لکھنے کا خیال تھا جس کے لئے فرصت کا منتظر ہوں۔( ضیاء الدین اصلاحی)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...