Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسرمحمد یونس نگرامی ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسرمحمد یونس نگرامی ندوی
ARI Id

1676046599977_54338420

Access

Open/Free Access

Pages

625

پروفیسر محمد یونس نگرامی ندوی
یہ خبر سن کر بڑا صدمہ ہوا کہ ۴؍ مارچ کو پروفیسر محمد یونس نگرامی کا انتقال ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ ادھر مہینوں سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، لکھنؤ آنے جانے والوں سے ان کی علالت کی خبر ملتی تھی مگر یہ خیال نہیں تھا کہ وہ اتنی جلد رختِ سفر باندھ لیں گے۔
ان کی پیدائش لکھنؤ ضلع کے مردم خیز قصبہ نگرام میں ۱۹۴۱؁ء میں ہوئی تھی، ان کا خاندان علمی و دینی حیثیت سے ممتاز تھا، درس و تدریس، تالیف و تصنیف اور وعظ و ارشاد اس کا طرہ امتیاز تھا۔ ان کے والد مولانا محمد اویس نگرامی ندوی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں شیخ التفسیر تھے۔ وہ دارالمصنفین کے رفیق اور مولانا سید سلیمان ندویؒ کے محبوب تلامذہ میں تھے، ان کی صحبت میں مولانا کے تفسیر و قرآنیات کے ذوق کو بڑی جلا ملی، بعد میں وہ دارالمصنفین کی مجلس انتظامی کے رکن بھی ہوئے۔
پروفیسر محمد یونس نگرامی نے اپنے والد ماجد کے زیر سایہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تعلیم پائی۔ پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ گئے، لکھنؤ یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری لی، پہلے یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں لکچرر اور اب کئی برس سے پروفیسر ہوگئے تھے۔
ان کا تحقیقی مقالہ ’’ہندوستان میں عربی زبان و ادب‘‘ کے موضوع پر تھا، ان کی دوسری کتب و رسائل کے نام یہ ہیں۔ تھوڑی دیر اہل حق کے ساتھ، خیالات، مثالی خواتین، نماز کیسے پڑھیں، تذکرہ مولانا محمد اویس نگرامی، تقدس حج، خلیجی جنگ وغیرہ۔
ندوہ اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم پانے کی وجہ سے عربی لکھنے کی ان کو اچھی مشق ہوگئی تھی، ندوۃ العلماء کے جریدہ الرائد میں ’’نافذۃ علی الھند‘‘ و (ہندوستان کے دریچے سے) کا مستقل کالم ان ہی کے قلم سے ہوتا تھا، البعث الاسلامی میں بھی ان کے مضامین چھپتے تھے، ان کی عربی زبان و ادب کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ۱۹۹۲؁ء میں صدراتی ایوارڈ تفویض کیا گیا تھا۔
لکھنؤ کے اکثر علمی و تعلیمی اداروں کے رکن تھے اور ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کے بڑے سرگرم ممبر تھے، ان کا حلقہ اثر بڑا وسیع تھا علماء و مشائخ سے بھی تعلق رکھتے تھے اور قومی و سیاسی رہنماؤں سے بھی، مولانا علی میاں سے برابر عقیدت مندانہ تعلق رہا۔ ان کے اثر و رسوخ سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا تھا۔
وہ دو بار اترپردیش اردو اکاڈمی کے چیرمین رہے اس زمانے میں انہوں نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے متعدد شبینہ اسکول قائم کئے، ان سے قبل اکاڈمی کے سیمینار اور انعامات ایک خاص طرح کے ادیبوں اور یونیورسٹی کے اساتذہ ہی کے لیے مخصوص رہتے تھے، مگر انھوں نے اکاڈمی کا سب سے بڑا ایوارڈ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کو دلایا، اسی طرح مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا حکیم سید عبدالحئی پر سیمینار کرایا اور نکتہ چینیوں کی پروا نہیں کی۔
پروفیسر محمد یونس نگرامی کی شہرت ہندوستان ہی تک محدود نہیں تھی، وہ دنیائے اسلام میں بھی متعارف تھے، رابطہ عالم اسلامی نے ہندوستان میں ان کو اپنا مشیر بنایا، اس کی وجہ سے انہوں نے کئی اسلامی ممالک اور کولمبو، ٹوکیو، لندن اور امریکہ کے سفر کئے۔
آل انڈیا مسلم انٹلکچول قائم کیا، جس کے زیر اہتمام اپنوں نے حرمین شریفین کے تحفظ و تقدس، مسجد اقصیٰ کی بازیابی اور کویت پر عراق کے حملے کی مذمت کے لیے سیمینار کرائے۔
ان کی سفارش پر رابطہ عالم اسلامی کی جانب سے متعدد لوگوں کو حج و زیارت کی سعادت نصیب ہوئی، اس ناچیز سے بھی وہ بڑا تعلق رکھتے تھے اور ان ہی کی بدولت مجھے بھی یہ زریں موقع ملا۔
گزر چکی ہے یہ فصل بہار ہم پر بھی
پروفیسر یونس نگرامی کے خاندان میں وعظ و ارشاد، اصلاح معاشرت، شرک و بدعت اور غلط رسموں کے انسداد کے لیے جو کوششیں عرصے سے ہورہی تھیں انہوں نے بھی اس روایت کو باقی رکھا، بعض نئے مدارس و مکاتب قائم کئے اور بعض پرانے مدرسوں کو نئی زندگی بخشی، وہ اصلاحِ معاشرت کے جلسوں میں بھی شریک ہوتے اور اس کے لیے لکھنو، سلطان پور، بارہ بنکی اور رائے بریلی کے ان گاؤں کا سفر کرتے جہاں ان کے والد مرحوم جایا کرتے تھے۔
پروفیسر محمد یونس صاحب بڑے متحرک اور فعال آدمی تھے، ابھی ان کی عمر زیادہ نہیں تھی مگر انہوں نے بہت سے مفید اور اہم کام انجام دیئے، ان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں، مگر خدا کی مشیت و مصلحت سب پر غالب ہے۔ اﷲ تعالیٰ انہیں جنت نعیم اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین!! (ضیاء الدین اصلاحی، اپریل ۲۰۰۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...