1676046599977_54338421
Open/Free Access
626
کالی داس گپتا رضا
افسوس ہے کہ اردو کے مشہور محقق اور غالبیات کے ماہر جناب کالی داس گپتا رضا ۲۱؍ مارچ ۲۰۰۱ء کو چل بسے، وہ راشٹرپتی بھون میں اعزازات کی تقریب میں شرکت کے لیے دہلی تشریف لائے تھے اور ہوٹل میں قیام پذیر تھے کہ اچانک دل کا شدید دورہ پڑا، وہاں سے اسپتال جارہے تھے کہ راستے ہی میں انتقال ہوگیا۔
کالی داس صاحب ۲۵؍ اگست ۱۹۲۵ء کو مکند پور ضلع جالندھر (پنجاب) میں پیدا ہوئے، بچپن میں ہی طبیعت شعر و سخن کی طرف راغب ہوگئی تھی اور تلمیذِداغ پنڈت لبھورام جوش ملسیانی سے کلام پر اصلاح لینے اور مشورہ سخن کرنے لگے، میڑک پاس کرنے کے بعد وہ کاروباری سلسلے میں نیروبی (جنوبی افریقہ) چلے گئے لیکن اردو زبان کی محبت گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ اسی زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات منشی کامل و منشی فاضل اور سینئر کیمریج بیرسٹری کے امتحانات دئے، ان کی تعلیم زیادہ نہیں تھی مگر اپنی محنت و مطالعہ سے انہوں نے نصابی تعلیم کی کمی کی پوری تلافی کرلی تھی۔
گپتا رضا صاحب افریقہ سے واپسی کے بعد بمبئی میں متوطن ہوگئے تھے، کاروباری مصروفیات کے باوجود علم و فن، شعر و ادب اور تحقیق و تنقید کو وہ اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رہے، تحقیق سے ان کو عشق تھا، غالبیات ان کی دلچسپی کا خاص موضوع تھا، اس کے ماہرین میں شمار کئے جاتے تھے، نو دس گھنٹے روزآنہ وہ تحقیق اور مطالعہ کتب میں گزارتے، ان کے ذاتی کتب خانے میں چالیس ہزار سے زیادہ کتابیں اور رسالے تھے، مخطوطات سے بڑا شغف تھا کوئی مخطوطہ مل جاتا تو ہر قیمت پر اسے خرید لیتے، ان کے کتب خانے میں پانچ سو سے زیادہ قلمی کتابیں تھیں، غالبیات پر اتنا بڑا ذخیرہ اور کسی کتب خانے میں نہیں ہوگا۔
گپتا رضا صاحب کی تصنیفات کی تعداد تیس سے زیادہ ہے جن میں تقریباً دو درجن غالبیات سے متعلق ہیں آٹھ شعری مجموعے ہیں، چکبست اور جوش ملسیانی پر بھی ان کا تحقیقی کام ہے، غالبیات میں ان کی نت نئی تحقیقات سے اردو کے ذخیرے میں برابر اضافہ ہورہا تھا، ان کا ایک بڑا کارنامہ دیوان غالب کامل کی ترتیب و تدوین ہے جس میں انہوں نے غالب کے اردو کلام کو بہ لحاظ زمانہ ترتیب دیا ہے، اردو کے اکثر معیاری اور بلند پایہ رسالوں میں ان کے مضامین برابر شایع ہوتے تھے کبھی کبھی معارف بھی ان کی نگارشات سے مزین رہتا تھا، مجھے مفتخر اپنے کرم ناموں سے بھی مضتخر فرماتے تھے۔
گپتا رضا صاحب نے اپنے گوناگوں علمی و تحقیقی کارناموں کی بنا پر پوری اردو دنیا میں بڑی شہرت، عزت، نیک نامی اور مقبولیت حاصل کی اور وہ اردو کے صف اول کے دانشوروں اور محققوں میں شمار ہوتے تھے، اردو کا بڑا سے بڑا ادبی اعزاز انہیں تفویض کیا گیا، اکثر اکادمیوں نے انعامات سے نوازا، ۸۹ء میں غالب ایوارڈ ملا، دو برس پہلے مجلس فروغ اردو قطر کی جانب سے اس کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ دیا گیا، اس سال یوم جمہوریہ کے موقع پر حکومت ہند کی طرف سے ان کی ادبی خدمات پر پدم شری کے اعزاز دئے جانے کا اعلان ہوا تھا جسے لینے کے لیے دہلی گئے تھے کہ وقت موعود آگیا، معارف ان کے پس ماندگان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ (ضیاء الدین اصلاحی، مئی ۲۰۰۱ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |