Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > محمد امین مسعود صدیقی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

محمد امین مسعود صدیقی
ARI Id

1676046599977_54338424

Access

Open/Free Access

Pages

627

محمد امین مسعود صدیقی
(ریاض الرحمن شروانی)
حبیب منزل، میرس روڈ، علی گڑھ،
۲۰۰۱-۳-۲۷ء۔
مکرمی و محترمی! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ،
لکھنؤ سے کل ۲۵؍ مارچ کا ’’جدید مرکز‘‘ آیا تو اس میں محمد امین مسعود صدیقی صاحب کی اچانک وفات کی خبر پڑھ کر دلی صدمہ ہوا، اخبار میں اس خبر کی سرخی ’’مولانا آزادؒ کے عاشق تھے مسعود صدیقی‘‘ چھپی ہے اور اس سے بہتر سرخی کوئی اور نہیں ہوسکتی تھی۔ کیا عجیب عشق تھا کہ چاہتے تھے ہر فرد، ہر اخبار اور رسالہ اور ہر ادارہ اس عشق میں ان کا شریک ہوجائے۔ ہر ممکن طریقے سے مولانا آزادؒ کے پیغام کی اشاعت کے لئے سرگرداں رہتے تھے۔
ان میں اور بھی بہت سی خوبیاں تھیں، بہت دین دار، مخلص، متحرک اور بے نفس انسان تھے، میرا بہت لحاظ کرتے تھے۔ میں کسی معاملے میں ان سے اختلاف کرتا تھا تو خاموش ہوجاتے تھے، کبھی بحث نہیں کرتے تھے۔ مولانا آزادؒ پر کہیں کوئی چیز ان کی نظر سے گزرتی تھی تو اس کی فوٹو کاپی مجھے بھیج دیتے تھے۔ میں لکھنؤ جاتا تو انہیں مطلع کردیتا اور میرا جہاں کہیں قیام ہوتا وہ وہاں آکر مجھ سے ضرور ملتے تھے۔ مجھے ان کا آخری خط جو ۲۵؍ فروری کا لکھا ہوا تھا، ۲۸؍ کو ملا تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا: ’’معارف کا فروری ۲۰۰۱؁ء کا شمارہ آپ کو مل گیا ہوگا۔ اس میں اس ناچیز کا ایک مراسلہ شائع ہوا ہے۔ اس مراسلے پر حواشی میں جو باتیں تحریر فرمائی گئی ہیں۔ اس (کذا) سے نفس کی اصلاح کا موقع ملا ہے‘‘۔ ملاحظہ فرمایا آپ نے کس طرح اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا ہے۔ میں نے کچھ غلط تو نہیں لکھا کہ کیسے بے نفس انسان تھے۔ اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔ بہت جلدی چلے گئے۔
امید ہے آپ کا مزاج بفضلہ بعافیت ہوگا۔
نیاز مند: ریاض الرحمن شروانی
معارف: محمد امین مسعود صدیقی مرحوم سے راقم کے بھی مخلصانہ تعلقات تھے، میں بھی لکھنؤ جاتا تو وہ ملاقات کے لئے ضرور تشریف لاتے اور مجھے کہیں جانا ہوتا تو اپنے اسکوٹر سے پہنچادیتے۔
مولانا آزاد اور دوسرے مسائل کے تعلق سے اخباروں کے تراشے مجھے بھی بھیجتے تھے۔ مولانا آزاد پر میری حقیر کتاب انہی کے اصرار سے چھپی تھی اور ان کی تحریک سے اس کے مصارف گاندھی۔ آزاد فورم نے برداشت کئے تھے۔
مولانا آزادؒ کے وہ واقعتا عاشق و شیدائی تھے، ان کے خلاف کچھ سننا پسند نہیں کرتے تھے، مکتوب بالا میں ان کے جس مراسلے کا تذکرہ ہے، اسے بھیجنے کے بعد ٹیلی فون سے اس کی وصولی کے بارے میں دریافت کیا تھا، میں نے انہیں بتایا کہ انشاء اﷲ آپ کا مراسلہ فروری کے شمارے میں میرے نوٹ کے ساتھ کسی قدر قطع و برید کے بعد شائع ہوگا، مجھے ان کے ردعمل کا انتظار تھا کہ ۱۹؍ مارچ ۲۰۰۱؁ء کے راشٹریہ سہارا اردو میں ان کے انتقال کی خبر پڑھی اور تڑپ کر رہ گیا، اخبار میں ان کا نام صحیح نہیں لکھا تھا، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، اسی وقت ان کو یہ خط لکھا کہ ’’اپنی خیریت سے فوراً مطلع فرمائیں‘‘۔ آپ کے والانامہ سے یہ امید بھی ختم ہوگئی اور اب اپریل کے آخری ہفتے میں ان کی والدہ ماجدہ کا یہ پوسٹ کارڈ ملا کہ ’’میں والدۂ مسعود بہت دکھ کے ساتھ اطلاع دے رہی ہوں۔ ۱۷؍ مارچ کو اچانک مسعود کا انتقال ہوگیا‘‘۔
اﷲ تعالیٰ مرحوم کو اپنے آغوش رحمت میں جگہ دے اور ان کی بوڑھی ماں اور دوسرے عزیزوں کو صبر جمیل عطا کرے، آمین!! (مئی ۲۰۰۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...