Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > اورنگ زیب خاں قتیلؔ شفائی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

اورنگ زیب خاں قتیلؔ شفائی
ARI Id

1676046599977_54338426

Access

Open/Free Access

Pages

628

قتیلؔ شفائی کی رحلت
اورنگ زیب خاں قتیل شفائی کی وفات سے اردو کے شعری و ادبی حلقے میں بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، وہ ۲۴ـ؍ دسمبر ۱۹۱۹؁ء کو ہری پور ضلع ہزارہ پنجاب (پاکستان) میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہوئی، ۳۲ء سے شعر کہنے لگے، راولپنڈی وغیرہ کے مشاعروں میں شریک ہوتے، غزلیں پڑھتے تو سماں بندھ جاتا، کلام کی خوبی و دلکشی اور جادو بھری آواز سے عجیب کیفیت پیدا کردیتے تھے، اس لئے دوسری جگہوں کے مشاعروں میں بھی بلائے جاتے۔
کچھ عرصے وہ ہری پور میو نسلپٹی میں ملازم رہے، پہلی مرتبہ لاہور کے مشاعرے میں شرکت کے لئے آئے جہاں کے مشہور ادبی مجلے ’’ادب لطیف‘‘ میں ان کا کلام پہلے سے شائع ہوکر ادبی حلقوں سے خراج تحسین وصول کرنے لگا تھا، لاہور آنے پر جب ’’ادب لطیف‘‘ کے دفتر گئے تو چودھری نذیر احمد نے اس کی ادارت کی پیش کش کی، لاہور میں ان کاتعلق فلمی دنیا سے ہوا جس میں بڑی شہرت حاصل کی، تاہم اس سے ادبی حلقوں میں ان کی پذیرائی میں کمی نہیں ہوئی۔
شعر کے معائب ومحاسن میں قتیل شفائی کی گہری نظر تھی، پروفیسرجگن ناتھ آزاد کی روایت ہے کہ ممبئی کے ایک مشاعرے میں جوش ملیح آبادی صاحب نے اپنی نظم میں ایک مصرع پڑھا، ع کیا گلبدنی گلبدنی گلبدنی ہے تو قتیل نے مصرع کوغلط بتایا، آزاد صاحب نے وجہ پوچھی تو کہا تینوں جگہوں پر ’’گلبدنی‘‘ سے پہلے ’’کیا‘‘ آنا چاہیے اور جرات کا مصرعہ پڑھا،
؂ کیا بات ہے،کیا بات ہے ، کیا بات ہے واﷲ
ایک بار جگن ناتھ آزاد نے ان کو اپنی ایک غزل سنائی جس کا یہ شعر قتیل کو بہت پسند آیا ؂
تہذیبِ کہنہ میری شرافت پہ ناز کر
دھوکا دیا ہے دوست نے شرما رہا ہوں میں
کچھ مدت کے بعد آزاد صاحب کو جوش ملیح آبادی مرحوم کے کسی مجموعہ کلام میں یہ شعر نظر آیا:
کوئی حد ہے آخر احترام آدمیت کی
بدی کرتا ہے دشمن اور ہم شرمائے جاتے ہیں
ملاقات ہونے پر آزادصاحب نے جب قتیل سے کہا کہ جوش صاحب کے یہاں اسی مضمون کا شعر موجود ہے تو انہوں نے کہا نہیں تمھارا شعر مختلف ہے، جوش نے دشمن کی بات کی، تم نے دوست کا ذکر کیا، ان کے کہنے سے آزاد صاحب نے اپنی غزل سے یہ شعر خارج نہیں کیا۔
نظموں اور غزلوں کے علاوہ مثنوی اور گیت بھی کہتے تھے اور ان سب کے متعدد مجموعے شائع ہوئے، پہلا مجموعہ ’’مغرب زدہ ‘‘ ۱۹۴۲؁ء میں چھپا جو مثنوی ہے، کلیات تین جلدوں میں رنگ، خوشبو اور روشنی کے نام سے شائع ہوا، ان کے کلام کا انتخاب بھی شائع ہو چکا ہے۔
قتیل شفائی کی مقبولیت اس سے ظاہر ہے کہ ان کی زندگی ہی میں بعض ادبی رسالوں نے ان پر خاص نمبر شائع کئے اور مختلف ملکوں میں ان کا جشن منایا گیا اور حکومت پاکستان نے ’’تمغۂ حسن کارکردگی‘‘ دے کر ان کی قدردانی اور عزت افزائی کی۔
قتیل نے افسانے بھی لکھے جو ’’ساقی‘‘ وغیرہ میں شائع ہوئے، ’’ادب لطیف‘‘ کے علاوہ بعض دوسرے ادبی رسالوں کی ادارت بھی کی، لاہور ان کا وطن ثانی تھا اور یہی ان کا مدفن بھی بنا، ۱۱؍ جولائی کو طویل علالت کے بعدانتقال کیا۔ اﷲتعالیٰ انہیں اپنے دامنِ عفو میں جگہ دے، آمین!! (ضیاء الدین اصلاحی، اگست ۲۰۰۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...