Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناسید احمد ہاشمی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناسید احمد ہاشمی
ARI Id

1676046599977_54338429

Access

Open/Free Access

Pages

630

مولانا سید احمد ہاشمی
افسوس ہے کہ گزشتہ مہینے ممتاز عالم دین اور سر کردہ ملی و قومی رہنما مولانا سید احمد ہاشمی سابق ممبر پارلیمنٹ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ وہ عرصے سے موذی امراض میں مبتلا تھے۔ ۴؍ نومبر ۲۰۰۱؁ء کو ان پر دل کا شدید دورہ پڑا اور اسپتال جاتے ہوئے مالکِ حقیقی سے جاملے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
مولانا غازی پور کے ایک شریف خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، ان کے والد حافظ محمد شفیع صاحب نے دارلعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ میں اس زمانے میں تعلیم پائی تھی جب وہاں مولانا سید سلیمان ندوی بھی زیر تعلیم تھے اس لیے دونوں کے اچھے روابط تھے، مولانا ہاشمی بچپن ہی میں والدین کے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے ان کی پرورش ان کے بڑے بھائی حافظ سید محمد ہاشمی نے کی، نانہال دربھنگھ سے غازی پور لاکر یہاں کی مشہور دینی درس گاہ مدرسہ دینیہ میں ان کا داخلہ کرایا، عربی کی پانچویں جماعت تک تعلیم دلانے کے بعد انہیں کلکتہ لے گئے اور مدرسۂ عالیہ میں داخلہ کرایا جہاں سے ’’ممتاز المحدثین‘‘ کی ڈگری لی پھر دارلعلوم دیوبند میں مولانا سید حسین احمد مدنی سے دورہ حدیث کی تکمیل کی۔ دارلعلوم سے فراغت کے بعد چند دن دہلی میں رہے اور پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات دئیے، اسی زمانے میں مولانا محمد حفظ الرحمان سیوہاروی ناظم جمعیۃ علمائے ہند کی صحبت اور قربت نصیب ہوئی۔
دہلی میں مختصر قیام کے بعد وہ کلکتہ واپس آگئے، ان کے بڑے بھائی چاہتے تھے کہ اب وہ کوئی کاروبار کریں لیکن اس وقت تو وہ بورڈ کے مدرسہ ’’ندائے اسلام‘‘ میں مدرس مقرر ہوئے مگر شروع سے دین و ملت اور قوم و وطن کی خدمت کی جانب ان کی طبیعت کا رجحان تھا اس لیے اسی مشغلے میں ان کی زندگی گزری۔
کچھ عرصہ صحافت کے پیشے سے وابستہ رہے اور اپنا ایک ہفتہ وار اخبار ’’ارمغان‘‘ کے نام سے نکالا جو چل نہ سکا، دوسرے اخباروں سے بھی وابستہ رہے۔ ایک دفعہ پرجا سوشلسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے گو مولانا کا حلقہ اثر وسیع تھا اور وہ بڑے مقبول بھی تھے مگر سیاست کی پر خاروادی میں بھی انہوں نے درویشی اور عالمانہ وقار کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اس لیے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، ایک بار وہ غازی پور سے لوک سبھا کی سیٹ کے لیے کانگریس کے امیدوار ہوئے اور بہت کم ووٹوں سے ہارے مگر اس سے ان کا حوصلہ کم نہ ہوا اور بہ دستور ملی و سیاسی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔
مولانا شروع سے جمعیۃ علمائے ہند کی تنظیم سے وابستہ تھے اپنے اساتذہ اور مدرسہ دینیہ کے بانیوں مولانا عمر فاروق اور مولانا ابوالحسن صدیقی کی طرح تحریک آزادی اور جمعیۃ علما کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے وہ مغربی بنگال کی جمعیۃ کی شاخ کے جنرل سکریٹری ہوئے۔ مولانا میں بڑی تنظیمی صلاحیت تھی جس کا اعتراف ان کے مخالفین کو بھی تھا، انہوں نے جمعیۃ کے سکریٹری اور راجیہ سبھا کے ممبر ہونے کی حیثیت سے بڑی جرأت، ہوش مندی اور تدبر سے مسلمانوں کی قیادت کی اور فسادات اور مسلم مسائل پر کھل کر اظہار خیال کیا، مولانا ملی اور اجتماعی مفاد کے سامنے اپنے ذاتی اور گروہی مفاد کی بالکل پروا نہ کرتے، ان میں بڑی دوراندیشی اور اچھی سوجھ بوجھ تھی، ان کی رائے معقولِ اور نپی تلی ہوتی تھی۔ ۱۹۶۴؁ء میں کلکتہ میں بڑا ہولناک فرقہ وارانہ فساد ہوا، اس میں ریاستی جمعیۃ کے تحت ریلیف اور بچاؤ کا کام نہایت خوبی اور بڑی مستعدی سے انجام دیا جس کے نتیجے میں انہیں مرکزی جمعیۃ علمائے ہند کی طلب پر دہلی جانا پڑا اور جلد ہی آل انڈیا جمعیۃ کے جنرل سکریٹری بنادئے گئے، ۱۹۸۸؁ء میں انہوں نے ملی جمعیۃ علما قائم کی جس کے وہی جنرل سکریٹری ہوئے، مسلم پرسنل لابورڈ کے اساسی رکن تھے، مسلم مجلس مشاورت اور تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند سے بھی ان کا گہرا تعلق تھا، ہر ایک کے جلسوں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ دہلی وقف بورڈ کے ممبر اور چیرمین بھی ہوئے۔ ۱۹۷۴؁ء سے ۱۹۸۶؁ء تک دوبارہ راجیہ سبھا کے ممبر بنے اور متعدد پارلیمانی وفود کے ساتھ غیر ملکی دورے کئے جن میں روس، چیکو سلواکیہ، یوگوسلاویہ، سعودی عرب، کویت وغیرہ شامل ہیں۔
دہلی جانے کے بعد بھی کلکتہ سے ان کا تعلق منقطع نہیں ہوا، یہاں برابر تشریف لاتے اور اپنے ایک ایک شناساسے ملتے، یہاں کے متعدد تعلیمی اداروں اور انجمنوں سے بھی ان کا تعلق آخر تک رہا، وہ بڑے اچھے مقرر تھے، انتخابی جلسوں میں ان کا یہ جوہر خوب کھلتا، وہ انتخابی مہم میں زور و شور سے حصہ لیتے تھے۔
الیکشن کے زمانے میں اکثر اعظم گڑھ بھی تشریف لاتے، یہاں کے پارلیمنٹ کے مشہور ممبر چندرجیت یادو سے سیاسی ہم آہنگی کی وجہ سے بڑی گہری دوستی تھی۔ ان کی انتخابی مہم میں حصہ لینا ان کا معمول ہوگیا تھا، کانگریس سے علیحدہ ہونے کے بعد دونوں نے اپنی ایک الگ نئی پارٹی بنائی تھی۔ رمضان المبارک میں چندرجیت جی کے گھر پر اکثر افطار پارٹی ہوتی تھی اس میں کبھی کبھی مولانا ہاشمی بھی آجاتے تھے وہ ہوتے تو ہم لوگ ان ہی کی اقتدا میں مغرب کی نماز ادا کرتے۔ اس طرح راقم سے بھی ان کے اچھے تعلقات ہوگئے تھے لیکن اس میں اضافہ اور زیادہ بے تکلفی اس وقت ہوئی جب میں دسمبر ۸۷؁ء میں دہلی گیا اور حکیم عبدالحمید صاحب مرحوم نے اپنے لال کنواں کے مکان پر کھانے کے لئے بلایا تو وہاں اور حضرات کے ساتھ مولانا بھی اپنے ایک صاحب زادے کے ساتھ تشریف لائے تھے جن سے ملاتے ہوئے فرمایا کہ تم دہلی آکر چلے جاتے ہو اور کبھی ملاقات نہیں ہوتی، عرض کیا میں بہت کم آتا ہوں پھر میرے جیسے راستہ بھولنے والے شخص کے لیے تنہا دہلی کی گلیوں میں آپ کو ڈھونڈ لینا بہت مشکل ہے انھوں نے فرمایا کہ اپنی قیام گاہ کا پتا بتا دو میں خود آکر مل لوں گا، میں شرم سے پانی پانی ہوگیا۔ چنانچہ اسی سفر میں یا اس کے بعد اپنے ایک عزیز کو لے کر ان سے ملنے گلی قاسم جان میں ان کے گھر پہنچا تو بہت مسرور ہوئے لیکن کہنے لگے کہ آپ کو بڑی زحمت ہوئی ہوگی میں نے عرض کیا آپ سے مل کر جو خوشی ہورہی ہے اس کے سامنے وہ زحمت ہیچ تھی۔ میں انشاء اﷲ اب جب دہلی آؤں گا تو آپ سے ملنے کی کوشش کروں گا۔ ایک حد تک میں نے اس وعدہ کو نباہا بھی۔ اس سال ۱۱؍ نومبر کو مولانا آزاد ڈے میں شرکت کے لیے دہلی جانے کا پروگرام بہت پہلے سے بن گیا تھا اور خیال تھا کہ ۱۲؍ نومبر کو رک کر مولانا اور اپنے بعض دوسرے کرم فرماؤں سے ملاقات کروں گا مگر،
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
سابق ریلوے وزیر الحاج سی۔کے۔جعفر شریف صاحب سے مولانا کے بڑے خوش گوار اور مخلصانہ روابط تھے، وہ جب ریلوے کے وزیر ہوئے تھے تو مولانا کو مسافروں کی سہولتوں سے متعلق کمیٹی (PAC) کا ممبر اور پھر چیرمین بنایا، اتفاق سے اسی زمانے میں میرا دہلی جانا ہوا تو مولوی مسعود خاں ممبر راجیہ سبھا کے یہاں قیام کیا، وہاں سے مولانا کو فون کیا تو انہوں نے فرمایا کل کہیں اور کا پروگرام نہ بناتا، میں ۱۰۔۱۱ بجے کے درمیان مسعود صاحب کے یہاں آکر تمہیں لے لوں گا اور اپنے آفس ریل بھون لے جاؤں گا، ایک مرتبہ وہ جعفر شریف صاحب سے ملانے کے لیے مجھے ان کے بنگلے پر بھی لے گئے۔
جعفر شریف صاحب اعظم گڑھ میں بڑی لائن کے افتتاح کی تقریب میں یہاں آئے تو جمعہ کا دن تھا انہوں نے اطلاع کی کہ وہ شبلی منزل میں قیام کریں گے اور جمعہ کی نماز اس کی مسجد میں پڑھیں گے، مولانا بھی ان کے ہم راہ تشریف لائے تھے اور انکار کے باوجود ہم لوگوں کے اصرار پر نماز جمعہ پڑھائی، ایک مرتبہ چندرجیت یادو کی انتخابی مہم کے دوران بھی وہ جمعہ کے روز مجھ سے ملنے شبلی منزل آئے، اور الیکشن اور دوسرے موضوعات پر گفتگو فرماتے رہے اور جمعہ کی اذان کو جب چند منٹ رہ گئے تو جانے لگے میں کہا ابھی آپ کو دو کام کرنے ہیں (۱)جمعہ پڑھانا اور (۲)ماحضر تناول فرمانا، فرمانے لگے مسافر پر جمعہ نہیں اور آپ کے ناشتے سے دوسرا کام بھی ہوگیا۔
مولانا بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے، ان کی ساری زندگی قومی و سیاسی جھمیلوں میں گزری لیکن اپنی قلندرانہ شان ہمیشہ باقی رکھی اور سیاست کی کثافت اور سیاسی زندگی کی آلایش سے ان کا دامن آلودہ نہیں ہوا، ان کا شمار ملک کے مشہور قائدین میں ہوتا تھا مگر وہ اپنی عظمت اور بڑائی کو محسوس نہیں ہونے دیتے تھے، نہایت خلیق و متواضع، وضعدار اور شریف انسان تھے، بڑے تپاک اور خندہ پیشانی سے ملتے تھے اور بلااختلافِ مذہب و ملت ہر ایک کا کام کرتے تھے۔ اگر کوئی مصیبت زدہ شخض کوئی کام لے کر ان کے پاس آجاتا تو وہ جس حال میں بھی ہوتے اس کا کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے اور اپنی بیماری اور تکلیف کی پروانہ کرتے مظلوموں کی دادرسی اپنا فرض سمجھتے اور اس کے لیے فساد زدہ جگہ اور کرفیو زدہ علاقے میں بے خوف و خطر پہنچ جاتے۔ مسلمانوں کو درپیش موجودہ مشکلات و مسائل سے بے چین اور بے قرار رہتے اور ان کے حل کے لیے برابر فکر مند رہتے، غیظ و غضب کے موقع پر بھی وہ مشتعل نہیں ہوتے، اپنے مخالفین کے خلاف ناروا الفاظ ان کے منھ سے نہ نکلتے، جن لوگوں سے ان کا اختلاف ہوتا ان کے بھی درپے آزار نہ ہوتے۔ ان کی وفات قوم و ملت کا بڑا حادثہ ہے اﷲ تعالیٰ اس کی تلافی فرمائے اور مولانا کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور ان کے اعزہ کو صبر و سکون عطا کرے۔
(ضیاء الدین اصلاحی، جنوری ۲۰۰۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...