1676046599977_54338431
Open/Free Access
632
الحاج عبدالقیوم
۱۵؍ نومبر ۲۰۰۱ء کو الحاج عبدالقیوم صاحب کا انتقال ہوگیا، وہ کلکتہ کے ایک مشہور ہوٹل کے مالک تھے، اﷲ تعالیٰ نے انہیں دولت کے ساتھ، قوم و ملت کا درد، دین داری اور ہر طبقے میں مقبولیت عطا کی تھی، کلکتہ ہی نہیں ملک کے بھی علمی و تعلیمی اداروں کو ان سے بڑا فیض پہنچتا تھا۔
یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ کے عرصے تک صدر رہے، اس زمانے میں یتیموں کی پرورش اور کفالت میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا، اسلامیہ ہسپتال کے بھی برسوں صدر رہے کلکتہ کے مسلمانوں کے سب سے قدیم ادارہ انجمن مفید السلام کے اصل کرتا دھرتا جناب سید محمد صلاح الدین صاحب تھے جو جناب سید صباح الدین عبدالرحمان صاحب کے حقیقی چچا تھے، ان کے کلکتہ چھوڑنے کے بعد انجمن کے حالات درہم برہم ہوئے تو الحاج عبدالقیوم صاحب نے اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے رفیق الحاج غلام رسول صاحب کی معاونت سے اس کے حالات درست کئے، وہ ۱۹۹۲ء تک انجمن کے صدر رہے، اور اپنے بعد کلکتہ کے ایک مقبول اور ہر دل عزیز شخص جسٹس خواجہ محمد یوسف کو انجمن کا صدر بنوایا۔
ہندوستان کے جن علمی و تعلیمی اداروں سے ان کا زیادہ تعلق تھا ان میں دارالمصنفین، ندوۃ المصنفین اور دارالعلوم ندوۃ العلما خاص طور سے قابل ذکر ہیں، مولانا مفتی عتیق الرحمان صاحب کے وہ بڑے قدرداں تھے اور ندوۃالمصنفین کی اعانت اور سرپرستی فرماتے تھے، دارلعلوم ندوۃ العلما کی بھی امداد فرماتے، دارالمصنفین کے سابق ناظم جناب سید صباح الدین عبدالرحمان مرحوم بھی الحاج عبدالقیوم صاحب کے بڑے مداح تھے اور کلکتہ تشریف لے جاتے تو جن لوگوں سے التزاماً ملاقات کرتے ان میں یہ اور حاجی غلام رسول مرحوم بھی تھے۔
عبدالقیوم صاحب اہل علم کے بڑے قدرداں تھے علما اور دانش وروں کی بڑی خاطر مدارات اور مہان نوازی کرتے، پروفیسر خلیق احمد نظامی مرحوم کلکتہ تشریف لے جاتے تو الحاج عبدالقیوم صاحب ان کی ضیافت کا خاص اہتمام کرتے، خواجہ یوسف صاحب سے ان کے بہت مخلصانہ تعلقات تھے وہ کلکتہ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے تو ان کے اعزاز میں بڑا پرتکلف عشائیہ دیا۔ کلکتہ کی ایران سوسائٹی کے وہ لائف ممبر تھے اور اس کے ہر ہر پروگرام میں بڑی دلچسپی سے حصہ لیتے تھے، ان کو اچھا علمی ذوق اور شعر و سخن سے مناسبت تھی۔ انگریزی سے بھی اچھی واقفیت تھی، اخبار اور رسالے ان کے مطالعے میں رہتے، علمی ذوق ہی کی بنا پر ان کے پاس کتابوں کا بھی اچھا ذخیرہ ہوگیا تھا۔
۱۹۶۵ء میں ہندوستان و پاکستان میں جنگ چھڑی تو حکومت نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اس وقت بنگال میں پی۔سی۔سین کی حکومت تھی اس نے کلکتہ کے خاص طور پر سربرآوردہ مسلمانوں پر بڑا قہر ڈھایا۔ الحاج عبدالقیوم صاحب بھی اس موقع پر گرفتار کرلیے گئے تھے، ان کی وفات سے کلکتہ ایک مقبول، مخیر، دین دار اور علم و ادب نواز شخص سے محروم ہوگیا۔ اﷲ تعالیٰ عالم آخرت میں ان کے درجات بلند کرے اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین۔
(ضیاء الدین اصلاحی، جنوری ۲۰۰۲ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |