Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈ اکٹر خورشید احمد فارق

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈ اکٹر خورشید احمد فارق
ARI Id

1676046599977_54338433

Access

Open/Free Access

Pages

633

ڈاکٹر خورشید احمد فارق
(مختارالدین احمد)
دو شنبہ، ۱۸؍ شعبان المعظم ۱۴۲۲؁ھ مطابق ۵؍ نومبر ۲۰۰۱؁ء کی صبح کو عربی زبان و ادب کے استاد، تاریخ اسلام کے ماہر اور ممتاز مصنف ڈاکٹر خورشید احمد فارق کوئی ۸۵ سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد دہلی میں وفات پاگئے۔
وہ ۱۹۱۶؁ء میں بریلی میں پیدا ہوئے۔ فارسی و عربی کی متد اول کتابیں انھوں نے گھر پر اپنے والد ماجد سے پڑھیں۔ کالج کی تعلیم انھوں نے بریلی میں حاصل کی۔ ایم۔اے اور پی۔ایچ۔ڈی انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے کیا۔ ریسرچ کے دوران وہ شعبہ عربی میں کچھ کلاسیں بھی لیتے رہے۔ ۱۹۴۳؁ء کے اواخر میں وہ اینگلو عربک کالج دہلی میں لکچرر، ۱۹۵۳؁ء کے اواخر میں دہلی یونیورسٹی میں ریڈر مقرر ہوئے۔ اکتوبر ۱۹۵۶؁ء میں حکومت ہند کے ایک وظیفے پر ایک سال کے لیے وہ مصر گئے۔ وہاں دارلکتب المصریہ کے مخطوطات کے مطالعے کا انہیں اچھا موقع ملا۔ ریاض الرحمن خاں صاحب شروانی اور عبدالحلیم ندوی صاحب کو بھی اسی سال یہ وظیفہ ملا تھا۔ قاہرہ میں ان تینوں کا خوب ساتھ رہا۔ فروری ۱۹۶۹؁ء میں وہ دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر اور صدر شعبہ مقرر ہوئے۔ جولائی ۱۹۸۵؁ء میں وہ متقاعد ہو کر علی گڑھ آگئے اور سر سید نگر میں اپنے تعمیر کردہ مکان ’’بانس کلی‘‘ میں مقیم ہوکر علمی و ادبی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ آخر عمر میں وہ اپنے بچوں کے پاس دہلی چلے گئے تھے، وہیں ان کی وفات ہوئی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔
ڈاکٹر فارق نے اردو، انگریزی اور عربی میں عربی اور تاریخ اسلام کے موضوعات پر متعدد کتابیں لکھیں اور کثرت سے مضامین سپرد قلم کیے جو زیادہ تر رسالہ ’’برہان‘‘ دہلی میں شائع ہوئے۔ ان کی تصانیف حسب ذیل ہیں:
قاضی شریح اور دیگر مضامین (دہلی ۱۹۵۵؁ء)، حضرت ابوبکرؓ کے سرکاری خطوط (دہلی ۱۹۶۰؁ء)، حضرت عمرؓ کے سرکاری خطوط (دہلی ۱۹۵۹؁ء)، تاریخ ہند پر نئی روشنی (دہلی ۱۹۶۰؁ء)، تاریخ رِدّہ، اسلامی دنیا دسویں صدی عیسوی میں (دہلی ۱۹۶۲؁ء)، قرنِ اول کا ایک مدبر (دہلی ۱۹۶۱؁ء)، عربی لڑیچر میں قدیم ہندوستان، خلافت راشدہ کا اقتصادی جائزہ (دہلی ۱۹۷۷؁)، تاریخ اسلام (خلافت راشدہ، بنی امیہ) مطبوعہ جمال پرنٹنگ پریس دہلی، جائزے (تاریخی، تمدنی، جغرافیائی، قانونی، ادبی، نحوی) حصہ اول (علی گڑھ ۱۹۸۷؁ء)، جائزے (تاریخی، تمدنی، اقتصادی، جغرافیائی، ادبی) حصہ دوم (علی گڑھ ۱۹۸۴؁ء)، بعد کو اس کتاب کے مزید حصے شائع ہوئے۔ یہ سب کتابیں اردو میں ہیں۔
عربی میں ان کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں: تاریخ الردہ مقتبس از کتاب الاکتفا، مصنفہ الکلاعی البلنسی (دہلی ۱۹۷۰؁ء) الرسائل الرسمیّتہ لعمر بن الخطاب، اور کتاب المنمق لابن حبیب البغدادی (دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد ۱۹۶۴؁ء)۔
زیاد بن ابیہ (بمبئی ۱۹۶۶؁ء)، تاریخ ادب عربی (دہلی ۱۹۷۹؁ء)، ایک عرب سیاسی شاطر کی کہانی (دہلی ۱۹۶۷؁ء) انگریزی میں شائع ہوئی ہیں۔
خورشید احمد فارق صاحب کو میں نے پہلی بار اکتوبر ۱۹۴۳؁ء میں علی گڑھ میں دیکھا۔ ’’سیدنا‘‘ ملا طاہر سیف الدین (۱۸۸۴۔۱۹۶۵ء) کے بنوائے ہوئے کمروں میں سے ایک کمرے میں جو سرسید ویسٹ سے ملحق ہے اور جس میں اس زمانے میں شعبہ عربی تھا، انھیں اکثر کلاسیں لیتے ہوئے دیکھتا تھا۔ وہ اور ڈاکٹر سید محمد یوسف دونوں جو علامہ عبدالعزیز میمن (۱۸۸۸۔۱۹۷۸ء) کے شاگرد تھے، بی۔اے کی کلاسیں لیتے تھے اس لیے مجھے ان کی کلاسوں میں جانے کا موقع نہیں ملا۔ میری کلاسیں مولانا بدرالدین علوی (۱۸۹۳۔۱۹۷۵ء) لیتے تھے۔ خوب یاد ہے وہ ابن درید (متونی ۳۲۱ھ) کی کتاب المجتنیٰ پڑھاتے تھے۔
مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی کے عزیز ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری میرے ہوسٹل کے وارڈن تھے۔ ان سے ملنے ڈاکٹر محمد یوسف برابر آتے تھے میری ان سے اکثر ملاقات ہوجاتی تھی لیکن فارق صاحب سے برسوں ملنا نہ ہوسکا۔ وہ بہت کم آمیز تھے۔ گفتگو میں خود پہل نہیں کرتے تھے، کسی نے کچھ پوچھا تو آنکھیں بند کر کے دو ایک جملے میں جواب دے دیا اور پھر خاموش ہوگئے۔ ایک آدھ بار شعبے میں ان کے پاس حاضر ہوا، کلاس مین فارغ تنہا بیٹھے تھے۔ میں نے انھیں بتایا کہ علی گڑھ آنے سے پہلے پٹنہ میں مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ زیادبن ابیہ پر کام کررہے ہیں۔ خاموش رہے۔ نہ یہ پوچھا کس نے کہا اور نہ کسی قسم کی خوشی یا دلچسپی کا انھوں نے اظہار کیا۔ میں ایک آدھ بات کر کے اُٹھ آیا۔ ان سے ملاقاتیں کئی سال کے بعد ۱۹۴۸؁ء میں شروع ہوئیں جب میں ایم۔اے کا طالب علم تھا۔ سرسیدؒ کے ایک قرابت مند ڈاکٹر سید عابد احمد علی جنھوں نے آکسفرڈ سے پروفیسر مارگولیتھ کی نگرانی میں مشہور نحوی عالم ابن السکیّت (۱۸۶۔۲۴۴؁ھ) کی ’’اصلاح المنطق‘‘ اڈٹ کر کے ڈاکٹریٹ حاصل کی تھی، ایم۔اے کی کلاس لیتے تھے۔ ان کے ذمہ تنقید اور تاریخ اسلام کا پرچہ تھا۔ سید صاحب تعطیلاتِ گرما میں لاہور گئے تو تقسیم ہند کے شاخسانے میں مہینوں وہیں رک گئے۔ یہاں تعلیم کا نقصان ہونے لگا تو میمن صاحب نے خورشید احمد فارق صاحب کو علی گڑھ آنے پر آمادہ کرلیا۔ وہ وہاں دہلی یونیورسٹی میں نہیں اینگلو عربک کالج میں ملازم تھے۔ وہ اپنی مادر درسگاہ کی خدمت پر آمادہ ہوگئے اور ہم لوگوں مسعود صدیقی (بھوپال)، حافظ خورشید حسین (سنبھل) اور راقم الحروف کو تنقید کا پرچہ پڑھانے لگے۔ جو ڈاکٹر عابد علی پڑھایا کرتے تھے، عابد علی صاحب کے ذمے تاریخ اسلام کا پرچہ بھی تھا۔ مورخ اسلامی (محمد بن عفیفی الباجوری الفخری) کی تاریخ الامم الاسلامیۃ کورس میں تھی، میمن صاحب نے فیصلہ سنایا کہ اسے کسی استاد سے سبقاً سبقاً پڑھنے کی ضرورت نہیں اسے آپ لوگ خود تیار کریں، اسے ہم لوگوں نے خود پڑھا اور شاید سب سے زیادہ نمبر اسی میں حاصل کیے۔ تنقید کے پرچے میں فارق صاحب پھر ’’نقدالنثر‘‘ پڑھانے لگے جو اس وقت تک قدامتہ بن جعفر الکاتب البغدادی (م۳۳۷؁ھ) کی تصنیف سمجھی جاتی تھی (نقد الشعر قدامۃ کی تصنیف تھی تو یہ فرض کرلیا گیا کہ ’’نقد النثر‘‘ بھی اسی کی لکھی ہوئی ہوگی) بعد کو ڈاکٹر طہ حسین نے اس خیال کی تردید کی اور ثابت کیا کہ اس کا اصل مصنف قدامہ بن جعفر نہیں ۱؂ فارق صاحب اسے تنقید کی کتاب کے طور پر نہیں عہد عباسی کی قدیم عربی نثر کی تصنیف کی حیثیت سے بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے تھے۔ اس زمانے میں عربی بھی انگریزی میں پڑھائی جاتی تھی اور طالب علموں کو جواب بھی انگریزی میں دینا ہوتا تھا اس لیے شاگرد اور استاد دونوں کو خاصی محنت کرنی ہوتی تھی۔ میں نے فارق صاحب کو بااصول، ایماندار اور محنتی پایا۔ جب انھوں نے دیکھا کہ مقرر وقت میں کتاب ختم نہیں ہوسکتی تو انھوں نے سہ پہر کو بھی اپنی قیام گاہ پر بلا کر پڑھانا شروع کیا۔ وہ اس زمانے میں محمودہ بیگم (اہلیہ جسٹس سید محمود مرحوم) کے ایک کواٹر میں رہتے تھے۔ ان کی بیگم صاحبہ روزانہ شام کی چائے ہمارے لیے باہر بھجوا دیتی تھیں۔ یاد نہیں آتا کہ ڈاکٹر صاحب ہماری چائے میں شریک ہوتے تھے یا نہیں۔ غالباً اسے مضرِ صحت سمجھ کر شریک نہیں ہوتے تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے چائے مُدِر ہے اور جو چیز مُدِر ہے وہ مضر ہے۔ اب وہ ظروف یاد نہیں کہ سیشن کے اختتام کے بعد وہ کیوں دہلی واپس چلے گئے۔
استاد فقید علامہ عبدالعزیز میمن ایڈورڈ کالج پشاور، اورینٹل کالج لاہور میں برسوں استاد رہے پھر ۱۹۲۵؁ء میں صاحبزادہ آفتاب احمد خاں (۱۸۶۷۔۱۹۳۰ء) کے عہد میں وہ علی گڑھ آئے کوئی پچیس سال وہ یہاں درس دیتے رہے۔ پھر برسوں وہ کراچی اور پنجاب کی جامعات کے عربی کے شعبے میں بحیثیت پروفیسر کے کام کرتے رہے، لیکن اس پورے عرصے میں ان کی نگرانی میں پی۔ایچ۔ڈی کرنے والے ان کے صرف تین شاگرد ہیں جنھوں نے اپنا کام مکمل کر کے ڈاکٹریٹ حاصل کی اور یہی تینوں علی گڑھ کے ہیں۔
سرفہرست ڈاکٹر سید محمد یوسف (۱۹۱۶۔۱۹۷۸ء) ہیں میمن صاحب کے بہترین شاگرد جو اپنے استاد سے بے حد محبت کرتے تھے اور استاد بھی ان پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ یوسف صاحب نے تاریخ اسلام کے ممتاز جنرل مہلّب بن ابی صفرۃ الأزدی پر انگریزی میں مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ حاصل کی، ان کے ممتحن ڈاکٹر عظیم الدین احمد (۱۸۸۰۔۱۹۴۹ء) صدر شعبہ عربی و فارسی و اردو پٹنہ یونیورسٹی تھے۔ جنھوں نے اس مقالے کی بہت تعریف کی تھی۔ افسوس ہے ایسا قابل قدر مقالہ آج تک شائع نہ ہوسکا۔ صرف اسکے چند ابواب ’’اسلامک کلچر‘‘ حیدرآباد میں شائع ہوئے تھے۔ مقالہ نہ علی گڑھ میں محفوظ ہے نہ ان کی بیگم صاحبہ کے پاس کراچی میں۔ یوسف صاحب علی گڑھ، قاہرہ اور سیلون کی جامعات میں برسوں درس دیتے رہے۔ پھر کراچی یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے جہاں وہ پروفیسر صدر شعبہ کی حیثیت سے متقاعد ہوئے۔ وہ متعدد عربی و اردو کتابوں کے مصنف ہیں۔ میرے خیال میں ان کا سب سے اہم علمی کام خالدی برادران ابوعثمان سعید الخالدی (متونی ۳۵۰ تقریباً) ابوبکر محمد الخالدی (م۳۸۰ھ) الأشباہ و النظائر (حماستہ الخالد ییّن) اور ابو محمدالحسن بن عبداﷲ بن سعید العسکری (۲۹۳۔۳۸۲ھ) کی کتاب التصحیف والتحریف کی تصحیح و تہذیب ہے۔ یہ کتابیں علی الترتیب قاہرہ اور دمشق سے شائع ہوئی ہیں۔
ان کے دوسرے شاگرد ڈاکٹر خورشید احمد فارق (۱۹۱۶۔۲۰۰۱ء) ہیں جو آج موضوع سخن ہیں۔ انھوں نے تاریخ اسلام کے ایک بطل جلیل عراق کے گورنر زیاد بن أبیہ (م۵۳ھ) پر علمی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ حاصل کی۔ یہ مقالہ The Story of an Arab Diplomat کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ فارق صاحب جیسا کہ لکھا جاچکا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے پرفیسر اور صدر تھے۔ ان کی تصانیف کی فہرست اوپر درج ہوئی۔
میمن صاحب کی نگرانی میں پی۔ایچ۔ڈی کرنے والا تیسرا شاگرد راقم الحروف ہے جس نے تاریخ اسلام کے بجائے عربی ادب کے کسی موضوع پر ریسرچ کرنے پر اصرار کیا جس پر استاذ مرحوم نے صدر الدین علی بن ابی الحسن بن ابی الفرج البصری (م۶۵۶ھ) کی ’’الحماستہ البصریتہ‘‘ کی تصحیح و تحشیے کا کام اس کے سپرد کیا۔ اسے ۱۹۵۲ء میں ڈاکٹریٹ تفویض ہوئی۔ مقالے کے ممتحن مشہور جرمن مستشرق پرفیسر فیتس کرینکو (۱۸۷۶۔۱۹۵۲ء) مقیم کیمبریج تھے۔ اسے دو جلدوں میں دائرۃالمعارف العثمانیہ حیدرآباد نے ۱۹۶۵ء میں شائع کیا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن بیروت سے ۱۹۷۵ء کے لگ بھگ نکلا ہے۔ راقم جنوری ۱۹۵۳ء میں شعبہ عربی میں لکچرر، ۱۹۵۸؁ء میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں ریڈر اور ۱۹۶۸؁ء میں پروفیسر عبدالعلیم (۱۹۰۵ء۔ ۱۹۷۶ء) کے وائس چانسلر ہونے پر ادارے کا ڈائرکٹر مقرر ہوا۔ اسی سال شعبہ عربی میں پروفیسرشپ اور شعبے کی صدارت تفویض ہوئی۔ ۱۹۸۴ء میں سبکدوش ہوا۔ یونیورسٹی نے مزید چار سال کے لیے ملازمت میں توسیع دی جو اب تک صرف پروفیسر محمد حبیب اور ڈاکٹر ہادی حسن کو ملی تھی۔
ڈاکٹر خورشید فارق نے طویل عمر پائی۔ ان کی پوری زندگی درس و تدریس اور تالیف و تصنیف میں گزری۔ انھوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ ان کی صاحبزادی عربی میں ایم۔اے ہیں۔ دہلی میں حکومت کے ایک ادارے میں عربی پڑھاتی ہیں۔ ان کے دو صاحبزادے ڈاکٹر رفیع العماد فینان اور احمد فرحان ہیں۔ ڈاکٹر رفیع العماد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے شعبہ عربی میں پروفیسر ہیں اور صاحب تصانیف ہیں۔ خدا ان سبھوں کو خوش و خرم رکھے اور مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جوار رحمت میں جگہ دے، آمین۔ ( جنوری ۲۰۰۲ء)

۱؂ نقد الشعر قدامہ بن جعفر بغدادی کی مشہور کتاب ہے اور نقدالنثر عربی کی Prose کی Criticism کی کتاب ہے جو کورس میں رہی ہے، یہ بھی ایک زمانے تک قدامہ کی تصنیف سمجھی جاتی رہی، ڈاکٹر طہٰ حسین نے ۱۹۳۳؁ء کے لگ بھگ اور الاستاذ المغنی نے کچھ پہلے قدامہ کی طرف اس کتاب کی نسبت مشکوک ٹہرائی، ایک عرصے کے بعد ڈاکٹر علی حسن عبدالقادر نے یہ کتاب چسربینٹی کے کتب خانے (ڈبلن۔ آئرلینڈ) میں دریافت کی جس سے معلوم ہوا کہ اس کتاب کا اصل نام البرھان فی وجوہ البیان ہے اور اس کے مصنف ابوالحسین اسحاق بن ابراہیم بن وھب الکاتب ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...