Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر آل احمد سرور ؔ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر آل احمد سرور ؔ
ARI Id

1676046599977_54338435

Access

Open/Free Access

Pages

635

پروفیسر آل احمد سُرور
۹؍ فروری ۲۰۰۲؁ء کو اردو کے بزرگ استاذ، اردو تحریک کے معمر قائد، اردو کے سب سے بڑے ادیب و نقاد، اچھے شاعر، نامور اہل قلم، غالب و اقبال کے پایہ شناس اور علی گڑھ اور سر سید احمد خاں کے عاشق و شیدائی پروفیسر آل احمد سرور رحلت فرماگئے، اناﷲ و انا الیہ راجعون اور پوری اردو دنیا کو مغموم، سوگوار اور اداس چھوڑ گئے ع مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے۔
اردو کی اس کسمپرسی کے دور میں اس کے ایک نہایت ممتاز عالم اور دانشور کا اُٹھ جانا حادثہ جاں کاہ اور اردو کا بڑا زیاں اور خسارہ ہے۔
موت و حیات کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا لیکن برسوں کی گردش فلک کے بعد سرور صاحب جیسا مایۂ ناز انسان پردہ خاک سے نکلتا ہے، ان ہی کا شعر ہے ؂
ستارے کتنے یہاں ڈوبتے ابھرتے ہیں
کبھی کبھی ہی نکلتا ہے آفتاب کوئی
ان کا خلا کیسے پُر ہوگا اور اردو زبان، ادب اور تنقید کے نقصان کی تلافی کیسے ہوگی،
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
پروفیسر آل احمد سرور ۱۹۱۱؁ء میں بدایوں میں پیدا ہوئے، ابتدائی اور ثانوی تعلیم پیلی بھیت اور غازی پور میں حاصل کی، آگرہ سے بی۔ایس۔سی کیا، ۱۹۳۲؁ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ۱۹۳۴؁ء میں انگریزی میں ایم۔اے کر کے اسی کے استاد ہوگئے۔ اردو ان کی محبوب مادری زبان تھی، ۱۹۳۶؁ء میں اس میں ایم۔اے کر کے انگریزی سے اردو شعبہ میں منتقل ہوگئے اور اسی زبان سے پیمانِ وفا باندھ لیا، چاہتے تو کوئی اعلا سرکاری عہدہ مل جاتا لیکن انہیں اپنی زبان اور اپنی تہذیب زیادہ عزیز تھی اس لیے سائنس اور انگریزی جیسے سکہ رائج الوقت کو بھنانے کے بجائے اردو کی گلی کوچے کی خاک چھاننے میں ان کو شاہانہ لطف و لذت ملی ؂
کے گزارم من گدائے کوئے تو
بادشاہی زیں گدائے یافتم
۱۹۴۶؁ء میں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ریڈر ہوکر آئے، اس وقت لکھنو میں شعر و ادب کی نئی بساط بچھ چکی تھی اور ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اس کے سپہرِ علم و ادب پر نئے ستارے جلوہ فگن ہورہے تھے، لیکن طرز کہن کے دل دادگان اور ’’یادگارِ زمانہ لوگ‘‘ بھی ابھی تک ضو فشاں تھے اور افقِ ادب پر نمودار ہونے والے نئے شاعروں اور ادیبوں میں بھی ایک رکھ رکھاؤ تھا اور سب کی بزم آرائی کا مرکز ’’دانش محل‘‘ تھا، سرور صاحب دونوں حلقوں میں گھلے ملے رہے۔
باما شراب خورد و بہ زاہد نماز کرد
مگر جلد ہی مادر علمی کی کشش انہیں پھر علی گڑھ کھینچ لائی اور شعبہ اردو کے سربراہ ہوئے، وظیفہ یاب ہونے کے بعد کشمیر کی دل فریبی اور جاذبیت نے اپنی طرف کھینچا اور اقبال انسٹیٹیوٹ سری نگر کے ڈائریکٹر بنائے گئے۔ ۱۹۹۰؁ء میں علی گڑھ کے شعبہ اردو میں پروفیسر ایمرٹیس ہوئے۔
غرض گھوم پھر کر زندگی کا زیادہ حصہ علی گڑھ میں گزارا، داخلہ لینے کے بعد ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے نائب صدر اور علی گڑھ میگزین کے اڈیٹر مقرر ہوئے، ایس، ایس، ہال کے پرووسٹ، اسٹاف ایسوسی ایشن اور شعبہ اردو کے صدر، آرٹ فیکلٹی کے ڈین اور پروفیسر ایمریٹس رہے، ایگزیکیٹیو کونسل اور یونیورسٹی کورٹ کے رکن بھی ہوتے رہے اور اپنے علم، تجربہ اور سوجھ بوجھ سے یونیورسٹی کو فائدہ پہچاتے اور اس کا نام روشن کرتے رہے، علی گڑھ ہی میں مستقل سکونت کے لیے دارالسرور بھی تعمیر کرایا۔ گو ان کا انتقال دہلی میں ہوا تھا مگر ابدی آرام گاہ یہی سرزمیں بنی۔
علی گڑھ کی طرح اردو بھی ان کی زندگی کا محور رہی، عمر بھر وہ اس کے گیسو کو سنوارتے اور تاب دار کرتے رہے، گو تدریسی زندگی کا آغاز انگریزی کی معلمی سے ہوا تھا۔ لیکن پھر ساری عمر اردو ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہوگئی تھی اور اس کی تدریس پر مامور رہ کر اور اس میں مضامین اور تصنیفات کا انبار لگا کر اس کا وقار و اعتبار فزوں تر کرتے رہے۔
اردو تحریک کی قیادت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ایسے وقت آئی تھی جب ایوان حکومت میں اسے ختم کردینے کی سازشیں ہورہی تھیں اور تنگ اور متعصب حکمراں اسے مٹادینے پر متفق ہوگئے تھے، ایسے نازک دور میں اردو کی روحِ مضمحل میں نئی روح پھونکنے کے لیے جو مسیحا نفس اور سرفروش سامنے آئے ان میں آل احمد سرور بھی تھے، انہوں نے انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے اردو کے تحفظ و ترقی کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ اسی زمانے میں بائیس لاکھ دستخطوں کے محضر کے ساتھ ملک کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد کو یادداشت پیش کی گئی تھی۔
حکومت اردو دانوں کو بہلانے اور پھسلانے کے لیے برابر دام بچھا کر اس میں دانے پھینکتی رہی ہے، اردو کے فروغ و ترقی اور اس کی تعلیم کو رائج کرنے کے نام پر وقتاً فوقتاً جو کمیٹیاں قائم ہوئیں ان میں گجرال کمیٹی کا غلغلہ عرصے تک بلند رہا مگر اس کی تجویزیں اور سفارشات سرد خانے میں ڈال دی گئیں، شور ہونے پر جعفری اور سرور کمیٹیاں تشکیل کر کے زبان بندی کی گئی بہرحال سرور صاحب نے اپنا کام بخوبی انجام دیا اور گجرال کمیٹی کی سفارشات کی نشاندہی کرکے ان کا نچوڑ پیش کیا۔ مگر یہ سب بے سود رہا اور سرور صاحب کی دلیل و حجت بھی متعصب لوگوں کے بگڑے ذہن نیت کی اصلاح نہ کرسکی۔
سرور صاحب اس امر کو نہایت شدت سے محسوس کررہے تھے کہ پرائمری اور ثانوی سطح پر اردو تعلیم کے بغیر اس زبان کا فروغ نہیں ہوسکتا، اردو پڑھنا پڑھانا بند کر کے اس پر جو تیشہ چلایا گیا ہے اسے کند بنانے کے لیے اس کی تعلیم کو رواج دینا ضروری ہے، فرماتے ہیں:
’’تعلیمی اور تہذیبی اور قومی نقطہ نظر سے مادری زبان میں ابتدائی تعلیم ایک ایسا پتھر ہے جس کے بغیر ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کی ساری عمارت کجی کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے، جب تک زبان کی بنیاد مستحکم نہ ہو ادب کا فروغ ممکن نہیں، اس لیے جب تک اردو زبان کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کا کماحقہ انتظام نہیں ہوتا اس وقت تک یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ اردو زبان و ادب ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اگر اردو دوستوں کو واقعی اپنی زبان سے محبت ہے تو انہیں بڑے پیمانے پر ایک ایسی مہم چلائی ہوگی جس سے پہلے مرحلے پر اردو میں ابتدای تعلیم کا انتظام ہو اور دوسرے مرحلے پر ثانوی تعلیم میں سہ لسانی فارمولے کے ذریعے اردو تعلیم کو آگے بڑھایا جاسکے‘‘۔
انجمن کے پلیٹ فارم سے انہوں نے معیاری کتابیں شائع کر کے اردو کے ذخیرے میں جو خطیر اضافہ کیا ہے اس کا کچھ ذکر آگے آئے گا۔
سرور صاحب محنت، مطالعہ اور مسلسل کام کرنے کے عادی تھے، بچپن ہی سے مطالعہ کے شوقین تھے، کم عمری میں اردو کے معیاری رسالے ان کے مطالعہ میں رہتے تھے، ادبی لڑیچر سے زیادہ دلچسپی تھی، اس لیے شروع ہی سے اردو شاعری اور نثر کی کتابوں کو جمع کرنے لگے تھے، بعض مفید اور دلچسپی کی کتابوں کا بار بار مطالعہ کرتے تھے، مطالعہ کا یہ ذوق تا عمر رہا، پروفیسر، صدر شعبہ، ڈین، یونیورسٹی کے مختلف اعزازی عہدوں پر فائز، انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری، اور دو رسالوں کے اڈیٹر ہونے کے بعد ان کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی تھیں، مگر ان مشغولیتوں میں بھی وہ مطالعہ کے لیے وقت نکال لیتے تھے اور لکھنے کا کام جاری رکھتے تھے، بڑھاپے اور علالت کے زمانے میں بھی مطالعہ کی عادت نہ چھوٹی، جب بینائی کم ہوگئی اور بیماری کی وجہ سے پڑھنے لکھنے میں زحمت ہوتی تھی تو دوسروں سے پڑھواکر سنتے اور خود لکھنے کے بجائے املا کراتے تھے۔
ضعف و علالت کے زمانے میں ایک دفعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کورٹ کے جلسے میں ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا ’’آپ کے ذمہ دارالمصنفین کا ایک قرض چلا آرہا ہے وہ کب ادا کریں گے‘‘ فرمایا ’’مجھے مولانا شبلی کی تنقیدی نگاری پر اپنی شرط کے مطابق لکچر دینا ہے، یہ قرض ادا کروں گا‘‘۔ مگر یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب جب ان کے آنے کا پروگرام بنتا تو کوئی مانع پیش آجاتا، اس زمانے کے ان کے خطوط سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مقالہ مکمل کرچکے تھے، میرا ارادہ تھا کہ ان سے مل کر لے لوں گا، مگر علی گڑھ گیا تو کبھی تو خیال ہی نہ آیا اور کبھی آیا تو وہ وہاں موجود نہیں تھے، اگر یہ مقالہ ان کے کاغذات میں موجود ہو تو ان کے وارثین سے درخواست ہے کہ اسے یہاں بھیج دیں۔
سرور صاحب کو علامہ شبلی اور دارالمصنفین سے بڑا تعلق تھا۔ علامہ شبلی کے ادب و انشاء اور شاعری کے خاص طور پر معترف تھے، شاہ معین الدین احمد صاحب اور سید صباح الدین صاحب سے بھی روابط تھے، ایک دفعہ وہ اور پروفیسر احتشام حسین مرحوم شبلی کالج کے شعبہ اردو کی دعوت پر اعظم گڑھ تشریف لائے تو دارالمصنفین میں قیام کیا۔
ان کا مطالعہ صرف اردو کتابوں تک محدود نہ تھا، فارسی اور انگریزی ادبیات کا مطالعہ بھی وسیع تھا، انگریزی ادب و تنقید کی جو تازہ بہ تازہ کتابیں شائع ہوتی تھیں وہ برابر ان کے مطالعہ میں رہتی تھیں، ان کی مدد سے وہ مغربی اور عالمی ادب پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، انہوں نے اپنی کتابوں اور مضامین میں بہ کثرت انگریزی کتابوں اور مغربی نقادوں کے حوالے دئے ہیں۔
اردو ادب و تنقید کے علاوہ دوسرے علوم و فنون کی کتابیں بھی ان کے مطالعہ میں رہتی تھیں اور جدید ادب کی طرح کلاسیکی لڑیچر پر بھی ان کی نظر گہری تھی، اس طرح مشرقی ادب و تنقید کی روایتوں اور مغربی ادب و تنقید کی خصوصیات اور ادب و تنقید کے نئے رجحانات سے وہ بہ خوبی واقف تھے۔ وہ ادبی مسائل پر برابر غور و خوض کرتے رہتے تھے اور ان پر اپنے دوستوں اور شاگردوں سے تبادلۂ خیال بھی کرتے تھے، طلبہ کو اکثر اس کی تاکید کرتے تھے کہ وہ صرف اردو کتابوں کے مطالعہ کو کافی نہ سمجھیں بلکہ ادب و تنقید کے نئے رجحانات اور رویے سے واقف ہونے کے لیے انگریزی اور ہندوستان کی دوسری زبانوں کی ادبی و تنقیدی کتابیں پڑھیں، اپنے مطالعہ کو وسیع کریں اور اپنی فکر کو آگے بڑھائیں۔
علم و ادب کی روایت کو آگے بڑھانے اور چراغ سے چراغ جلتے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ نئی نسلوں میں علم و ادب سے شغف پیدا کیا جائے اور جدید ادب کے ساتھ کلاسیکل ادب سے بھی ان کی دلچسپی باقی رکھی جائے، سرور صاحب نئی پود میں یہی روح پھونکنا چاہتے تھے، وہ اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ جہاں طلبہ کو علم و کمال کے حصول کی ترغیب دلاتے تھے، وہاں ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے بھی فکر مند رہتے تھے یہی وجہ ہے کہ اردو کے اساتذہ و طلبہ کو سب سے زیادہ ان سے فیض پہنچا اور انہوں نے اکثر ادیبوں اور نقادوں کو متاثر کیا۔
مضمون نگاری بھی کم سنی میں شروع کی تھی اور پھر مسلسل عمر بھر لکھتے رہے، ان کا اصل میدان ادبی تنقید تھا جس میں وہ اپنے ہم عصروں سے علانیہ ممتاز تھے، انہوں نے نظم و نثر دونوں پر جو تنقیدی مضامین لکھے وہ اردو میں بہترین تنقید کا نمونہ ہیں، شاعری میں مختلف اصناف سخن کے شعراء نے ان کو اپنی جانب متوجہ کیا، نثری تنقیدی مضامین میں بھی بڑا تنوع ہے، افسانہ ناول، تنقید، ترقی پسند تحریک، جدیدیت، متعدد اہل فن اور اشخاص پر بے شمار تنقیدی مضامین لکھے، اردو کی کئی اہم کتابوں پر ناقدانہ نظر ڈالی، مکتوب نگاری بھی ان کی دلچسپی کا ایک موضوع تھا، ان کا مضمون ’’خطوط میں شخصیت‘‘ بڑی اہمیت کا حامل ہے، مہدی افادی اور اقبال کی مکتوب نگاری پر بھی قابل قدر مضامین لکھے اور غالب کے اردو خطوط کا ایک اچھا انتخاب ’’عکس غالب‘‘ کے نام سے مرتب کر کے شائع کیا۔
اقبال اور غالب کو وہ اردو کا بڑا شاعر مانتے تھے، ان پر خود بھی متعدد مضامین لکھے جو ان کے مضامین کے متعدد مجموعوں میں شامل ہیں، غالب کے خطوط کا انتخاب اور ان پر مختلف نقادوں کے مضامین کا ایک مجموعہ مرتب کیا جو شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شایع ہوا۔ امتیاز علی عرشی کا مرتبہ دیوان غالب، مولوی مہیش پرشاد اور مالک رام صاحب کے مرتب کردہ خطوطِ غالب اور مختار الدین احمد صاحب کے مرتب کردہ مجموعہ مضامین ’’احوالِ غالب‘‘ اور ’’نقد غالب‘‘ انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ سے شائع کئے۔ ’’ہماری زبان‘‘ اور ’’اردو ادب‘‘ میں ان پر اور اقبال پر متعدد مضامین شائع کئے اور مختلف موقعوں پر خود بھی ان میں مضامین لکھے۔
اقبال پر متعدد تنقیدی مقالے اس وقت لکھے جب ان کا نام لینا ہندوستان میں جرم سمجھا جاتا تھا، اقبال انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہوکر سری نگر گئے تو ان پر کئی سمینار کرائے جن میں پڑھے جانے والے مضامین کے مجموعے اور اقبالیات کے ماہرین کے مقالات کے دوسرے مجموعے بھی انسٹی ٹیوٹ سے شائع کئے اور ان پر متعدد عالمانہ خطبات دئیے۔
اس سے اندازہ ہوا ہوگا کہ اردو تنقید میں ان کے کارنامے کمیت و کیفیت دونوں حیثیتوں سے اہم ہیں اور غالب شناسی اور اقبال فہمی میں ان کا پایہ بلند تھا۔
صحافت سے بھی ان کا تعلق رہا، اس کی ابتدا طالب علمی کے زمانے میں ہوئی جب علی گڑھ میگزین کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی تھی، انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری ہوئے تو ہفت روزہ ’’ہماری زبان‘‘ اور سہ ماہی ’’اردو ادب‘‘ کی ادارت ان کے سپرد ہوئی جس کو برسوں نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا، اردو ادب کے کئی اہم خاص نمبر بھی نکالے۔
اردو کی ترقی پسند تحریک کا آغاز سرور صاحب کے عنفوانِ شباب میں ہوا اور جب وہ لکھنؤ یونیورسٹی میں تھے تو اس تحریک کے شباب کا زمانہ تھا، ان کے تمام ترقی پسند ادیبوں سے گہرے روابط تھے۔ اسی لیے ان کا شمار ترقی پسند مصنفین اور ادیبوں کے زمرے میں کیا جاتا ہے بلکہ بعض ترقی پسند ادیبوں نے انہیں مارکسی نظریہ سے متاثر نقاد کہا ہے، لیکن جب یہ تحریک اضمحلال کا شکار ہوئی یا ’’جدیدیت‘‘ کے غلغلہ کے بعد اس کا زور و اثر کم ہوا تو سرور صاحب نے جدیدیت کا خیر مقدم کیااور اس کے زیر اثر مضامین لکھے، اس موضوع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں سمینار کرایا اور ’’جدیدیت اور اردو ادب‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ مرتب کیا، جس میں مغرب میں جدیدیت کی روایت اور اس تحریک کے اہم پہلوؤں کا عالمانہ جائزہ لیا ہے اس میں ’’ادب میں جدیدیت کا مفہوم‘‘ کے عنوان سے ان کا بھی ایک مبسوط مقالہ شامل ہے، مگر جدیدیت کی تحسین و وکالت کے باوجود وہ اس ادبی نظریے سے پوری طرح مطمئن نہیں تھے اور ترقی پسند تحریک کی طرح اس سے بھی کلی مفاہمت نہ کرسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ وہ ترقی پسند تحریک سے بیزار تھے نہ انہوں نے جدیدیت سے حذر کیا بلکہ انہیں ادب و تنقید کے مختلف النوع نظریات اور تحریکات سے اپنے کو ہم آہنگ کرلینے کا سلیقہ آتا تھا اور درمیانِ قعرِ دریا تختہ بند ہو کر دامن کو تر ہونے سے بچالینے کا ہنر معلوم تھا ان کے مزاج و طبیعت میں اعتدال و توازن تھا، وہ ہر ایک سے مفاہمت کے باوجود کسی کے اندر ضم نہیں ہوتے تھے، بلکہ اپنی الگ پہچان اور علاحدہ شناخت بنائے رکھتے تھے، وہ جن افکار و نظریات سے متاثر ہوتے تھے، ان سے مغلوب اور پسپا نہیں ہوتے تھے، وہ ادبی فوضویت اور انتشار سے بچنے کی تلقین کرتے تھے، مگر ادب میں گروہ بندی اور ادیب و نقاد کے مختلف خانوں میں منقسم ہونے اور جدید و قدیم میں محصور ہوکر حقائق سے صرف نظر کرلینے کو پسند نہیں کرتے تھے، ان کا یہ شعر اسی صورتِ حال کا ترجمان ہے ؂
کس کو سمجھائیں آج تسلسل حیات کا
دیکھو جسے اسیر جدید و کہن میں ہے
ادب و تنقید کے علاوہ دوسرے موضوعات بھی ان کے قلم کی جولان گاہ رہے ہیں، علی گڑھ اور ہندوستانی مسلمان، مسلمان اور اسلام، اسلامی معاشرہ اور تہذیب پر بھی انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کا اصل کمال ان کی تحریر کی دلکشی و دل آویزی ہے، موضوع کی خشکی کے باوجود وہ سلاست و شگفتگی اور روانی کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے، ان کی تحریر ایچ پیچ اور تعقید و اغلاق سے پاک ہوتی تھی، موضوع کوئی ہوتا ان کی تحریر اور انداز بیان میں جلال و جمال موجود رہتا تھا۔
نقاد کی حیثیت سے سرور صاحب کو ایسی غیر معمولی شہرت نصیب ہوئی کہ اس کے سامنے ان کی دوسری حیثیتیں بالکل دب گئیں، حالانکہ وہ بڑے اچھے شاعر تھے، دس گیارہ برس کی عمر ہی سے شعر کہنے لگے تھے، سینٹ جانس کالج آگرہ میں ان کو شاعرانہ ماحول ملا، اس وقت آگرہ شعر و ادب کا مرکز تھا، بعض اساتذہ شعراء موجود تھے، اس ماحول نے ان کے شعری ذوق کو جلا بخشی، وہ مشاعروں میں شریک ہونے لگے اور ان کا کلام چھپنے لگا، علی گڑھ میں بھی ان کو شاعرانہ ماحول ملا، یہیں ۱۹۳۵؁ء میں ان کے کلام کا پہلا مجموعہـ ’’سلسبیل‘‘ کے نام سے چھپا بعد میں ان کے دو مجموعے ’’ذوق جنون‘‘ اور ’’خواب و خلش‘‘ شائع ہوئے۔
سرور صاحب نے غزلیں اور اشخاص و واقعات پر نظمیں کہی ہیں، وہ اپنے کو ذات و کائنات کا شاعر کہتے تھے، لیکن وہ شاعری سے بڑے کاموں کے لیے پیدا ہوئے تھے، چنانچہ جب ان کی مشغولیتیں بڑھیں اور تنقیدی مباحث کی جانب ان کو زیادہ توجہ کرنی پڑی تو شاعری کے لیے زیادہ وقت نہیں نکال سکے، مشاعروں میں جانا اور رسالوں میں کلام بھیجنا کم کردیا، ورنہ جس زور و شور سے وہ شاعری کے کوچے میں وارد ہوئے تھے اگر یہ قائم رہ جاتا اور وہ شعر و سخن کو اپنا مشغلہ بنالیتے تو جس طرح ادب و تنقید کو نیا انداز اور نیا لہجہ عطا کر کے اپنی عظمت کا لوہا منوایا ہے، اسی طرح اس میدان میں بھی گوئے سبقت لے جاتے، تاہم ان کی شاعری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، کچھ نمونے پیش کئے جاتے ہیں ایک غزل کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
شانِ شہی نہ زلفِ شکن در شکن میں ہے
وہ بانکپن جو منصبِ دارورسن میں ہے
دشت و دمن میں پھول کھلائے تو بات ہے
یہ کیا بہار ہے جو مقید چمن میں ہے
میرا لہو بھی کام کچھ آہی گیا ضرور
شوخی بلا کی آج ترے پیرہن میں ہے
ہم انقلاب چاہیں تو بڑھ جائے کچھ جمود
فتنہ گری نئی یہ سپہرِ کہن میں ہے
عرفان و آگہی کے تقاضے بدل گئے
جادو عجیب اس نگۂ سحر فن میں ہے
پگھلے گی اے سرورؔ ہمالہ کی برف بھی
طوفاں تلاشِ گنگ و جمن میں ہے
ان اشعار کے تیور دیکھئے:
یہ لہو جس میں تب و تابِ نفس سے تیرے
دیکھ ایوانِ حکومت میں چراغاں نہ بنے
لوگ ہر شمع کو فانوس بنادیتے ہیں
شعلہ اپنا بھی چراغِ تد داماں نہ بنے
اگ ہرسنگ میں جو لعل و گہر بنتا تھا
وہ شرارہ بھی کہیں شمع شبستاں نہ بنے
موج جو کرتی تھی ہر گام پہ طوفاں تخلیق
کسی گلزار کی اک جوئے خراماں نہ بنے
چند اور شعرواں کی معنویت اور شاعر کے احساس و تخیل کی بلندی پر غور کیجئے۔
ہند کے جلوۂ صدرنگ کا ہے پاس ضرور
اس میں سوزِ عربِ و حسنِ عجم یاد رہے
کارواں منزلِ نو کے لیے ہو سرگرمِ سفر
اپنی تہذیب کا بھی نقشِ قدم یاد رہے
چمنِ علم و ادب میں نئی کلیوں کے حضور
میر و غالب کے شگوفوں کا بھرم یاد رہے
علی گڑھ سرور صاحب کا خاص مرکزِ عقیدت تھا اُس سے اُن کا رشتہ صرف ملازمت کا نہیں تھا بلکہ اس سے ان کو ذہنی و جذباتی لگاؤ تھا، وہ اس سے وابستہ افراد سے یہ چاہتے تھے کہ اس کے مفاد پر اپنا مفاد قربان کردیں اُسے صرف جاہ و منزلت کا ذریعہ نہ بنائیں، اس سے صرف لینے کی فکر میں نہ رہیں بلکہ اسے دینے کے لئے بھی آمادہ ہوں، جو لوگ یونیورسٹی کے ذمہ دارانہ مناصب پر فائز ہوں وہ اس کے عظمت شناس، اس کی روایات و خصوصیات سے واقف، تعلیم کے ماہر اور تعلیمی مسائل کو سمجھنے والے ہوں۔
وائس چانسلر محمد حامد انصاری کے بقول ’’سرور صاحب ان ہستیوں میں تھے جن کی وجہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو پہچانا جاتا تھا‘‘۔ علی گڑھ کے نام ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
اے کہ کرنوں سے تری اپنے سیہ خانے میں
چاند کا نور ستاروں کی چمک باقی ہے
لالہ کاروں سے تری بادِ خزاں کے باوصف
اپنے ویرانے میں پھولوں کی مہک باقی ہے
کون سمجھے ترے پُرسوز تخیل کے سوا
اب بھی برفاب میں شعلوں کی لپک باقی ہے
وہ سرسید کو عظیم و جلیل شخص سمجھتے تھے اور اس سے متفق نہیں تھے کہ سرسید کو مغرب کی ہر چیز اچھی اور اپنی ہر چیز بدتر دکھائی دیتی تھی، انہیں اپنا مذہب عزیز تھا، اس پر حملہ ہوتا تو تڑپ اٹھتے، وہ اس سے متفق نہ تھے کہ سرسید انگریزوں کے آلہ کار تھے، ان کا کام مسلمانوں کو غلامی پر راضی کرناتھا بلکہ وہ وقت کی نبض کو پہچانتے تھے اور دیکھتے تھے کہ مغرب ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتا تھا، وہ اس سے واقف تھے کہ مغرب نے سائنس کی مدد سے علمی سرمائے میں اضافہ کیا ہے، وہ مغرب کے تہذیبی کارناموں سے آنکھیں بند کرنے کے بجائے ان سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔
سرور صاحب شریف، وضع دار اور خلیق انسان تھے، ان کی طبیعت میں درد مندی ضبط و تحمل اور حلم و بردباری کے ساتھ شگفتگی اور زندہ دلی تھی، جلدی طیش و اشتعال میں نہ آتے ان کو کسی سے عداوت اور نفرت نہ تھی، اپنے مخالفین کی باتین سُن کر پی جاتے اور غصہ نہ ہوتے، شاہ معین الدین صاحب کہتے تھے کہ انجمن ترقی اردو کے جلسوں میں بعض لوگ بڑے سخت اور ناگوار لب و لہجہ میں جا وبے جا اعتراضات کرتے تھے مگر غصہ تو درکنار ان کی پیشانی پرشکن بھی نہیں آتی تھی اور جب موقع آتا تو نرم و شیریں انداز سے سارے اعتراضات کا ایسا جواب دیتے کہ سب لوگ ٹھنڈے ہوجاتے۔
چھوٹوں سے بڑی شفقت کا برتاؤ کرتے، کبھی ان کی دل شکنی نہ کرتے، اپنے شاگردوں کی ہمیشہ دل جوئی اور حوصلہ افزائی کرتے، ان کی تحریروں کی تحسین کر کے ان کی ہمت بڑھاتے مگر بڑے اصول پسند اور قاعدے ضابطے کے پابند تھے، وظائف اور داخلوں کے معاملے میں کوئی رورعایت نہیں کرتے تھے، کسی طالب علم کا نمبر بڑھانے یا کسی شخص کے تقرر کے معاملے میں وہ کسی کی سعی و سفارش قبول نہیں کرتے تھے۔ صرف اہلیت و صلاحیت ہی کو معیار بناتے تھے، بعض لوگ امیدوار یا داخلے کے خواہش مند کی غربت یا مذہب و قومیت کا حوالہ دے کر اس کے لیے ہمدردی کے طالب ہوتے تھے، مگر وہ بلاتا مل معذرت کردیتے تھے۔
اوقات و معمولات کے پابند تھے، کثرتِ کار اور مشاغل کی زیادتی کی بنا پر ان کو بزم و انجمن آرائی کے لیے وقت نہ ملتا تھا، رات اور صبح کا وقت مطالعہ و تصنیف کے لیے وقف تھا، اس میں اگر کوئی آجاتا اور خلل انداز ہوتا تو بڑی ناگواری ہوتی تھی۔
سرور صاحب کی گوناگوں علمی ادبی اور تنقیدی خدمات کی بڑی پذیرائی ہوئی، مختلف ریاستوں کی اردو اکیڈمیوں نے انہیں اپنے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا، ساہتیہ اکاڈمی اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے اعزاز بھی ان کو ملے۔ حکومت ہند نے پدم بھوشن اور صدر پاکستان نے طلائی تمغہ دے کر ان کی عزت افزائی کی۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں عالمِ آخرت کے بلند مدارج عطا کرے۔ آمین! (ضیاء الدین اصلاحی، اپریل ۲۰۰۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...