Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی
ARI Id

1676046599977_54338436

Access

Open/Free Access

Pages

640

ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی مرحوم
(ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمیٰ)
۲۴؍ مارچ ۲۰۰۲؁ء کو آثارِ قدیمہ و علمِ کتبات کے ماہر اور مرکزی حکومت کے ادارے برائے کتبہ شناسی ناگ پور کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیا الدین ڈیسائی نے ۷۷ سال کی عمر میں احمد آباد میں داعیِ اجل کو لبیک کہا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ کئی ماہ سے علیل اور احمد آباد کے ایک اسپتال میں داخل تھے، ان کی وفات کی اطلاع اس لیے تاخیر سے ملی کہ ان دنوں احمد آباد بلکہ گجرات میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاری تھی جس میں ہزاروں انسان زندہ جلادئے گئے اور لاکھوں بے خانماں اور برباد ہو کر اپنے ہی وطن میں بے وطن ہوکر رہ گئے۔ خود ڈیسائی صاحب مرحوم کے صاحبزادے کی دوا کی دکان بھی شرپسندوں نے جلادی تھی، چنانچہ اس ہولناک قتل عام کی وجہ سے اور خبریں دب گئیں اور ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی کے حادثہ انتقال کی خبر بھی نہ لگ سکی اور وہ کرفیو کے دوران سپرد خاک کردئے گئے۔
ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی مرحوم احمد آباد کے رہنے والے تھے۔ ۱۸؍ مئی ۱۹۲۵؁ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم بمبئی میں ہوئی تحصیلِ علم کے بعد وہ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے کچھ دنوں تک اسمٰعیل یوسف کالج بمبئی اور دھرمندر سنگھ کالج راج کوٹ سے بطور لکچرر وابستہ رہے۔ ۱۹۵۳؁ء میں آرکیالوجیکل سوسائٹی آف انڈیا ناگ پور کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ برائے کتبات مقرر ہوئے پھر سپرنٹنڈنٹ ہوئے اور آخر میں ترقی کر کے ڈائریکٹر برائے کتبات کے عہدہ پر فائز ہوئے اور اسی عہدہ سے ۱۹۸۰؁ء میں سبکدوش بھی ہوئے۔
ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی مرحوم ملک کے ممتاز عالم و محقق تھے۔ تاریخ و آثار اور کتبات ان کا خاص موضوع تھا، ہندوستان کے عہد و سطیٰ کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ فارسی زبان و ادب میں بھی صاحب کمال تھے، لیکن ان کا امتیازی وصف کتبہ شناسی تھا جس میں انہیں یدطولیٰ حاصل تھا، ان کی اس مہارت کا اعتراف ملک نے بھی کیا اور ماہر کتبات کی حیثیت سے انہوں نے بین الاقوامی شہرت بھی حاصل کی۔
ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی مرحوم تصنیف و تالیف کا عمدہ مذاق رکھتے تھے۔ اپنے موضوع پر انہوں نے کئی اہم اور معرکۃ آرا کتابیں انگریزی میں لکھیں، ان کی ایک کتاب ’’ایپی گرفیا انڈیکا آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا‘‘ ہے، جسے ۱۹۶۷؁ء میں منیجر پبلی کیشنز دہلی نے شائع کیا۔ یہ دراصل مجموعہ مقالات ہے جس کو ڈیسائی صاحب نے مرتب کرکے شائع کیا ہے، دوسرے اہل قلم کے مقالات کے علاوہ اس میں ڈیسائی صاحب کے تین قیمتی اور گراں قدر مقالات شامل ہیں، ایک مقالہ میں رضیہ سلطانہ کے عہد کے کتبات کا ذکر ہے، دوسرے میں مملوک سلاطین کے عہد کے کتبات کا ذکر ہے، جب کہ تیسرے مقالہ میں غیاث الدین تغلق کے عہد کے کتبات کی تفصیل ہے۔ یہ کتبات اترپردیش کے مختلف اضلاع و قصبات سے دریافت ہوئے تھے، ان میں مہوبہ اور ظفر آباد وغیرہ خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔
دوسری کتاب ’’ایپی گرافیا انڈیکا عربک اینڈ پرشین‘‘ ہے جس میں عربی و فارسی کے کتبات کو موضوعِ تحقیق بنایا گیا ہے۔ تیسری کتاب ’’ملفوظات: ایز اے سورس آف پالیٹیکل سوشل اینڈ کلچرل ہسٹری آف گجرات اینڈ راجستھان‘‘ ہے۔ یہ کتاب ان کا ایک بڑا تحقیقی کارنامہ ہے، اس میں انہوں نے گجرات اور راجستھان کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی تاریخ کے ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت سے ادب کا جائزہ لیا ہے اور ادب کو تاریخ کے ایک ماخذ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
ایک کتاب ہند اسلامی طرز تعمیر ہے جسے پبلی کیشنز ڈیویزن نے شائع کیا ہے۔ اسی ادارہ نے ان کی ایک اور کتاب ’’ہندوستان میں اسلامی علوم کے مراکز‘‘ بھی شائع کی ہے، ان دونوں کتابوں کو علیٰ الترتیب اخترالواسع اور بہار برنی نے اردو کا جامہ پہنایا ہے، اس سلسلہ کی ان کی ایک گراں قدر تصنیف ’’ہندوستان کی مسجدیں‘‘ بھی ہے اور اسے بھی پبلی کیشنز ڈیویزن ہی نے ۱۹۶۷؁ء میں شائع کیا۔ اس میں اولاً اسلام میں مسجد کے مقام و مرتبہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کے آغاز و ارتقاء، ہندوستان میں مساجد کی تعمیر، اولین مساجد اور طرز تعمیر وغیرہ کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ اس سلسلہ میں مختلف صوبوں مثلاً بنگال، جون پور، گجرات، مالوہ، دکن اور کشمیر وغیرہ کی مساجد اور ان کے طرز تعمیر، کا عہدہ وار جائزہ پیش کیا ہے، چند منفرد اور ممتاز مساجد کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔
یہ کتاب اپنے موضوع پر عمدہ کاوش قرار دی جاتی ہے اور بلاشبہ یہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کا ایک بڑا اور قابلِ قدر کارنامہ ہے۔
ان کتابوں کے علاوہ انہوں نے متعدد اہم مقالات بھی سپرد قلم کئے جو مجلہ انڈو ایرانیکا وغیرہ اور موقر علمی رسائل میں شائع ہوئے، انڈو ایران سوسائٹی اور کئی دوسری علمی انجمنوں کے وہ ممتاز رکن رہے، علماء و محققین سے بڑا تعلق رکھتے تھے، دارالمصنفین سے ان کو عشق تھا، معارف کے بڑے قدرداں تھے۔ جناب سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب مرحوم سے ان کے مخلصانہ روابط تھے، موجودہ مدیر معارف سے بھی محبت کرتے تھے۔
علم و تحقیق کی دنیا میں اور خاص طور سے کتبہ شناسی کے میدان میں ان کی کمی برسوں محسوس کی جائے گی۔ اﷲ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!! ( مئی ۲۰۰۲ء)

ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی
(پروفیسر سید عبدالرحیم)
’’ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی ملک کے مایہ ناز فاضل ماہر کتبہ شناس اور دارالمصنفین کے بڑے قدرداں تھے، ان پر گزشتہ اشاعت میں ایک تعزیتی تحریر شائع ہوچکی ہے پروفیسر سید عبدالرحیم ڈاکٹر صاحب مرحوم کے رفیق اور معتمد علیہ تھے، ان کا یہ مضمون مفصل ہے جو ان کے شکریے کے ساتھ معارف میں شائع کیا جاتا ہے۔( ضیاء الدین اصلاحی)
گجرات پچھلے دو ماہ سے فسادات کی آگ میں جل رہا ہے سیکڑوں معصوم جانیں نذر آتش ہوگئیں۔ ایسے ہی پُر آشوب دور میں ایک اور عظیم سانحہ علم و ادب کی دنیا میں رونما ہوا اور وہ گجرات کی ایک بلند پایہ علمی شخصیت ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی سابق ڈائرکٹر محکمہ آثار قدیمہ کے سانحہ ارتحال کا ہے، ۲۴؍ مارچ ۲۰۰۲؁ء کی دوپہر کو ڈاکٹر صاحب نے خورشید پارک احمد آباد میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
علالت و وفات:گجرات کے حالیہ فسادات کے دوران وہ زیادہ بیمار ہوگئے تھے، انہیں قلب کا عارضہ تو پہلے ہی سے تھا کئی بیماریاں لاحق ہوگئی تھیں۔ موصوف کو ایک خانگی دواخانہ کرناوتی میں داخل کیا گیا تھا، شہر میں کرفیو چل رہا تھا اس وجہ سے گھر کے لوگ بھی کماحقہ تیمارداری کے لیے نہیں پہنچ سکے۔ بالآخر ڈاکٹر ہی کے مشورے سے انہیں گھر پر منتقل کردیا گیا۔ سانس لینے میں تکلیف ہورہی تھی جس کی وجہ سے گھر پر آکسیجن لگانا پڑتا تھا۔ ڈاکٹر ڈیسائی صاحب کے قیام گاہ کے قریب پروفیسر محبوب حسین صاحب عباسی کا مکان ہے وہ ان کے آخری ایام کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے سرخیز کے علاقے میں ۲۱۔۲۲ مارچ کی شب میں بڑا ہنگامہ ہوا اور کرفیو نافذ کردیا گیا۔ میں ڈیسائی صاحب سے آخری بار ۲۱؍ تاریخ کی صبح ملا تو آکسیجن لگا ہوا تھا پھر بھی اچھی طرح بات چیت کی۔ کچھ وقت پہلے امریکہ کے Prof. Dr. John Seyller کے ایک مقالہ پر نوٹس لکھے تھے اس کی کاپی مجھے دی اور امریکہ روانہ کرنے کے لیے کہا، ان کا پتہ خود انہوں نے ڈائری سے تلاش کرکے مجھے لکھوایا، اس وقت بھی ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ اتنی جلد آخری وقت آجائے گا۔ ۲۴؍ مارچ کو سخت کرفیو تھا میں دوپہر ڈیڑھ بجے گھر پر ہی ظہر کی نماز ادا کررہا تھا کہ ڈیسائی صاحب کے بھتیجے ایک شناسا ڈاکٹر محسن حسنی کو لے کر ڈیسائی صاحب کے مکان پر جاتے ہوئے میرے یہاں آئے اور دروازے پر خبر دے گئے کہ حالت نازک ہے، نماز سے فارغ ہوا ہی تھاکہ ڈیسائی صاحب کے لڑکے طارق کا فون آیا اور انتقال کی خبر دی، اب باہر تو کرفیو تھا، بڑی سڑک پر تو جانہیں سکتے تھے، لہٰذا ہماری سوسائٹی کے پیچھے ایک کچے راستے سے خورشید پارک کے عقب میں پہنچا اور ایک پلاٹ کی کمپاؤنڈ کی دیوار پر چڑھ کر وہاں داخل ہوسکا کرفیو کی وجہ سے خورشید پارک کے رہنے والوں میں سے چند لوگ آگئے تھے فوراً غسال کو طلب کیا اور چار بجے تک غسل اور کفن سے فارغ ہوکر جنازہ تیار کرلیا گیا، اس وقت مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اعلان کیا گیا تو قریب کی سوسائٹیوں سے تقریباً ۵۰ افراد جمع ہوگئے پونے پانچ بجے مسجد کے صحن میں نماز جنازہ ادا کی گئی، امامت کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈالی گئی، جنازے کو ایک ٹرک میں رکھا گیا کچھ لوگ ساتھ ہی سوار ہوگئے، پولس نے اجازت دی تھی اس لیے سہولت کے ساتھ جوہا پورہ کے عام قبرستان میں تدفین ہوئی، قریب ساڑھے پانچ بجے فارغ ہوگئے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی موت علمی دنیا کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے، وہ نہ صرف ایک ماہر کتبہ شناس، سکہ شناس، تاریخ دان، محقق، مترجم، عہد اسلامی کے فن تعمیر کے رمز شناس، علوم دینیہ اور مرکز اسلامیہ کی تاریخ کے واقف کار بلکہ ہندوستان اور بیرون ہند کے کتب خانوں کے مخطوطات پر گہری نظر رکھنے والے اور فہرست ساز تھے ایسی علمی و ادبی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ راقم الحروف کو چالیس سال سے ان کی شاگردی اور رفاقت کا شرف حاصل ہے، میں نے اپنی مختصر زندگی میں ان سے زیادہ محنتی، فرض شناس، علم دوست اور فنافی العلم شخص نہیں دیکھا۔
پیدائش اور تعلیم: ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی ۱۷؍ مئی ۱۹۲۵؁ء میں دھندوکا میں پیدا ہوئے جو احمد آباد کے مضافات میں ایک قصبہ ہے، وہ بہت ذہین طالب علم تھے، اسکول اور کالج میں ہر جماعت میں اول نمبر کامیاب ہونے پر انہیں گورنمنٹ میرٹ اسکالر شپس ملتی رہیں، ۱۹۴۶؁ء میں بمبئی یونیورسٹی سے بی۔اے (آنارس) کی ڈگری حاصل کی اور پوری یونیورسٹی میں امتیازی حیثیت حاصل کرنے پر آر۔ایچ۔ مودی پرائز حاصل کیا۔ ۱۹۴۸؁ء میں اسی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی اور یونیورسٹی میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے پر چانسلر میڈل اور جعفر قاسم موسیٰ میڈل حاصل کئے۔
ملازمت:۱۹۴۷؁ء میں ان کا تقرر فارسی کے لکچرر کی حیثیت سے ہوا۔ احمد آباد بمبئی اور راج کوٹ میں لکچرر رہے۔ ۱۹۵۳؁ء میں آثار قدیمہ ہند دہلی کے فارسی عربی کتبہ شناسی کے شعبہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوئے، ۱۹۵۸؁ء میں فارسی عربی کتبہ شناسی کا دفتر دہلی سے ناگپور منتقل ہوگیا۔ ۱۹۶۱؁ء میں وہ سپرنٹنڈنگ ایپی گرافسٹ اور ۱۹۷۷؁ء میں ڈائرکٹر بنادئے گئے اور ۱۹۸۳؁ء میں اسی عہدے سے وظیفہ یاب ہوئے۔ وظیفہ پانے کے بعد ڈاکٹر صاحب ۱۹۹۲؁ء تک انڈین کونسل فار ہسٹارلکل ریسرچ نئی دہلی کے سینئر ریسرچ فیلو اور ۱۹۹۲؁ء سے ۱۹۹۸؁ء تک امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹیڈیز نئی دہلی کے جائنٹ چیف کالوبوریٹر رہے محکمۂ آثار قدیمہ ہند کی ملازمت کے دوران ۱۹۵۷؁ء میں حکومت کی جانب سے ایران بھیجے گئے، جہاں ایک سال قیام کیا اور فیضی کی نل دمن پر تحقیقی مقالہ پیش کر کے تہران یونیورسٹی سے فارسی میں ڈی لٹ کی ڈگری تحسین کے ساتھ حاصل کی۔
اعزازات:
۱۔ایپی گرافیکل سوسائٹی آف انڈیا کی جانب سے ۱۹۸۲؁ء میں ان کو سرٹیفکٹ آف آنر ’’تامرپتر‘‘ دیا گیا۔
۲۔فارسی کی مسلمہ قابلیت اور خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے ۱۹۸۳؁ء میں صدراتی ایوارڈ دیا۔
۳۔۱۹۸۴؁ء میں ڈاکٹر آئی بی تیسی توری گولڈ میڈل ملا۔
۴۔۱۹۹۳؁ء میں ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کی جانب سے سرجدوناتھ سرکار گولڈ میڈل دیا گیا۔
۵۔۱۹۹۳؁ء میں ودودرہ سے سنسکار ایوارڈ ملا۔
۶۔۱۹۹۵؁ء میں گجرات اردو اکادمی کا ایوارڈ ملا۔
۷۔۱۹۹۹؁ء میں تحقیقی و تنقیدی خدمات کے اعتراف میں ایوان غالب دہلی کی جانب سے فخرالدین علی احمد ایوارڈ دیا گیا۔
اسفار: ملازمت کے دوران اور وظیفہ پانے کے بعد وہ حکومت ہند کی جانب سے اس کے نمائندہ کی حیثیت سے روس، امریکہ، عراق، افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش تشریف لے گئے، ہند و بیرون ہند کی مختلف کمیٹیوں کے وہ رکن رہے ہیں۔
علمی خدمات اور تصنیفات:انگریزی زبان پر ڈاکٹر صاحب کو بڑی قدرت حاصل تھی اس لیے ان کی بیشتر تصنیفات اور مضامین انگریزی میں شائع ہوئے ہیں۔
انگریزی کے علاوہ اردو، ہندی، گجراتی اور فارسی میں بھی آپ کے مضامین موقر رسائل میں شائع ہوئے۔ چونکہ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اس وجہ سے ان کے مضامین اور کتابوں میں بے شمار حوالہ جاتی نوٹس نظر آتے ہیں۔ جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کردیا۔ میں اولاً ان مضامین کی فہرست درج کرتا ہوں جو اردو میں لکھے گئے ہیں۔ بعض مضامین ان میں بہت طویل ہیں، انہیں یک جاشائع کیا جائے تو دو جلدیں مرتب کی جاسکتی ہیں۔
(۱) گفتار ملک محمود گجراتی۔ نوائے ادب بمبئی، اپریل ۱۹۵۵؁ء
(۲) شغل طوبی۔ نوائے ادب بمبئی، اکتوبر ۱۹۵۵؁ء
(۳)کچھ دیوان قاسم مینجا کے متعلق۔ مجلہ علوم اسلامیہ علی گڑھ، دسمبر ۱۹۶۳؁ء
(۴) خیرالمجالس اور گجرات۔ خلیق احمد نظامی میموریل والیوم علی گڑھ
(۵) اکبر کا بعد ازمرگ لقب عرش آشیانی یا عرش آستانی، نذر مختار۔ نئی دہلی ۱۹۸۸؁ء
(۶) سترہویں صدی کے آگرہ کے ایک عارف و خطاط شاعر میر عبداﷲ مشکیں قلم، معارف اعظم گڑھ ۱۹۹۱؁ء
(۷) مہریں ترقیمے عرض دیدے اور یاد داشتیں۔ خدا بخش لائبریری جرنل پٹنہ ۱۹۹۸؁ء
(۸) ہندوستانی آثار قدیمہ۔ تحریر دہلی ۱۹۷۲؁ء
(۹) غالب کے منظوم کتبے۔ غالب نامہ نئی دہلی ۱۹۸۶؁ء
(۱۰) ہندوستان کے عہد اسلامی کے سکے۔ تحریر دہلی، جنوری مارچ ۱۹۷۵؁ء
(۱۱) دسویں صدی ہجری کا ایک اردو کتبہ۔ تحریر دہلی ۱۹۶۷؁ء
(۱۲) بارہویں صدی ہجری کی ایک دکنی نظم۔ تحریر دہلی ۱۹۶۸؁ء
(۱۳) شعراء کے سنین وفات۔ استدراک۔ تحریر دہلی ۱۹۷۷؁ء
(۱۴) ودربھ کی تاریخی عمارتیں۔ تذکرہ مشاہیر برار، حیدرآباد ۱۹۸۲؁ء
(۱۵) غالب کے دو معاصر۔ غالب نامہ ۱۹۸۴؁ء
(۱۶) دبستان شیرانی کا ایک محقق۔ سابر نامہ احمد آباد ۱۹۹۰؁ء
(۱۷) خان خاناں اور عرنی کی مکاتبت کا ایک صفحہ۔ مجلہ علوم اسلامیہ علی گڑھ دسمبر ۱۹۶۳؁ء
’’آثار قدیمہ ہند‘‘ (اے گوش کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ)
’’تقویم ہجری و عیسوی‘‘ انجمن ترقی اردو (ہند)دہلی کے زیر اہتمام شائع شدہ تقویم ہجری و عیسوی کی تالیف میں ڈاکٹر صاحب نے نمایاں حصہ لیا۔ چنانچہ ابوالنصر خالدی صاحب اور مولوی محمود احمد خاں صاحب کے ساتھ مرتبین تقویم میں ان کا نام بھی شامل ہے۔
’’عربی، فارسی اور اردو مخطوطات کی وضاحتی فہرست‘‘ حضرت پیر محمد شاہ درگاہ شریف احمد آباد کے کتب خانے کے مخطوطات کی فہرست ان کی نگرانی اور سرپرستی میں شائع ہوئیں۔ اس فہرست کی چھ جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔
ہندوستان کی مسجدیں۔
انگریزی زبان میں لکھی ہوئی تصنیفات کی فہرست درج ذیل ہے:
(1) Mosques of India: New Delhi 1967,1971,1980
اس کتاب کا اردو ترجمہ ’’ہندوستان کی مسجدیں‘‘ شائع ہوگیا۔
(2) Centres of Islamic learning in India New Delhi- 1979
اس کتاب کا ہندی ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔
(3) Indo Islamic Architecture, New Delhi, 1977, 1986
(4) Published Muslim Inscriptions of Rajasthan, Jaipur, 1971
(5) Life and works of Faidi - Calcutta 1961
(6) Corpus of Inscriptions stored in the Museum of
Gujrat, 1987
(7) Catalogue of Muslim Gold Coins stored in the Baroda
Museum and Picture Gallery, Vadodara - 1995.
(8) Taj Mahal (in joint authorship with H.K. Kaul) 1982.
(9) Perso-Arabic Epigraphy of Gujrat M.S. University
Baroda, 1982.
(10) Daftar Vidya (Archival science in Gujrati,
Ahmedabad) 1986.
(11) A Topographical list of Arabic Persian and Urdu
Inscriptions of south India, New Delhi - 1989.
(12) Fatehpur Sikri, Source Book (Co-author) Combridge
Mass, U.S.A. 1985.
(13) Muslim Monumentai Calligraphy of India
(collaboration) Lowa, city U.S.A. 1985.
(14) Shah Jahan Nama of Inayat Khan English Translation,
revised and edited (In collaboration with Dr.
W.E.Begley) Lowa city, U.S.A. our New Delhi -1989.
(15) Taj Mahal : An Illumined Tomb (in Collaboration with
Dr. W.E.Begley) Washington D.C. U.S.A. 1990.
(16) Malfuz Literature as a source for the 13th -14th
Century History of Rajasthan and Gujarat Patna,
(17) English Translation of Dhakhiratul Khawanin of
Shaikh Farid Bhakkari. Part-I New Delhi - 1992.
(Part II and III unpublished).
(18) Arabic and Persian Manuscripts in The Khuda Baksh
Library, Vol. I Corrections and Additions, Patna. 1995.
(19) Arabic Persian and Urdu Inscriptions of Western
India Topographical List, New Delhi - 1999.
(20) Catalogue of Paintings Albums and Illustrated
Manuscripts in the Raza Library, Rampur - New
Delhi - 2001.
(21) Catalogue for the Specimen of Islamic Calligraphy in
Sarabhai Foundation Museum, Ahmedabad.
(22) History of Shah Jahan Vol. I - III in joint authorship
with Prof. Dr. W.E.Begley.
محکمہ آثار قدیمہ ہند کے سرکاری مجلہ Epigraphia Indica, Arabic and Persian Supplient کے ڈاکٹر صاحب ایڈیٹر رہے۔ ان کی ایڈیٹر شپ میں اکیس شمارے شائع ہوئے۔ ان میں سب سے زیادہ مضامین ڈاکٹر صاحب ہی کے نظر آتے ہیں۔ ہندوستان اور بیرون ہند کے رسائل میں اب تک تقریباً ۲۵۰ تحقیقی مضامین چھپ چکے ہیں۔
اخلاق و عادات:ایمانداری، خلوص، خوف خدا، سچائی، پاسِ نفس، بے نفسی، پاکبازی، غیرت اسلامی، بے خوفی، حق گوئی، محنت، لگن اور نہ جانے کتنے صفاتی اور کمالاتی جواہر ڈاکٹر صاحب کی سیرت میں تابندہ نظر آتے تھے۔ صحبت ناجنس سے گریز، علمی و تحقیقی کاموں میں انہماک، پے درپے اسفار اور کم آمیزی نے آپ کو بالکلیہ یک سو کر رکھا تھا۔ وہ زندگی کے ایک ایک لمحے کی قدر و قیمت جانتے تھے۔ ان کے نزدیک کام کا انعام و اعزاز صرف کام ہے، قدردانی صلہ و ستائش محض اضافی چیزیں ہیں پاکستان میں ڈاکٹر صاحب کا مختصر قیام رہا۔ وہاں کے ایک متبحر عالم پیر حسام الدین راشدی صاحب سے ملاقات ہوئی جو تقریباً پچاس کتابوں کے مصنف ہیں، راشدی صاحب نے مالک رام صاحب کو ڈاکٹر صاحب سے اپنی ملاقات کا حال لکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے متعلق لکھا کہ ’’ایک عرصے کے بعد ایک فنافی العلم شخص سے ملاقات ہوئی‘‘۔ پروفیسر نور الحسن، پرفیسر خلیق احمد نظامی اور ہارون خاں شیروانی ان کی تاریخ دانی کے بے حد مداح تھے۔ ڈاکٹر صاحب جن ادیبوں اور اہل علم حضرات سے بالخصوص متاثر تھے ان میں قاضی عبدالودود صاحب، ڈاکٹر نذیر احمد صاحب، حافظ محمود خاں شیرانی، پرفیسر محمد ابراہیم ڈار صاحب اور پروفیسر نجیب اشرف ندوی صاحب قابل ذکر ہیں۔ علماء میں مولانا ابوالوفا افغانی، مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور حضرت سید ابوالحسن علی ندوی مرحوم کی بہت تعریف کرتے۔ ڈاکٹر صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے حج کی سعادت بھی نصیب فرمائی تھی۔ نماز کے بہت پابند تھے۔ بیماری کی حالت میں بھی بیٹھ کر اور اشاروں سے نماز ادا کرتے۔ وہ اپنی زندگی میں کئی بڑے حادثوں (Accident) سے دوچار ہوئے۔ ان حادثوں کا موصوف نے نہایت صبر و شکر کے ساتھ استقبال کیا، گویا قدرت بھی چاہتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کچھ تو آرام کریں، لیکن اسپتال میں پڑے پڑے بھی وہ اپنے علمی کاموں میں مشغول رہے۔ وہ نام و نمود سے بیزار تھے۔ موت کے وقت بھی ان کا یہ جذبہ کام آیا کہ شہر میں کرفیو تھا۔ گجرات میں کئی دفعہ فسادات ہوئے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ کربہت افسوس کرتے۔ ایک موقع پر مجھے لکھا کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے لکھنا پڑھنا بند کردیا ہو۔ لیکن حالیہ فسادات سے میں اتنا متاثر ہوں کہ دو ماہ ہوگئے نہ کچھ لکھا اور نہ پڑھا۔
عظیم شخصیتیں بھی کمزوریوں سے مبرا نہیں ہوتیں۔ یہ لازمہ بشریت ہے۔ ڈاکٹر صاحب مزاجاً سخت گو اور سخت گیر تھے۔ جو بات نرمی سے کہی جاسکتی تھی اور اس کا حل آسانی سے نکل سکتا تھا اسے بھی وہ سخت لہجے میں کہتے جس کے نتیجے میں ماحول کی فضا مکدر ہوجاتی۔ جو لوگ ان کے مزاج سے واقف تھے وہ تو کچھ برا نہیں مانتے، لیکن نئے لوگ ان سے دور ہوجاتے۔ برخلاف اس کے ان کا دل بالکل پاک تھا۔ فوراً ان کو احساس ہوجاتا اور وہ معافی مانگ لیتے۔
۱۴؍ اکتوبر ۲۰۰۱؁ء کو درگاہ حضرت پیر محمد شاہ ریسرچ سنٹر احمد آباد کے سمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ اس وقت وہ بیماریوں کی وجہ سے بالکل لاغر ہوگئے تھے اور مزاج میں تیزی اور بڑھ گئی تھی۔ سمینار کے بعد جب ہم ان سے رخصت ہورہے تھے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ ہم سے اپنی سخت کلامی پر معافی مانگ رہے تھے۔ اﷲ تعالیٰ مرحوم کی تمام کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے، آمین!! ( جون ۲۰۰۲ء)
قاسمی، مجاہد الاسلام، مولانا
مولانا مجاہد الاسلام قاسمی
افسوس اور سخت افسوس ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر آل انڈیا ملی کونسل اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے بانی اور جنرل سکریٹری، امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے قاضی القضاۃ و نائب امیر شریعت اور ملک و بیرون ملک کے متعدد علمی و تعلیمی اور مذہبی اداروں کے رکن مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب ۴؍ اپریل ۲۰۰۲؁ء کو وفات پاگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
اس قحط الرجال اور پُر آشوب دور میں جب امت مسلمہ پر ہر طرف سے یلغار ہورہی ہے، اس کی مشکلات اور دشواریاں روز بروز بڑھی جاری ہیں اور اس کے مسائل کی پیچیدگی اور الجھاؤ میں برابر اضافہ ہورہا ہے، قاضی صاحب جیسے راہبر و مجاہد کا اسے چھوڑ کر چلا جانا اس کی کتنی بڑی بدنصیبی ہے ؂
آج شبیر پر کیا عالم تنہائی ہے ظلم کی چاند پہ زہرا کے گھٹا چھائی ہے
ابھی ان کی عمر زیادہ نہیں تھی اور طوفان حوادث میں گھری ہوئی ان کی قوم و ملت کو ان کی سخت ضرورت تھی، مگر مشیتِ ایزدی میں کس کو دخل ہے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ہولناک سناٹے میں جب نہ کہیں بوئے دم ساز اور کوئی آواز آتی ہے کون حریف مئے مردافگن عشق ہوگا۔
وہ ضلع دربھنگہ (بہار) کے قصبہ جالہ میں ۱۹۳۶؁ء میں پیدا ہوئے تھے، اسلامی عہد میں ان کا خاندان عہدۂ قضاپر فائز تھا۔ ان کے والد بزرگوار مولانا عبدالاحد صاحب ممتاز عالمِ دین اور شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ارشد تلامذہ میں تھے، قاضی صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، اپنے ضلع کے بعض مدارس میں عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے دارالعلوم مؤ میں داخلہ لیا، ۱۹۵۱؁ء میں دارالعلوم دیوبند پہنچے اور اس وقت کے اکابر علما سے کسب فیض کیا، ۱۹۵۵؁ء میں وہاں سے فراغت کے بعد جامعہ رحمانی مونگیر میں درس و تدریس کی خدمت انجام دینے لگے۔
مولانا منت اﷲ صاحب نے ہونہار دیکھ کر انہیں اپنی تربیت میں لے لیا اور ۱۹۶۲؁ء میں پھلواری شریف لے آئے اور امارت شرعیہ کے کاموں میں لگا دیا۔ یہاں ان کی صلاحیتوں کے جوہر خوب چمکے اور انہوں نے اس کے پلیٹ فارم سے خدمتِ خلق، اصلاحِ معاشرت، مسلمانوں کے تحفظ وغیرہ کے گوناگوں قومی و ملی کام انجام دئے اور اپنی زندگی دین و علم کی اشاعت اور قومی و ملی و اصلاحی خدمت کے لیے وقف کردی، پہلے شعبۂ قضا کا نظام سنبھالا اور اسے بڑی وسعت و ترقی دی، مختلف جگہوں پر دارالقضا قائم کئے، گاؤں گاؤں کا دورہ کر کے مکاتب کے جال بچھائے، باہمی نزاعات کا تصفیہ کیا، فساد زدہ علاقوں میں جا کر ریلیف کا کام کیا، مظلوموں اور آفت رسیدہ لوگوں کی مالی، اخلاقی، سیاسی اور قانونی مدد کی، امارت سے ان کا تعلق مدۃ العمر رہا اور قاضی القضاء اور نائب امیر شریعت جیسے اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔
قاضی صاحب کی تحریک سے مولانا سجاد اسپتال امارت کے زیر نگرانی قائم ہوا۔ جس سے غریب لوگوں کو طبی سہولتیں میسر آرہی ہیں۔ انہوں نے قضا کے نظام کو بہتر اور موثر بنانے اور مناسب افراد تیار کرنے کے لیے امارت شرعیہ کے زیر اہتمام ’’المعھد العالی لتدریب القضا و الافتاء‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جو اب تربیتِ قضاد و افتاکے لئے پورے ملک میں مشہور ہے۔
اسی سلسلے میں اسلامک فقہ اکیڈمی کی تشکیل کا خیال بھی ان کے ذہن میں آیا جس کے بہت اعلیٰ پیمانے پر نہایت کامیاب بیسیوں سمینار ان کی سرکردگی میں ہوئے جن کے کئی جلدوں پر مشتمل مجلات شائع ہوئے۔ قاضی صاحب نے اس کے ذریعہ مدارس وغیرہ میں فقہ و افتا کی خدمت پر مامور علما ء و مفتیان کو ان کے زاویوں سے نکال کر نئے پیش آمدہ مسائل کا حل ڈھونڈنے اور فقہی مقالات لکھنے پر آمادہ کیا۔ مدارس کے ہونہار طلبہ و فضلاء کو بھی اس طرح کے کام کرنے کی امنگ بخشی، اس طرح علمی و فقہی مباحث پر لکھنے والے نوجوانوں کی ایک جماعت تیار کردی۔
قاضی صاحب کے خاص مربی مولانا منت اﷲ رحمانی کی کوششوں سے ۱۹۷۲؁ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسا باوقار ادارہ وجود میں آیا، جس کی تشکیل کے وقت ہی سے قاضی صاحب ان کے دست راست کی حیثیت سے اس کی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لیتے رہے، وہ شروع سے بورڈ کے تاسیسی اور مجلس عاملہ کے رکن رہے، شاہ بانو کیس کا معاملہ گرم ہوا تو مسلم پرسنل لابورڈ کے نقطہ نظر کی وضاحت اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے انہوں نے ملک کا گوشہ گوشہ چھان ڈالا مسلم پرسنل لا کے تمام گوشوں اور نکات پر ان کی جیسی نظر کسی کی نہ تھی اور قدرت نے گویائی اور تعبیر و بیان کا جو ملکہ انہیں عطا کیا تھا وہ بھی دوسروں میں مفقود تھا، اس لیے بورڈ کے پہلے صدر مولانا قاری محمد طیب صاحب اور دوسرے صدر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے زمانے میں وہ بورڈ کے وکیل اور سفیر بن کر اس کی نہایت کامیاب ترجمانی کرتے رہے۔ قاضی صاحب کی قابل رشک صلاحیتوں اور شاندار خدمات ہی کی بنا پر بورڈ کے تیسرے صدر کی حیثیت سے ان کا انتخاب عمل میں آیا۔ لیکن انہیں کم موقع ملا اور وہ مسلسل موذی امراض میں مبتلا رہے۔ تاہم بورڈ کو موثر اور فعال بنانے پر پوری توجہ کی اس کے مرکزی دفتر کو اپ ٹوڈیٹ بنایا اور عصری سہولتوں سے آراستہ کیا، اس کی لائبریری قائم کی، مسلم پرسنل لا سے متعلق فقہی وقانونی کتابیں اور دستاویز جمع کئے، فقہی موسوعہ شائع کرایا۔
۱۹۶۵؁ء میں ڈاکٹر سید محمودؒ کی مساعی جمیلہ سے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آیا جس کی اٹھان بہت شاندار تھی، مگر ڈاکٹر صاحب کی زندگی ہی میں وہ اختلافات و تعطل کا شکار ہوگئی اور اب تو اس کے ٹکڑے بھی ہوگئے ہیں۔ قاضی صاحب جیسے فعال اور متحرک شخص نے یہ صورتِ حال دیکھ کر ۱۹۹۲؁ء میں آل انڈیا ملی کونسل قائم کی، کونسل کی اصل توجہ ملی اتحاد و اشتراک اور مسلمانوں کے انتشار اور پراگندگی دور کرنے کی جانب رہی، اس نے دینی و عصری تعلیم اور سیاسی مذہبی مسائل کو بھی اپنے ہاتھ میں لیا مگر ملی کونسل کو مسلم مجلس مشاورت جیسا مشترکہ اور باوقار پلیٹ فارم بنانے میں کامیابی نہیں ہوئی۔
قاضی صاحب دینی تعلیم کا معیار بہتر بنانے، اس کے نظام تعلیم و تربیت کی اصلاح و ترقی، اور اس کے تحفظ اور انہیں حکومت کی یورش سے بچانے کے لیے برابر فکر مند رہتے تھے، بہار و اڑیسہ کے متعدد مدارس کے وہ سرپرست تھے۔ مولانا منت اﷲ رحمانی کی سربراہی میں غیر سرکاری مدارس کے نصاب و نظام تعلیم میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور ان کا معیار بلند کرنے کے لیے آزاد دینی مدارس بورڈ قائم ہوا قاضی صاحب نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ان کی کوشش سے مدارس اسلامیہ کونسل کا قیام عمل میں آیا، وہ وفاق المدارس الاسلامیہ کے صدر بھی تھے۔
جدید اور عصری تعلیم کے فروغ کی جانب بھی ان کی توجہ رہی، اپنے وطن جالہ میں ایک ایجوکیشنل کیمپس قائم کیا جس میں پرائمری اسکول سے ڈگری کالج اور ٹیچرس ٹریننگ کالج تک ہر سطح کی تعلیم کا انتظام کرنا چاہیے تھے، اس وقت ایک اقامتی انگلش میڈیم ہائی اسکول وہاں چل رہاہے، امارت شرعیہ کے زیر انتظام اس کے مرکز اور بعض دوسرے اضلاع میں جو کئی ٹکنیکل ادارے قائم ہوئے ان کے قیام اور ان کے لیے وسائل و ذرائع کی فراہمی میں انہوں نے بڑی دلچسپی لی۔ ان میں خطابت اور تقریر کا ملکہ خداداد تھا، اس میں وہ دوسروں سے علانیہ ممتاز تھے، وہ اپنی موثر اور دل نشین تقریروں سے مجمع کا رخ موڑدیتے تھے، اگر انتشار کی کیفیت ہوتی یا مذاکروں اور مباحثوں میں اختلاف ناگواری کی صورت اختیار کرلیتا تو وہ اپنی خداداد صلاحیت سے اسے صحیح رُخ پر لانے میں کامیاب ہوجاتے، قاضی صاحب کی تقریروں میں بڑی بے ساختگی روانی اور سراپا آمد ہوتی، آورد اور تصنع کا نام بھی نہ ہوتا، جو بات کہتے حسب حال اور حسبِ موقع ہوتی، الفاظ کے استعمال اور موضوع کے انتخاب میں مجمع اور مخاطب کی رعایت ملحوظ رکھتے، ان کی تڑپ، درد مندی اور سوز و گداز کی بنا پر ان کی تقریریں جادو کا کام کرتی تھیں۔
فقہ و افتا کے ماہر اور دین و شریعت کے مزاج شناس تھے لیکن دوسرے تمام علوم دینیہ بھی ان کی دست رس میں تھے اور سب پر نہایت خود اعتمادی سے گفتگو کرتے تھے، انہوں نے ہر علم و فن کی تحصیل دیدہ ریزی سے کی تھی، ان کا مطالعہ وسیع اور علم مستحضر تھا، عام علماء و مدرسین کی طرح وہ صرف درسی اور مذہبی کتابوں ہی سے اشتغال نہیں رکھتے تھے بلکہ جدید خیالات و رجحانات سے بھی باخبر تھے۔ اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات سے واقف تھے، اسلامی تاریخ کو انگریز اور ہندو مورخین نے مجروح کرنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ ان کی نگاہ میں تھیں اور موقع بہ موقع ان کا جواب بھی دیتے تھے۔
اسلام کی طرح دوسرے مذاہب و افکار اور نظریات کا بھی انہوں نے مطالعہ کیا تھا انگریزی زبان اور جدید علوم سے بھی واقف تھے، جب ان پر گفتگو کرتے تو ان علوم کے ماہرین کو حیرت زدہ کردیتے، پریس کانفرنس میں اپنی ذہانت، حاضر جوابی، منطقیانہ استدلال اور تجزیہ و تنقیح سے صحافیوں کو عاجز کردیتے، بین الاقوامی حالات و مسائل، سیاسی تبدیلیوں اور مدوجزر پر گہری نظر رکھتے تھے۔ قاضی صاحب کا اصل ذوق علمی و تحقیقی تھا، تصنیف و تالیف کی صلاحیت ان میں بدرجۂ اتم تھی مگر ان کے کاموں کا دائرہ بہت وسیع اور پھیلا ہوا تھا، بہ کثرت سفر کرنا پڑتا تھا، اس لیے جم کر اور یک سوئی کے ساتھ انہیں تصنیف و تالیف کا موقع نہیں ملتا تھا، تاہم انہوں نے متعدد عالمانہ تصانیف اور محققانہ حواشی اردو اور عربی میں لکھ کر اس میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے بعض فتاویٰ کے مجموعوں پر تعلیقات بھی قلم بند کی ہیں۔ ان کی ادارت میں نکلنے والا سہ ماہی ’’بحث و نظر‘‘ ان کی تحریری صلاحیت فقہی بصیرت اور علمی دقتِ نظر کا غماز ہے۔
قاضی صاحب بڑے اعتدال پسند تھے، وہ تصادم اور ٹکراؤ سے بچ کر اتحاد و اشتراک کا راستہ اختیار کرتے تھے وہ مختلف الخیال افراد اور جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے عادی تھے، ان میں سب کو جوڑے رکھنے اور مطمئن کردینے کی صلاحیت تھی، کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے وہ جماعتی عصبیت اور تنگ نظری سے دور رہتے تھے ان میں یہ وسعت نظر تھی کہ حنفی مذہب کے جو مسائل اس زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہیں یا ناقابل عمل ہوگئے ہیں، ان میں دوسرے مذاہب کو اختیار کرنے میں قباحت نہیں محسوس کرتے تھے، وہ نہ تقلید جامد کے قائل تھے اور نہ اجتہاد کا دروازہ مسدود سمجھتے تھے۔ مختلف فیہ اور نئے پیش آمدہ مسائل میں اہل علم اصحاب افتا سے مشورے اور تبادلہ خیال کے بعد اجتماعی رائے سے فتویٰ دیتے تھے، جس پر بعض جامد قسم کے لوگ معترض بھی ہوتے تھے، مگر عام طور سے ان کی اس فکری و ذہنی کشادگی کو پسند کیا جاتا تھا اور موافق و مخالف ہر ایک ان کی علمی و فقہی بصیرت کا اعتراف کرتا تھا۔ قاضی صاحب نے اپنے مجتہدانہ ذوق سے فقہ اکیڈمی تشکیل کر کے فقہی جمود کو توڑنے کی جو کوشش کی وہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ گزشتہ برس انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیواسٹڈیز دہلی نے تفقہ و اجتہاد میں ان کے کمال کا اعتراف کر کے انہیں شاہ ولی اﷲ ایوارڈ دیا تھا۔
قاضی صاحب کی ایک نمایاں خوبی ان کی معاملہ فہمی ہے وہ بہت جلد مسائل کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے، اس کی وجہ سے انہیں استنباط و استخراج اور نتائج اخذ کرنے میں بڑی آسانی ہوتی تھی، علمی و فقہی مسائل کی طرح تجارتی اور معاشرتی نیز ہر قسم کے معاملات کی گہرائی تک پہنچ کر ان میں اختلاف و نزاع کا تصفیہ کردیتے تھے۔
قاضی صاحب کی علمی عظمت، انتظامی صلاحیت اور فقہی تبحر کی شہرت ملک و بیرون ملک میں تھی مختلف اداروں اور تنظیموں سے ان کا تعلق تھا، متعدد کمیٹیوں اور اداروں کے وہ ممبر تھے، ہندوستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ وہ پاکستان، بنگلہ دیش، ملیشیا، عرب امارات، مصر، سعودی عرب، امریکہ، برطانیہ اور جنوبی افریقہ وغیرہ کے اجتماعات میں تقریریں کرتے اور کانفرنسوں میں مقالات پڑھتے۔
قاضی صاحب بڑے متواضع اور خاکسار تھے، ان میں کبر و نخوت اور عجب و پندارنہ تھا، انہوں نے درد مند دل پایا تھا اور وہ بڑے نرم گفتار اور نرم دل تھے، ان کی زندگی دینی و علمی کاموں کے لیے وقف تھی، ہر شخص کا کام کرنے کے لیے تیار رہتے، سب سے گرم جوشی اور خندہ پیشانی سے ملتے، میں نے کبھی انہیں غصے اور طیش میں یا کسی پر برہم ہوتے نہیں دیکھا، ان پر نکتہ چینی کی جاتی تو اس سے ان کی پیشانی پر شکن نہ پڑتی، اعتراض و اختلاف سے وہ نہ گھبراتے تھے اور نہ آرزدہ ہوتے تھے۔ غرض ایک میر کارواں کے لیے جو رختِ سفر درکار ہوتا ہے یعنی نگہ بلند، سخن دل نواز اور جان پر سوز، وہ ان کے پاس مہیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور مسلمانوں کو ان کا بدل نصیب کرے۔ آمین!! (ضیاء الدین اصلاحی، مئی ۲۰۰۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...