Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا مجاہد الاسلام قاسمی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا مجاہد الاسلام قاسمی
ARI Id

1676046599977_54338437

Access

Open/Free Access

Pages

644

مولانا مجاہد الاسلام قاسمی
افسوس اور سخت افسوس ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر آل انڈیا ملی کونسل اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے بانی اور جنرل سکریٹری، امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے قاضی القضاۃ و نائب امیر شریعت اور ملک و بیرون ملک کے متعدد علمی و تعلیمی اور مذہبی اداروں کے رکن مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب ۴؍ اپریل ۲۰۰۲؁ء کو وفات پاگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
اس قحط الرجال اور پُر آشوب دور میں جب امت مسلمہ پر ہر طرف سے یلغار ہورہی ہے، اس کی مشکلات اور دشواریاں روز بروز بڑھی جاری ہیں اور اس کے مسائل کی پیچیدگی اور الجھاؤ میں برابر اضافہ ہورہا ہے، قاضی صاحب جیسے راہبر و مجاہد کا اسے چھوڑ کر چلا جانا اس کی کتنی بڑی بدنصیبی ہے ؂
آج شبیر پر کیا عالم تنہائی ہے ظلم کی چاند پہ زہرا کے گھٹا چھائی ہے
ابھی ان کی عمر زیادہ نہیں تھی اور طوفان حوادث میں گھری ہوئی ان کی قوم و ملت کو ان کی سخت ضرورت تھی، مگر مشیتِ ایزدی میں کس کو دخل ہے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ہولناک سناٹے میں جب نہ کہیں بوئے دم ساز اور کوئی آواز آتی ہے کون حریف مئے مردافگن عشق ہوگا۔
وہ ضلع دربھنگہ (بہار) کے قصبہ جالہ میں ۱۹۳۶؁ء میں پیدا ہوئے تھے، اسلامی عہد میں ان کا خاندان عہدۂ قضاپر فائز تھا۔ ان کے والد بزرگوار مولانا عبدالاحد صاحب ممتاز عالمِ دین اور شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ارشد تلامذہ میں تھے، قاضی صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، اپنے ضلع کے بعض مدارس میں عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے دارالعلوم مؤ میں داخلہ لیا، ۱۹۵۱؁ء میں دارالعلوم دیوبند پہنچے اور اس وقت کے اکابر علما سے کسب فیض کیا، ۱۹۵۵؁ء میں وہاں سے فراغت کے بعد جامعہ رحمانی مونگیر میں درس و تدریس کی خدمت انجام دینے لگے۔
مولانا منت اﷲ صاحب نے ہونہار دیکھ کر انہیں اپنی تربیت میں لے لیا اور ۱۹۶۲؁ء میں پھلواری شریف لے آئے اور امارت شرعیہ کے کاموں میں لگا دیا۔ یہاں ان کی صلاحیتوں کے جوہر خوب چمکے اور انہوں نے اس کے پلیٹ فارم سے خدمتِ خلق، اصلاحِ معاشرت، مسلمانوں کے تحفظ وغیرہ کے گوناگوں قومی و ملی کام انجام دئے اور اپنی زندگی دین و علم کی اشاعت اور قومی و ملی و اصلاحی خدمت کے لیے وقف کردی، پہلے شعبۂ قضا کا نظام سنبھالا اور اسے بڑی وسعت و ترقی دی، مختلف جگہوں پر دارالقضا قائم کئے، گاؤں گاؤں کا دورہ کر کے مکاتب کے جال بچھائے، باہمی نزاعات کا تصفیہ کیا، فساد زدہ علاقوں میں جا کر ریلیف کا کام کیا، مظلوموں اور آفت رسیدہ لوگوں کی مالی، اخلاقی، سیاسی اور قانونی مدد کی، امارت سے ان کا تعلق مدۃ العمر رہا اور قاضی القضاء اور نائب امیر شریعت جیسے اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔
قاضی صاحب کی تحریک سے مولانا سجاد اسپتال امارت کے زیر نگرانی قائم ہوا۔ جس سے غریب لوگوں کو طبی سہولتیں میسر آرہی ہیں۔ انہوں نے قضا کے نظام کو بہتر اور موثر بنانے اور مناسب افراد تیار کرنے کے لیے امارت شرعیہ کے زیر اہتمام ’’المعھد العالی لتدریب القضا و الافتاء‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جو اب تربیتِ قضاد و افتاکے لئے پورے ملک میں مشہور ہے۔
اسی سلسلے میں اسلامک فقہ اکیڈمی کی تشکیل کا خیال بھی ان کے ذہن میں آیا جس کے بہت اعلیٰ پیمانے پر نہایت کامیاب بیسیوں سمینار ان کی سرکردگی میں ہوئے جن کے کئی جلدوں پر مشتمل مجلات شائع ہوئے۔ قاضی صاحب نے اس کے ذریعہ مدارس وغیرہ میں فقہ و افتا کی خدمت پر مامور علما ء و مفتیان کو ان کے زاویوں سے نکال کر نئے پیش آمدہ مسائل کا حل ڈھونڈنے اور فقہی مقالات لکھنے پر آمادہ کیا۔ مدارس کے ہونہار طلبہ و فضلاء کو بھی اس طرح کے کام کرنے کی امنگ بخشی، اس طرح علمی و فقہی مباحث پر لکھنے والے نوجوانوں کی ایک جماعت تیار کردی۔
قاضی صاحب کے خاص مربی مولانا منت اﷲ رحمانی کی کوششوں سے ۱۹۷۲؁ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسا باوقار ادارہ وجود میں آیا، جس کی تشکیل کے وقت ہی سے قاضی صاحب ان کے دست راست کی حیثیت سے اس کی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لیتے رہے، وہ شروع سے بورڈ کے تاسیسی اور مجلس عاملہ کے رکن رہے، شاہ بانو کیس کا معاملہ گرم ہوا تو مسلم پرسنل لابورڈ کے نقطہ نظر کی وضاحت اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے انہوں نے ملک کا گوشہ گوشہ چھان ڈالا مسلم پرسنل لا کے تمام گوشوں اور نکات پر ان کی جیسی نظر کسی کی نہ تھی اور قدرت نے گویائی اور تعبیر و بیان کا جو ملکہ انہیں عطا کیا تھا وہ بھی دوسروں میں مفقود تھا، اس لیے بورڈ کے پہلے صدر مولانا قاری محمد طیب صاحب اور دوسرے صدر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے زمانے میں وہ بورڈ کے وکیل اور سفیر بن کر اس کی نہایت کامیاب ترجمانی کرتے رہے۔ قاضی صاحب کی قابل رشک صلاحیتوں اور شاندار خدمات ہی کی بنا پر بورڈ کے تیسرے صدر کی حیثیت سے ان کا انتخاب عمل میں آیا۔ لیکن انہیں کم موقع ملا اور وہ مسلسل موذی امراض میں مبتلا رہے۔ تاہم بورڈ کو موثر اور فعال بنانے پر پوری توجہ کی اس کے مرکزی دفتر کو اپ ٹوڈیٹ بنایا اور عصری سہولتوں سے آراستہ کیا، اس کی لائبریری قائم کی، مسلم پرسنل لا سے متعلق فقہی وقانونی کتابیں اور دستاویز جمع کئے، فقہی موسوعہ شائع کرایا۔
۱۹۶۵؁ء میں ڈاکٹر سید محمودؒ کی مساعی جمیلہ سے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آیا جس کی اٹھان بہت شاندار تھی، مگر ڈاکٹر صاحب کی زندگی ہی میں وہ اختلافات و تعطل کا شکار ہوگئی اور اب تو اس کے ٹکڑے بھی ہوگئے ہیں۔ قاضی صاحب جیسے فعال اور متحرک شخص نے یہ صورتِ حال دیکھ کر ۱۹۹۲؁ء میں آل انڈیا ملی کونسل قائم کی، کونسل کی اصل توجہ ملی اتحاد و اشتراک اور مسلمانوں کے انتشار اور پراگندگی دور کرنے کی جانب رہی، اس نے دینی و عصری تعلیم اور سیاسی مذہبی مسائل کو بھی اپنے ہاتھ میں لیا مگر ملی کونسل کو مسلم مجلس مشاورت جیسا مشترکہ اور باوقار پلیٹ فارم بنانے میں کامیابی نہیں ہوئی۔
قاضی صاحب دینی تعلیم کا معیار بہتر بنانے، اس کے نظام تعلیم و تربیت کی اصلاح و ترقی، اور اس کے تحفظ اور انہیں حکومت کی یورش سے بچانے کے لیے برابر فکر مند رہتے تھے، بہار و اڑیسہ کے متعدد مدارس کے وہ سرپرست تھے۔ مولانا منت اﷲ رحمانی کی سربراہی میں غیر سرکاری مدارس کے نصاب و نظام تعلیم میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور ان کا معیار بلند کرنے کے لیے آزاد دینی مدارس بورڈ قائم ہوا قاضی صاحب نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ان کی کوشش سے مدارس اسلامیہ کونسل کا قیام عمل میں آیا، وہ وفاق المدارس الاسلامیہ کے صدر بھی تھے۔
جدید اور عصری تعلیم کے فروغ کی جانب بھی ان کی توجہ رہی، اپنے وطن جالہ میں ایک ایجوکیشنل کیمپس قائم کیا جس میں پرائمری اسکول سے ڈگری کالج اور ٹیچرس ٹریننگ کالج تک ہر سطح کی تعلیم کا انتظام کرنا چاہیے تھے، اس وقت ایک اقامتی انگلش میڈیم ہائی اسکول وہاں چل رہاہے، امارت شرعیہ کے زیر انتظام اس کے مرکز اور بعض دوسرے اضلاع میں جو کئی ٹکنیکل ادارے قائم ہوئے ان کے قیام اور ان کے لیے وسائل و ذرائع کی فراہمی میں انہوں نے بڑی دلچسپی لی۔ ان میں خطابت اور تقریر کا ملکہ خداداد تھا، اس میں وہ دوسروں سے علانیہ ممتاز تھے، وہ اپنی موثر اور دل نشین تقریروں سے مجمع کا رخ موڑدیتے تھے، اگر انتشار کی کیفیت ہوتی یا مذاکروں اور مباحثوں میں اختلاف ناگواری کی صورت اختیار کرلیتا تو وہ اپنی خداداد صلاحیت سے اسے صحیح رُخ پر لانے میں کامیاب ہوجاتے، قاضی صاحب کی تقریروں میں بڑی بے ساختگی روانی اور سراپا آمد ہوتی، آورد اور تصنع کا نام بھی نہ ہوتا، جو بات کہتے حسب حال اور حسبِ موقع ہوتی، الفاظ کے استعمال اور موضوع کے انتخاب میں مجمع اور مخاطب کی رعایت ملحوظ رکھتے، ان کی تڑپ، درد مندی اور سوز و گداز کی بنا پر ان کی تقریریں جادو کا کام کرتی تھیں۔
فقہ و افتا کے ماہر اور دین و شریعت کے مزاج شناس تھے لیکن دوسرے تمام علوم دینیہ بھی ان کی دست رس میں تھے اور سب پر نہایت خود اعتمادی سے گفتگو کرتے تھے، انہوں نے ہر علم و فن کی تحصیل دیدہ ریزی سے کی تھی، ان کا مطالعہ وسیع اور علم مستحضر تھا، عام علماء و مدرسین کی طرح وہ صرف درسی اور مذہبی کتابوں ہی سے اشتغال نہیں رکھتے تھے بلکہ جدید خیالات و رجحانات سے بھی باخبر تھے۔ اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات سے واقف تھے، اسلامی تاریخ کو انگریز اور ہندو مورخین نے مجروح کرنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ ان کی نگاہ میں تھیں اور موقع بہ موقع ان کا جواب بھی دیتے تھے۔
اسلام کی طرح دوسرے مذاہب و افکار اور نظریات کا بھی انہوں نے مطالعہ کیا تھا انگریزی زبان اور جدید علوم سے بھی واقف تھے، جب ان پر گفتگو کرتے تو ان علوم کے ماہرین کو حیرت زدہ کردیتے، پریس کانفرنس میں اپنی ذہانت، حاضر جوابی، منطقیانہ استدلال اور تجزیہ و تنقیح سے صحافیوں کو عاجز کردیتے، بین الاقوامی حالات و مسائل، سیاسی تبدیلیوں اور مدوجزر پر گہری نظر رکھتے تھے۔ قاضی صاحب کا اصل ذوق علمی و تحقیقی تھا، تصنیف و تالیف کی صلاحیت ان میں بدرجۂ اتم تھی مگر ان کے کاموں کا دائرہ بہت وسیع اور پھیلا ہوا تھا، بہ کثرت سفر کرنا پڑتا تھا، اس لیے جم کر اور یک سوئی کے ساتھ انہیں تصنیف و تالیف کا موقع نہیں ملتا تھا، تاہم انہوں نے متعدد عالمانہ تصانیف اور محققانہ حواشی اردو اور عربی میں لکھ کر اس میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے بعض فتاویٰ کے مجموعوں پر تعلیقات بھی قلم بند کی ہیں۔ ان کی ادارت میں نکلنے والا سہ ماہی ’’بحث و نظر‘‘ ان کی تحریری صلاحیت فقہی بصیرت اور علمی دقتِ نظر کا غماز ہے۔
قاضی صاحب بڑے اعتدال پسند تھے، وہ تصادم اور ٹکراؤ سے بچ کر اتحاد و اشتراک کا راستہ اختیار کرتے تھے وہ مختلف الخیال افراد اور جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے عادی تھے، ان میں سب کو جوڑے رکھنے اور مطمئن کردینے کی صلاحیت تھی، کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے وہ جماعتی عصبیت اور تنگ نظری سے دور رہتے تھے ان میں یہ وسعت نظر تھی کہ حنفی مذہب کے جو مسائل اس زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہیں یا ناقابل عمل ہوگئے ہیں، ان میں دوسرے مذاہب کو اختیار کرنے میں قباحت نہیں محسوس کرتے تھے، وہ نہ تقلید جامد کے قائل تھے اور نہ اجتہاد کا دروازہ مسدود سمجھتے تھے۔ مختلف فیہ اور نئے پیش آمدہ مسائل میں اہل علم اصحاب افتا سے مشورے اور تبادلہ خیال کے بعد اجتماعی رائے سے فتویٰ دیتے تھے، جس پر بعض جامد قسم کے لوگ معترض بھی ہوتے تھے، مگر عام طور سے ان کی اس فکری و ذہنی کشادگی کو پسند کیا جاتا تھا اور موافق و مخالف ہر ایک ان کی علمی و فقہی بصیرت کا اعتراف کرتا تھا۔ قاضی صاحب نے اپنے مجتہدانہ ذوق سے فقہ اکیڈمی تشکیل کر کے فقہی جمود کو توڑنے کی جو کوشش کی وہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ گزشتہ برس انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیواسٹڈیز دہلی نے تفقہ و اجتہاد میں ان کے کمال کا اعتراف کر کے انہیں شاہ ولی اﷲ ایوارڈ دیا تھا۔
قاضی صاحب کی ایک نمایاں خوبی ان کی معاملہ فہمی ہے وہ بہت جلد مسائل کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے، اس کی وجہ سے انہیں استنباط و استخراج اور نتائج اخذ کرنے میں بڑی آسانی ہوتی تھی، علمی و فقہی مسائل کی طرح تجارتی اور معاشرتی نیز ہر قسم کے معاملات کی گہرائی تک پہنچ کر ان میں اختلاف و نزاع کا تصفیہ کردیتے تھے۔
قاضی صاحب کی علمی عظمت، انتظامی صلاحیت اور فقہی تبحر کی شہرت ملک و بیرون ملک میں تھی مختلف اداروں اور تنظیموں سے ان کا تعلق تھا، متعدد کمیٹیوں اور اداروں کے وہ ممبر تھے، ہندوستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ وہ پاکستان، بنگلہ دیش، ملیشیا، عرب امارات، مصر، سعودی عرب، امریکہ، برطانیہ اور جنوبی افریقہ وغیرہ کے اجتماعات میں تقریریں کرتے اور کانفرنسوں میں مقالات پڑھتے۔
قاضی صاحب بڑے متواضع اور خاکسار تھے، ان میں کبر و نخوت اور عجب و پندارنہ تھا، انہوں نے درد مند دل پایا تھا اور وہ بڑے نرم گفتار اور نرم دل تھے، ان کی زندگی دینی و علمی کاموں کے لیے وقف تھی، ہر شخص کا کام کرنے کے لیے تیار رہتے، سب سے گرم جوشی اور خندہ پیشانی سے ملتے، میں نے کبھی انہیں غصے اور طیش میں یا کسی پر برہم ہوتے نہیں دیکھا، ان پر نکتہ چینی کی جاتی تو اس سے ان کی پیشانی پر شکن نہ پڑتی، اعتراض و اختلاف سے وہ نہ گھبراتے تھے اور نہ آرزدہ ہوتے تھے۔ غرض ایک میر کارواں کے لیے جو رختِ سفر درکار ہوتا ہے یعنی نگہ بلند، سخن دل نواز اور جان پر سوز، وہ ان کے پاس مہیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور مسلمانوں کو ان کا بدل نصیب کرے۔ آمین!! (’’ض‘‘، مئی ۲۰۰۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...