Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا شہاب الدین ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا شہاب الدین ندوی
ARI Id

1676046599977_54338439

Access

Open/Free Access

Pages

646

مولانا شہاب الدین ندوی
قارئین معارف کو اس اطلاع سے نہایت رنج ہوگا کہ ان کے محبوب اور معارف کے خاص مضمون نگار مولانا شہاب الدین ندوی ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۲؁ء کو سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ کئی برس سے موذی امراض میں مبتلا تھے اور چند ماہ سے موت و حیات کی کشمکش میں گرفتار تھے جس کی تفصیل مجھے ۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۱؁ء کو اپنے والا نامہ میں اس طرح لکھی تھی۔
’’طبیعت بہت زیادہ خراب اور نڈھال رہتی ہے، کئی کئی دن بستر پر پڑا رہتا ہوں، علاج و معالجے سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے کئی قسم کے امراض میں مبتلا ہوں اور ڈاکٹر ان کی تشخیص نہیں کرپارہے ہیں، ایک بیماری ذرا دبتی ہے تو دوسری ابھر کر سامنے آجاتی ہے ان جان لیوا بیماریوں سے تنگ آچکا ہوں اور مزید طرفہ یہ کہ اب آنکھوں کی بینائی بھی مسلسل ضائع ہوتی جارہی ہے۔ داہنی آنکھ کا آپریشن ہوا مگر بینائی بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ اب میں صرف چند دن کا مہمان ہوں لیکن طبیعت جب کبھی ذرا سنبھلتی ہے تو جم کر لکھنے اور اپنے مسودات صاف کرنے بیٹھ جاتا ہوں‘‘۔
آخر وہی ہوا، خط لکھنے کے ساڑھے تین مہینے بعد وقت موعود آگیا اور مولانا کی ساری دینی، علمی اور تحقیقی سرگرمیاں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔
مولانا کا وطن بنگلور تھا۔ میٹرک کی تعلیم یہیں ہوئی اور دینی تعلیم کی تکمیل دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ میں کی۔ طالب علمی ہی کے زمانے سے ان کی طبیعت کا رجحان قرآنی علوم اور سائنس کی جانب ہوگیا تھا اور وہ ان میں تطبیق اور ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے تھے اسی لیے لکھنؤ کے بعض کالجوں کے سائنس کے اساتذہ سے ان کا ربط و ضبط ہوگیا تھا، دارالعلوم سے فراغت کے بعد وہ اپنے وطن واپس آئے تو دوسروں کے سہارے اور سرپرستی کے بغیر تنہا اپنے بل بوتے پر بڑی خاموشی مگر صبر و استقلال سے اپنی دنیا آپ تعمیر کرنے میں مصروف ہوگئے، جس کے لیے اپنی ساری دلچسپیاں اور لذتیں ترک کی، مجلس آرائی اور دوستوں کی صحبتوں کا لطف چھوڑا، جلسوں اور سمیناروں کی واہ واہ سے کان بند کئے، شادیوں اور جنازوں میں جانا بند کیا، تب جا کر انہوں نے علم و ہنر کے تازہ جوہر چمکائے میری ان کی پہلی ملاقات ۱۹۷۵؁ء میں دارالعلوم ندوۃالعلماء کے پچاسی سالہ جشن میں ہوئی تھی، اس وقت میں نے ان کو جس حال میں دیکھا تھا، اس کے بعد ہی سے یہ خیال ہوگیا تھا کہ کسی عظیم و جلیل مقصد کے لیے بڑے ایثار و قربانی سے کام لینا پڑتا ہے، بڑی محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے، اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹنا پڑتا ہے، راتوں کی نیند حرام کرنی پڑتی ہے، دن کے ہنگاموں سے بے تعلق رہنا پڑتا ہے، شب و روز مطالعے میں غرق رہنا پڑتا ہے، پڑھنے لکھنے میں صحت اور آنکھوں کی بینائی کھونی پڑتی ہے، مولانا کو یہ سب کچھ کر کے ہی ان کا گوہر مراد ہاتھ آیا تھا اور فرقانیہ اکیڈمی قائم ہوئی تھی جس سے ان کی کئی اور درجن کتابیں شائع ہوئیں جن کی منفرد نوعیت کی بنا پر اہل علم کو ان کالوہا ماننا پڑا تھا ؂
جل گیا، خاک ہوا، خاک بھی برباد ہوئی
تب کہیں نام چلا عشق میں پروانے کا
مولانا میں بڑی انرجی اور غیر معمولی صلاحیت تھی، برابر مضامین نوکے انبار لگاتے رہتے تھے، وہ مجھ سے اس کے خواہش مند رہتے تھے کہ معارف کا کوئی شمارہ ان کے مضمون سے خالی نہ رہے، اگر کبھی ناغہ لمبا ہوجاتا تو شکایت کے خطوط آنے لگتے تھے، ان کو اس کی بڑی تکلیف تھی کہ ان کے مضامین اور کتابوں کا کوئی قدردان نہیں، کوئی بھی بہ طور ہمت افزائی دو بول تک بولنے کا روادار نہیں۔ ان کے جس والانامہ کا ذکر پہلے آیا تھا، اس میں بڑے کرب سے علماء کے بارے میں تحریر فرمایا تھا:
’’مجھے سب سے زیادہ شکایت علماء سے ہے جو قرآنی حقائق و معارف کو اجاگر کرنے کے بجائے انہیں دبانے اور نوع انسانی کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں مدرسے چلانے کے لئے صرف چندے کی فکر رہتی ہے اور انہوں نے قرآنی تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو خون کے آنسو رلانے والی ہے آج اگر یہ امت متحرک ہوتی تو اس کی زبوں حالی کا یہ وقت کبھی نہ آتا، اسے ہماری ملت کا ایک المیہ نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے‘‘۔
ان کی یہ شکایت بے جا نہیں تھی، گو قوم نے معارف میں چھپنے والے ان کے مضامین کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں کی تاہم ان کی تصنیفات کو قبولیت حاصل ہوئی اور وہ اہم اور باوقعت ضرور خیال کی گئیں، وہ خود اپنے اسی والانامہ میں رقم طراز ہیں:
’’ناچیز کی اردو، عربی اور انگریزی کتابیں مسلسل شائع ہوکر تقریباً سارے عالمِ اسلام میں پہنچ چکی ہیں اور خاص کر پاکستان میں بغیر اجازت ایک ایک کتاب کو کئی کئی ناشرین نے بیک وقت شائع کیا ہے، کچھ نئی کتابیں بذریعہ رجسٹری ارسال خدمت کی جارہی ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ ان کتابوں پر خصوصی اور مفصل تبصرہ فرمائیں اور کسی کتاب پر باب التقریظ و الانتقاد میں مفصل تعارف کرائیں۔ اگر آپ یہ تبصرہ خود فرمائیں تو زیادہ بہتر ہوگا جس طرح کہ آنجناب نے تازہ معارف میں مولانا حمید الدین فراہی کی تفسیر سورۂ بقرہ پر فرمایا ہے‘‘۔
مولانا اپنے مضامین و تصنیفات سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ قرآن مجید جدید علوم اور سائنس و ٹکنالوجی کے خلاف نہیں ہے بلکہ ان سے قرآنی افکار و نظریات کی تائید و تصدیق ہوتی ہے، مغربی فکر و فلسفہ سے مسلمان مرعوب ہونے کے بجائے قرآن مجید کی تعلیم و ہدایت دنیا کے سامنے پیش کریں۔ ان کی نشاۃ ثانیہ اسی طرح ہوسکتی ہے کہ وہ اسلام پر کاربند رہ کر نئے علوم و فنون اور سائنس اور ٹکنالوجی کی تحصیل کریں تاکہ اسلام کی ابدی صداقت آشکار ہو، مولانا قرآن مجید کی روشنی میں نیا فلسفہ و کلام اس لیے مرتب کرنا چاہتے تھے کہ معاندین و منکرین کے باطل نظریات اور ملحدانہ خیالات کار دوابطال کرسکیں۔ اسے وہ وقت کا ضروری اور مقدم کام سمجھتے تھے، ان کے نزدیک اس کے بغیر نہ نوع انسانی کی اصلاح و ہدایت کا کام انجام پاسکتا ہے اور نہ اس کو گمراہی و تاریکی سے نجات مل سکتی ہے جس کا مواخذہ مسلمانوں سے ہوگا جو خلق کی اصلاح و ہدایت پر مامور کئے گئے ہیں، ان کی تگ و دو کا حاصل یہ تھا کہ سائنس، ٹکنالوجی اور علوم جدیدہ کا رشتہ دین حق سے جوڑا جائے اور آفاق و انفس میں پنہاں دلائلِ قدرت کو آشکارا کر کے سائنس کو مسلمان بنا دیا جائے مولانا کی چند تصنیفات کے نام یہ ہیں:
(۱)چاند کی تسخیر قرآن کی نظر میں۔ (۲)قرآن اور نظام فطرت۔ (۳)اسلام اور جدید سائنس۔ (۴)اسلام کی نشاۃِ ثانیہ قرآن کی نظر میں۔ (۵)قرآن مجید اور دنیائے حیات۔ (۶)تخلیق آدم اور نظریۂ ارتقاء۔ (۷)جدید علم کلام قرآن اور سائنس کی روشنی میں۔ (۸)قرآن حکیم اور علم بناتات۔ (۹)اسلامی اور جدید عالمی نظام۔ (۱۰)اسلامی شریعت علم اور عقل کی میزان میں۔ (۱۱)عورت اور اسلام۔ (۱۲)اسلام کا قانون نکاح۔ (۱۳)اسلام کا قانون طلاق۔ (۱۴)تعداد ازدواج پر ایک نظر۔ (۱۵)جہیز ایک غیر اسلامی تصور وغیرہ۔
مولانا کی اکثر کتابوں کے عربی اور انگریزی میں ترجمے بھی ہوئے ہیں۔
مولانا شہاب الدین صاحب نے ۱۹۷۰؁ء میں فرقانیہ اکیڈمی ٹرسٹ قائم کی جو اسلامی علوم، فلسفہ و کلام، جدید علوم و فنون اور جدیدمسائل و موضوعات کی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ جنوبی ہند میں تن تنہا اتنا بڑا علمی و تحقیقی مرکز اور عظیم الشان کتب خانہ قائم کردینا ان کا بڑا کارنامہ ہے، اس سے ان کے پُرخلوص جذبے، پختہ عزم و ارادے اور سچی اور پکی دھن کا اندازہ ہوتا ہے۔ اب یہ اکیڈمی ترقی کے جو مراحل طے کرچکی ہے، اس کا حال خود مولانا نے اپنے محولہ گرامی نامہ میں یہ بیان کیا ہے:
’’آج کل فرقانیہ اکیڈمی ترقی کے منازل طے کررہی ہے، الحمدﷲ اکیڈمی کی نئی عالی شان سہ منزلہ عمارت ابھی ابھی بن کر تیار ہوگئی ہے اور اس میں اکیڈمی کی عظیم الشان لائبریری منتقل کی جاچکی ہے جو لگ بھگ چالیس ہزار مراجع کی کتابوں پر مشتمل ہے اور اس گلشن کو پچھلے ۴۰ سے ۵۰ سالہ عرصے میں اپنے خونِ جگر سے سینچ کر اسے فروغ دیا ہے، اس نئی عمارت کا افتتاح عنقریب ہونے والا ہے، انشاء اﷲ اس تقریب کے موقع پر آنجناب کو بھی مدعو کیا جائے گا‘‘۔
افسوس ہے کہ ان کا یہ ارمان پورا نہیں ہوا اور ان کی زندگی میں اکیڈمی کی نئی عمارت کا افتتاح نہیں ہوسکا۔ ایک زمانے میں انہوں نے فرقانیہ اکیڈمی سے ’’تعمیر ملت‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالا تھا جس کو ناقدری کی بنا پر بند کرنا پڑا۔
مولانا دراصل سلف میڈ تھے، انہوں نے اکیلے اپنی ہمت جفاکشی اور محنت سے گوناگوں عظیم الشان کام انجام دئے۔ ان کے صاحبزادگان کو جو فارغ التحصیل ہیں، اس علمی میراثِ پدر کے تحفظ و بقا اور مزید فروغ و ترقی کا سامان کرنا چاہئے، خدائے تعالیٰ ان کو جنت الفردوس نصیب کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین۔
(ضیاء الدین اصلاحی، جون ۲۰۰۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...