Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > صہباؔ لکھنوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

صہباؔ لکھنوی
ARI Id

1676046599977_54338440

Access

Open/Free Access

Pages

648

صہباؔ لکھنوی
صہبا لکھنوی مدت سے بیمار تھے، وہ خلقتاً بھی نحیف اور کمزور تھے، اس کے باوجود افکار کی ترتیب و ادارت اور اس سے متعلقہ کاموں کی نگرانی کرتے تھے، بالآخر ۳۱؍ مارچ ۲۰۰۲؁ء میں پیامِ اجل آگیا، مرحوم ’’افکار‘‘ کے بانی مدیر تھے اور صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو صلہ و ستائش سے بے پروا ہوکر ادب پروری اور صحافت وادب کے فروغ کے لیے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوتی تھی۔
صہبا صاحب کا اصل نام سید شرافت علی تھا، ان کا آبائی وطن لکھنؤ تھا، مگر وہ ۲۵؍ دسمبر ۱۹۱۹؁ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے تھے، تقسیم سے پہلے یہیں رہایش پذیر تھے اور ۱۹۴۵؁ء میں یہیں سے ماہنامہ افکار جاری کیا اور اپنی ساری قوت و توانائی اسی میں لگا دی، ان میں شعر و ادب اور نقد و نظر کی جو صلاحیتیں اور قابلیتیں پنہاں تھیں۔ ان کو افکار کے لیے قربان کردیا اور اپنے نوک خامہ سے دوسرے ارباب قلم کی تحریریں چمکاتے اور افکار میں شایع کر کے ان کی ہمت و حوصلہ بڑھاتے اور ان کی عزت افزائی کرتے، انہوں نے بڑے بڑے ادیبوں کی تحریروں کے معاملے میں اپنا حقِ ادارت محفوظ رکھا اور ان کی کوئی رورعایت نہیں کی۔
تقسیم کے بعد کراچی آئے تو افکار نے یہاں سے دوسرا جنم لیا، صہبا صاحب مالی مشکلات اور دوسری پریشانیوں سے دوچار ہوئے اور لوگوں کی نکتہ چینی کا نشانہ بنے مگر افکار کی خدمت و ترقی میں ہمہ تن منہمک رہے، رات دن اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے افکار ہی ان کے دل و دماغ پر چھایا رہتا تھا، ان کے پاس زیادہ سرمایہ نہ تھا لیکن جو کچھ اور جس قدر تھا سب افکار کی نذر کردیا۔ اپنے بعد بھی اس کو جاری رکھنے کے لیے افکار فاؤنڈیشن قائم کیا، وہ اور افکار لازم ملزوم تھے، انہوں نے اس کا دائرہ بہت وسیع کردیا، ہر جگہ کے لکھنے والوں نے ان کا تعاون کیا، اب برصغیر ہی نہیں بیرونی ملکوں میں بھی اردو کی نئی بستیاں ہوگئی ہیں، اور ان میں اردو کے مرکز قائم ہورہے ہیں، ان سب جگہوں کے ممتاز اہل قلم افکار کی محفل میں شریک رہتے ہیں، اس طرح افکار کا تعلق پوری ادبی دنیا سے تھا اور وہ مختلف خطوں کے ادب کو روشناس اور ہر جگہ کے ادیبوں کے رابطے کا کام کررہا تھا، وہ قید مقام سے آزاد اور ادبی معیار واقدار کو برقرار رکھ کر وسیع المشربی، انسان دوستی اور بے تعصبی کا درس دیتا تھا، صہبا صاحب کا یہ کمال تھا کہ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک ایک ادبی رسالے کو پابندی وقت سے نکالتے رہے اپنی ذہنی جدت و اختراع کی بنا پر زندہ ادیبوں اور شاعروں پر افکار کے متعدد خصوصی نمبر نکالے اور اس میں بہت سے ادبی سلسلے شروع کئے، ادبی و تہذیبی رجحانات پر مباحثوں کا آغاز کیا، سمیناروں اور رپورتاژوں کا سلسلہ چلایا مقتدر ادبی شخصیتوں کی آپ بیتی اور مہمان مدیروں کے اشاریے کی روایت قائم کی، زندہ اور تازہ ادب کو فروغ دے کر افکار کو شہرت و اعتبار بخشاء اسی بنا پر انہیں عہد ساز مدیروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
افکار کے عشق نے ان کو صر ف اسی کی زلف کا اسیر بنا دیا تھا اور ان کا سارا وقت اسی کو بنانے اور سنوارنے میں گزرتا تھا، اس ادھیڑ بن میں ان کو خود کچھ کہنے اور لکھنے کا موقع نہیں ملتا تھا، مجاز مرحوم کہتے تھے ’’صہبا نے اوروں کے گریبان سی ڈالے مگر اپنا گریبان بھول گئے‘‘ لیکن خود افکار کا ہر شمارہ بھی تو ان کی ایک تصنیف ہوتا تھا انہوں نے اس کے جو خاص نمبر نکالے اور جواردو کی ادبی تاریخ کا قیمتی اثاثہ بنے وہ مستقل تصانیف سے بڑھ کر ہیں، اس طرح دوسروں کا گریباں رفو کرنا اپنا ہی گریباں سینا تھا بقول اصغر ؂
سو بار تیرا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں تھا
گو افکار کے اجرا کے بعد وہ ادب نواز، ادیب گر اور مبصربن گئے تھے اور دوسروں کے فکر و فن کو فروغ دینے کے لیے اپنے وجود اور بظاہر اپنی ادبی ہستی کو مٹا دیا تھا جو ان کا زبردست ایثار اور قربانی ہے تاہم ادبی افق پر وہ ایک ادیب و شاعر کی حیثیت سے نمودار ہوئے تھے، ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ماہ پارے‘‘ بھوپال سے شائع ہوا تھا اور دوسرا مجموعہ اس کے بعد ’’خاکے‘‘ کے نام سے چھپا۔ ’’میرے خوابوں کی سرزمیں‘‘ ان کا سفر نامہ ہے ’’اقبال اور بھوپال‘‘ تحقیقی کتاب ہے، ’’منٹو ایک کتاب‘‘، ’’مجاز ایک آہنگ‘‘ اور ’’ریئس امروہوی فن اور شخصیت‘‘ بھی ان کی تصانیف ہیں۔
صہبا صاحب اردو کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے، اسے فعال تنظیم بنانے میں انہوں نے عملاً حصہ لیا اور افکار کے ذریعہ ترقی پسند خیالات کی اشاعت کی عقیدہ و مذہب کے اختلافات سے تعرض کئے بغیر زندگی کے حقائق و تجربات اور تہذیبی و معاشرتی مسائل کو ادب میں جگہ دی، انجمن ترقی پسند مصنفین کی روداد اور تحریک کی سرگرمیوں سے متعلق چیزوں کا افکار میں ذکر کرتے۔
خوش خلق اور باوقار انسان تھے، اخلاق، وضع داری، خاکساری، ملنساری اور مستقل مزاجی ان کی سیرت کا خاص جوہر تھا، انتظامی، مالی اور دوسری طرح کی شدید مشکلات کے باوجود افکار کو نصف صدی سے زیادہ عرصے تک جاری رکھنا ان کے عزم و استقامت اور قوتِ خود ارادی کی مثال ہے، اسے محنت اور لگن سے مرتب کر کے پابندی وقت سے شائع کرنا اپنا ادبی و اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے۔ صلح کل پر عمل پیرا تھے، خورد نواز تھے کسی کی دل شکنی اور ہمت شکنی نہ کرتے لیکن اصولوں اور افکار کی پالیسی کے بارے میں کوئی سمجھوتا نہیں کرتے تھے اور اس میں بڑی بے باکی اور صاف گوئی سے کام لیتے تھے، جوڑ توڑ سے کام لینے کے بجائے ہمیشہ خلوص اور لگن سے کام کرتے تھے اور کسی صلہ و ستایش کی توقع نہ رکھتے، وہ ارادے اور دھن کے پکے تھے، جس کام کی ٹھان لیتے اسے کرکے ہی دم لیتے۔
دین دار اور سادگی پسند تھے، نماز کے پابند تھے، قرآن مجید کی تلاوت ان کے معمول میں داخل تھی، اسلامی شعار و اقدار کو عزیز رکھتے تھے، مولانا حسرت موہانی کی طرح ان کی ترقی پسندی ان کے اچھا مسلمان ہونے میں مانع نہیں ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ علم و ادب کے اس شیدائی کی مغفرت فرمائے۔ آمین!! (ضیاء الدین اصلاحی،جون ۲۰۰۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...