Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > عبد اللطیف اعظمی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

عبد اللطیف اعظمی
ARI Id

1676046599977_54338442

Access

Open/Free Access

Pages

650

عبداللطیف اعظمی کی وفات
(سبط محمد نقوی)
آج ۱۸؍ مئی کو لکھنؤ کے ایک اردو روزنامے میں رضا لائبریری رامپور میں منعقدہ ایک تعزیتی جلسے کی کاروائی نظر سے گزری، اس میں تین ادیبوں کی وفات پر اظہار غم دالم کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک نام محب محترم عبداللطیف اعظمی صاحب مرحوم کا بھی ہے۔ ان کے ایسے مستند دانشور کے فقدان کا جو صدمہ ہوا وہ اپنی جگہ پر ہے۔ اس کا ملال مستزاد ہے کہ وہ بہت چپ چپاتے رخصت کردیئے گئے۔ ریڈیو پر بھی یہ خبر اذیت اثر سننے کو ملی۔ لکھنؤ کے ان تین اردو اخباروں میں نظر سے گزری جو ہمارے یہاں آتے ہیں۔
مرحوم جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انتظامی عملے میں تھے لیکن تعلیمی دور سے لے کر سبکدوشی کے بعد تک مرحوم کا قلم گل افشاں رہا۔ مولانا شبلی نعمانی مرحوم کے دفاع میں ان کا جہاد اور ماہنامہ جامعہ کے احیاء میں ان کی سعی مشکور۔ ان کے عدیم النظیر تاریخی کارنامے ہیں۔
مرحوم سے ملاقات کے موقع تو بس تین چار بار آئے مگر خط و کتابت کافی رہی۔ آخر میں میرے کسی فقرے سے بددل ہوکر مراسلت کا سلسلہ قطع کردیا تھا، پھر بھی کسی بات کے سلسلے میں ہیچ مداں کے معلومات جاننا چاہے تھے تو یاد فرمایا تھا۔
مجھے نہایت خوش اخلاق، مہمان نواز اور کریم النفس انسان لگے۔ ان سے آخری ملاقات جب ہوئی تو برادرم ضیاء الحسن فاروقی صاحب بھی وہیں تشریف فرما تھے۔ یہ ملاقات ان دونوں حضرات سے آخری تھی۔ افسوس ہے کہ وہ نسل بھی اب اٹھتی جاری ہے، جس نے بزرگان پیشیں کے دور کا ادراک کیا تھا۔ میں ان دونوں کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔ فقط والسلام: سبط محمد نقوی۔ ( جون ۲۰۰۲ء)

عبداللطیف اعظمی
افسوس ہے کہ ۱۰؍ مئی ۲۰۰۲؁ء کو اردو کے ممتاز اہل قلم اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے عاشق و شیدائی جناب عبدللطیف اعظمی کا انتقال ہوگیا۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ عرصے سے بیمار تھے گزشتہ سال نومبر میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو گردشِ روزگار کا یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر دم بخودرہ گیا کہ بلبلِ ہزار داستان کی طرح ہر وقت چہکنے والا صم بکم بنا ہوا ہے، بیگم صاحبہ نے بڑی کوشش کی کہ کچھ بولیں مگر وہ ایک چپ ہزار چپ تھے۔
عبداللطیف اعظمی صاحب کی پیدائش یکم مارچ ۱۹۱۷؁ء کو ہوئی، ان کا آبائی وطن بندی کلاں ہے جو مسلمان روسا اور زمینداروں کے مشہور قصبہ محمد آباد گہنہ سے چار پانچ کلو میٹر جنوب مشرق میں واقع ہے، پہلے تو یہ گاؤں اور قصبہ ضلع اعظم گڑھ ہی میں شامل تھے مگر چند برس قبل یہ ضلع مؤ کا حصہ ہوگئے، اس کے بعد ان سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے کہا اب آپ کہاں اعظمی ہیں؟
جناب عبداللطیف اسی گاؤں کے ایک کھاتے پیتے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ عبدالصمد ان کی پیدائش سے پہلے ہی انتقال کرگئے تھے، چار پانچ برس کے ہوئے تو ان کی والدہ نے بھی جنت کی راہ لی۔ ان کی تعلیم و تربیت اور کفالت ان کے چچا شیخ حاجی عبدالحئی مرحوم نے اسی طرح کی کہ ان کو اور ان کے دونوں بڑے بھائیوں یوسف امام مرحوم اور حاجی لطف الرحمان صاحب کو جو ابھی زندہ اور ہلدوانی (نینی تال) میں قیام پذیر ہیں اپنی یتیمی کا احساس نہیں ہوا۔
قدیم رواج کے مطابق مکتب کی تعلیم گھر پر ہوئی۔ ۷؍ جولائی ۱۹۲۷؁ء کو انھوں نے اعظم گڑہ ضلع کی قدیم اور مشہور دینی درس گاہ مدرستہ الاصلاح سرائے میر میں عربی کے پہلے درجہ میں داخلہ لیا پھر وہ ندوۃالعلماء لکھنؤ چلے گئے وہاں سے فارغ التحصیل ہوکر ۲۹؍ اگست کو جامعہ ملیہ جا کر فرسٹ ایر میں داخلہ لیا۔ اس زمانہ میں جامعہ قرول باغ میں تھی ۱۹۴۱؁ء میں بی اے کرکے وہ مکتبہ جامعہ کے شعبہ تصنیف و تالیف و طباعت کے انچارج ہوئے اس کے بعد ان کی ذمہ داریاں تبدیل ہوتی رہیں مگر نہ جامعہ نے ان کو چھوڑا اور نہ انہوں نے جامعہ کو چھوڑا ایک مدت گزرنے کے بعد ۵۵ء تا ۵۷ء میں انہوں نے مسلم یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا اور پھر طویل عرصے کے بعد ۷۳ء تا ۷۵ء میں انہوں نے جامعہ سے اردو میں ایم اے کیا، اس کے بعد پی۔ایچ۔ڈی کے تحقیقی مقالے میں لگے مگر اسے مکمل کرنے کی نوبت نہیں آئی۔
اعظمی صاحب کو مدرستہ الاصلاح سے بڑا تعلقِ خاطر تھا، وہ جب وطن آتے تو کئی کئی روز یہاں گزارتے، لکھنے پڑھنے کا ذوق یہیں کی طالب علمی کے زمانے میں ہوا، اس وقت یہاں مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا طوطی بولتا تھا، وہ بہت اچھے مقرر اور ممتاز اہل قلم تھے، عبداللطیف صاحب یہاں کے تمام استادوں میں ان سے زیادہ قریب تھے اور مولانا بھی ان سے بہت مانوس تھے مولانا ہی کی صحبت میں عبداللطیف صاحب کو بولنے اور لکھنے کی اچھی مشق ہوئی، آگے چل کر ان کا یہ جو ہر خوب نکھرا۔
مولانا کی سربراہی میں دائرۂ حمیدیہ قائم ہوا اور ۱۹۳۶؁ء میں اس کا ترجمان الاصلاح نکلا اور پریس قائم ہوا تو ان سب کاموں میں دور رہ کر بھی عبداللطیف صاحب نے بڑی دلچسپی لی، الاصلاح میں ان کے کئی مضامین اور تحریریں شائع ہوئیں، ۳۹ء کے آخر میں الاصلاح بند ہوا تو انہوں نے دائرہ کی ایک شاخ قرول باغ میں قائم کی، جہاں سے اپنے اہتمام میں مولانا اصلاحی کی کتاب ’’حقیقت نماز‘‘ پہلی بار شائع کی اس کے دیباچے میں مولانا نے عبداللطیف صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے لیے یہ دعا بھی کی کہ ’’اﷲ تعالیٰ انہیں میرے دینی خیالات میں بھی میرا ہم نوا بنادے‘‘۔
مولانا امین احسن صاحب سے ان کے گہرے تعلق ہی کی بنا پر مولانا ابواللیث صاحب نے مرض الموت میں مجھ سے فرمایا کہ آج کل میں اپنے نام کے خطوط مرتب کررہا تھا، مولانا امین احسن صاحب کے خطوط مرتب کر کے ان پر حواشی لکھ چکا ہوں، تم لطیف ۱؂ خط لکھ دو کہ وہ ان کی طباعت کا انتظام کردیں میں نے اسپتال سے واپس آنے کے بعد ہی عبداللطیف صاحب کو خط لکھا مگر دوسرے ہی دن مولانا ابواللیث صاحب سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔
ندوۃالعلماء میں بھی وہ تقریر و تحریر میں اپنا جوہر دکھاتے رہے، یہاں طلبہ کی انجمن الاصلاح کے سکریٹری بھی تھے، جامعہ ملیہ میں تو ان کی گل افشانی گفتار دیدنی ہوتی تھی، تحریری مشغلہ بھی زور شور سے جاری تھا، بی اے کی ڈگری کے لیے ’’شبلی کا مرتبہ اردو ادب میں‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر عابد حسین کی نگرانی میں ایک مقالہ تحریر کیا جس کو بعد میں عابد صاحب کے پیش لفظ اور پروفیسر آل احمد سرور کے مبسوط مقدمے کے ساتھ شائع کیا، تو اسے بہت پسند کیا گیا، سرور صاحب نے بھی اس کی بڑی داد دی تھی، اس کی اہمیت اس بنا پر بھی تھی کہ اس وقت تک مولانا شبلی پر بہت کم لکھا گیا تھا، خود عبداللطیف صاحب بھی اسے بہت پسند کرتے تھے۔
طالب علمی کی اسی مشق اور شوق نے آگے چل کر انہیں اچھا اہل قلم، کامیاب مصنف و مؤلف اور ادیب، محقق اور نقاد بنایا، جامعہ آکر انہوں نے اردو ادب و تحقیق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا، تحقیق میں وہ بڑی دقت نظر، خاص باریک بینی بلکہ نہایت موشگافی سے کام لیتے تھے، جزئیات پر پوری نظر رکھتے اور تفصیلات فراہم کرنے میں کوئی گوشہ اوجھل نہ ہونے دیتے، تحقیق میں اتنی محنت و دیدہ ریزی سے اسی لیے کام لیتے تھے تاکہ حقیقت و صداقت تک پہنچ کر اپنی نپی تلی رائے دے سکیں۔
آخر عمر میں وہ مشاہیرِ علم و ادب کی پیدائش و وفات اور واقعات و حوادث کی صحیح تاریخیں لکھنے پر بڑا زور دیتے تھے اور خود ہر وقت اسی چھان بین میں لگے رہتے تھے، وہ اپنی تحقیق میں تاریخوں کو بنیادی اور مرکزی حیثیت دینے کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ ’’اردو ادب میں تاریخوں کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں کی گئی ہے، اولاً تاریخوں کی طرف بالعموم توجہ نہیں کی جاتی اور اگر کسی نے کچھ توجہ کی بھی تو صرف سنہ لکھ دینا کافی سمجھتے ہیں، اس کے علاوہ سنہ ہو یا تاریخ صحت کا بہت کم لحاظ رکھا جاتا ہے‘‘۔
ایک دفعہ میں نے مرحوم سید صباح الدین صاحب کے حوالے سے کہا کہ اگر کسی کی تاریخ پیدائش و وفات کچھ آگے پیچھے ہوجائے تو اس سے کیا قیامت آجائے گی، انہوں نے فوراً صباح الدین صاحب کی سنین کی بعض غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مولانا علی میاں نے کہیں اپنا سنہ پیدائش ۱۹۱۳؁ء اور کہیں ۱۹۱۴؁ء لکھا ہے، پھر مدلل طور پر اس کے گوناگوں نقصانات بتائے۔
عبداللطیف صاحب نے ’’مولانا شبلی کا مرتبہ اردو ادب میں‘‘ کے علاوہ مندجہ ذیل کتابیں لکھیں:
(۲)سوشلزم (۳)امریکی عدالت عالیہ کے شاندار کارنامے (۴)بھارت آج اور کل (پنڈت جواہر لال کی کتاب کا ترجمہ) (۵)بابائے اردو مولوی عبدالحق (۶)ڈاکٹر ذاکر حسین سیرت و شخصیت (۷)جواہر لال نہرو۔ ایک مطالعہ (۸)گاندھی جی اور ان کے خیالات (۹)سرسید احمد خان اور ان کی معنویت موجودہ دور میں۔ (۱۰)مولانا محمد علی۔ ایک مطالعہ (۱۱)مشاہیر کے خطوط اور ان کے مختصر حالات (۱۲)اقبال دانائے راز (۱۳)ڈاکٹر راجندر پرشاد۔ عظیم رہنما اور پہلے راشٹرپتی (۱۴)تیسرے راشٹرپتی ڈاکٹر ذاکر حسین (۱۵)اردو ڈائرکٹری۔ موخرالذکر کتاب پروفیسر گوپی چند نارنگ کے اشتراک سے لکھی گئی ہے، کچھ کتابیں انہوں نے بچوں کے لیے بھی لکھی تھیں، ’’اقبال دانائے راز‘‘ بڑی کدو کاوش اور تلاش و تحقیق کا نتیجہ اور اقبالیات میں اہم اضافہ ہے، خطوط پر ان کی کتاب بہت مقبول ہوئی۔
عبداللطیف صاحب ایک تجربہ کار اور مشاق صحافی بھی تھے، دراصل ادب کے کوچے میں اس راہ سے داخل ہوئے تھے، ممکن ہے کہ مدرستہ الاصلاح اور ندوۃالعلما کی طالب علمی کے زمانے میں انہوں نے قلمی رسالے نکالے ہوں لیکن وہ طلبائے جامعہ کے رسالے ’’جوہر‘‘ کے مدیر رہے۔ ان کی محنت و توجہ سے اس کے بعض اعلیٰ معیار کے خصوصی نمبر نکلے۔ اس کے عبدالحق نمبر کی ملک میں بڑی پذیرائی ہوئی، ۴۳۔ ۱۹۴۴؁ء میں ماہنامہ جامعہ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہوئے، ۱۹۴۸؁ء میں ڈاکٹر عابد حسین کی ادارت میں ہفتہ وار ’’نئی روشنی‘‘ نکلا تو اس کے اسسٹنٹ و مینیجنگ ایڈیٹر مقرر ہوئے، یہ بند ہوا تو ۵۲ء میں ماہنامہ جامعہ ہمدرد خود ان کی ادارت میں نکلا، ۱۹۶۵؁ء سے ۱۹۷۷؁ء تک وہ انجمن ترقی اردو ہند کے معیاری رسالے ’’صبح‘‘ کے مدیر رہے۔
رسالہ جامعہ ۱۹۴۷؁ء میں بند ہوگیا تھا، عبداللطیف صاحب کی تگ و دو سے وہ دوبارہ جاری ہوا۔ نومبر ۱۹۶۰؁ء میں جامعہ کے جشن چہل سالہ کے موقع پر دور ثانی کا پہلا شمارہ انہیں کی ادارت میں نکلا، چند برس تک وہ تن تنہا بڑی محنت اور لگن سے اسے مرتب کرتے رہے، اس عرصے میں انہوں نے اس کے بعض خاص نمبر بھی نکالے، ان کی کاوش سے ملک کے کئی مشہور اہل قلم اس کے قلمی معاونین میں شامل ہوئے لیکن جب ضیاء الحسن فاروقی صاحب کناڈا سے واپس آئے تو وہ اس کے مدیر اور اعظمی صاحبؒ نائب مدیر ہوئے، فاروقی صاحب اکثر بیان کرتے تھے کہ وہ نہ ہوتے تو میرے لیے رسالہ نکالنا بہت مشکل ہوتا، وہی ساری بھاگ دوڑ کرتے، خط و کتابت کرکے مضمون نگاروں سے مضامین حاصل کرتے، میں اسی لیے انہیں جوڑے ہوئے ہوں، ان کے بغیر رسالہ وقت سے نہیں نکل سکتا۔
پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ وہ اچھے مقرر تھے، ان کی طالب علمی کے زمانے میں مدارس اور دانش گاہوں میں ڈبیٹ کا بہت رواج تھا، لطیف صاحب مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈبیٹر بھی تھے، اس حیثیت سے بھی ان کو یاد رکھا جائے گا، بحث و مباحثہ ان کی سرشت میں داخل تھا، اس میں ان سے پیش پانا اور انہیں شکست دینا بہت مشکل تھا، وہ جب کسی موضوع پر بولنے لگتے تو چپ ہونے کا نام نہ لیتے، بعض بعض موضوعات پر ہفتوں اور مہینوں بول سکتے تھے، ان کی بحثیں تقریر ہی تک محدود نہیں رہتی تھیں، بلکہ تحریروں میں بھی لوگوں سے ان کی نوک جھونک رہا کرتی تھی، رسالوں اور اخباروں میں مراسلے بازی ان کا محبوب مشغلہ تھا، وہ کہتے تھے کہ اردو اخباروں میں کچھ نہیں ہوتا، میں صرف مراسلوں کی وجہ سے انہیں دیکھتا ہوں، اکثر میں تو یہ کالم ہی نہیں ہوتا، اور جن میں ہوتا ہے وہ نہایت کمزور اور پھس پھسا، جاندار مراسلے انگریزی اخباروں کے ہوتے ہیں۔
مولانا آزاد کے انتقال کے بعد پروفیسر ہمایوں کبیر نے انڈیا ونس فریڈم شائع کی تو مولانا کے ایک مسترشد اور خاص عقیدت مند مولانا غلام رسول مہر نے اسے مولانا کی تصنیف ماننے سے انکار کیا، انہوں نے دو ایک مضمون لکھے ہوں گے، لیکن ان کے جواب میں لطیف صاحب نے مضامین اور مراسلوں کا اتنا انبار لگا دیا کہ مہر صاحب چاہے لاجواب نہ ہوئے ہوں، لیکن انہیں چپ ضرور ہوجانا پڑا۔ ایک مرتبہ اردو کے مشہور محقق رشید حسن خاں نے کسی کتاب کو ایڈٹ کرتے ہوئے عش عش کو اش اش کردیا اور اسی کو صحیح املا قرار دیا تو عبداللطیف صاحب عرصے تک جامعہ اور ہماری زبان میں ان سے الجھے رہے، جامعہ ملیہ، ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر مجیب، لطیف صاحب کی کمزوری ہیں، ان تینوں سے ان کو بلا کی عقیدت تھی، اس لئے جہاں کسی نے اس پر نکتہ چینی کی وہ فوراً اس سے بحث و تکرار شروع کردیتے، مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ ان تینوں پر اکثر ہفتہ وار ’’صدق جدید‘‘ میں اپنے مخصوص تنقیدی انداز میں نوٹ لکھا کرتے تھے۔ جن کا نہ ذاکر صاحب نے کبھی جواب دیا اور نہ مجیب صاحب نے، مگر لطیف صاحب ان کی محبت میں ان کے علی الرغم مولانا کے سن و سال اور مرتبہ و عظمت کی پروا کئے بغیر مراسلے لکھتے رہتے تھے، وہ جب مراسلے بازی پر آتے تو غالباً اسی وقت خاموش ہوتے ہوں گے۔ جب خود اخبار والے گھبرا کر مراسلے چھاپنا بند کردیتے ہونگے، ان کے مراسلے اگر جمع کر کے شائع کئے جائیں تو ایک دلچسپ کتاب ہوجائے گی۔
عبداللطیف اعظمی صاحب پکے نیشنلسٹ اور کٹر کانگریسی تھے، یہ مدرسۃ الاصلاح، ندوۃ العلماء اور جامعہ ملیہ کی تعلیم کا فیض ہوگا، کیوں کہ یہ تینوں ادارے اس وقت قومی تحریک اور آزادی کی جدوجہد کا مرکز تھے، اور ان کے اکثر وابستگان کا تعلق کانگریس سے تھا، شروع میں چاہے وہ اپنے بزرگوں اور استاذوں کے اثر سے کانگریسی رہے ہوں مگر بعد میں علی وجہ البصیرت اس راہ پر گامزن ہوئے اور اس سے کبھی منحرف ہونا پسند نہیں کیا۔
لطیف صاحب علمی کی طرح عملی آدمی بھی تھے، وہ جس قدر انہماک سے تصنیف و تالیف کا کام کرتے تھے، اسی قدر توجہ اور دلچسپی سے انتظامی اور دفتری کام بھی انجام دیتے تھے، جامعہ میں ان کا تعلق ہمیشہ انتظامیہ سے رہا، اور وہ مختلف انتظامی شعبوں سے وابستہ رہے، آخر میں وہ شیخ الجامعہ کے پرسنل مدد گار اور پھر سکریٹری مقرر ہوئے، لیکن یہ مشاغل اور ذمہ داریاں ان کے تصنیف و تالیف کے کام میں حارج نہیں ہوئیں، وہ اپنے گھر، دفتر اور کتب خانے میں ہمیشہ کتابوں اور رسالوں میں گھرے رہتے تھے اور کوئی نہ کوئی علمی، تحقیقی اور ادبی گتھی سلجھانے میں لگے رہتے تھے۔
۱۹۶۵؁ء میں دارالمصفین، شبلی اکیڈمی کی گولڈن جبلی کے انعقاد کا اعلان ہوا تو ان کی انتظامی صلاحیت کی بنا پر جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم نے انہیں کچھ پہلے ہی یہاں بلالیا تھا، اس وقت انہوں نے واقعی ان کا بڑا تعاون کیا، اور اپنے حسنِ انتظام کی دھاک بیٹھادی، اس لیے ۱۹۸۲؁ء میں ’’اسلام اور مستشرقین‘‘ کے سمینار کے انتظام کے لیے بھی انہیں کچھ پہلے بلایا گیا، مگر اس دفعہ میں نے دیکھا کہ صبح سے شام تک وہ کتابوں کی نمائش کے کمرے میں معارف کی جلدوں کے سامنے بیٹھ کر ان سے نوٹ تیار کرتے رہتے تھے، کبھی کبھی، جب سید صباح الدین صاحب ادھر آکر انہیں اس انہماک سے پڑھنے لکھنے میں مشغول دیکھتے تو کہتے جناب والا اس وقت علم و تحقیق کا لبادہ اتار کر صرف سمینار کی کامیابی کی فکر کیجئے، مگر وہ ہوں ہاں کہہ کر اپنے کام میں مشغول رہتے، اس لحاظ سے دیکھئے تو ان میں بڑی جامعیت تھی، وہ اچھے مقرر اور اچھے لکھنے والے بھی تھے، لائبریری اور دفتر کا کام بھی سلیقے سے کرتے تھے، شیخ الجامعہ کے اچھے پرسنل اسسٹنٹ اور سکریٹری بھی تھے اور اچھے صحافی اور پبلک ریلیشنز افسر بھی تھے اور پریس اور مکتبہ کے کام بھی خوش اسلوبی سے کرلیتے اور اپنے منصبی کاموں کے ساتھ دوسرے گوناگوں کام بھی کرتے رہتے تھے، وہ کئی برس تک انجمن ترقی اردو ہند کی جامعہ نگر شاخ کے سکریٹری تھے، اور اسی حیثیت سے رسالہ ’’صبح‘‘ کے برسوں مدیر رہے۔
عبداللطیف صاحب بڑے چاق، چوبند، مستعد، تر و تازہ اور شگفتہ رہتے تھے، ان کی امنگ اور حوصلہ و نشاط میں کبھی کمی نہیں دکھائی دیتی تھی، عزم، ارادے اور دھن کے پکے تھے، ساٹھ ستر برس کی عمر میں نہایت جوش و ولولہ سے کام کرتے رہتے تھے اور ان پر کبھی تھکن اور اضمحلال طاری نہیں ہوتا تھا، ان کی زندگی سادہ اور تکلفات سے بری تھی، ایک خوش حال گھرانے سے ان کا تعلق تھا اور ان میں بڑی صلاحیتیں تھیں، لیکن اپنی علمی دوستی کی بنا پر انہوں نے جامعہ کی فقیرانہ زندگی اور بوریہ نشینی کو ترجیح دیا، انہوں نے اپنے بعض اساتذہ کی طرح یہاں بڑی سخت زندگی گذاری مگر ہر حال میں خوش و خرم اور اپنے کام میں مگن اور منہمک رہے۔
فرائضِ منصبی کے علاوہ جو کام اپنے شوق و ذوق سے کرتے تھے، اس کے صلہ و معاوضہ کے خواہش مند نہ ہوتے، حرص و طمع کے بجائے طبیعت میں استغنا اور بے نیازی تھی، خودداری اور غیرت کا یہ حال تھا کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں بڑا عار محسوس کرتے تھے، طالب علمی میں گھر والوں سے اخراجات طلب کرنے میں بڑا تکلف و تامل ہوتا تھا، بی اے کرنے کے بعد کسی ملازمت کے لیے ذاکر صاحب سے ملنے سے انکار کردیا۔
لطیف صاحب کا حلقہ تعارف بڑا وسیع تھا، جامعہ اور دہلی والوں کی طرح پورے ملک کے علمی و ادبی حلقوں سے ان کا رابطہ رہتا تھا مگر ان تعلقات کو انہوں نے کبھی فرائض منصبی میں حائل نہیں ہونے دیا، وہ جامعہ میں جن عہدوں پر فائز تھے، چاہتے تو اپنے عزیزوں اور اہل تعلق کو بہت کچھ فائدہ پہنچا سکتے تھے، وہ تین وائس چانسلروں سے منسلک رہے، لیکن نہ کبھی خود فائدہ اٹھایا اور نہ دوسروں کو فائدہ اٹھانے دیا، وہ کسی کی سفارش تک نہیں کرتے تھے، حالانکہ وائس چانسلر حضرات ان پر پورا اعتماد کرتے تھے مگر انہوں نے ان کے اعتماد کو نبھایا اور اس سے فائدہ اٹھانے کو ایمان داری اور دیانت کے خلاف سمجھا ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ نہ جامعہ کا مفاد پس پشت ہو اور نہ اہل جامعہ سے تعلقات خراب ہوں، اس کے باوجود جامعہ کے اساتذہ، طلبہ اور کارکنوں کو اس کی شکایت رہتی تھی کہ وہ شیخ الجامعہ کے سکریٹری کی حیثیت سے نہایت سخت گیر تھے، ان سے کسی کو ملنے نہیں دیتے تھے، اپنی بیوی اور مجیب صاحب کی بیوی کو بھی ان سے دفتر میں ملنے نہیں دیا، ممکن ہے ان روایتوں میں بہت کچھ مبالغہ ہو، تاہم یہ لطیف صاحب کے اصول پسند ہونے کا ثبوت ہے، اگر وہ سخت گیری سے کام نہ لیتے تو ہر کس و ناکس وائس چانسلر کو تنگ کرتا، وہ یہ سخت رویہ اسی لیے اختیار کرتے تھے کہ شیخ الجامعہ پوری یکسوئی اور انہماک سے اپنے فرائض انجام دے سکیں، علاوہ ازیں اس کے بغیر مجیب صاحب نے اپنی وائس چانسلری کے زمانہ میں جو مضامین اور کتابیں لکھی ہیں اور جن کو وہی لکھ سکتے تھے، کیسے لکھ سکتے تھے۔
ان میں تکلف اور بناوٹ نام کو بھی نہ تھی، جن لوگوں سے ملنے جلنے کا جو انداز پہلے تھا، وہی ہمیشہ رہا، وہ اپنے خوردوں سے بھی بے تکلفی سے ملتے تھے، اس کی وجہ سے وہ ہر طبقے میں مقبول تھے، کسی کو نفرت و حقارت کی نظر سے نہ دیکھتے، ان میں فخر و غرور کا شائبہ نہ تھا، ہمیشہ صبر و قناعت کے خوگر رہے، جامعہ کی قلیل تنخواہ میں بڑی صاف ستھری اور سلیقے کی زندگی گزارتے تھے، کفایت شعار تھے، فضول خرچی کو پسند نہیں کرتے تھے، عموماً پوسٹ کارڈ پر خط لکھتے تھے کہ جب پوسٹ کارڈ سے کام چل جاتا ہے اور اسی میں ساری باتیں آجاتی ہیں تو لفافے لے کر زیادہ پیسے کیوں خرچ کئے جائیں ان کا خط بہت اچھا اور پاکیزہ ہوتا تھا۔
دہلی میں وہ ہمیشہ بسوں پر سفر کرتے تھے، حالانکہ وہاں بس کا سفر سب کے بس کی بات نہیں، لیکن وہ طویل العمری میں بھی بس پر بے تکلف سوار ہوکر اس کے ہر گلی کوچے کی خاک چھانتے تھے، ان کو دہلی اور نئی دہلی کے سب ہی ادبی، علمی اور ثقافتی جلسوں اور تقریبوں میں شریک ہونا پڑتا تھا، اپنے دفتری اور خانگی کاموں سے بھی جامعہ نگر سے باہر نکلنا پڑتا تھا، اس لیے پاس بنوالیا تھا، ایک دفعہ ان سے اس پر بات ہو رہی تھی تو کہنے لگے کہ کسی دن سنوگے کہ بس سے چڑھتے اترتے میری موت ہوگئی۔ ایک دفعہ انجمن ترقی اردو کے کسی سمینار میں ملے تو میں نے عرض کیا، آج آپ کے ساتھ میں بھی بس میں جامعہ نگر جاؤں گا، انہوں نے کہا آج تو میں شاہد علی خاں صاحب منیجر مکتبہ جامعہ کی گاڑی سے جاؤں گا، میں نے کہا، یہ خلاف معمول کیسے؟ کہنے لگے، شاہد صاحب کے اصرار کو ٹال نہ سکا۔ایک مدت تک وہ دہلی میں کرائے کے مکان میں رہے، آخر عمر میں گاؤں کی کچھ زمین نکال کر وہاں ایک مکان تعمیر کرایا، جواب مہمانوں سے بھرا رہتا تھا، وہ بڑے مہمان نواز تھے، مجھ سے کئی بار کہا کہ میرے یہاں کیوں نہیں رکتے، کسی روز دن میں ملنے جاتا تو اصرار کر کے دوپہر کا کھانا کھلاتے۔
وہ بے ضرر شخص تھے، کسی کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت ان میں نہ تھی، اپنے بدخواہوں کا بھی برا نہ مناتے، ہر شخص سے ان کی بحث و تکرار ہوتی جس میں ناگفتنی اور سخن گسترانہ باتیں بھی ہوتی تھیں، لیکن وہ خفا نہ ہوتے اور اگر کبھی بگڑ بھی گئے تو سنبھلنے میں دیر نہ لگتی، وہ دیر تک نہ کسی سے ناراض رہتے تھے اور نہ کینہ کپٹ رکھتے جن لوگوں سے چومکھی لڑائی رہتی تھی، ان کا ذکر کبھی نامناسب انداز میں نہ کرتے۔
اﷲ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں کو معاف کرے اور انہیں اپنی رحمت کا ملہ سے نوازے (آمین)۔ (ضیاء الدین اصلاحی،جولائی ۲۰۰۲ء)

۱؂ مولانا اپنے خوردوں کو عموماً ’’تم‘‘ سے مخاطب کرتے تھے، عبداللطیف صاحب بھی عمر میں ان سے چھوٹے تھے، وہ جب ندوہ میں استاد تھے تو اعظمی صاحب اس وقت وہاں کے طالب علم تھے۔ عبداللطیف نے صاحب کو وہ لطیف ہی کہتے تھے اور جب سامنے ہوتے تو ’’تم‘‘ سے خطاب کرتے اس میں بے تکلفی سے زیادہ ان کے لطف و شفقت کا دخل بھی تھا۔

تاریخی غلطی:اعظمی صاحب کی تاریخ وفات ۱۱؍ مئی ۲۰۰۲ء بروز شنبہ، بوقت ۲ بجے دن ہے اور آپ نے ۱۰؍ مئی ۲۰۰۲ء لکھا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ براہِ کرم تصیح فرمالیں، ممنون رہوں گا۔ (’’عبدالرحمن ناصر اصلاحی‘‘، اکتوبر ۲۰۰۲ء)

تصحیح: جولائی ۲۰۰۲ء کے معارف میں وفیات کے تحت عبداللطیف اعظمی صاحب مرحوم پر آپ کا نوٹ مبسوط اور جامع ہے اور ان کی شخصیت کی بہت اچھی عکاسی کرتا ہے، اس میں صرف ایک بات اصلاح طلب ہے۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے۔۔۔۔ ۵۵ء تا ۵۷ء میں انھوں نے مسلم یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا، یہ درست نہیں ہے وہ یہاں ایم اے (عربی) کے طالب علم رہے تھے لیکن اس کی تکمیل نہیں کرسکے تھے، درمیان ہی میں اپنی بیگم کی علالت کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے دہلی واپس چلے گئے تھے۔
(’’ریاض الرحمن شروانی‘‘، اکتوبر ۲۰۰۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...