Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > کیفی ؔاعظمی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

کیفی ؔاعظمی
ARI Id

1676046599977_54338443

Access

Open/Free Access

Pages

654

کیفیؔ اعظمی
مشہور و مقبول ترقی پسند اور اردو کے انقلابی شاعر جناب کیفی اعظمی ۱۰؍ مئی کو صبح ساڑھے چھ بجے ممبئی کے جس لوک اسپتال میں انتقال کرگئے جہاں سانس کی تکلیف کی وجہ سے دو ماہ پہلے داخل ہوئے تھے، ۱۱؍ مئی کو اندھیری ویسٹ کے چار بنگلہ قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔
کیفی صاحب ۱۹۱۸؁ء میں اعظم گڑھ کی تحصیل پھول پور کے ایک گاؤں مجواں کے زمین دار شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کے والد جناب سید فتح حسین رضوی اودھ کی ریاست بلہرا میں تحصیل دار تھے۔ کیفی صاحب کا اصلی نام سید اطہر حسین رضوی تھا، یہ سات بھائی بہن تھے، بڑے بھائیوں نے انگریزی تعلیم حاصل کی تھی، ان کو ان کے والد بزرگوار نے عربی تعلیم دلانے کے لیے فرقہ شیعہ کی مشہور درس گاہ سلطان المدارس لکھنو میں داخل کرایا مگر ان کا جی یہاں نہیں لگا، غالباً مدرسے کی سخت گیری اور مذہبی شدت پسندی سے گھبرا کر انہوں نے تعلیم ہی نہیں چھوڑی بلکہ مذہب سے بھی برگشتہ ہوگئے، اور غالباً آخر تک رہے، تاہم مدرسہ کی تعلیم کو خیر باد کہنے کے باوجود انہوں نے لکھنو اور الٰہ آباد کی یونیورسٹیوں سے مشرقی امتحانات دیئے اور اپنی ذاتی محنت و مطالعہ سے اپنی استعداد بڑھائی، اردو فارسی کے علاوہ غالباً وہ عربی، ہندی اور سنسکرت سے بھی واقف تھے۔
کیفی اعظمی کا طرۂ امتیاز ان کی شاعری ہے جس کو اس کے مخصوص لب و لہجہ ، باغیانہ تیور اور انقلابی افکار و خیالات کی بنا پر بہت پسند کیا گیا، ان کے گھر میں پہلے ہی سے شعر و سخن کا چرچا تھا، اردو ہی نہیں فارسی کا ذوق بھی عام تھا، ان کے تینوں بڑے بھائی بھی شاعری کا مذاق رکھتے تھے اور صاحب بیاض تھے، خاندانی کتب خانے میں اردو، فارسی اور عربی شعرا کے دواوین تھے جو بچپن ہی سے ان کے مطالعے میں رہتے تھے، اس شاعرانہ ماحول میں وہ ۱۱ برس کی عمر ہی سے شعر کہنے لگے تھے، شاعری میں انہوں نے کبھی کسی سے اصلاح نہیں لی، ان کا ذوق ہی ان کا اصلی رہبر تھا، تاہم لسان القوم حضرت صفی لکھنوی کی ادب پرور صحبتوں سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا تھا، کیفی صاحب نے ابتدا روایتی شاعری سے کی، شروع میں حسن و عشق اور گل و بلبل کے قصوں میں الجھے مگر جب وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے تو ان کی شاعری کا رنگ و آہنگ تبدیل ہوگیا اور روایتی شاعری کا کوچہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔
عنفوانِ شباب میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن ہوگئے تھے، وہ کچھ عرصے کان پور میں بھی رہے تھے، جہاں مزدور سبھا کے کارکنوں کا ساتھ ہوگیا تھا، ان لوگوں نے چوری چھپے انہیں کمیونسٹ پارٹی کا لٹریچر دینا شروع کیا، خود کیفی صاحب کا بیان ہے کہ ’’انہیں اب وہ رستہ مل گیا جس پر انہوں نے زندگی کا سفر طے کیا ہے اور باوجود مفلوج ہوجانے کے اب تک اسی راستے پر چل رہا ہوں، ایک دن اسی راستے پر گروں گا اور سفر ختم ہوجائے گا، منزل پر یا منزل کے قریب‘‘ کمیونزم پر ان کا اعتقاد اس قدر مستحکم اور راسخ تھا کہ سوویت روس کے بکھرنے کے بعد بھی اس میں تزلزل پیدا نہیں ہوا، وہ عمر بھر اشتراکیت کے مبلغ رہے اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیں، ان کے اثر سے ان کا پورا خاندان بیوی ۱؂ بچے سب ہی اس تحریک کا دم بھرتے تھے، ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لینے کی بنا پر دو بار جیل گئے۔
اردو کی ترقی پسند تحریک سے بھی ان کا گہرا تعلق تھا اور وہ اس کے اہم ستون خیال کئے جاتے تھے۔
اشتراکیت اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے بعد ان کی شاعری عارض و کاکل کی حکایت اور گل و بلبل کا تذکرہ نہیں رہی بلکہ وہ اپنے درد مند دل کی داستان سنانے اور زندگی اور سماج کے پیچیدہ مسائل کی گتھیاں سلجھانے اور اس طرح کے غزلیہ اشعار کہنے لگے۔
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں تو مل جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا
ان کے نزدیک زندگی جدوجہد بن گئی۔
زندگی جہد میں ہے صبر کے قابو میں نہیں
نبضِ ہستی کا لہو کانپتے آنسو میں نہیں
اب انہیں غزل کی تنگ دِامانی کا احساس ہونے لگا، اس لیے سیاسی سماجی اور انقلابی نظمیں لکھ کر قوم میں باغیانہ اور احتجاجی خیالات کی پرورش کرنے لگے، ان کی نظموں میں بڑی گھن گرج، جوش و خروش اور رحم دلی تھی، ان کے پڑھنے کا انداز بھی بڑا انوکھا اور منفرد تھا، جس سے وہ عجیب ڈرامائی کیفیت پیدا کر کے سامعین کو مرعوب و مسحور کردیتے تھے، راقم کو مشاعروں میں بھی انہیں سننے کا کئی بار اتفاق ہوا اور دارالمصنفین کی مخصوص صحبتوں اور نشستوں میں بھی، ان کی آواز میں غضب کا جادو اور لہجہ میں بڑا رعب و اثر تھا، ان کی شاعری درد و گداز اور سوز و اثر کا مرقع ہوتی تھی۔
اب ان کا قلم مجبوروں، مظلوموں اور مراعات سے محروم طبقوں کے لیے وقف ہوگیا تھا، ان کی شاعری مساوات، ہمدردی اور قومی ایکتا، انصاف، جمہوریت اور انسان دوستی کا پیغام بن گئی غریبی، مفلسی، فرقہ پرستی اور فسطائیت کے خلاف احتجاج کرنا ان کا شیوہ ہوگیا تھا اور وہ مزدوروں، کسانوں، کمزوروں کے وکیل اور ترجمان ہوگئے تھے۔
کیفی صاحب کی شعری تصانیف کے نام یہ ہیں :
جھنکار، آخرِشب، آوارہ سجدے، سرمایہ، میری آواز سنو (فلمی نغموں کا مجموعہ) ابلیس کی مجلس شوریٰ (دوسرا اجلاس)
ان کی جن نظموں کو بڑی شہرت و قبولیت نصیب ہوئی ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
اندیشے، زندگی، ایک لمحہ، ابن مریم، بہروپنی، عورت، رام کا بن باس، تلنگانہ، مکان وغیرہ موخرالذکر کے یہ دو شعر ملا حظہ ہوں:
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو میں بھی اٹھوں، تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
ان کے بعض اور اشعار بھی دیکھئے:
اعلانِ حق میں پھنس گیا دار و رسن تو کیا
لیکن سوال یہ ہے کہ دار و رسن کے بعد
انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہئے دو گز کفن کے بعد
دستور کیا یہ شہرِ ستم گر کے ہوگئے
دیکھا جو مڑ کے ہم نے وہ پتھر کے ہوگئے
شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا
کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا
جناب کیفی کو نثر نگاری کا بھی اچھا سلیقہ تھا، وہ بڑی خوبصورت اردو نثر لکھتے تھے، شروع میں کمیونسٹ پارٹی کے اردو روزنامہ "جنگ" میں کام کیا تھا، ایک زمانے میں ہفتہ وار "بلٹز" ممبئی میں "نئی گلستان" کے عنوان سے طنزیہ و مزاحیہ کالم لکھتے تھے، جن میں موجودہ سیاسی و سماجی مسائل کا تذکرہ ہوتا تھا، ان کا لکھا ہوا کالم دیوناگری میں دو جلدوں میں چھپ گیا ہے، آخر عمر میں وہ کبیر پر بھی کام کررہے تھے، جب مجواں تشریف لاتے تو اس کے مواد کی تلاش میں دارالمصنفین بھی آتے، کبیر پر ہندوستانی اکیڈمی کی کتاب کو وہ استفادے کے لیے دارالمصنفین سے کئی بار اپنے گھر لے گئے، وہ اچھے ڈرامے بھی لکھتے تھے۔
کیفی صاحب میں تقریر کا ملکہ خدا داد تھا، بڑے اچھے مقرر تھے، مجمع کو قابو میں کرلینے میں ان کو ملکہ حاصل تھا، ایک مرتبہ صبر حد کے سرسید انٹر کالج کے جلسے میں وہ اور میں دونوں مرحوم ڈاکٹر محمد طاہر لکچرار شبلی کالج کی دعوت پر گئے تھے، ان کی طبیعت خراب تھی، منتظمین کو اندیشہ تھا کہ وہ تشریف نہیں لاسکیں گے مگر کیفی صاحب وعدے کے پکے تھے، علالت کے باوجود تشریف لائے، معذرت کی کہ انہیں زحمت نہ دی جائے مگر لوگ کہاں ماننے والے تھے، ان سے پہلے میری تقریر ہوئی، میں نے اپنی تقریر جلد ہی ختم کرتے ہوئے کہا کہ کیفی صاحب کی موجودگی میں مجھے لمبی گفتگو کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا، اس لیے میں آپ کے اور ان کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہتا، اس سے ان کو تھوڑی آزردگی ہوئی مگر وہ حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائے اور بیماری اور طبیعت کی بے کیفی کے باوجود بڑی و جد آفرین اور پر اثر تقریر کی۔
فلم سے تعلق کی بنا پر بھی انہیں پورے ملک میں شہرت ملی، ہندوستانی فلموں کو انہوں نے دل و دماغ کو مسحور کردینے والی اپنی گیتوں سے مالا مال کیا، انہوں نے اپنے وقت کی بعض کامیاب فلموں کے لیے جو گانے لکھے، ان سے اب تک لوگ لطف اندوز ہورہے ہیں۔
ہندوستانی فلموں کے گانوں کا معیار بہت پست اور بازاری ہے، لیکن کیفی اور ان کے معاصر نغمہ نگاروں شکیل بدایونی، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی اور جاں نثار اختر وغیرہ کی فلمی دنیا سے وابستگی سے چاہے ان کی شاعری کا نقصان ہوا ہو لیکن انہوں نے فلمی نغموں میں سوقیت اور ابتذال کو نہیں آنے دیا کیوں کہ انہوں نے کم درجہ کے شعر اور گیت لکھنے والوں کی طرح فلم بینوں کے ذوق اور پسند و ناپسند کو معیار بنانے کے بجائے ان کے ذوق و پسند کو اپنے اعلا مذاق سے ہم آہنگ بنایا اور اپنے بلند معیار کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔
کیفی صاحب کی ادبی خدمت کا ایک میدان ڈرامہ نگاری بھی ہے، انہیں اس سے بڑی دلچسپی تھی اور اس کا بہت ملال تھا کہ آغا حشر کے سوا کسی نے اس فن کی جانب زیادہ توجہ نہیں کی، وہ انڈین پیوپلو تھیٹر ایسوسی ایشن کے تاسیسی اور فعال رکن تھے اور بعد میں اس کے صدر بھی ہوگئے تھے اس سوسائٹی کی طرف سے پرتھوی تھیٹر میں اچھے اور مقبول ڈرامے اسٹیج کئے گئے اور انہوں نے خود بھی اس کے تحت ’’آخری شمع‘‘ کے عنوان سے مرزا غالب کے کردار پر ایک ناٹک لکھا تھا۔
کیفی صاحب نے اردو شعر و ادب اور زبان کی گوناگوں خدمت انجام دی، ان کی خدمات کا پورا اعتراف کیا گیا، بڑے بڑے مشاعروں اور ادبی و تعلیمی جلسوں میں وہ مدعو کئے جاتے تھے، اور ان کی بڑی پذیرائی کی جاتی تھی، اکثر ریاستوں کی اردو اکیڈمیوں نے اپنے بڑے سے بڑے انعامات دیئے، دلی سرکار اور اردو اکادمی کا ملینیم ایوارڈ ابھی حال میں ان کو ملا تھا جو گیارہ لاکھ روپئے کا تھا، غالباً اس سے بڑا ایوارڈ ابھی تک اردو کے کسی شاعر یا اہل قلم کو نہیں ملا ہے، حکومت کے پدم شری اعزاز کو اس کے اردو کے ساتھ معاندانہ و متعصبانہ رویے کی بنا پر احتجاجاً قبول نہیں کیا۔
کیفی صاحب بڑے ظریف و طباع، نہایت شریف، خوش خلق، ملنسار اور ہمدرد و غم گسار شخص تھے، وہ کمزور طبقوں کے دکھ درد سے تڑپ اٹھتے تھے ان کی شاعری مزدوروں کسانوں اور سماج کے دبے کچلے طبقوں کے احساسات و کیفیات کا مرقع ہوتی تھی، سماجی و فلاحی کاموں سے شغف تھا، بمبئی کی اکثر تحریکوں سے وابستہ رہے، اپنے گاؤں سے ان کا تعلق کبھی منقطع نہیں ہوا، زندگی کے آخری ایام اکثر یہیں گزارے اور گاؤں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے گوناگوں کام انجام دیئے، اپنے بنگلہ کے علاوہ باغ، سڑک اور اسکول قائم کیا، اپنی تمام کتابیں اس کے لیے نذر کردیں، ملینیم ایوارڈ کی زیادہ رقم گاؤں کی ترقی میں لگادی۔
وہ عزم و استقامت کا پیکر تھے، جس نظریے سے وابستہ تھے، اس پر ہمیشہ مضبوطی سے قائم رہے نا موافق حالات میں بھی اس سے ان کا رشتہ کمزور نہیں ہوا، ان کی قوتِ ارادی غضب کی تھی، کبھی پست ہمت اور کم حوصلہ نہ ہوتے، پچیس تیس برس سے مفلوج ہوگئے تھے، اس کے باوجود وہ مسلسل سفر کرتے رہتے تھے، کسی تقریب اور پروگرام کی شرکت میں ان کی معذوری و مجبوری حائل نہ ہوتی، ملک بھر کے مشاعروں میں بے تکلف پہنچ جاتے، لکھنے پڑھنے کا کام برابر جاری رہتا تھا، مشکل سے مشکل کام اپنے ذمہ لے لیتے اور اس کے لیے بھاگ دوڑ کرتے رہتے، اعظم گڑھ سے بمبئی کے لیے گاڑی چلانے اور اپنے گاؤں کے قریبی اسٹیشن پھول پور میں اسے رکوانے میں بڑی جدوجہد کی۔
کیفی صاحب کی ذات سے کبھی کسی کو تکلیف یا نقصان نہیں ہوا ہوگا، وہ ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن طالب علمی کے زمانے ہی میں انہیں مذہب سے توحش ہوا اور اپنے قلب و روح کی تسکین کا سامان کمیونزم میں ملا جس پر ان کی استواری آخر تک رہی مگر اپنی طبعی شرافت کی بنا پر وہ مذہبی لوگوں سے بھی راہ و رسم رکھتے تھے اور کبھی ان کی دل آزاری نہیں کرتے تھے، تعجب ہوتا ہے کہ ان جیسے ذہین اور دیدہ ور شخص پر اصل حقیقت منکشف نہیں ہوئی، کاش وہ مزید غور و فکر سے کام لیتے تو گوہر مراد ضرور ان کے ہاتھ آجاتا مگر جگر مراد آبادی نے سچ کہا ہے:
اﷲ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں
فیضانِ محبت عام سہی عرفانِ محبت عام نہیں
(ضیاء الدین اصلاحی، جولائی ۲۰۰۲ء)

۱؂ کیفی صاحب ۱۹۴۷؁ء میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے حیدرآباد گئے اور مشہور ترقی پسند جناب اخترحسن مدیر ’’پیام‘‘ کے یہاں قیام کیا۔ یہیں ان کی سالی شوکت خانم سے کیفی صاحب کی ملاقات ہوئی اس کے بعد جلد ہی وہ ان کے حبالہ عقد میں آگئیں اور زندگی بھر ان کی ہم نوا اور دم ساز بنی رہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...