Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولوی محمد مسعود خاں

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولوی محمد مسعود خاں
ARI Id

1676046599977_54338444

Access

Open/Free Access

Pages

656

مولوی محمد مسعود خاں
افسوس ہے کہ ۳؍ جولائی ۲۰۰۲؁ء کو مشہور قومی کارکن مولوی محمد مسعود خاں ایک سڑک حادثے میں دہلی میں وفات پاگئے، وہ ایک دین دار گھرانے کے فرد تھے، ان کے بڑے بھائی مولانا محمد سعید خاں شبلی نیشنل اسکول میں ہڈ مولوی اور سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ کے شیخ طریقت تھے، جن کی ذات سے لوگوں کو بڑا فیض پہنچا، مسعود خاں صاحب نے شروع میں دینی تعلیم حاصل کی، پھر بی۔اے ایل ایل بی کر کے اعظم گڑھ کی کلکٹری کچہری میں وکالت شروع کی۔
قوم و ملت کی خدمت کی جانب ان کا طبعی میلان تھا، اس لیے وکالت کے ساتھ اپنے جدید وطن منگراواں کے مکتب کو عربی مدرسہ کی شکل دے دی، ہر سال گرمیوں میں اس کے جلسے کراتے جن میں جمعیۃ علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمد حفظ الرحمن سیوہارویؒ بھی تشریف لاتے تھے۔
جمعیۃ علما سے تعلق کے باوجود وہ کانگریس سے اس کے متعصبانہ اور مسلم دشمن رویے کی بنا پر سخت بیزار تھے، اس لیے مسلم مجلس میں شامل ہوگئے تھے، لیکن ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے انتقال کے بعد اس کے حصے بخرے ہوگئے، تو انہوں نے چودہری چرن سنگھ کی پارٹی کا انتخاب کرلیا اور وفات تک اسی کے ساتھ تھے، اس وقت لوک دل (اجیت) کی ریاستی شاخ کے صدر تھے، ان میں بڑی تنظیمی صلاحیت تھی اور وہ ایک ایمان دار اور عملی آدمی تھے، اس کی وجہ سے پارٹی میں ان کا وزن تسلیم کیا جاتا تھا، اس کے ٹکٹ پر وہ کئی بار یو۔پی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، پھر راجیہ سبھا کے ممبر ہوئے، اس وقت بھی یو پی کونسل کے ممبر تھے۔
۱۹۷۷؁ء میں مسٹر رام نریش یادو کی سربراہی میں اترپردیش میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی تو مسعود خاں پی۔ڈبلو۔ڈی منسٹر ہوئے اور گوناگوں سماجی اور فلاحی کام کئے اور پوری ریاست میں سٹرکوں کا جال بچھا دیا، وہ علمائے دین اور بزرگوں سے بھی تعلق رکھتے تھے، وزیر ہونے کے بعد جب پہلی دفعہ مولانا علی میاں سے ملاقات کے لیے گئے تو کہا کہ خدمت کا کوئی موقع دیجئے، مولانا نے فرمایا کہ کئی آدمیوں سے کہا کہ رائے بریلی سے تکیہ کلاں میری قیام گاہ تک آنے والی سڑک بنوادیں، سب لوگ ہاں ہاں کر کے چلے جاتے ہیں مگر ابھی تک وہ نہیں بنی، آپ سے بھی اسی کی درخواست ہے، مسعود صاحب نے کہا آپ کب رائے بریلی جائیں گے، مولانا نے کوئی تاریخ بتائی تو انہوں نے کہا انشاء اﷲ اس وقت تک بن جائے گی، چنانچہ واقعی بن گئی۔
ان کی وزارت کے زمانے میں ایک دفعہ میں ان کے آفس میں ملا، اس ملاقات کی یہ بات اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے، ’’یہاں آنے کے بعد اندازہ ہوا کہ پورا ہندوستان بے ایمان ہوگیا ہے‘‘۔
میرے علم و واقفیت کے مطابق دریا میں رہتے ہوئے بھی ان کا دامن تر نہیں ہوا اور نہ ان پر بدعنوانی اور کنبہ پروری وغیرہ میں ملوث ہونے کا الزام لگا، وہ لوگوں کے ایسے ذاتی کام کرنے سے گریز کرتے تھے، جن میں دوسروں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا تھا، اس کی وجہ سے وہ لوگ ان کی بڑی شکایت کرتے تھے جو اپنے ذاتی مفاد اور مخصوص اغراض سے ان سے چمٹے رہتے تھے، اس طرح جن کاموں میں دھاندلی اور بدعنوانی کا مرتکب ہونا پڑتا ہے، وہ خواہ ان کے عزیز اور دوست ہی کا کام کیوں نہ ہو اس میں نہیں پڑتے تھے، وزیر ہوتے ہوئے نہ انہوں نے خود ناجائز فائدے اٹھائے اور نہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو اس کا موقع دیا، خود بدعنوانیوں سے بچنا آسان ہے مگر وہ اپنے دائرہ اختیار کے لوگوں کو بھی ان کا مرتکب نہ ہونے دیتے تھے، ان کے مدرسہ کے سفرا یا وہ خود ملک یا بیرون ملک جاتے اور انہیں ہدایا و تحائف ملتے تو اسے مدرسہ ہی کے کھاتے میں رکھواتے تھے، معلوم ہوتا ہے احادیث میں ابن اللتیہ کا جو واقعہ ہے وہ ان کے پیش نظر ہوتا تھا۔
تعلیمی میدان میں پہلے انہوں نے لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ عربی مدرسے قائم کئے جن کے طلبہ الٰہ آباد بورڈ کے امتحانات دیتے ہیں، پھر جدید تعلیم کے لیے ایک انٹرمیڈیٹ کالج قائم کیا، چند برس پہلے ڈگری کالج کی منظوری بھی مل چکی ہے اور بی۔اے کی کلاسیں بھی چل رہی ہیں، دو تین برس سے بڑی تیزی سے کالج کی عمارتیں بن رہی تھیں، اﷲ تعالیٰ غیب سے تکمیل کا سامان کردے۔
وہ اعظم گڑھ کے متعدد علمی و تعلیمی اداروں کے رکن تھے، ایک زمانے میں شبلی کالج کی انتظامیہ کے بڑے سرگرم رکن تھے، مدرستہ الاصلاح سرائے میر کے بھی وہ سرگرم ممبر تھے، اپنے اثر و رسوخ اور مفید مشوروں سے اس کو بڑا فائدہ پہچاتے تھے، مولانا بدرالدین اصلاحی کے انتقال کے بعد جب میرا نام نظامت کے لیے تجویز ہوا تو میں کسی طرح اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہورہا تھا مگر وہ اڑ گئے کہ جب پورا ہاؤس اس پر متفق ہے تو آپ کیسے انکار کرسکتے ہیں، انکار کرتے ہیں تو کوئی ایسا نام پیش کریں جس پر سب لوگ متفق ہوجائیں۔
جن مدرسوں سے ان کا تعلق نہیں ہوتا تھا ان کو بھی فائدہ پہچاتے، ان میں جامعتہ الرشاد کا نام سرفہرست ہے، ہر انسان میں کمزوریاں بھی ہوتی ہیں، ان سے بھی خدا اور بندگان خدا کے حقوق میں کمی اور کوتاہی ہوئی ہوگی، وہ بڑے اچھے منتظم تھے، مگر گفتگو میں ان کا طرز تخاطب اور لب و لہجہ اچھا نہیں ہوتا تھا، قول حسن کی قرآن مجید اور احادیث میں بڑی تاکید کی گئی ہے، لیکن وہ ایمان دار، دیانت دار اور بڑی خوبیوں کے انسان تھے، ان کی وفات ایک قومی و ملی حادثہ ہے، وہ اعظم گڑھ کے لیے مایۂ فخر تھے، ان کی جیسی قدر کرنی چاہئے تھی نہیں کی گئی، آئندہ ان کی کمی بہت محسوس کی جائے گی۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی،جولائی ۲۰۰۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...