Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر اکبر رحمانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر اکبر رحمانی
ARI Id

1676046599977_54338446

Access

Open/Free Access

Pages

658

پروفیسر اکبر رحمانی
جناب اکبر رحمانی کی وفات ایک قومی و ملی حادثہ ہے، وہ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے، اس کے باوجود بڑی سرگرمی سے تعلیمی، ادبی اور علمی خدمات بھی انجام دے رہے تھے، لیکن وظیفہ یاب ہونے کے بعد وہ محض علمی مشاغل اور تصنیف و تالیف کے لیے وقف ہوگئے تھے، اس کی وجہ سے خیال تھا کہ اب قوم کو ان کی ذہنی و دماغی قابلیت سے زیادہ بہرہ یاب ہونے کا موقع ملے گا، مگر دستِ اجل نے ان کو ہم سے چھین لیا۔ اور ۱۷؍ ستمبر کو وہ جوارِ رحمت میں پہنچ گئے، انااﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ ذیابیطس اور کئی موذی امراض میں مبتلا تھے، گردے بھی خراب ہوگئے تھے، دو سال پہلے حج بیت اﷲ کو تشریف لے گئے تھے وہیں گینگرین کیے سبب سے دائیں پاؤں کا انگوٹھا کاٹنا پڑا۔ اور ہندوستان واپس آنے کے بعد گھٹنے تک دایاں پاؤں کاٹ دیا گیا مگر ایک بندۂ مومن کی طرح وہ ان آزمائشوں کا صبر و شکر سے مقابلہ کرتے اور ہمہ تن اپنے تحریری اور تصنیفی کام انجام دیتے رہے کہ یکایک ان کی وفات کی خبر نے سب کو تڑپا دیا۔
مرحوم کا اصل نام اکبر خاں اور والد کا رحمان خاں تھا ان دونوں کے امتزاج سے انہوں نے اپنا قلمی نام ’’اکبر رحمانی‘‘ رکھ لیا تھا اور اسی سے روشناس تھے۔
اکبر صاحب کا خاندانی تعلق لودھیوں سے تھا ان کے آباواجداد ابراہیم لودھی کے زمانے میں ہندوستان آئے، آبائی وطن گنگا پور (اورنگ آباد دکن) تھا ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۴۱؁ء کو پیدا ہوئے، ابتدائی و ثانوی تعلیم جلگاؤں میں حاصل کی، اعلیٰ تعلیم پونا اور بمبئی کی یونیورسٹیوں میں پائی، اردو کے علاوہ فارسی، انگریزی، ہندی اور مراٹھی زبانوں سے واقف تھے، ہندی اور مراٹھی کے مضامین اور کہانیوں کے اردو ترجمے برابر کرتے رہتے تھے، افکار کراچی میں بھی ان کے ترجمے چھپتے تھے، برسوں روزنامہ انقلاب بمبئی کا ہفتہ وار کالم ’’مراٹھی اخبارات کی جھلکیاں‘‘ اور اردو ٹائمز بمبئی کا ’’ہندی اخبارات کی جھلکیاں‘‘ لکھا اور ہندی میں بعض کتابیں بھی لکھیں۔
وہ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے اس لیے تعلیم و تدریس اور ان سے متعلقہ مسائل پر برابر مفید مضامین لکھتے رہتے تھے، اسی مقصد سے ایک تعلیمی رسالہ ’’آموزگار‘‘ نکالا تھا۔ جو اپنی نوعیت کا منفرد رسالہ ہے، فرقہ وارانہ اور تنگ نظر ذہن کے لوگ درسی و غیر درسی خصوصاً تاریخ اور نصابی کتابوں میں جو زہر بھرتے رہتے تھے یا اردو یا اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کی زیادتیاں اور ناانصافیاں ہورہی تھیں ان کا تدارک کرنا انہوں نے اپنا فرض بنالیا تھا، اپنے وسیع تعلیمی تجربات کی بنا پر وہ سرکاری اور غیر سرکاری متعدد تعلیمی اور نصابی کمیٹیوں کے ممبر تھے، کئی درسی کتابوں کی تدوین کا کام بھی انجام دیا۔
اکبر رحمانی صاحب نے درجنوں مفید کتابیں لکھیں جن میں حسب ذیل چھپ گئی ہیں:
(۱)بچوں کی کہانیاں اول و دوم (۲)تحقیقات و تاثرات (۳)قومی یک جہتی اور نصابی کتابیں (۴)اقلیتوں کے تعلیمی حقوق و مسائل (۵)اردو میں ادبِ اطفال ایک جائزہ (۶)تاریخ خاندیش کے بکھرے اوراق (۷)آموزگار اقبال (۸)اردو مدارس کے معیار تعلیم کا مسئلہ (۹)علی گڑھ سے دیوبند تک (۱۰)سخن ہائے گفتنی (۱۱)اورنگ زیب کی داستانِ معاشقہ۔ افسانہ یا حقیقت (۱۲)مراٹھی نامہ وغیرہ۔
ابھی متعدد کتابیں شائع نہیں ہوسکی ہیں، خاندیش کی تاریخ بڑی محنت و تحقیق سے لکھی تھی اور غالباً اب چھپ بھی گئی ہو مگر افسوس خود وہ اسے مطبوعہ صورت میں نہ دیکھ سکے۔
اکبر رحمانی صاحب اپنی گو ناگوں علمی و تعلیمی خدمات کی وجہ سے کئی اداروں اور علمی و تعلیمی کمیٹیوں کے ممبر تھے، انھوں نے اپنے علاقے میں اردو تحریک کی قیادت بھی کی، انجمن ترقی اردو ہند کی ضلعی شاخ کے صدر تھے، مہاراشٹر اردو اکادمی کے بھی برابر رکن نامزد کئے جاتے تھے، اپنے علاقے میں مقبول اور ہر دل عزیز تھے، وہاں کی متعدد انجمنوں کی سربراہی کی، مساجد و مقابر اور دوسری ٹرسٹوں کے صدر، سکریٹری اور ممبر منتخب کئے جاتے تھے۔
رحمانی صاحب نے اپنے قلم کا ہی لوہا نہیں منوایا بلکہ وہ تقریر و خطابت کے بھی مرد میدان تھے، اچھی تقریریں کرتے تھے، ان میں الجھے مسائل اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے کی اچھی صلاحیت تھی۔
مختلف اداروں نے ان کی خدمات اور قابلیت کی بنا پر اعزاز اور ایوارڈ سے نوازا، سیمیناروں اور کانفرنسوں میں وقتاً فوقتاً شریک ہوتے تھے ان سے میری پہلی ملاقات جنوب مشرقی ایشیائی سیمینار خدابخش لائبریری پٹنہ، بہار میں ہوئی جہاں انھوں نے بعض تعلیمی امور و مسائل کے متعلق مجھ سے کچھ سوالات کئے جن کا جواب ریکارڈ کرلیا تھا اور بعد میں اسے ’’آموزگار‘‘ میں شائع کیا۔ اس کے بعد میرے ان سے بڑے روابط ہوگئے تھے، اکثر خط و کتابت رہتی تھی۔ وہ تعلیمی کارواں کے ساتھ جس کے قافلہ سالار جناب سید حامد تھے دارالمصنفین تشریف لائے اسی طرح جامعۃ الفلاح میں بھی کسی پروگرام کے تحت آئے تو کئی روز یہاں قیام کیا، اس عرصے میں ان کا زیادہ وقت درارلمصنفین کے کتب خانہ میں گزرتا تھا، ہر وقت کتابوں کے مطالعہ میں منہمک رہتے تھے۔
وقتاً فوقتاً معارف میں ان کے مضامین شائع ہوتے تھے، ادھر ڈاکٹر اقبال خصوصاً ان کے مکاتیب رحمانی صاحب کی دلچسپی اور تحقیق کا خاص موضوع ہوگیا تھا، اس سے متعلق ان کے کئی مضامین شائع ہوئے، لمعہ حیدرآبادی پر بھی، ان کا کام تھا، انھوں نے ان کے نام کے ڈاکٹر صاحب کے بعض خطوط کی نشاندہی کی تو بعض حضرات خصوصاً ماسٹر اختر صاحب (بھوپال) کو اس سے شدید اختلاف ہوا۔ اس کی وجہ سے دونوں میں بڑی نوک جھونک رہی۔
ڈاکٹر اکبر رحمانی کی زندگی علم و ادب کی خدمت اور تحقیق و تنقید میں گزری، تعلیمی محاذ پر انھوں نے بے مثال کام کیا تا عمر غیر مسلم متعصب اہل قلم اور میڈیا کے زہر کا تریاق مہیا کرتے رہے۔ مسلمانوں میں اس طرح کے علمی و تعلیمی کام خاموشی اور خلوص سے انجام دینے والے اب بہت کم رہ گئے ہیں اﷲ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے اور پس ماندگان کو صبر و قرار نصیب کرے۔
مرحوم کے بڑے صاحب زادے سہیل اختر حوصلہ مند معلوم ہوتے ہیں، لیکن ابھی لائق تربیت ہیں۔ تاہم وہ اپنے والد بزرگوار کے کاموں کو جاری اور ناتمام کو مکمل کرنا چاہتے ہیں، اﷲ تعالیٰ انہیں اس کی ہمت و توفیق دے آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، نومبر ۲۰۰۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...