Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر محمد حمیداﷲ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر محمد حمیداﷲ
ARI Id

1676046599977_54338447

Access

Open/Free Access

Pages

659

آہ! فاضل گرامی ڈاکٹر محمد حمیداﷲ رحلت فرما گئے
افسوس صد افسوس کہ وہ فرزند اسلام نہیں رہا، جس کی اذانِ توحید سے مغرب کی وادیاں گونج رہی تھیں اور ہزاروں نفوس ایمان و اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہورہے تھے، وہ سرچشمہ ہدایت بند ہوگیا جس سے مریضانِ کفر و ضلالت شفایاب ہورہے تھے، واحسرتاکہ دین و دانش کا وہ آفتاب غروب ہوگیا جس سے مشرق و مغرب دونوں ضیابار تھے اور تاریکیوں میں بھٹکنے والے راہ یاب ہورہے تھے، علم کا وہ بے کراں سمندر راکد ہوگیا جس سے اسلام کا درخت سرسبز و شاداب تھا، دریاے تحقیق کا وہ شناور اور غواص چلا گیا جو یورپ کے کتب خانوں میں اپنے آبا کی موجود کتابوں سے علم کے جواہر نکالتا تھا، وہ پیکرِ علم و فن روپوش ہوگیا جو ابرنیساں بن کر پون صدی سے موتی لٹارہا تھا، حکمت و معرفت کا وہ مجمع البحرین دنیا سے رخصت ہوگیا جو مشرق کے علمی میخانوں سے بھی سرشار تھا اور مغرب کے میکدہ حکمت سے بھی مخمور تھا، وہ ہستی نہیں رہی جس کے فیض و کمال کا سکہ بلادِ مشرق اور عالمِ اسلام ہی میں نہیں، یورپ و امریکہ میں بھی چل رہا تھا، حیف صدحیف اس ذات گرامی کا خاتمہ ہوگیا جس کا دماغ نادر معلومات کا خزینہ اور سینہ علومِ نبوی کا سفینہ تھا، جس کا قلم دشمنانِ اسلام کی علمی خیانتوں اور عیاریوں کو بے نقاب کرتا تھا اور اسلام اور اسلامی تعلیمات کی حقانیت و صداقت کو آشکار کرتا تھا، آہ ثم آہ کہ وہ سراپا علم و تحقیق روپوش ہوگیا جو تاریخ اسلام اور سیرت نبوی کے اولین مصادر اور مسلمانوں کے نایاب اور گم شدہ علمی اندوختوں کو ڈھونڈ نکالتا تھا، وہ وجودِ مقدس خاموش ہوگیا جس نے پیرس میں بھی آداب سحر خیزی نہیں چھوڑے، جس کے راسخ العقیدگی کو مغرب کے فسق و فجور نے اور پختہ کردیا تھا اور فحاشی و معصیت کی طغیانی نے اس کے ایمان و یقین میں مزید اضافہ کردیا تھا، وادریغا کہ وہ کامل الایمان اور راسخ العقیدہ غایب ہوگیا جس کے پاے استقامت و عزیمت کو کفر و الحاد کی بادِ صرصر کبھی متزلزل نہیں کرسکی، جس کی متاع دین و تقوی کو حسن و عشرت کی جلوہ گاہیں غارت نہ کرسکیں اور جس کے دامن عفت وطہارت پر دنیا کی رعنائیاں اور دل فریبیاں کوئی داغ و دھبا نہ ڈال سکیں یعنی شہرہ آفاق عالم و محقق، نام ور مصنف و فاضل، اسلام کے جاں نثار و فدائی اور اس کے مخلص داعی و مبلغ، نکتہ داں سیرتِ نگار، دیدہ ور مورخ، اسلامی فقہ و قانون کے ماہر، علوم دینیہ میں یگانہ اور جدید علوم میں فخر روزگار ڈاکٹر محمد حمید اﷲ نے ۹۴ برس کی عمر میں ۱۷؍ دسمبر ۲۰۰۲؁ء کو داعی اجل کو لبیک کہا، اناﷲ وانا الیہ راجعون، جن کی پاکیزہ زندگی اور مطہر شخصیت قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا نمونہ تھی اور جو اس عہد کے ابن سعد و طبری، بلاذری و یعقوبی، ابن اسحاق و ابن ہشام، ابن اثیر و ابوالفدا اور شمس الائمہ سرخسی اور علامہ ابن عابدین تھے، ان کی موت سے عالم اسلام ویران ہوگیا، دنیائے علم میں خاک اڑنے لگی، اہل علم، اصحابِ نظر اور محققین، سراپا درد و حسرت بنے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں:
آفاقہا گردیدہ ام، مہر بتاں و رزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام اما تو چیزے دیگرے
ڈاکٹر محمد حمیداﷲ ۱۶؍ محرم الحرام ۱۳۲۶؁ھ، ۱۹؍ فروری ۱۹۰۸؁ء کو حیدر آباد میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق ارکاٹ (مدراس) کے مشہور عالم قاضی بدرالدولہ کے خاندان سے تھا جو ایک شریف و معزز عربی النسل نوائطی خاندان کی شاخ تھا، ان کے خاندان کو پشتینی علمی و دینی وجاہت حاصل تھی، ڈاکٹر صاحب کے والد مفتی خلیل اﷲ صاحب علوم دینیہ میں ممتاز تھے، اس طرح ڈاکٹر صاحب کا علمی و دینی شغف فطری ہی نہیں موروثی بھی تھا، جامعہ نظامیہ سے فراغت کے بعد جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے فقہ و اصولِ فقہ میں ایم۔اے کیا، پھر ایل۔ ایل۔ بی، ایل۔ ایل۔ ایم اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں، اس کے بعد ان کی حوصلہ مند طبیعت نے جرمنی اور فرانس کا رخ کیا اور بون یونیورسٹی (جرمنی) سے ’اسلام کے بین الاقوامی تعلقات‘ پر ڈی فل کی اور سوربون یونیورسٹی پیرس سے ’عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری‘ کے موضوع پر ڈی لٹ کی سند لی، اس کے بعد وطن آکر جامعہ عثمانیہ میں قانون بین الملکی کے پروفیسر کی حیثیت سے درس و تدریس کی خدمات انجام دیں، سقوط حیدرآباد کے زمانے میں حیدرآباد سے گئے تو واپس نہیں لوٹے اور ۱۹۴۸؁ء میں فرانس میں پناہ گزیں ہوئے اور اورینٹل اسٹڈیز ریسرچ سینٹر کے وظیفے پر پچیس برس گزارے، فرانس کے نیشنل سینٹر آف سائنٹفک ریسرچ سے بھی بیس سال تک وابستہ رہے، اس کے بعد پیرس ہی میں رہ کر تحقیق و تبلیغ اور اسلام پر مختلف زبانوں میں تصنیف و تالیف کا کام کرتے رہے اور یہی دراصل ان کی زندگی کا اصل مشن تھا، اس عرصے میں انہوں نے یورپ و ایشیا کی متعدد جامعات میں اہم موضوعات پر توسیعی خطبات دیے، اس سلسلے میں انقرہ، استنبول (ترکی)، کوالالمپور (ملیشیا)، قاہرہ (مصر) اور یورپ کے بعض ملکوں میں ان کے لکچر ہوئے جن میں اسلام کے بارے میں جدید ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا، پاکستان کی نوزائیدہ اسلامی مملکت کی آئین سازی اور نظام تعلیم کا خاکہ تیار کرنے میں بھی ہاتھ بٹایا جس میں بعض ممتاز علما کے علاوہ علامہ سید سلیمان ندوی بھی شامل تھے، مگر جلد ہی ڈاکٹر صاحب کو حکومت کی بدنیتی کا اندزہ ہوگیا تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل سے الگ ہوگئے، ڈاکٹر صاحب کی حیات مستعار کا زیادہ حصہ پیرس میں تنِ تنہا گزارا، آخر میں طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اپنے بھائی کی پوتی سدیدہ شفق صاحبہ کے یہاں فلوریڈا (امریکہ) چلے گئے، بالآخر بہت مشغول علمی و تحقیقی زندگی گزار کر ۱۷؍ دسمبر ۲۰۰۲؁ء کو خالق حقیقی سے جاملے، سیدیدہ صاحبہ کے والد محترم اور ڈاکٹر صاحب کے برادر زادہ جناب عطاء اﷲ صاحب کے خط ہی سے مجھے ان کی وفات کی دل دوزخبر ملی، ۱۸؍ دسمبر کو جب ان کا جنازہ اٹھا ہوگا تو یہ غیبی صدا ضرور بلند ہوئی ہوگی کہ:
رفتم و از رفتن من عالمے تاریک شد
من مگر شمعم چوں رفتم بزم برہم ساختم
ڈاکٹر محمد حمیداﷲ مدت العمر تصنیف و تالیف میں مشغول رہے، بحث و تحقیق کا ذوق ان میں فطری تھا اور تلاش و جستجو کی طرف ان کا طبعی میلان تھا، وہ فنافی العلم تھے، ان کی زندگی کا کوئی لمحہ جستجوئے علم و تحقیق سے خالی نہیں گزرتا تھا، اس لیے جو کچھ لکھا وہ عالمانہ، محققانہ، بحث و تحقیق کا شاہکار، محنت و جاں فشانی اور کدوکاوش کا نتیجہ ہے، ان کا تحریری سرمایہ و افرو متنوع ہونے کے باوجود جدت و ابتکار سے خالی نہیں، انہوں نے تصنیف و تالیف میں اپنی راہ الگ نکالی تھی، ان کا پسندیدہ موضوع سیرت نبوی تھا، اس کے بہتر ان کے نزدیک کوئی اور مشغلہ نہیں تھا، مگر ان کی تمام تصنیفات سیرت کے پامال، فرسودہ اور روایتی انداز سے ہٹ کر لکھی گئی ہیں، اردو کی اکثر تصنیف اسی موضوع پر ہیں اور سب نرالی اور اچھوتی ہیں مثلاً رسول اکرمؐ کی سیاسی زندگی، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، عہد نبوی کا نظام تعلیم، عہد نبوی کے میدان جنگ، مکتوبات نبوی، امام ابوحنیفہؒ کی تدوین قانون اسلامی، اسلامی ریاست، سیرت طیبہ کا پیغام عصر حاضر کے نام، عرب حبش تعلقات، اسلام کے قانون بین الممالک کے اصول اور نظیریں، ان میں معلومات کا جو خزانہ ہے اسے ڈاکٹر صاحب جیسا کثیرالعلم، وسیع المطالعہ اور جویائے تحقیق ہی جمع کرسکتا تھا، ان کے بعض معلوما ت تو انکشاف کا درجہ رکھتے ہیں، اردو میں ایک مہتم بالشان کتاب ’’خطبات بھاولپور‘‘ ہے، جو ۱۹۸۰؁ء میں بھاولپور یونیورسٹی میں کسی تحریری یادداشت اور نوٹ کے بغیر دیے گئے ۱۲ لکچروں کا مجموعہ ہے، ان میں قرآن، حدیث، فقہ، اصولِ فقہ و اجتھاد، قانون بین الممالک اور مملکت نظم و نسق کی تاریخ، دین (عقائد، عبادات، وتصوف) دفاع و غزوات، تعلیم، تشریع و عدلیہ، مالیہ و تقویم کے نظام اور تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاؤ کے متعلق ڈاکٹر صاحب کی عمر بھر کے مطالعہ و تحقیق کا نچوڑ آگیا ہے جو بہت مدلل، پر مغز، بصیرت افروز اور عہد حاضر کے مذاق و رجحان کے مطابق ہے، ان خطبو ں میں پیش کیے گئے حقایق انکشاف کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے اولیات میں شمار کیے جانے کے لایق ہیں، انہوں نے دائرۃ المعارف الاسلامیہ (اردو انسائیکلوپیڈیا) لاہور کے لیے جو ۲۲ اہم مقالات لکھے ہیں وہ بھی ان کے علمی تبحر اور دینی بصیرت کے حامل ہیں، مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں دی تاسی کی دو کتابوں کے ترجمے، مقالات گارساں دی تاسی اور خطبات گارساں دی تاسی کے نام سے انجمن ترقی اردو ہند نے شائع کیے تھے، ڈاکٹر صاحب نے جب ان کا مقابلہ اصل فرانسیسی نسخہ سے کیا تو اس میں اغلاط نظر آئے، ان کے نظرثانی کیے ہوئے، تصحیح شدہ نسخے کو مولوی عبدالحق صاحب نے جب انجمن ترقی اردو پاکستان سے شائع کیا تو ایک ایک جلد کی دونوں کتابیں دو دو جلدوں میں ہوگئیں۔
ڈاکٹر صاحب کو بنیادی اور اصلی مصادر و ماخذ کی تلاش و جستجو سے بڑی دلچسپی تھی، قدما کی نادر و نایاب کتابوں کو ڈھونڈ نکالنا اور ان کو ایڈٹ کر کے شائع کرنا ان کا عظیم الشان کارنامہ ہے، عربی زبان کی کئی بنیادی اور اہم کتابیں ان کی دریافت اور سعی و کوشش سے شائع ہوئیں، حدیث شریف میں صحیفہ ہمام بن منبہ کا مخطوطہ برلن سے حاصل کرکے اپنے حواشی و تعلیقات کے ساتھ بیروت سے شائع کیا، سیرت کے ابتدائی مصادر میں مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ للعہد النبوی والخلافۃ الراشدۃ کو بھی بیروت سے شائع کیا، یہ عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے دور کی تین سو سے زیادہ دستاویزوں پر مشتمل ہے، سیرت ابن اسحاق جیسے نایاب اور اولین ماخذ کو دریافت اور ایڈٹ کر کے رباط سے شائع کیا، مسلمانوں کے قدیم علم سیر کو قانون بین الممالک (انٹرنیشنل لا) کے طور پر متعارف کرایا، اس کی طرف فقہ کے ابواب السیر کی وجہ سے ان کی توجہ مبذول ہوئی تھی، امام محمد بن حسن شیبانی کی کتاب السیر الکبیر کو حیدرآباد سے انہوں نے طبع کرایا، امام ابوحنیفہؒ کے ایک اور شاگرد امام ابراہیم فزاری کی اسی موضوع کی ایک کتاب کا اس کی اہمیت کی بنا پر یونسکو نے ڈاکٹر صاحب سے فرانسیسی ترجمہ کرایا تھا، اس سلسلے کی اور کتابوں کے نام یہ ہیں انساب الاشراف بلاذری، کتاب الانواء ابن قتیبہ، کتاب الردونبذۃ من فتوح العراق واقدی، الذخائر و التحف قاضی رشید بن زبیر، کتاب النبات ابوحنیفہ دینوری اور مقدمہ فی علم السیر یا حقوق الدول فی الاسلام فی احکام اہل الذمہ، نزھتہ المشتاق، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے قرآن مجید کے تین قدیم ترین نسخوں کا پتا لگا کر ان کا تقابلی مطالعہ کیا تھا، ان میں ایک تاشقند (ازبکستان) دوسرا استنبول (ترکی) اور تیسرا انڈیا آفس لائبریری لندن میں تھا، ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ تینوں ایک ہی قسم کے چمڑے پر ہیں، ترکی والے نسخے پر خون کے نشانات بھی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ شہادت کے وقت اس کی تلاوت فرمارہے تھے، یہ نسخے کوفی رسم الخط میں تھے، ڈاکٹر صاحب نے سمرقند کے نسخے کو مصحف قرآن عثمانی کے نام سے جدید عربی خط میں نقطوں اور اعراب کے ساتھ مرتب کر کے فلاڈلفیا (امریکہ) سے ۱۹۸۵؁ء میں شائع کیا تھا۔
ڈاکٹر حمیداﷲ ایک دو نہیں درجنوں زبانیں جانتے تھے، اردو ان کی مادری زبان تھی لیکن فارسی، عربی، ترکی، انگریزی، فرنچ، جرمنی، اطالوی اور یونانی زبانوں پر عبور تھا، فرنچ اور انگریزی میں اردو عربی ہی کی طرح متعدد تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، اسلام کی اشاعت و تبلیغ اور اس کے مخالفین کا جواب دینے کے لیے انہوں نے تصنیف و تالیف کے لیے خاص طور پر یورپین زبانوں کا انتخاب کیا تھا، سب سے مفید و مبارک کام فرنچ زبان میں ترجمہ قرآن کی اشاعت ہے جس کے ۲۰ سے زیادہ ایڈیشن نکل چکے ہیں اور کوئی ایڈیشن ۲۰ ہزار سے کم کا نہ تھا، اسلام کے تعارف کے لیے جو کتاب لکھی ا س کے ۲۰ سے زیادہ زبانوں میں ترجمے ہوئے، دو جلدوں میں سیرت نبوی پر ایک کتاب لکھی، دنیا کی ۱۲۰ زبانوں کے قرآنی تراجم کی ایک ببلوگرافی اور تصحیح ترجمہ بوسکائی لصحیح البخاری تیار کی، پیغمبر اسلام کے چھ سیاسی خطوط فرنچ میں پیرس سے شائع کیا، اس کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے، مختلف مذاہب کا اٹلس پیرس سے شائع کیا، روزے پر بھی فرنچ میں کتاب لکھی، فرنچ انسائیکلوپیڈیا کے لیے اسلامی موضوعات پر متعدد مقالے لکھے، انگریزی زبان میں بھی متعدد کتابیں تالیف کیں، ان کی تصانیف کی تعداد ڈیرھ سو سے زیادہ ہے اور ہر تصنیف متعدد بار چھپی اور نہایت مقبول ہوئی، اس میں ان کی کدوکاوش اور محنت و تحقیق سے زیادہ ان کے حسن نیت اور خونِ جگر کا دخل تھا جس کے بغیر معجزہ فن کی نمود نہیں ہوتی، تصنیف و تالیف سے ان کا اصل مقصد احقاق حق و ابطال باطل، اسلام کا اثبات و اظہار اور مستشرقین کی ہر زہ سرائیوں کا جواب تھا اور یہ ان کے لیے اس بنا پر آسان تھا کہ ان کو اسلام کے اصلی مصادر کی طرح یورپین زبانوں سے بھی براہ راست واقفیت تھی، اس کی وجہ سے وہ مخالفین کے اعتراضات کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے اور مدلل جواب دے کر انہیں قائل کردیتے تھے، چنانچہ ان کی کوشش سے ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، جن میں سفرا، پروفیسر اور معزز پیشوں سے وابستہ لوگ بھی ہوتے تھے، ان کی تصنیفات شایستہ، متین اور سلجھی ہوئی ہوتی ہیں، ان کی تحریر پُرمغز، سادہ، سلیس، عام فہم، دل نشین اور حشو و زواید اور ایچ پیچ سے خالی ہوتی ہے، اس میں لفاظی، مبالغہ آرائی اور جذباتی لب و لہجہ نہیں ہوتا، بلکہ ہر بات مدلل و مربوط ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب مسلکاً شافعی تھے، مگر متعدد مسائل میں وہ بڑی بالغ نظری اور مجہتدانہ بصیرت سے کام لیتے تھے، ان جیسا صاحب علم و نظر کسی ایک ہی فقہی گروہ سے وابستہ نہیں رہ سکتا تھا، وہ تمام ائمہ اسلام کے فضل و کمال اور عظمت کے معترف تھے، امام ابو حنیفہؒ، ان کے اصحاب اور اس مسلک فقہ کے کبار علما و اساطین کا ذکر بڑے احترام سے کرتے ہیں اور ان کی تحقیقات سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں تاہم اپنی تحقیق و جستجو اور دلائل سے جس کو صواب سمجھتے تھے اور جس پر ان کو شرح صدر ہوتا تھا اسی کو مانتے اور اختیار کرتے تھے، گہرے علم و مطالعہ کی بنا پر ان کے یہاں بعض تفردات بھی پائے جاتے ہیں، کیوں کہ رسوخ فی العلم والدین کی بنا پر ان کے لیے روایتی اور مروجہ طریقوں کو اختیار کرنا اور رسم ورہِ آباد پر قانع ہوجانا ممکن نہیں تھا، اس میں مغرب سے مرعوبیت کو بھی دخل نہ تھا،انہوں نے یورپ میں رہ کر اسلام کی جو عظیم الشان خدمت کی ہے وہ بڑے بڑے علما اور ادارے بھی نہیں کرسکے، ان کا عمل ہمیشہ عزیمت پر ہوتا تھا اور وہ اتباع سنت میں کسی سے پیچھے نہیں تھے، ایک جرمن خاتون پر دے کے اہتمام کے ساتھ ان سے ملنے آئیں مگر چہرہ کھلا ہوا تھا، ڈاکٹر صاحب دوسری طرف رخ کر کے ان سے باتیں کرتے اور ان کے سوالات کا جواب دیتے رہے، فوٹو کھنچوانے میں بھی محتاط تھے، ایک صاحب نے نکاح کی سنت پر عمل نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا میں سخت گناہ گار ہوں، خدا سے دعا کریں کہ وہ مجھے معاف فرمائے، میں یتیم تھا جب وقت تھا تو کسی نے توجہ نہ دی پھر جب میں نے علم کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو اس طرف توجہ نہیں ہوئی، اﷲ تعالیٰ میری کوتاہی کی مغفرت فرمائے، میں ترکِ سنت پر سخت نادم ہوں، ڈاکٹر صاحب کو سرکار دو عالمﷺ سے عشق تھا، اردو کے مشہور اہل قلم اور ممتاز شاعر جناب جگن ناتھ آزاد جمہورنامہ کے نام سے دنیا کی منظوم تاریخ لکھ رہے تھے، اس کے ایک باب میں ظہور رسالت کا ذکر تھا جو معارف دسمبر ۱۹۵۹؁ء میں ’ولادت باسعادت۔ ساقی نامہ‘ کے عنوان سے چھ صفحے میں چھپا تھا، ڈاکٹر صاحب عشقِ رسول میں سرشاری کی بنا پر اس کا فرنچ ترجمہ کرنا چاہتے تھے، اس کی اطلاع مجھے دی تو میں نے جگن ناتھ صاحب سے ذکر کیا، ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی، ڈاکٹر صاحب کا پتا مجھ سے لے کر انہیں شکریے کا خط لکھا۔
ڈاکٹر محمد حمید اﷲ کی زندگی کن فی الدنیا کانک غریب اوعابرسبیل کی عملی تفسیر تھی، ان کا وطن حیدرآباد تھا لیکن ریاست کے انڈین یونین میں انضمام کے بعد علم کے غازی اور تحقیق کے مجاہد کو پردیس ہی میں رہنا پڑا، پیرس میں قیام کے باوجود نہ وہاں کی شہریت اختیار کی اور نہ کسی اور ملک کی نیشنلٹی ان کے پاس تھی، پیرس میں قیام عیش و عشرت کے لیے نہیں، علمی و تحقیقی اداروں اور کتب خانوں کی وجہ سے اختیار کیا تھا، ایسے ماڈرن شہر میں فقیرانہ اور درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے، دو کمروں کے جس فلیٹ میں رہتے تھے، وہ چوتھی منزل پر تھا، لفٹ نہیں تھی، کئی زینے طے کرنا ہوتا تھا، کمرے میں آسایش و زیبایش کے سامان کے بجائے کتابیں بھری ہوئی تھیں، اکیلے رہتے تھے نہ کوئی ملازم تھا اور نہ کوئی عزیز، سارے کام خود کرتے تھے، بازار سے سودا خود ہی جا کر لاتے، کھانا بھی خود پکاتے، غذا بہت سادہ تھی، حلال ذبیحہ ہونے کے باوجود ۳۰۔۴۰ برس سے گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا، ابلی سبزی ترکاری، دودھ اور اس سے تیار کی گئی چیزیں، انڈے ادر پھل ان کی خوراک تھی، کپڑے بھی خود دھوتے تھے اور غالباً دو ہی ایک جوڑے کپڑے ان کے پاس رہتے تھے، ایک مرتبہ اسلام آباد گئے تو ان کا مختصر سامان دیکھ کر لوگ محو حیرت ہوگئے یعنی دو جوڑے کپڑے ایک جوڑا جوتا، چند کتابیں اور رشتہ داروں کے لیے کچھ تحائف، ع
سبک سار مردم سبک تر روند
سادہ زندگی ہی کی وجہ سے وہ ہمیشہ صحت مند، تندرست اور چاق و چوبند رہے اور اتنے سارے علمی کام کرڈالے۔
زہد و اتقا، صبر و قناعت اور توکل و استغنا ان کا شعار تھا ان میں حرص و ہوس کا کوئی شائبہ نہیں تھا، دنیا کے جاہ و اقبال، مال و دولت، شہرت و عزت اور نام و نمود سے ہمیشہ بے نیاز رہے، ایک صاحب ان سے انٹرویو لے رہے تھے تو وہ صرف علمی سوالات کا جواب دیتے تھے، اپنی ذات اور کارناموں سے متعلق سوالات کا کوئی جواب نہ دیتے، ان کی گونا گوں خدمات کے اعتراف کے طور پر ۱۹۹۴؁ء میں انہیں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا تو اسے لینے سے انکار کردیا، کئی پاکستانی حکمرانوں نے بھی داد و دہش کرنی چاہی تو ان کا شکریہ ادا کرکے عاجزی سے معذرت کردی، ان کی ساری کتابیں بہت مقبول ہوئیں اور ناشروں نے ان سے خوب کمایا مگر دولت سے بے نیازی کی وجہ سے وہ کتابوں کی رائلٹی نہیں لیتے تھے اور اگر کسی نے اصرار سے اس کے نام پر کچھ دیا تو اسے غربا، یتیم اور بیوہ عورتوں میں تقسیم کردیا، خوش اخلاق نرم گفتار اور شگفتہ مزاج تھے، ان میں کبر و غرور اور رعونت نہ تھی، سادگی، تواضع اور عاجزی و فروتنی میں بے مثال تھے۔ ان کی تحریروں سے بھی ان کے اخلاص و انکسار اور طالب علمانہ تواضع و خاکساری کا پتہ چلتا ہے، خود تو کبھی کسی کا احسان لینا گوارا نہیں کیا مگر دوسروں کی خدمت و تکریم کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، مہمانوں کی بڑی خاطر مدارات کرتے کوئی ان سے ملنے کے لیے آتا تو اسے لینے کے لیے ہوائی اڈے پہنچ جاتے اور اس کے لیے بچھے رہتے، سیر و تفریح کراتے، وضع داری اور شرافت ان کا طرۂ امتیاز تھا۔
دارالمصنفین سے ڈاکٹر صاحب کا بہت پرانا اور گہرا تعلق تھا، شروع سے وہ اس کے قدرداں اور بڑے کرم فرما تھے، علامہ شبلی اور مولانا شبلی اور مولانا سید سلیمان ندوی سے والہانہ تعلق رکھتے تھے، اسی اخلاص اور محبت کی بنا پر ایک دفعہ حضرت سید صاحب سے ملنے کے لئے دارالمصنفین تشریف لائے تھے، ان کے بعد بھی اس سے ان کا مخلصانہ تعلق برابر قائم رہا، معارف کے پرانے مضمون نگار تھے، اس میں ان کے مضامین اور خطوط بڑے فخر سے شائع کیے جاتے تھے، ایک مرتبہ میں نے ان سے مضمون کی فرمائش کی تو جواب دیا کہ ’’میں معارف کو دنیا کا سب سے بڑا رسالہ سمجھتا ہوں، کوئی چیز تیار ہوتی ہے تو پہلے اسی کو بھیجتا ہوں‘‘ جناب سید صباح الدین عبدالرحمان مرحوم ایک بین الاقوامی سمینار میں شرکت کے لیے لندن تشریف لے گئے، وہاں سے پیرس جانے کا اتفاق بھی ہوا، لیکن ڈاکٹر صاحب کی ملاقات سے محروم رہ جانے کا بہت افسوس تھا، لکھتے ہیں ’’خواہش تھی کہ یہاں آکر دنیائے اسلام کے مشہور محقق اور عالم ڈاکٹر حمید اﷲ کی بھی زیارت کروں، لندن سے ان کو ایک عریضہ بھیجا تھا کہ پیرس آکر ان کی دست بوسی کے لیے حاضر ہوں گا مگر ان کا خط موصول ہوا کہ میرا ان کے پاس پہنچنا مشکل ہے، اس لیے کے ان کے یہاں ٹیلیفون نہیں اور وہ جس مکان میں رہتے ہیں وہاں تک پہنچنے کے لیے ایک سو بیس زینے چڑھنے ہوتے ہیں، اس لیے انہوں نے لکھا کہ میں جہاں قیام کروں وہاں وہ خود آجائیں گے، چند گھنٹے کے قیام میں کہیں ٹھہرنے کا سوال نہیں تھا، ٹیلیفون سے رابطہ ممکن نہ تھا، کچھ لوگوں کو ان کا پتا دکھایا وہ بتا نہ سکے اور کچھ بولے بھی تو ہم سمجھ نہ سکے، مایوس ہو کر ہوائی اڈے چلے آئے، ان سے نیاز نہ حاصل کرنے کا افسوس زندگی بھر رہے گا‘‘ ڈاکٹر صاحب کی وفات دارالمصنفین کے لیے ایک بڑا حادثہ ہے، وہ اس کے اور معارف کے علمی محتسب، مخلص کرم فرما اور بڑے ہمدرد تھے، وہ دنیا کے صف اول کے ممتاز علما و محققین میں تھے، اسلامی علوم پر اتنی وسیع و عمیق نظر رکھنے والے اب بہت کم لوگ ملیں گے، وہ بڑی خاموشی اور اخلاص سے علمی و دینی خدمات انجام دیتے تھے، بارالہا! تو اپنے اس مقبول بندے اور علم و دین کے خادم کی مغفرت فرما اور اسے بہشت بریں سے سرفراز کر اور اس کے اعزہ و متعلقین کو صبر و قرار نصیب کر اللھم صبب علیہ شآبیب رحمتک واغفرلہ وارحمہ یا ارحم الراحمین۔
(ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۲۰۰۳ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...