Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > بیگم حمیدہ سلطان احمد

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

بیگم حمیدہ سلطان احمد
ARI Id

1676046599977_54338449

Access

Open/Free Access

Pages

663

بیگم حمیدہ سلطان احمد
یہ خبر بہت افسوس سے سنی جائے گی کہ ۱۹؍ جنوری ۲۰۰۳؁ء کو مشہور علم و ادب نواز اور اردو کی ادیبہ بیگم حمیدہ سلطان احمد کا دہلی میں انتقال ہوگیا، وہ دہلوی تہذیب اور اردو ثقافت کی آخری یاد گار تھیں۔
وہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۳؁ء کو پیدا ہوئی تھیں، دہلی کے محلہ گلی قاسم جان میں نواب احمد بخش والی فیروز پور جھروکہ لوہارو کے چھوٹے صاحب زادے نواب مرزا ضیاء الدین احمد خاں نیر رخشاں کی حویلی میں ان کی پیدائش ہوئی، ددھیال اور ننھیال دونوں طرف سے ان کا خاندان بڑا معزز تھا، بیگم صاحبہ کاننھیالی تعلق نواب مرزا اسد اﷲ خاں غالب سے تھا، مرزا صاحب نے اپنی بیوی امراؤ بیگم کی بڑی بہن بنیادی بیگم کے ایک صاحبزادے زین العابدین خاں عارف تھے جن کو مرزا غالب نے متنبی بنالیا تھا، ان کے ایک صاحبزادے باقر علی خاں کی چھوٹی صاحب زادی رقیہ بیگم حمیدہ سلطان احمد کی والدہ تھیں، ددھیال کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ملتا ہے، مغل بادشاہوں کے زمانے میں اس خاندان کے لوگ دہلی آئے تھے، اورنگ زیب کی فوج جب آسام کی مہم پر روانہ ہوئی تو اس خاندان کے ایک بزرگ بھی فوج کے ساتھ وہاں پہنچے اور ضلع سب ساگر کے ایک گاؤں میں آباد ہوگئے،ان ہی کی نسل کے لیفٹیننٹ کرنل ذوالنور علی احمد سے جو ایک بہت کامیاب ڈاکٹر تھے رقیہ بیگم کی شادی ہوئی تھی، یہی ذوالنور علی احمد صاحب حمیدہ سلطان احمد مرحومہ اور ان کے بڑے بھائی اور سابق صدر جمہوریہ ہند فخرالدین علی احمد صاحب کے والد بزرگوار تھے۔
حمیدہ سلطان صاحبہ کی شخصیت کی تشکیل اور ذہنی تربیت میں ان کے خاندان کے علمی و ادبی ماحول کا کافی اثر تھا، انہوں نے آزادی کے بعد اردو تحریک کی قیادت سنبھالی اور اس کے تحفظ کے لیے بڑی قربانی دی، وہ انجمن ترقی اردو کی دہلی شاخ کی برابر سکریٹری رہیں اور اس کے لیے ’’علی منزل‘‘ کے نام سے ایک عمارت حاصل کی جس کے ایک حصہ میں خود بھی رہتی تھیں، یہاں وہ انجمن کے زیر اہتمام ادبی محفلیں اور مشاعرے کراتی تھیں، اس کی وجہ سے وہاں بڑے ادیبوں اور شاعروں کی آمدورفت رہا کرتی تھی۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے قیام میں بھی ان کا عمل دخل رہا، وہ ہر سال غالب کی وفات ۱۵؍ فروری کو مرزا غالب پر تعزیتی جلسہ بھی کراتی تھیں، غالب کے خاندان سے اپنے خاندانی تعلق کا حق ادا کرنے کیلئے انہوں نے خاندان لوہارو کے شعرا کے نام سے ایک مستند کتاب بھی لکھی تھی، جس میں پہلے خاندان کی تاریخ اور حالات درج ہیں پھر اس کے شعرا کا تذکرہ ہے، مرحومہ نے کئی دلچسپ سماجی ناول بھی لکھے اور ان کے منتخب افسانوں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوا تھا، ان کی ان کتابوں پر دہلی اور اترپردیش وغیرہ کی اکیڈمیوں نے انعامات دیے مگر انھوں نے قبول نہیں کیا،اور کہا کہ ’’جب تک حکومت اردو کو اس کا جائز حق نہیں دے گی، میں اس طرح کا کوئی انعام قبول نہیں کروں گی‘‘۔
مرحومہ ایک مہذب، شائستہ اور شریف گھرانے کی فرد ہی نہیں تھیں بلکہ خود بھی دیانت دار اور پرانے ادبی و تہذیبی ورثے کی امین اور اخلاقی روایات و اقدار کی پاسباں تھیں، اﷲ تعالیٰ انھیں غریق رحمت کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔
(ضیاء الدین اصلاحی،مارچ ۲۰۰۳ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...