Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > سید ہاشم علی اختر

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

سید ہاشم علی اختر
ARI Id

1676046599977_54338453

Access

Open/Free Access

Pages

665

سید ہاشم علی اختر صاحب
افسوس ہے کہ ۱۴؍ جون ۲۰۰۳؁ء کو جناب سید ہاشم علی اختر شکاگو میں وفات پاگئے، اناﷲ و انا الیہ راجعون۔
وہ جامعہ عثمانیہ کے مایہ ناز فرزند، حیدرآباد کے نام ور شخص اور ملک کے بڑے دانشور تھے، ان کو ملک کی دو شہرہ آفاق یونیورسٹیوں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہونے کا فخر بھی حاصل ہوا۔
جناب ہاشم علی اختر کی پیدائش ۶؍ اکتوبر ۱۹۲۴؁ء کو حیدرآباد میں ہوئی تھی، شروع کی تعلیم مدرسوں میں ہوئی، ۱۹۳۸؁ء میں انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے بی ایس سی اور ۱۹۴۴؁ء میں ایم ایس سی کیا، ان کی طبیعت کا رجحان علم و تعلیم کی طرف تھا، اس لیے شروع میں درس و تدریس ہی کے پیشے سے وابستہ ہوئے، پہلے سٹی ہائی اسکول میں مدرس ہوئے پھر سٹی کالج میں جونیئر لکچرر ہوئے، مگر ان میں نظم و نسق کی صلاحیت بھی بہ درجہ اتم تھی، اس لیے جلد ہی انتظامی شعبے سے ان کا تعلق ہوگیا اور ۱۹۴۶؁ء میں وہ حیدرآباد سیول سروس کے لیے منتخب ہوگئے، اس کے بعد آئی۔اے۔ایس کے لیے ان کا انتخاب ہوا اور ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر تقرر ہوا جس سے ترقی کرتے ہوئے پرنسپل سکریڑی کے عہدے پر فائز ہوئے۔
ہاشم صاحب کو نظم و نسق کا اچھا سلیقہ تھا، ایک کامیاب اور نیک نام آئی اے ایس آفیسر کی حیثیت سے ان کو بڑی عزت و شہرت ملی، سکریٹریٹ کی اچھی کارکردگی اور خوش انتطامی ہی کی وجہ سے سبکدوش ہونے کے بعد حکومت نے ۱۹۸۲؁ء میں انہیں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کا وائس چانسلر مقرر کردیا، ابھی اس کی میعاد مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ۱۹۸۵؁ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لیے ان کا انتخاب ہوگیا۔
وائس چانسلر کی حیثیت سے ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی، علی گڑھ میں ان سے پیش تر جناب سید حامد وائس چانسلر تھے جو ایک بحرانی دور تھا لیکن انہوں نے حالات درست کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگادی، ان کے اصلاحی اقدامات اور عمل جراحی سے فریاد و احتجاج کی آوازیں بھی بلند ہوئیں اور آپریشن کی وجہ سے کراہ اور چیخیں بھی سنائی دیں، ہاشم صاحب اس بہتر اور درست ماحول کو قائم رکھنے میں کامیاب رہے اور جہاں کورکسر اور فاسد مادے رہ گئے تھے ان کو بھی ٹھیک کیا، ان کا دور بڑا پرسکون اور پرامن رہا اور ان سے شاید ہی کسی کو شکایت ہوئی ہو، وہ ایک لائق شخص اور اچھے منتظم تھے، اس لیے ۱۹۸۹؁ء میں جب اس منصب سے سبکدوش ہوئے تو انہیں مختلف عہدے پیش کئے گئے مگر انہوں نے معذرت کردی۔
گو ان کو انتظامی امور سے زیادہ سروکار رہا تاہم قلم و قرطاس سے ابھی ان کا شغل برابر قائم رہتا تھا، وہ اردو اور انگریزی کے اچھے اہل قلم تھے، انگریزی میں بعض کتابیں بھی لکھیں، ان کا مطالعہ وسیع تھا، مطالعہ سے ان کی دلچسپی تاعمر باقی رہی، ہندوستان کے حالات و مسائل سے باخبر رہتے تھے، ان حالات سے مسلمان کس طرح عہدہ برآہوں، اردو زبان کا تحفظ و بقا کیسے ہو، مشترکہ قومی تہذیب اور ہندوستان کا سیکولر مزاج کیسے باقی رہے، جدید عہد کے چیلنج کا مقابلہ کس طرح کیا جائے، موجودہ حالات میں اسلام کو پیش کرنے کا کیا سائنٹفک انداز اور اس کی شرح و تعبیر کا کون سا منطقی طریقہ کار اختیار کیا جائے، یہ اور اس طرح کے دوسرے امور و مسائل ہمیشہ ان کے زیر غور رہتے تھے اور ان کے متعلق کبھی کبھی وہ اپنے نتائج فکر قوم کے سامنے پیش بھی کرتے تھے جن سے اختلاف بھی کیا جاتا تھا مگر اس میں غلط فہمیوں کا زیادہ دخل ہوتا تھا، ایک مرتبہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری میں اردو رسم الخط کے متعلق کچھ باتیں انہوں نے کہیں تو غلط فہمی کی بنا پر اس کے خلاف بہت کچھ کہا اور لکھا گیا۔
ہاشم صاحب نے کئی ادیبوں اور بعض ارباب سیاست پر مضامین اور خاکے بھی لکھے جن کو پسند کیا گیا، اکثر ان کے خطوط بھی ماہنامہ ’’سب رس‘‘ میں شایع ہوتے تھے جن سے ان کے علم و مطالعہ کی وسعت، خیالات کی پختگی، تجربات و مشاہدات کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے، ان کا علمی و ادبی ذوق پختہ اور منجھا ہوا تھا، وہ خاص حیدرآباد کی پیداوار اور پروردہ تھے اس لیے اردو کا ذوق بہت بلند تھا اور بڑی شگفتہ اور سلیس زبان لکھتے تھے، ان کی تحریر جامع اور پرمغز ہوتی تھی، ان سے میری پہلی ملاقات دارالعلوم تاج المساجد بھوپال کے علامہ سید سلیمان ندوی سمینار میں ہوئی تھی، میں اس کے جس سشن میں اپنا مضمون پڑھنے والا تھا، اس میں وہ میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، میں مقالہ پڑھ کر جب اپنی جگہ پر ان کے پاس بیٹھا تو انہوں نے مقالے کی اور خاص طور پر اس کی زبان و بیان کی تحسین فرمائی، وہ اس وقت علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، مجھ سے فرمایا کہ وہاں آنا ہو تو ملاقات ہونی چاہیے، چنانچہ ان کی موجودگی میں جب علی گڑھ جاتا تو ان سے ضرور ملتا، پہلی دفعہ اکیلے جانے میں جھجھک ہورہی تھی تو اپنے خاص کرم فرما مولانا حافظ محمد تقی امینی مرحوم سابق ناظم سنی دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو لے کر گیا جو وائس چانسلر صاحب سے بہت بے تکلف تھے، وہ مجھ سے بھی بڑی محبت وشفقت سے پیش آتے اور مختلف مسائل کے علاوہ دارالمصنفین پر بھی ہمدردانہ گفتگو فرماتے، ان ملاقاتوں سے میرے دل پر ان کی شرافت، اخلاص، نیکی، لطف و کرم اور حسن خلق کا نقش بیٹھ گیا، وہ طبعاً شریف اور متواضع تھے، کبھی اپنی بڑائی اور عظمت کا احساس نہ ہونے دیتے، جو بات ان سے کہی جاتی غور و توجہ سے سنتے، اگر کرنے کے لایق کام ہوتا تو کردیتے، لیکن اگر ان کے امکان میں نہ ہوتا تو لگی لپٹی باتیں کرنے کے بہ جائے صفائی سے معذرت کردیتے، اپنی شرافت اور دل نوازی کی وجہ سے حیدرآباد کے علمی و ادبی حلقوں میں بہت مقبول تھے، وہاں کی باوقار مجلسوں میں شریک بھی ہوتے تھے، ان کی شرکت سے مجلس کی رونق بڑھ جاتی تھی اور جو بات کرتے اس کا وزن محسوس کیا جاتا تھا۔
علمی و ادبی اور اردو اداروں سے بھی ان کا تعلق تھا، دارالمصنفین سے بھی ان کو ہمدردی تھی، حیدرآباد کے مشہور ادارۂ ادبیات سے ان کا برابر گہرا تعلق رہا، اس کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، ۱۹۷۵؁ء میں اس کے معتمد منتخب کیے گئے اور ۱۹۸۲؁ء میں نائب صدر مقرر کیے گئے اور ۱۹۸۹؁ء میں اس کے صدر منتخب کیے گئے اور ۱۹۹۴؁ء میں امریکہ جانے سے قبل تک اس عہدے پر فائز رہے، یہ ادارے کا بڑا سنہرا دور تھا، اس میں اس کے کئی اہم کام انجام پائے، ادارے کے میوزیم کے لیے حکومت ہند سے گرانٹ ملی جس سے میوزیم کی ازسرنو تنظیم میں بڑی مدد ملی، یوم محمد علی قطب شاہ اور یوم محی الدین قادری زور کی سالانہ تقاریب دھوم دھام سے منائی جاتی تھیں ’’سب رس کتاب گھر‘‘ کا قیام عمل میں آیا اور ادرے کے مختلف شعبوں کا احیا اسی دور میں ہوا جس سے اس کی کارکردگی میں بڑا اضافہ ہوا، امریکہ جانے سے قبل ہاشم صاحب نے ایوان اردو کے بالائی ہال کی تعمیر کے لیے اپنی جیب سے دس ہزار روپے دیے اور کتب خانے کو اپنی پانچ سو کتابیں بھی مرحمت فرمائیں۔
امریکہ چلے جانے کے بعد گو ادارے سے ان کا ضابطے کا تعلق ختم ہوگیا تھا تاہم ادارے اور حیدرآباد میں ان کا دل اٹکا ہوا تھا، ہر وقت ان کی یاد تڑپاتی رہتی تھی، خطوط سے اس کے حالات معلوم کرتے اور حیدرآباد کے لوگوں کی خیریت دریافت کرتے، ادارے کی سرگرمیوں سے واقف ہوتے اور اس کی ترقی کے لیے اپنے مفید مشورے پیش کرتے رہتے تھے۔ ہاشم صاحب کو حیدرآباد اور اس کی مخصوص تہذیب سے عشق تھا، اسے چھوڑنا گوارا نہیں تھا مگر اہلیہ محترمہ کی وفات کے بعد بالکل ٹوٹ گئے تھے، یہاں بالکل تنہا رہ گئے تھے اس پر پیری اور بیماری، مجبوراً شکاگو دو صاحبزادیوں کے پاس چلے گئے، صاحبزادے لاس اینجلس میں تھے، باپ کی بیماری کی خبر سن کر شکاگو آگئے، ہاشم صاحب کی علالت کا سلسلہ عرصے سے چل رہا تھا بالآخر وقت موعود آگیا وما تدری نفس بای ارض تموت[لقمان:۳۴]، اﷲ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے نوزے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ (’’ض‘‘، اگست ۲۰۰۳ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...