Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ابوالفیض سحر

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ابوالفیض سحر
ARI Id

1676046599977_54338455

Access

Open/Free Access

Pages

667

ابوالفیض سحر
اردو کے ایک اور اچھے شاعر و ادیب اور تحریک کے خاموش مگر سرگرم اور مخلص خدمت گزار جناب ابوالفیض سحر ۲۲؍ جون کی شب میں حرکت قلب بند ہوجانے سے وفات پاگئے اور ۲۳؍ جون کو ۱۱ بجے دن میں بستی حضرت نظام الدین میں واقع قبرستان میں دہلی کے شعرا و ادبا اور متعلقین کی کثیر تعداد کی موجودگی میں سپردخاک کردیے گئے۔
وہ بالکل ٹھیک تھے، انتقال کے روز نوئیڈا میں جناب رفعت سروش کے گھر ایک تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے، شام کو واپس آئے توکچھ بے چینی محسوس کی، رات تک طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اسپتال میں داخل کیے گئے جہاں روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی، ان کی صحت بہتر رہتی تھی مگر اس سے پہلے بھی ایک بار دل کا دورہ پڑچکا تھا، یہ دوسرا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔
سحر صاحب مارن پیٹ ضلع محبوب نگر (آندھراپردیش) میں ۱۹؍ فروری ۱۹۳۷؁ء کو ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے محبوب نگر ہائی اسکول کے اردو میڈیم اسکول سے میڑک کیا، مزید تعلیم کے لیے حیدرآباد گئے، چادرگھاٹ کالج سے انٹر کیا اور کالج میگزین کے اڈیٹر ہوئے، پھر عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کے آرٹس کالج سے بی۔اے کیا، ٹیوشن سے تعلیمی اخراجات پورا کرتے تھے، بی۔اے کرنے کے بعد حیدرآباد کے ایک قدیم اور مشہور اسکول اشرف المدارس میں ٹیچر ہوگئے مگر جلد ہی یہ ملازمت چھوڑ کر ایم۔اے کرنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیا، مجلہ عثمانیہ کے اڈیٹر بھی ہوئے، اسی زمانے میں انہیں ماہر لسانیات پروفیسر مسعود حسین خاں سے تلمذ کا فخر حاصل ہوا، جو سحر صاحب کو ان کے اخلاص اور اردو سے دلچسپی کی بنا پر بہت عزیز رکھتے تھے، باگاریڈی صاحب سے بھی سحر صاحب ان کی اردو دوستی کی وجہ سے بہت قریب ہوگئے تھے، ایم۔اے کرنے کے بعد سحر صاحب باگاریڈی کے قائم کردہ اردو میڈیم اسکول میں ٹیچر ہوگئے مگر ان کے شفیق استاد مسعود حسین خاں کو ان کی استعداد اور اچھی صلاحیت کی بنا پر یہ ملازمت پسند نہیں تھی، ان کی کوشش سے سحر صاحب کو دلی میں یونین پبلک سروس کمیشن میں اردو مترجم کی جگہ مل گئی، لیکن اردو سے دلچسپی کی بنا پر انہیں خود ملازمت پسند نہیں تھی، چنانچہ جب مرکزی حکومت نے اردو کی ترقی کے لیے ترقی اردو بیورو قائم کیا جو اب قومی کونسل برائے فروغ اردو کہلاتا ہے تو اس میں ملازمت کرلی اور ترقی کر کے پرنسپل پبلی کیشن آفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے اور اسی سے سبکدوش ہوئے، اس تقریب سے وہ حیدرآباد چھوڑ کر دلی آئے تو اسی کو اپنا وطن بنالیا اور یہیں کے ہوکر رہ گئے لیکن حیدرآباد بھی آتے جاتے رہتے تھے۔
جناب ابوالفیض کو اردو زبان سے عشق تھا، طالب علمی کے زمانے ہی سے وہ اردو تحریکوں سے وابستہ رہتے تھے انجمن ترقی اردو سے والہانہ تعلق تھا، اس کی ہر تقریب اور پروگرام میں شریک ہوتے اور اس کے کاموں میں بہت پیش پیش رہتے، انجمن کے صدسالہ جشن کو کامیاب بنانے میں انہوں نے رات دن ایک کردیا تھا، اس کے آخری جلسے میں شکریے کی رسم بھی ادا کی، انجمن کے ذمہ داروں کے ہر کام میں ان کا ہاتھ بٹانے اور اس سے غیر معمولی خلوص اور دلچسپی کی بنا پر وہ اس کے رکن منتخب کرلیے گئے تھے، میری ان کی ملاقات انجمن کے سیمیناروں ہی میں ہوتی تھی۔
ان کی پوری زندگی اردو زبان و ادب کی بے لوث خدمت اور ادبی سرگرمیوں میں گزری ، وہ اردو کے مختلف اداروں کی خدمت اعزازی طور پر انجام دیتے تھے، ہر کام بڑے خلوص، دلچسپی، خاموشی اور محنت و جاں فشانی سے کرتے تھے، شہرت، مقبولیت اور صلہ و ستایش کی تمنا سے بے نیاز ہوکر اسے اپنا فریضہ سمجھتے تھے، طبیعت میں بہت انکسار تھا اس لیے کبھی اس کا فخریہ ذکر کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
جناب ابوالفیض اردو کے صحافی، مترجم، ادیب اور نقاد تھے، تحقیق و تنقید و تبصرہ میں وہ تعصب اور جانب داری کو پسند نہیں کرتے تھے، ان کا رویہ معقول، حق پسندانہ اور معتدل و متوازن ہوتا تھا، خوش کلام شاعر بھی تھے، نثرنگاری کے کمال سے ان کی شاعری دب گئی تھی، سرکاری مصروفیت کے باوجود انہوں نے کئی کتابیں لکھیں، خلا میں پہلا ہندوستانی، تناظر اور تجزیے، تیشۂ نظر، فن اور فنی مباحث اردو دنیا میں مقبول ہوئیں، ان کے بعض تنقیدی کام مرکز توجہ بنے، مرحوم ظ۔انصاری کے ساتھ مل کر ’’خسرو شناسی‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کے کئی ایڈیشن نکلے، وہ برصغیر کے مختلف رسالوں اور اخباروں میں مضامین بھی لکھتے تھے، تیلگو اور انگریزی زبانوں میں بھی مضامین لکھے۔
سحر صاحب اچھے مقرر تھے، زمانہ طالب علمی سے ان میں تقریر کی اچھی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی، اکثر ادبی جلسوں اور تقریبات میں شریک ہوتے، سمینار میں مقالے تو پڑھتے ہی ان کی نظامت بھی کرتے، انہوں نے خود بھی کئی بڑے سمینار کرائے، حیدرآباد جاتے تو ان کے اعزاز میں نشستیں ہوتیں اور وہ تقریر کرتے۔
اردو کے اکثر ادباء، شعرا مذہب سے بے تعلق اور بے گانہ ہوتے ہیں، انہیں قومی و ملی کاموں سے بھی سروکار نہیں ہوتا، لیکن جناب ابوالفیض سحر صوم و صلاۃ کے پابند تھے، متعدد سرکاری و نیم سرکاری اداروں سے وابستہ ہونے کے باوجود آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے بھی ممبر تھے اور اس کے پلیٹ فارم سے قومی و ملی مسائل حل کرنے کے لیے فکر مند رہتے تھے۔
جناب ابوالفیض سحر خلوص ومحبت کا پیکر، ایک شریف، نیک نفس، خلیق اور ملنسار انسان تھے، اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے، انہیں کبھی شکایت کا موقع نہ دیتے، کبھی کسی کی دل شکنی نہ کرتے، ہنسی اور بے تکلفی کی بات بھی کرتے تو دوسروں کے جذبات کا خیال رکھتے اور کوئی تکلیف پہنچانے والی بات نہ کرتے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی انکساری تھی، دوسروں کے ادب واحترام اور عزت نفس کے خیال میں مجسم انکسار اور متواضع بن جاتے، اپنی فضیلت و برتری کا کبھی اظہار نہ کرتے، ان میں کبر اور گھمنڈ کا شائبہ نہ تھا، ان کی ذات میں حیدرآباد اور دلی دونوں کی تہذیب و شرافت اور وضع داری جمع ہوگئی تھی، وہ اپنی پاکیزہ سیرت و شخصیت، صاف اور بے داغ زندگی کی وجہ سے دلی اور حیدرآباد دونوں جگہ مقبول اور ہر دل عزیز تھے، اﷲ تعالیٰ جنت الفردوس نصیب کرے اور اعزہ و احباب کو صبر و تسلی بخشے، آمین۔
(ضیاء الدین اصلاحی، اگست ۲۰۰۳ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...