Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر علی محمد خسرو

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر علی محمد خسرو
ARI Id

1676046599977_54338456

Access

Open/Free Access

Pages

668

پروفیسر علی محمد خسرو
سخت افسوس ہے کہ ۲۴؍ اگست کی شب میں ساڑھے گیارہ بجے مشہور مسلم دانشور، ملک کے ممتاز ماہر اقتصادیات اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور چانسلر پروفیسر سید علی محمد خسرو نے داعی اجل کو لبیک کہا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
۷؍ اگست کو دل کا شدید دورہ پڑا تو اسپتال میں داخل کیے گئے لیکن مرض بڑھتا گیا اور آخر دنوں میں حالت اتنی خراب ہوگئی تھی کہ خود سے سانس نہیں لے سکتے تھے اور آلہ تنفس کا سہارا لینا پڑا بلڈپریشر بہت لو ہوگیا تھا بالآخر ۷۹ برس کی عمر میں وقت موعود آگیا، پس ماندگان میں ایک صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہیں۔
۲۵؍ اگست کو غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین کے قریب عرس محل میں عصر بعد نماز جنازہ ادا کی گئی اور درگاہ عمادالدین فردوسی کے پاس خسر و باغ میں تدفین ہوئی۔
موت تو ہر ایک کو آنی لابد ہے لیکن خسرو صاحب کی موت ایک بڑا قومی و ملی سانحہ ہے، وہ ملک کے مایہ ناز فرد، قومی اہمیت کے حامل اور زرعی و مالی اقتصادیات میں عالم گیر شہرت کے مالک تھے اور جس ملت سے ان کا تعلق تھا اس میں بڑا قحط الرجال ہے، اس کے یہاں جو جگہ خالی ہوتی ہے وہ پر نہیں ہوتی، خسرو صاحب جیسے بلند پایہ، عالی دماغ، کامل الفن اور یگانہ شخص کی خالی جگہ بھی پر ہوتی نظر نہیں آتی۔
سید علی محمد خسرو کا تعلق حیدر آباد کے ایک ممتاز خاندان سے تھا، وہ یہیں ۱۹۲۵؁ء میں پیدا ہوئے تھے، مدرسہ عالیہ اور نظام کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد لندن چلے گئے اور لیڈز یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم۔اے اور پی۔ایچ۔ڈی کیا، وطن واپس آنے کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی میں درس و تدریس کی خدمت انجام دی، ۳۱ برس کی عمر میں وہ دہلی کے انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس سے وابستہ ہوئے اور براہ راست پروفیسر بنادیے گئے، بدرالدین طیب جی کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وائس چانسلر کا منصب سنبھالا، بعد میں چانسلر بھی بنائے گئے، جرمنی میں ہندوستان کے سفیر رہے، وزیراعظم کی معاشی کونسل کے رکن نامزد کیے گئے، پلاننگ کمیشن کے بھی رکن ہوئے، ریزرو بینک کے ڈائرکٹر بنائے گئے، فنانشیل اکسپریس کے مدیر مقرر ہوئے، آغا خاں فاؤنڈیشن کے ہندوستانی دفتر کی سربراہی کی، گیارہویں مالیاتی کمیشن کے چیرمین ہوئے، ملک کے باہر جانے والے کئی ہندوستانی کمیشنوں کی قیادت کی اور بعض ملکوں میں وزیٹنگ پرفیسر کی حیثیت سے بھی ان کو مدعو کیا گیا۔
خسرو صاحب کی زندگی علمی و تعلیمی جدوجہد میں گزری، وہ مدۃالعمر اداروں اور تنظیموں سے وابستہ رہے، کئی کمیشنوں اور منصوبوں کی سربراہی کی، ریٹائر ہونے کے بعد بھی ملک میں ان کی بڑی مانگ تھی، ہاتھوں ہاتھ لیے جارہے تھے اور ان کی پذیرائی میں کوئی کمی نہیں ہورہی تھی لیکن دست اجل نے اس جوہر قابل کو ہم سے چھین لیا۔
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے
خسرو صاحب کے کمالات اور خدمات کا بڑا اعتراف کیا گیا اور گوناگوں اعزازات سے نوازے گئے۔ خسر و صاحب کی سرگرمیوں کا ایک خاص محور علم کا فروغ اور درس و افادہ تھا، اسی سے ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا تھا اور اسی دشت کی سیاحی میں ساری عمر گزاری تھی، انہوں نے زندگی بھر علمی و تعلیمی اداروں کی سربراہی کی، ان کے تلامذہ کی تعداد کثیر ہے، معاشیات ان کا خاص موضوع تھا اس میں وہ اتھارٹی کا درجہ رکھتے تھے، بعض کتابیں بھی لکھی تھیں، برابر معاشی اسکیموں اور منصوبوں کی رہنمائی کرتے رہے، ملک کی معاشی گتھیاں سلجھانے میں حکومت کبھی ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کرسکی اور برابر ان کے مشوروں اور تجربوں سے فائدہ اٹھاتی رہی، اس میدان میں ان کی مہارت سے ملک و قوم کو بڑا فیض پہنچا۔
وہ سیاست کی خارزار سے کبھی نہیں الجھے اور نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوئے مگر ان میں سیاسی بصیرت بدرجۂ اتم تھی اور وہ ملکی و عالمی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے، ان میں نظم و انصرام کی غیر معمولی صلاحیت تھی، ذہین و طباع بھی تھے، حکومت ہند نے ان کی بالغ نظری، فراست، تدبر اور انتظامی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک کا سفیر بنایا تھا اور اس حیثیت سے انہوں نے اپنے ملک کا نام بھی روشن کیا اور اپنی نیک نامی کا سامان بھی کیا۔
خسرو صاحب نے اعتدال اور حقیقت پسندی کی بنا پر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود اپنی ملی شناخت باقی رکھی اور اپنی قوم و ملت سے اپنا رشتہ کبھی منقطع نہیں ہونے دیا، وہ مسلمانوں کے پروگرام، ان کی کانفرنسوں اور اجتماعات میں بڑے شوق سے شریک ہوتے اور کھل کر اپنی رائے دیتے، مسلمانوں کے مسائل سے ان کو خاص دلچسپی تھی اور ان کے حل میں معاونت کے لیے ہر وقت تیار رہتے، وہ انہیں اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے روحِ عصر سے ہم آہنگ ہونے قوم وطن کی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور ملک میں ہونے والی ترقیات اور موقع سے فائدہ اٹھانے، اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کی تلقین کرتے رہتے تھے، ان کو مسلمانوں کے روزگار کے مسئلے سے بڑی دلچسپی تھی اور وہ اوقاف کو ان کا بیش بہا اثاثہ اور ان کی ترقی کا اہم وسیلہ خیال کرتے تھے۔
مولانا سید احمد ہاشمی مرحوم سابق ناظم جمعیۃ علمائے ہند کے یہاں کی ایک مجلس میں جس میں علما اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگ شریک تھے، سود کے مسئلے پر اپنی یہ رائے دی کہ ’’شریعت نے اس سود کو ناجائز قرار دیا ہے جس میں غریب اور ضرورت مند افراد کو قرض دے کر ان کا استحصال کیا جاتا تھا، بینکوں کے سود میں اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں ہوتا، یہ بینکوں کے منافع کا ایک حصہ ہوتا ہے، اس کو نفع، منافع یا اضافہ کے دائرے میں رکھا جاسکتا ہے، اس کو سود کا نام دے دینے یا سود ماننے اور کہے جانے کی وجہ سے مسلمان اس رقم سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہتا ہے‘‘۔
ایک مرتبہ ان سے پوچھا گیا کیا حکومت کی ناانصافی اور زیادتی کے خلاف احتجاج گاندھی جی کی طرح مسلمانوں کو بھی ترک موالات اور عدم تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، خسرو صاحب نے ارشاد فرمایا کہ ’’دونوں وقتوں کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس وقت کے حکمراں غیر ملکی تھے، ان کے مفادات اور ملک کے مفادات میں ٹکراؤ تھا، گاندھی جی کا سودیشی اور کھادی کا پروگرام ملک کے مفاد کے مطابق تھا، وہ حربہ کامیاب ہوگیا، اب حکمراں ہندوستانی ہیں، ان سے اقتصادی عدم تعاون ناممکن ہے، اگر اس طرح کی کوئی کوشش کی گئی تو اس سے مسلمانوں کا زیادہ نقصان ہوگا، سیاسی عدم تعاون کا فیصلہ سیاسی لیڈروں کو کرنا چاہیے، میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم اور اقتصادی مواقع کی طرف پوری توجہ دینی چاہیے‘‘۔
خسرو صاحب مسلمانوں کے تعلیمی و اقتصادی فروغ کے لیے برابر تگ و دو کرتے رہے، سیکولرازم پر ان کا پختہ یقین تھا، وہ جدید تعلیم کے پروردہ تھے، ان کا تعلق بھی جدید تعلیم یافتہ طبقہ سے زیادہ رہا مگر مشرقی اور ہند اسلامی تہذیب کے دامن سے ہمیشہ چمٹے رہے، علمااور قدامت پسند لوگوں سے ملنے ملانے اور ان کی مجلسوں اور جلسوں میں جانے سے احتراز نہ کرتے، وہ دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنو کے پچاسی سالہ جشن میں بھی شریک ہوئے تھے، یہیں میں نے ان کو پہلی بار دیکھا تھا، دارالمصنفین سے اچھی طرح واقف تھے، اس کے کاموں کے مداح تھے، لیکن یہاں کبھی تشریف نہیں لاسکے جس کی ان کو حسرت رہی، وہ بڑے اچھے مقرر تھے، ایک دفعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کورٹ کے جلسے میں مجھے ان کی تقریر بہت پسند آئی، جلسے کے بعد اس کی داد دیتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ آپ کی مبارک زبان سے ایسی ہی پیاری تقریر دارالمصنفین اعظم گڑھ میں سننا چاہتا ہوں، فرمایا تو بسم اﷲ میں تیار ہوں مجھے بھی دارالمصنفین دیکھنے کا بڑا اشتیاق ہے میں انشاء اﷲ ضرور حاضر ہوں گا، لیکن آج کل میں منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹ تیار کررہا ہوں، اس کی وجہ سے بڑی مشغولیت ہے، پھر اپنا وزیٹنگ کارڈ مجھے دیتے ہوئے کہا کہ اکتوبر تک خط لکھ کر دریافت کیجیے، میں نے خط لکھا مگر اس وقت کسی اور مصروفیت کی بنا پر عذر کیا، اس کے بعد بھی کئی بار متوجہ کیا مگر کوئی نہ کوئی رکاوٹ پیش آتی رہی، دو برس پہلے یوم سرسید کا شاندار جلسہ انجمن اسلام ممبئی میں ڈاکٹر محمد اسحاق جیم خانہ والا اور جناب رضوان اعظمی کے زیر اہتمام ہوا تھا جس میں سرسید کے افکار و خیالات کے شارح و ترجمان کی حیثیت سے وہ مدعو کیے گئے تھے، میں اس وقت وہیں تھا اور محمد اسحاق صاحب صدر انجمن اسلام اور رضوان اعظمی صاحب کی دعوت پر جلسے میں شریک ہوا اور ان کی تقریر سے محظوظ ہوا، اس کے بعد پھر ان سے کہیں ملاقات نہیں ہوئی۔
خسرو صاحب کی تقریر بڑی دلکش اور سحر انگیز ہوتی، اردو اور فارسی کے سینکڑوں اشعار انہیں یاد تھے، انہیں برمحل پڑھ کر وہ اپنی تقریر میں بڑا اثر اور کشش پیدا کردیتے تھے، کبھی کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کورٹ کے جلسے میں بڑی گرمی گرما ہوتی اور کسی رائے پر اتفاق نہ ہوتا تو وہ چانسلر کی حیثیت سے تقریر کرنے کھڑے ہوتے، ان کی دل نواز مسکراہٹ ہی سے سکون پیدا ہوجاتا اور چاہے لوگوں کے دل نہ مطمئن ہوتے رہے ہوں لیکن ان کی تقریر سب کو خاموش ضرور کردیتی تھی، وہ بڑے باغ و بہار آدمی تھے، جس محفل میں ہوتے اپنی خوش طبعی، زندہ دلی، بذلہ سنجی اور حسن گفتار سے اسے زعفران زار بنادیتے، ان کو علم و ادب کا بھی اچھا ذوق تھا، اردو شاعری سے عشق تھا، شعر بھی کہتے تھے۔
ٍ خسرو صاحب خلیق، وضع دار، ملنسار اور شریف النفس انسان تھے، اقتصادیات کے ماہر ہونے کے باوجود طبیعت میں خشکی نہ تھی، بڑے شگفتہ مزاج اور تہذیب و شائستگی کا نمونہ تھے، بڑے عہدوں پر متمکن رہنے کے باوجود کم ظرف افسروں کی طرح ان میں رعونیت، غرور، ضد اور اکڑپن نہ تھا بلکہ عاجزی و انکسار کا پیکر تھے، وہ گفتار کے نرم مگر رفتار کے گرم تھے، ضرر رسائی تو درکنار کبھی کسی پر غصہ بھی نہ ہوتے، وہ کسی انسان کے استحصال کو پسند نہ کرتے، اسی لیے پیدل چل لیتے مگر رکشہ کی سواری نہ کرتے۔
اﷲ تعالیٰ عالم آخرت میں ان کے درجات بلند کرے اور متعلقین کو صبر جمیل مرحمت فرمائے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، اکتوبر ۲۰۰۳ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...