Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی
ARI Id

1676046599977_54338457

Access

Open/Free Access

Pages

670

ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی
پروفیسر سید علی محمد خسرو کے انتقال کے دو ہی دن بعد ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی نے بھی ۲۶؍ اگست کو رختِ سفر باندھا اور رحلت فرماگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
ڈاکٹر قریشی لکھنو کے مشہور و مقبول معالج، ہومیوپیتھی کے حاذق ڈاکٹر، دینی تعلیمی کونسل کے روح رواں، اس کے اولین کارواں کے آخری مسافر اور مختلف اصلاحی، دینی، قومی، ملی، تعلیمی اور اجتماعی تحریکوں اور تنظیموں کے ہم دم و دم ساز تھے، ان کی وفات سے جو خلا ہوا ہے، اس کا پر ہونا مشکل ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا وطن پرتاپ گڑھ تھا، نیشنل ہومیوپیتھک کالج میں لکچرر ہوکر لکھنو تشریف لائے تو یہیں کے ہوکر رہ گئے، شدہ شدہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے تعلق ہوگیا جو اتنا بڑھا کہ سفر و حضر ہر جگہ ان کے ساتھ رہتے، ۱۹۶۲؁ء میں مولانا جنیوا، لندن اور اسپین وغیرہ کے سفر پر گئے تو انہیں بھی اپنے ہم راہ لے گئے، ایک عرصے تک وہ مولانا سے ایسا گھل مل کررہتے تھے کہ ان ہی کے خاندان کے فرد معلوم ہوتے تھے، مولانا کے برادر اکبر ڈاکٹر سید عبدالعلی سابق ناظم ندوۃالعلما کی بیماری کے زمانے میں بڑی دل سوزی سے ان کی خدمت کی اور وفات کے بعد ان ہی کے مطب میں پریکٹس شروع کی مگر بعد میں نخاس میں اکبر گیٹ کے پاس اپنا ذاتی مطب کھولا اور دیکھتے دیکھتے مریضوں کا ایسا تانتا بندھنے لگا کہ ظہر کی نماز کے لیے بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔
وہ مجھ سے اکثر شکایت کرتے کہ لکھنو آکر چلے جاتے ہو نہ خود ملتے ہو، نہ ملنے کا موقع دیتے ہو، ایک مرتبہ گیارہ بارہ بجے گیا تو ہجوم دیکھ کر گھبرا گیا، کسی طرح اطلاع کرائی تو فوراً تشریف لائے اور اوپر لے گئے اور کہا آرام کرو، ظہر کا کھانا اور عصر کی چائے سے پہلے نہیں جاسکتے، میں نے کہا میں تو آپ کی شکایت دور کرنے آیا تھا مجھے اور بھی کام ہیں، کہنے لگے میں بھی کام ہی سے روک رہا ہوں، بعد میں انجمن تعلیمات دین اور قوم و ملک کے دوسرے مسائل پر بڑی مفصل گفتگو کرتے رہے۔
اپنے پیشہ میں ڈاکٹر صاحب بہت کامیاب تھے لیکن ان پر ایسا گہرا دینی رنگ چڑھ گیا تھا کہ دین و ملت کے لیے ہر وقت تڑپتے اور فکرمند رہتے تھے، پیشے کی عزت و شہرت اور اس کے ذریعہ ملنے والی یافت، ہر چیز ضمنی اور ہیچ ہوگئی تھی، اپنے وجود کو دینی، اجتماعی اور ملی اداروں اور تحریکوں کے لیے وقف کردیا تھا ؂
پھاڑ کر جیب و آستیں کر علمِ جنوں بلند
عشق کے میر کارواں پرچم خسروی نہ دیکھ
مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے نہایت سرگرم ممبر رہے، یو۔پی کے مخصوص حالات کی بنا پر ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی مرحوم نے مسلم مجلس قائم کی تو اس کے بھی فعال رکن اور فریدی صاحب کے معتمد رہے اور اس کے ٹکٹ پر سیتاپور سے پارلیمنٹ کی ممبری کے لیے الیکشن میں کھڑے ہوئے مگر کامیاب نہیں ہوئے، مولانا علی میاں سے متعلقہ اداروں دارالعلوم ندوۃ العلما، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام اور تحریک پیام انسانیت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مدتوں ان سے وابستہ رہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوئی تھی اور اس کے لیے ان کے دل میں بڑا درد تھا، وہ اسے ملت اسلامیہ کا سرمایہ سمجھ کر اس کی پاسبانی تا عمر کرتے رہے، وہ متعدد بار کورٹ کے ممبر بھی رہے، جب اس کا اقلیتی کردار سلب کیا گیا تو وہ نہایت متفکر اور پریشان ہوئے اور اس کی بحالی کراکے ہی دم لیا، حالات معمول پر آنے کے بعد بھی وہ اس کے امتیازات و خصوصیات کے بقا و تحفظ کے لیے برابر جدو جہد کرتے رہے، ان کے لیے یونیورسٹی کا اپنے مقاصد سے منحرف ہوجانا اور سر سید کے خوابوں کی تعبیر نہ بننا کسی حال میں بھی گوارا نہ تھا۔
مدت سے ڈاکٹر صاحب کی فکر و توجہ کا سب سے بڑا مرکز دینی تعلیمی کونسل بن گئی تھی، اس تحریک کے اصل بانی قاضی محمد عدیل عباسی مرحوم تھے، انہوں نے مولانا سید ابوالحسن علیؒ کی سرپرستی میں اسے کامیاب بنانے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا مگر ان کے اور ان کے رفقائے کار جناب ظفر احمد صدیقی، مولانا محمود الحسن عثمانی اور جناب ریاض الدین صاحب کے ایک ایک کرکے اٹھ جانے کے بعد جب ہر طرف سناٹا ہوگیا تھا تو اﷲ تعالیٰ نے پردہ غیب سے ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی کو نمودار کیا۔
؂ مردے از غیب بروں آید و کارے بکند
انہوں نے اپنی ساری قوت و قابلیت دینی تعلیمی کونسل میں لگادی اور حالات کی نامساعدت، وسائل کی کمی اور صحت کی کمزوری کے باوجود اس کا دائرہ مزید وسیع کردیا اور اپنا وقت، اپنی کمائی، اپنی صحت اور اپنی پریکٹس سب کچھ اس کے لیے قربان کردیا، انہوں نے دینی تعلیمی کونسل اور مائنارٹیز ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری کی حیثیت سے عظیم الشان کارنامے انجام دے کر اپنی ملت پر بڑا احسان کیا، ان کے لیے حکمرانوں اور بددیانت و متعصب سرکاری افسروں سے لڑائیاں لڑیں، عدالتوں کے درکھٹکھٹائے اور خود اپنی بے حس ملت کو جھنجھوڑ کر اس بنیادی اور ضروری کام کی اہمیت سے آگاہ کیا۔
ڈاکٹر صاحب کے ایثار و قربانی، جرأت و بیباکی، قوت عمل اور ملی درد مندی و اخلاص کا ایک مظہر ہفتہ وار ندائے ملت بھی تھا جسے عرصہ دراز سے وہ دینی تعلیم کے فروغ، اقلیتی مسائل کی ترجمانی اور تعلیمی ہی نہیں مسلمانوں کے ساتھ دوسرے دائروں میں ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے تدارک کے لیے خسارے سے نکالتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بچوں سے زیادہ بچیوں کی تعلیم کا مسئلہ اہم ہے کیوں کہ ان کی کوکھ سے آئندہ وہ نونہال تیار ہوں گے جس کے ارتداد اور ان کے دین و ایمان پر قزاقی کے لیے دیومالائی نصاب تعلیم کے ذریعہ پورا سامان کیا جارہا ہے، اگر مائیں دینی تعلیم سے بہرہ ور نہ ہوں گی تو آئندہ نسلوں کے ایمان و عقیدے کی سلامتی کی کیا ضمانت ہوسکتی ہے، اسی لیے انہوں نے پہلے اپنے گھر ہی میں بچیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا اور جب خدائے کارساز نے وسعت و فراخی عطا کی تو لکھنو کے مضافات میں مہپت مؤ میں جامعہ نورالاسلام نسواں قائم کیا جس میں اب کمپیوٹر سنٹر بھی قائم ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی اصل خوبی ان کی دیانت، دین داری، دینی غیرت حمیت اور تڑپ تھی، ان کا دل خوف و خشیتِ الٰہی سے معمور تھا، انہیں دیکھنے اور ان سے ملنے والا ان کے تقویٰ و اخلاص سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، وہ اسلام اور مسلمانوں کی سر بلندی کے لیے بے قرار رہتے، مگر وہ بڑے کھرے اور صاف گو تھے، حق بات کہنے میں ان کو جھجھک نہ ہوتی، ان میں کسی طرح کی بناوٹ اور تصنع نہ تھا، ان کا ظاہر و باطن یکساں تھا، اس کی وجہ سے وہ لچک اور مصلحت بینی کو پسند نہیں کرتے تھے اور نہ مداہنت یا مفاہمت کو برداشت کرتے، علماے کبار و مشایخ عظام کی زندگیوں میں تضاد اور دورنگی دیکھ کر برافروختہ ہوجاتے کہ ع اب کسے رہنما کرے کوئی۔ دین کا دم بھرنے اور دینی کام کرنے والوں میں اگر اخلاص و تقویٰ کی کمی یا ان کے ظاہر و باطن میں تفاوت دیکھتے تو اس پر لب کشائی سے باز نہیں رہتے، اپنی اس حق گوئی کا انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا کہ جن لوگوں سے مدت مدید سے گہرے تعلقات تھے ان سے دوری اور کشیدگی ہوگئی ؂
اک عمر کی بربادی ، اک عمر کی تنہائی
اک جرم محبت کی کیا کچھ نہ سزا پائی
ڈاکٹر صاحب کی وفات علم و تعلیم اور دین و ملت کا بڑا خسارہ ہے، اﷲ تعالیٰ غیب سے اس کی تلافی فرمائے، انہیں اعلی علیین میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، اکتوبر ۲۰۰۳ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...