Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > خالد مسعود

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

خالد مسعود
ARI Id

1676046599977_54338458

Access

Open/Free Access

Pages

671

آہ جناب خالد مسعود!!
یہ خبر علمی و دینی خصوصاً ترجمان القرآن مولانا حمید الدین فراہیؒ کے قدردانوں اور ان کے علوم و افکار کے شیدائیوں کے لیے بڑی غم ناک اور روح فرسا ہے کہ یکم اکتوبر ۲۰۰۳؁ء کو رسالہ تدبر لاہور کے مدیر جناب خالد مسعود صاحب کا انتقال ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگرد رشید اور علمی وارث و جانشین تھے، انہوں نے اپنی زندگی فکر فراہی کی شرح و ترجمانی اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کردی تھی، ان کی وفات سے ہم قرآن و حدیث کے ایک بڑے خدمت گزار سے محروم ہوگئے۔
مرحوم کو جگر کی بیماری تھی، خون کی رگ بار بار پھٹ جاتی تھی اور خون کی قے ہونے لگتی تھی، آخر اس بیماری نے ان کا کام تمام کردیا۔
خالد مسعود صاحب ضلع جہلم کے ایک گاؤں ’’ﷲ‘‘ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۳۵؁ء کو پیدا ہوئے، یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ۱۹۵۱؁ء میں نوشہرہ سے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک اور ۱۹۵۵؁ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے فرسٹ ڈویژن میں بی۔ایس۔سی کیا، ۱۹۵۷؁ء میں پنجاب یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ایم۔ایس۔سی کیا، ۱۹۵۸؁ء میں انڈسٹریل ریسرچ لیبارٹریز سے وابستہ ہوئے پھر مزید تعلیم کے لندن گئے اور ۱۹۵۹؁ء میں وہاں کے کنگز کالج سے کیمیکل انجینئرنگ میں ڈپلوما حاصل کیا، واپسی کے بعد ۱۹۷۴؁ء میں پنجاب یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ میں ایم۔اے کیا، ۱۹۸۵؁ء میں قائداعظم لائبریری میں ملازمت کی، اس ے وابستگی کے زمانے میں بچوں کے لیے آسان زبان میں متعدد مفید اور معلوماتی کتابیں تحریر کیں، جو بہت مقبول ہوئیں اور بعض پر ان کو ایوارڈ بھی ملا، گو ان کتابوں میں فلکی طبعیات کی جدید ترین تحقیقات کے نتائج اور کائنات کے بارے میں نئے افکار و نظریات پیش کیے گئے ہیں تاہم اسلامی نقطہ نظر کو اوجھل نہیں ہونے دیا ہے۔
وظیفہ یاب ہونے کے بعد انہوں نے متعدد انگریزی کتابوں کو اردو کا جامہ پہنایا جن کو مقتدرہ قومی زبان اور اردو سائنس بورڈ وغیرہ نے شایع کیا۔
خالد مسعود صاحب نے گو جدید تعلیم حاصل کی تھی تاہم ان کو شروع ہی سے دین و مذہب سے شغف تھا اور دین دار گھرانے سے ان کا تعلق تھا، ان کی طبیعت میں سلامت روی کے ساتھ تلاش و تحقیق کا داعیہ تھا، اس لیے وہ روایتی اور خاندانی مسلمان بن کر نہیں رہنا چاہتے تھے بلکہ عربی زبان کی تحصیل کرکے براہ راست دین کو اس کے اصل مآخذ سے سمجھنا چاہتے تھے اور علی وجہ البصیرت مسلمان رہنا چاہتے تھے، فضل ربانی اور توفیق الٰہی نے یاوری کی اور ۱۹۵۸؁ء میں خوش قسمتی سے ان کی ملاقات دور حاضر کے سب سے بڑے قرآنیات کے عالم مولانا امین احسن اصلاحی سے ہوئی تو گویا گوہر مراد ان کے ہاتھ آگیا اور پھر مولانا کو چھوڑ کر انہوں نے کسی اور طرف نگاہ نہیں اٹھائی کہ ع کس چیز کی کمی ہے خواجہ تری گلی میں
دوش وقت سحر از غصہ نجاتم دادند
وندراں ظلمت شب آب حیاتم دادند
مولانا نے بھی ان کو ہونہار سمجھ کر اور ان کا ذوق دیکھ کر انہیں اپنے آغوش شفقت میں لے لیا، پہلے عربی زبان کی تعلیم دی جب اس کی استعداد پختہ ہوگئی تو مسلم شریف پڑھائی اور قرآن مجید کو سبقاً سبقاً پڑھایا، اس کے بعد وہ اپنے استاد کے علمی کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے اور حوالے و مراجع کی تلاش میں بھی استاد گرامی کی مدد کرنے لگے، اس طرح مولانا کی تربیت نے ہیرے کو چمکا دیا اور خالد مسعود صاحب میں عربیت اور قرآن فہمی کا عمدہ ذوق پیدا ہوگیا، مولانا نے جب نوجوان طلبہ پر مشتمل حلقہ تدبر قرآن قائم کیا تو اس میں یہ بہت پیش پیش رہے، گو یہ حلقہ قائم نہیں رہ سکا مگر اس کے قیام پر اس وقت کے مشہور فضلا مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ اور مولانا عبدالباری ندویؒ نے ان کو داد دی تھی۔
جناب خالد مسعود کا جوش و حوصلہ، محنت و ریاضت اور اخلاص و طلب صادق دیکھ کر مولانا امین احسن صاحب نے ان کی رہنمائی میں بخل سے کام نہیں لیا، ان کے پاس جو کچھ تھا سب اس جوہر قابل کے حوالے کردیا اور مولانا حمیدالدین فراہی سے قرآن مجید میں فکر و تدبر کے جو طریقے سیکھے تھے انہیں ان کو بھی سکھایا اور علم و معرفت اور حکمت کا جو خزانہ انہیں بارگاہ حمید سے ملا تھا اسے اور مولانا فرہیؒ کے مسودات بھی ان کے سپرد کردیے، چنانچہ جب مولانا نے میثاق نکالا اسی زمانے سے اس کا مستقل باب افادات فراہی خالد مسعود صاحب کے ذمہ ہوگیا تھا، جس میں وہ برابر مولانا کے افکار و خیالات کی ترجمانی کررہے تھے۔
۱۹۸۰؁ء میں حلقہ تدبر قرآن کو ادارۂ تدبر قرآن و حدیث کا نام دیا گیا اور اس کے زیرِ اہتمام رسالہ تدبر جاری کیا گیا تو چند شماروں کے بعد اس کی ادارت کی ساری ذمہ داری ان ہی کے سپرد کردی گئی، مولانا امین احسن صاحب پیرانہ سالی کی وجہ سے درس قرآن دینے سے معذور ہوگئے تو اس میں بھی ان کی قائم مقامی کا شرف ان ہی کو حاصل ہوا، غرض فکر فراہی ان کے دل و دماغ میں پوری طرح رچ بس گیا تھا، ۱۹۹۹؁ء میں مولانا اصلاحی پرسراے میر میں جو سمینار ہوا، اس میں ان کے آجانے سے اس کا وزن و وقار بہت بڑھ گیا تھا۔
خالد مسعود صاحب کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مولانا فراہیؒ اور مولانا اصلاحی کے بعض غیر مرتب اور نامکمل کاموں کو مرتب و مکمل کیا اور ان میں حسب ضرورت اور وقت کے اقتضا کے مطابق توسیع و اضافہ بھی کیا اور مولانا اصلاحی کے بعض امالی کو بھی ترتیب و تہذیب کے بعد شایع کیا، اس سلسلے میں تدبر حدیث کے نام سے مؤطا و بخاری کی شروح کئی جلدوں میں شائع کیں، ان کی تفسیر کی تلخیص اور ترجمے کو تفسیر سے الگ کرکے ترجمہ قرآن کے نام سے شایع کیا، اس کے ساتھ خود اپنے تصنیفی کام بھی برابر انجام دیتے رہے، انتقال سے چند مہینے پہلے سیرت پر ان کی عظیم الشان کتاب ’’حیات رسول امی‘‘ شایع ہوئی تھی، اس کے بعض حصے میں نے رسالہ تدبر میں جب پڑھے تو مجھے اس میں ان کا انفرادی رنگ صاف نظر آیا اور ۱۹۹۹؁ء میں جب ملاقات ہوئی تو میں نے اپنا یہ تاثر ان سے بیان کیا غالباً اسی لیے کتاب چھپتے ہی انہوں نے میرے پاس بھیجی، میں اس پر تبصرے کے لیے فرصت و اطمینان کا منتظر تھا، مجھے کیا پتا کہ وہ اتنی جلدی رخصتِ سفر باندھ لیں گے۔
خالد مسعود صاحب کا علم و مطالعہ وسیع تھا، ان کو اردو ، عربی، فارسی اور انگریزی پر عبور تھا جن سے انہوں نے اپنے مضامین اور کتابوں میں خاطر خواہ فائدہ اٹھایا۔
ان کا جو حلیہ اور سراپا میرے ذہن میں تھا میں نے ان کو اس کے بالکل برعکس پایا، ان کا چہرہ بڑا نورانی اور وہ خالص دینی وضع قطع کے شخص تھے، اپنے علم و فضل کی طرح تقوی و طہارت میں بھی ممتاز اور عابد و زاہد اور شب بیدار تھے، بڑے خوش مزاج و خوش اخلاق تھے، غرور و نخوت کا شائبہ بھی ان میں نہ تھا، اہل علم اور علمائے حق کی طرح ان کی طبیعت میں بڑا انکسار، تواضع اور فروتنی تھی، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔
وہ اس مشن کے علم بردار تھے جس کے علم بردار ان کے استاد مولانا امین احسن صاحب تھے، مولانا اصلاحی کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنے استاد مولانا حمید الدین فراہیؒ اور ان کے فکر سے اہل علم کو متعارف کرایا، ان کے بعد یہی کام ان کے لایق شاگرد جناب خالد مسعود انجام دے رہے تھے، اب ان کے رفقا خصوصاً جناب جاوید غامدی وغیرہ پر یہ بڑی ذمہ داری آگئی ہے، دعا ہے کہ یہ تمام حضرات مولانا فراہیؒ و اصلاحی اور جناب خالد مسعود کے نورِبصیرت کو عام کرتے رہیں تاکہ ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا رہے۔
(ضیاء الدین اصلاحی، دسمبر ۲۰۰۳ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...