Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > شاہ اقبال احمد ردولوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

شاہ اقبال احمد ردولوی
ARI Id

1676046599977_54338460

Access

Open/Free Access

Pages

673

شاہ اقبال احمد ردولوی
افسوس ہے کہ ۱۴؍ مئی ۲۰۰۴؁ء کو شاہ اقبال احمد ردولوی کا انتقال ہوگیا، اِناﷲ وَاِنا اِلَیہ رَاجِعُون۔ دارالمصنفین کے سابق ناظم مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کا وطن بھی ردولی تھا، وہ وہاں کے شرفا کے ادبی ذوق، تہذیبی شائستگی اور نفاست کا ذکر برابر کرتے تھے، اس سے ردولی کے خاص معیار، رکھ رکھاؤ اور وہاں کے لوگوں کی شرافت، وضعداری اور خوش مذاقی کا نقش دل پر ثبت ہوگیا تھا۔
شاہ معین الدین احمد صاحب معارف میں کبھی کبھی اقبال صاحب کا کلام شائع کرتے تھے، ادہر پھر ان کا کلام معارف میں چھپتا تھا اور جب تک قومی آواز لکھنو بند نہیں ہوا تھا، اس کے سنڈے اڈیشن میں بھی ان کا کلام نظر سے گزرتا تھا، اس کی وجہ سے ان کے کمال فن کا اندازہ تھا اور گزشتہ ۱۵ برس سے ان سے برابر خط و کتابت رہتی تھی، دس بارہ برس پہلے مجھے عرق النسا کا عارضہ ہوا، لوگوں سے ان کی ’’فقیری دوا‘‘ کی اطلاع ملی تو پروفیسر علی حماد عباسی مرحوم سابق پرنسپل شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج اعظم گڑھ میرا خط لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دوا لے آئے، اس کے بعد شہر کے متعدد لوگوں نے مجھ سے خطوط لکھواکر ان سے دوا منگوائی، میں خط کے پتے پر اگر ان کا نام شاہ اقبال احمد لکھ دیتا تو وہ آزردہ ہوکر مجھے لکھتے کہ میرا ادبی نام اقبال ردولوی ہے، یہی نام پتے اور معارف میں ہونا چاہئے لیکن ان کا اصل نام شاہ اقبال احمد صابری قدوسی تھا اور ان کا خاندانی تعلق حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ سے تھا، ددھیال کلیر شریف میں تھا اور اس کے سجادہ نشین شاہ عبدالرحیم صاحب ان کے دادا تھے، ننھیال ردولی میں تھا جس کے سجادہ نشین حیات احمد صاحب مرحوم ان کے نانا تھے۔
شاہ اقبال احمد کی عمر ۱۸ مہینے ہی کی تھی کی ان کی والدہ نے جنت کی راہ لی اور ۷ برس کے ہوئے تو والد شاہ مسعود احمد کا کام ایک پاگل شخص نے تمام کردیا، اس لیے ان کی پرورش ننھیال ردولی میں ان کے نانا شاہ حیات احمد مرحوم کے سایہ عاطفت میں ہوئی، وہ ردولی کے شرفا میں تھے، ان کی ذات اودھ کی شرافت و تہذیب اور ردولی کی وضع داری اور شائستگی کا عطر مجموعہ تھی، بڑے خوش خلق، مہمان نواز اور وسیع المشرب تھے، شاہ اقبال احمد بھی ان کے اوصاف و کمالات کا پرتو، ردولوی تہذیب کا نمونہ، خدمت خلق میں بے مثال، خوش اطوار، وسیع القلب اور فراخ دل تھے۔
شاہ اقبال احمد کو زبان و ادب کا ستھرا ذوق اپنے نانا سے ورثہ میں ملا تھا، صحت زبان کا بڑا خیال رکھتے تھے، زبان و بیان کی معمولی لغزش پر بھی ان کی نظر پڑجاتی تھی، مطالعہ کے عادی تھے، نئی کتابیں حاصل کرکے پڑھتے رہتے تھے، ان کا کتب خانہ قدیم و جدید دونوں قسم کی کتابوں سے بھرا ہوا تھا، مشہور رسالوں کے خاص نمبر بھی ان کے پاس ہوتے تھے، لکھتے بہت کم تھے، اعلا درجہ کے شاعر تھے مگر شعر بھی کم کہتے تھے، لیکن جو کچھ کہتے تھے اچھا کہتے تھے۔ تغزل سے بڑی مناسبت تھی اور اس کا ذوق بہت رچا ہوا تھا، ان کی شاعری میں کلاسکیت اور جدید فکر کا بڑا خوبصورت امتزاج ہوتا تھا، غزلوں میں پانچ یا سات شعر ہی ہوتے تھے اور وہ سراپا انتخاب ہوتی تھیں، چھپنے کا شوق نہ تھا، میری نظر سے ان کا کوئی مجموعہ کلام نہیں گزرا، ان کی ایک غزل عرصے سے میری فائل میں پڑی ہوئی تھی، اسے آئندہ شمارے میں ملاحظہ فرمائیں معارف میں چھپی ہوئی بعض غزلوں کے اشعار بہ طور نمونہ نقل کیے جاتے ہیں، ان میں روانی و شگفتگی کے علاوہ درد و کسک، سوز و اثر اور حقیقت و معرفت کے جلوے بھی نظر آئیں گے:
اہل جنوں کو اہل خرد کی ہوا لگی

میں سوچتا ہوں کون کہے گا خدا لگی
کس کی نگاہ ناز کے مارے ہوئے ہیں لوگ

خلقت تمہارے شہر کی درد آشنا لگی
وہ خوف وہ ہراس تھا بس کچھ نہ پوچھیے

مقتل کی طرح شہر کی ہم کو فضا لگی
ضبط غم کا جو ہنر رکھتے ہیں

وہ قیامت کا جگر رکھتے ہیں
گردِ ہر راہ گزر جسم پہ ہے

بس یہی رختِ سفر رکھتے ہیں
ان سے ملتے رہو اقبالؔ کہ جو

دولتِ دیدۂ تر رکھتے ہیں
اور یہ غزل فیض کی نذر ہے:
وہ سوے یار چلے ہوں کہ سوے دار چلے

جدہر کی راہ چلے ہم تو باوقار چلے
جہاں سے لے کے سکوں ساری کائنات چلی

وہیں سے ہم جو چلے کتنے بے قرار چلے
بنی نہ بات تو اقبالؔ صاحبان خرد

ہماری وضعِ جنوں کرکے اختیار چلے
 سخن سنجی کے ساتھ ہی ان میں شعر فہمی کا ملکہ اور نقد سخن کا اچھا سلیقہ بھی تھا، اردو شاعری پر ان کی نظر وسیع تھی، ممتاز شعرا اور ان کی شاعری کے بارے میں ان کی رائے بہت باوزن ہوتی تھی، اپنے ایک گرامی نامہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’معارف ملا، قتیل شفائی پر آپ کی تحریر دیکھی مگر آپ نے خمار بارہ بنکوی کے انتقال پر کچھ نہیں لکھا، خمار بڑے مخلص، وضع دار، شریف، خلیق اور محبت والے انسان تھے، انہوں نے کلاسیکل غزل کے فن کو، اس کے تغزل کو، اس کی خوشبو کو، اس کی لطافت و نزاکت کو، اس کی نغمگی کو برقرار رکھا، ترقی پسندوں نے غزل کو نظر انداز کیا اور غزل کے خلاف ایک طوفان برپا کردیا مگر خمار نے غزل سرائی نہیں ترک کی، ایسا نہیں ہے کہ ان کے یہاں روح عصر نہ ہو، روح عصر ہے مگر غزل کی زبان میں، محبت کی زبان میں۔ غزل کو جگر کے بعد مقبول بنانے میں خمار کا بڑا ہاتھ رہا ہے، ایسے شاعر پر آپ کو ضرور لکھنا چاہئے تھا، خمار پروپگنڈے سے دور تھے اور کسی گروہ میں شامل نہیں تھے، مجروح اور سردار جعفری پر بھی آپ نے کچھ نہیں لکھا، یہ مانا کہ آپ کو ان لوگوں کے نظریات سے اختلاف ہے، ترقی پسند تحریک انتہاپسندی کا شکار ہوگئی‘‘۔
خمار کے متعلق مکتوب نگار کی رائے بالکل درست ہے، اس وقت ان کا یہ شعر زبان پر آگیا:
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں

نیا ہے زمانہ ، نئی روشنی ہے
 خمار پر میں نے اپنے سے بہتر ایک صاحب سے مضمون لکھنے کی فرمائش کی تھی مگر نہ وہی لکھ سکے اور نہ افسوس کہ میں ہی لکھ سکا، مجروح کو بھی میں بہت اچھا غزل گو شاعر مانتا ہوں، ان سے ملاقات بھی تھی، ایک دفعہ وہ آٹھ، نو بجے سے ڈھائی بجے رات تک ہم لوگوں کو اپنی غزلیں سناتے رہے، ان کا مجموعہ کلام نہ ملنے کی وجہ سے ان پر مضمون نہ لکھ سکا، جعفری صاحب سے متعدد بار مل چکا ہوں ان پر مفصل مضمون لکھا تھا، میرے خیال میں نظریات کے اختلاف کو اعتراف کمال میں مانع نہیں ہونا چاہئے۔
اقبال صاحب کے ایک اور گرامی نامہ کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’معارف میں آپ کا مضمون علامہ شبلی کی شعر فہمی اور شعرالعجم کا ایک مطالعہ بہت پسند آیا، واقعہ یہ ہے کہ حضرت شبلی کی شعرفہمی اور لطافت ذوق کا قایل ہونا پڑتا ہے، جس طرح شاعری اﷲ کی عطا ہے، اسی طرح سخن فہمی بھی اﷲ کی عطا ہے، علامہ شبلی اپنی ذات سے ایک انجمن تھے، ایک ادارہ تھے، وہ علم کا بحر بے کراں تھے۔
ڈاکٹر کلثوم ابوالبشر صاحبہ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’شیخ محمد قدیر اٹھارہویں صدی میں کشور گنج میں پیدا ہوئے، انہوں نے ایک مثنوی بدیا سندر اردو میں تحریر فرمائی، میر حسن دہلوی کی گلزار نسیم سے متاثر ہوکر انہوں نے یہ مثنوی لکھی‘‘ مجھے عرض یہ کرنا ہے کہ گلزار نسیم دیا شنکرنسیم کی مثنوی ہے، میر حسن کی مثنوی کا نام سحرالبیان ہے‘‘۔
اقبال ردولوی ایک نکتہ سنج ادیب و شاعر، اودھ کی قدیم شرافت و وضعداری اور ردولی کی اس تہذیب اور ادبی وراثت کی یادگار تھے جس میں وقار اور بانکپن تھا، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے اعزہ و احباب کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔
یہ تحریر لکھی جاچکی تھی کہ پروفیسر خورشید نعمانی کا یہ خط ممبئی سے ملا:
’’ایک افسوس ناک اطلاع دے رہا ہوں، آج (۱۴؍ مئی) صبح ۸ بجے میرے چھوٹے بھائی حارث نعمانی نے اطلاع دی کہ اقبال میاں (شاہ اقبال ردولوی) کا آج صبح ۵ بجے انتقال ہوگیا، اِناﷲ وَ اِنا اِلَیہ رَاجِعُون، وہ میرے ہم دم دیرینہ اور آپ کے بڑے چاہنے والے تھے، معارف میں ادبیات کے کالم میں ان کی غزلیں اکثر چھپتی تھیں، میں نے اپنی کتاب (تاریخ دارالمصنفین) کے دوسرے حصے میں ادبیات کے متعلق لکھتے ہوئے ان کی ایک غزل شامل کی تھی، افسوس کہ ان کی زندگی میں نہ چھپ سکی، دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔
اقبال میاں حضرت شیخ علاء الدین صابر کلیری کے خاندان کے چشم و چراغ تھے اور شیخ احمد عبدالحق نوشہ ردولوی کے سجادہ نشین شاہ حیات احمد احمدی کے نواسے اور شاہ آفاق احمد مرحوم کے بھانجے تھے، علم و ادب میں یکتا، روایات کے پاس دار اور بڑی محبت کے آدمی تھے۔
ان کی بے وقت موت میرے لیے حادثہ جاں کاہ ہے اور ناقابل تلافی نقصان ہے، اﷲ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین‘‘۔ (ضیاء الدین اصلاحی، جون ۲۰۰۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...