Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مقبول احمد لاری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مقبول احمد لاری
ARI Id

1676046599977_54338461

Access

Open/Free Access

Pages

675

جناب مقبول احمد لاری ۱۷؍ مئی کو لکھنؤ میں وفات پاگئے، وہ ایک علم دوست، ادب نواز اور اردو کے مجاہد تھے، وہ مئی ۱۹۱۶؁ء میں ضلع دیوریا کے قصبہ لار میں پیدا ہوئے تھے، گورکھ پور اور الٰہ آباد وغیرہ میں تعلیم حاصل کی، بی اے کرنے کے بعد ۱۹۴۲؁ء میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا تو گھر اور کاروبار کی ساری ذمہ داریاں ان پر آگئیں، اس کی وجہ سے وہ مدتوں نیپال میں قیام پذیر رہے اور یہاں کے اہل علم و دانش، سربرآوردہ اشخاص اور امرا و اعیان دولت میں اپنی اچھی ساکھ بنائی، وہ پہلے ہندوستانی تاجر تھے جس کی گولڈن جوبلی نیپال اور دیگر ممالک کے سرکردہ اشخاص کی مشترکہ کمیٹی نے رفاہ کلب لکھنؤ میں منائی، کھٹمنڈو کی تربھون یونیورسٹی نے ۱۰ سال کے لیے سینٹ کا ممبر منتخب کیا، نیپال کی حکومت نے ان کو اپنے شاہی خطاب ’’سوپربل گروکھاد کھشٹریاہو‘‘ (یمین السلطنت گورکھا) سے نوازا اور حکومت ہند نے بھی ان کی رفاہی خدمات کے لیے انہیں پدم شری کے اعزاز سے نوازا۔
۱۹۵۳؁ء میں بچوں کی تعلیم کے لیے وہ لکھنؤ تشریف لائے اور سٹی اسٹیشن کے قریب راجہ صاحب محمود آباد کا محل خریدا جس میں اپنے ذوق کے مطابق حسب ضرورت ترمیم کرکے رہائش اختیار کی، ایک زمانے میں گونڈہ کے ایک وکیل اور صحافی جناب نیاز قومی لاری منزل میں قیام پذیر تھے، ان کے بہنوئی جناب عبدالقوی خاں انجینئر کے ساتھ ان سے ملنے گیا تو دونوں حضرات نے مقبول لاری صاحب سے ملایا، پہلی ہی ملاقات میں ان کے علم و مطالعہ سے شغف، اردو زبان و ادب سے شیفتگی، علم دوستی، ادب نوازی، سادگی، تواضع، اصول پسندی، خوش خلقی، محبت اور خلوص سے متاثر ہوا، لاری صاحب نے عشائیہ میں شریک ہونے کے لیے کہا لیکن میرے میزبان انجینئر صاحب نے معذرت کردی، انہوں نے دوسرے دن پھر آنے اور کھانے کی دعوت دی، عرض کی کہ کل واپسی ہے مگر اس کے بعد کئی بار لاری منزل میں قیام کرنے اور وہاں کی پرتکلف دعوتوں میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا، یہ دعوتیں بہت وسیع اور بے مثال تھیں جن میں لکھنؤ کے مختلف طبقوں کے مشاہیر کے علاوہ ملک کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے اصحاب علم و ذوق موجود ہوتے تھے۔
مقبول لاری صاحب ایک بڑے صنعت کار اور تاجر تھے، خدا نے انہیں بہت نوازا تھا مگر اس کے باوجود ان میں کبر و غرور کا شائبا بھی نہ تھا، وہ چھوٹے بڑے خصوصاً اہل علم و ادب اور اردو کے شیدائیوں سے بڑے انکسار سے ملتے تھے اور کسی کو اپنی بڑائی اور مالی برتری کو محسوس نہیں ہونے دیتے تھے، ان کی دولت کسی غلط مصرف کے بجائے ہمیشہ فلاحی اور تعمیری کاموں کے لیے وقف رہتی تھی، ان سے بے شمار علمی و تعلیمی اور قومی و ملی ادارے فیض یاب ہوتے تھے، مدتوں آل انڈیا میر اکادمی کے ذریعہ وہ ادیبوں، شاعروں اور مصنفوں کو اعزاز و اکرام سے نوازتے رہے، اردو رابطہ کمیٹی کے سارے اخراجات ان کے ذمہ ہوتے تھے، لاری کارڈیالوجی سینٹر کا قیام ان کی خدمت خلق کا بڑا نمونہ تھا جو لکھنؤ کے میڈیکل کالج میں دل کے مریضوں کے علاج معالجے کا ایک مرکز تھا۔
آل انڈیا میر اکادمی کا قیام لاری صاحب کا بڑا کارنامہ اور ان کی میر کی عظمت شناسی کا ثبوت ہے، اس کی جانب سے انہوں نے متعدد ارباب علم و دانش کے مضامین یکجا کرکے ’’حدیث میر‘‘ کے نام سے اردو اور ہندی رسم الحظ میں شائع کیا، یہاں سے اور بھی متعدد بلند پایہ کتابیں طبع ہوئیں، ان کے قدردانوں نے ان کے خطبات اور تقریروں کا ایک مجموعہ ’’نوائے مقبول‘‘ شائع کیا، جناب نیاز قومی نے خود ان پر بھی ایک کتاب مرتب کرکے شائع کی تھی جس میں مختلف طبقوں اور پائے کے ۱۲۵ معاصرین کے تاثرات اور خراج عقیدت شامل ہیں، یہ لاری صاحب کی مقبولیت، ہر دل عزیزی اور حلقہ تعارف کی وسعت و ہمہ گیری کا ثبوت ہے۔
مقبول لاری صاحب کو اردو سے عشق تھا، اس کے ہر کام میں وہ پیش پیش رہتے تھے، وہ اردو کی حمایت محض زبانی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے لیے انہوں نے قربانیاں دیں، احتجاج اور دھرنوں میں شریک رہتے تھے، انجمن ترقی اردو، اردو رابطہ کمیٹی اور اردو محافظ دستہ وغیرہ کی تائید میں سرگرم بھی رہے اور مالی تعاون بھی دیا، حکومت کے عتاب سے بے پروا ہوکر اس کے اردو دشمن رویے پر نکتہ چینی کرتے تھے، ایک دفعہ مجھ سے اترپردیش حکومت کی اردو کشی کے واقعات بڑے افسوس کے ساتھ بیان کیئے، ان کے نزدیک اردو کا بنیادی مسئلہ اس کی تعلیم و تدریس کا ہے، ان کا خیال تھا کہ سرکاری اسکولوں میں آٹھویں جماعت تک اردو کی تعلیم لازمی ہونی چاہئے، ۱۹۷۳؁ء میں اترپردیش اردو اکادمی کا قیام عمل میں آیا اور ان کو اس کی کاؤنسل کا رکن نامزد کیا گیا تو انہوں نے اردو کی ترقی و ترویج کے لیے متعدد و مفید تجویزیں بہ راہ راست اترپردیش حکومت کو پیش کیں، وہ اردو اکیڈمیوں کے متعلق کہتے تھے، یہ اردو والوں کو کھلونے دے کر بہلانے کے لیے ہیں۔
لاری صاحب کا گھرانا مذہبی تھا، وہ خود بھی صوم و صلات کے پابند ہوگئے تھے، ان کے یہاں پردے کا بڑا اہتمام تھا، اسی لیے لڑکیوں کو جدید اسکولوں میں تعلیم دلانا پسند نہیں کرتے تھے، ایک مرتبہ ان کی ایک بیٹی کو ان کی اہلیہ نے پرائیوٹ ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد کسی انٹر کالج میں داخل کردیا، اس پر لاری صاحب اتنا ناراض ہوئے کہ اس سے بات کرنا ترک کردیا، آخر مجبور ہوکر اس نے اپنا نام کالج سے کٹوادیا، حالانکہ وہ جدید تعلیم کے حامی تھے، اپنے صاحب زادے مظفر لاری کو اعلیٰ تعلیم دلائی، لڑکیوں نے بھی پرائیوٹ امتحانات دیئے، ان کی بعض بچیاں اردو کی اہل قلم اور شاعرہ ہیں اور صاحب زادے کا اردو ادب و تنقید پرکام ہے۔
لاری صاحب سخاوت، فیاضی اور مہمان نوازی کے لیے مشہور تھے، قومی، ملی، علمی، تعلیمی، سماجی اور فلاحی کاموں پر بے دریغ خرچ کرتے تھے لیکن پیشہ ور سایلوں کو کچھ نہ دیتے تھے، کہتے تھے کہ دس بیس روپے کی بھیک دینا قوم و ملت کے افراد کو ناکارہ بنانا ہے، وہ خود اور گھر کے سارے لوگ زکات نکالتے تھے مگر کوشش کرتے تھے کہ مستحق لوگوں ہی کو صدقہ و خیرات دیں، ان کی ایک صاحب زادی ڈاکٹر رخسانہ نکہت لاری (ام ہانی) رمضان میں منی آرڈر سے کچھ روپے مجھے بھیجتی تھیں کہ جو مستحق زکات ہوں ان کو دے دیا جائے۔
اﷲ تعالیٰ اپنے اس مخیر اور فیاض بندے کے درجات عالم آخرت میں بلند کرے اور ان کے عزیزوں کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، جون ۲۰۰۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...