Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسرجگن ناتھ آزاد

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسرجگن ناتھ آزاد
ARI Id

1676046599977_54338462

Access

Open/Free Access

Pages

676

پروفیسر جگن ناتھ آزاد
ایک شریف اور باکمال انسان
۲۴؍ اگست ۲۰۰۴؁ء کو ملک کے مایہ ناز شاعر و ادیب، مشہور محقق و نقاد، اقبالیات کے ماہر اور اس کے پایہ شناس جناب جگن ناتھ آزاد اردو دنیا کو سوگوار اور مغموم چھوڑ کر چلے گئے، وہ اردو، اردو ثقافت، ملک کی گنگا جمنی تہذیب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، رواداری، وسیع المشربی اور بھائی چارگی کے علم بردار تھے، ان کی وفات پر کن کن چیزوں کا نوحہ و ماتم کیا جائے۔
جگن ناتھ آزاد صاحب ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۸؁ء کو مغربی پنجاب (پاکستان) کے شہر عیسیٰ خیل میں پیدا ہوئے جو ضلع میان والی کی ایک تحصیل تھا، ان کے والد پنڈت تلوک چند محروم پیشے کے اعتبار سے معلم تھے مگر خاندانی شرافت اور کمال کے ساتھ ایک صاحب ذوق اور بڑے قادر الکلام شاعر تھے، ان کا شمار اردو کے استاد شعرا میں ہوتا تھا، آزاد صاحب کو علم و ادب کا فطری ذوق تھا جس کو ان کے والد کی صحبت و تربیت نے بہت چمکا دیا تھا، ان کی ابتدائی تعلیم عیسیٰ خیل میں ہوئی، میانوالی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، ۱۹۳۵؁ء میں ڈی اے وی کالج راولپنڈی سے انٹرمیڈیٹ کیا اور ۱۹۳۷؁ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کیا، ۱۹۴۴؁ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فارسی میں ایم، اے کیا۔
وہ شروع ہی سے صحافت سے وابستہ رہے جب وہ انٹر کررہے تھے تو کالج میگزین کی ادارت ان کو سپرد کی گئی، اسی زمانے سے مضامین بھی لکھنے لگے تھے، نظم گوئی کی ابتدا اس سے بھی پہلے ہوچکی تھی، ان کا پہلا مقالہ ’’اقبال کی منظر نگاری‘‘ کے عنوان سے میاں بشیر احمد کے مشہور ادبی ماہنامہ ’’ہمایوں‘‘ لاہور میں چھپا، ۱۹۴۱؁ء میں ماہنامہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور کی مجلس ادارت میں شامل ہوئے، ۱۹۴۶؁ء میں اردو روزنامہ ’’جے ہند‘‘ کے اسسٹنٹ اڈیٹر مقرر ہوئے۔
۱۹۴۷؁ء میں ملک کی تقسیم ہوئی تو وہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ دہلی میں متوطن ہوگئے، پہلے روزنانہ ملاپ کے اسسٹنٹ اڈیٹر ہوئے پھر پبلی کیشن ڈویژن گورنمنٹ آف انڈیا میں اسسٹنٹ اڈیٹر ہوئے، ۱۹۶۶؁ء منسٹری آف ورکس اینڈ ہاؤسنگ میں انفارمیشن آفیسر مقرر ہوئے، جنوری ۱۹۶۸؁ء میں پریس انفارمیشن بیورو میں ڈپٹی انفارمیشن آفیسر ہوگئے اور ۱۹۷۳؁ء میں انفارمیشن بیورو میں ڈائرکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے، ۱۹۷۷؁ء سے ۱۹۸۰؁ء تک جموں یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پروفیسر اور صدر شعبہ رہے اور ۱۹۸۲؁ء میں پروفیسر ایمرٹیس ہوئے۔
جن ہندو اہل قلم سے میرے تعلقات اور خط و کتابت رہی ان میں جناب جگن ناتھ آزاد کا نام سرفہرست ہے، اب ان کی وفات کے بعد گزشتہ پچاس برس کے واقعات ذہن میں تازہ ہوگئے، بچپن ہی سے ہر قسم کے جلسوں اور مشاعروں میں شریک ہونے میں مجھے بڑا لطف ملتا تھا، اس کا فائدہ چاہے کچھ نہ ہوا ہو مگر اسی بہانے بعض بڑے خطیبوں اور شاعروں کو دیکھا اور ان کے خطبے اور کلام سنے اور بہت سے اشعار یاد ہوگئے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ ۱۹۵۰؁ء کی دہائی میں جب اتر پردیش میں اردو کشی کی مہم شباب پر تھی اور پنڈت گووند ولبھ پنت اور ڈاکٹر سمپورنانند کی حکومتوں نے اردو کا گلا گھونٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی تو اس کے باوجود یہاں اردو مشاعرے بہت دھوم سے ہوتے تھے، داخلے کے لیے ٹکٹ اور پاس ہوتے تھے مگر سامعین کی تعداد بہت زیادہ ہوتی تھی، یہ سن کر حیرت ہوگی کہ اردو کے شدید مخالف اور اسے ہندو کی شیلی کہنے والے ڈاکٹر سمپورنانند بھی ان مشاعروں میں اپنی غزلیں سناتے تھے اور آنند تخلص کرتے تھے، اسی زمانے کے اپنے گردونواح کے کسی مشاعرے میں شریک ہوا تو جگر مراد آبادی، روش صدیقی، انور صابری وغیرہ کے ساتھ پہلی بارجگن ناتھ آزاد کو بھی دیکھا جن کے پڑھنے کا دلکش انداز اور پرسوز آواز کی لذت اب تک محسوس ہورہی ہے، وہ اپنا کلام سنا کر بیٹھنا ہی چاہتے تھے کہ ہر طرف سے لوگوں نے کہنا شروع کیا، اپنی وہ نظم سنایئے جو آپ نے پاکستان میں پڑھی تھی۔
میں اپنے گھر میں آیا ہوں مگر انداز تو دیکھو
میں اپنے آپ کو مانند مہماں لے کے آیا ہوں
مجھے اخبار ورسائل کی ورق گردانی کا شوق بھی بچپن ہی سے تھا، جو اخبار اور رسالہ مل جاتا اسے چاہے سمجھوں یا نہ سمجھوں پڑھنے لگتا تھا اور اگر اس میں کہیں جگن ناتھ آزاد کی غزل اور نظم ہوتی تو اسے زیادہ شوق اور دلچسپی سے پڑھتا جب کچھ کچھ سخن فہمی کی استعداد پیدا ہوئی تو غالباً ۱۹۵۱؁ء کے آخر میں روزانہ الجمعیتہ کے ہفتہ وار اڈیشن میں جگن تاتھ آزاد کی مشہور نظم ’’بھارت کے مسلماں‘‘ پڑھی جس نے قلب کو گرمایا بھی اور روح کو تڑپایا بھی، یہ نظم بہت مقبول ہوئی اور ہند و پاک کے اکثر اخباروں اور رسالوں میں شایع ہوئی اور دونوں جگہوں کے مسلم شعرا نے جگن ناتھ کے احسان و ممونیت کا اعتراف و تشکر بھی کیا، ملک کی تقسیم کے زخم خوردہ ایک ہندو کی اسلام اور اسلامی تاریخ و تہذیب سے یہ واقفیت دیکھ کر اور اس کے مخلصانہ پند و موعظت اور اسلامی و ایمانی جذبات سے مملواشعار سن کر میری طرح ہر شخص محو حیرت تھا، یحییٰ اعظمی نے کہا:
سننا تھا جسے حامل قرآں کی زباں سے
وہ درس ملا اس کو ترے سوز فغاں سے
تاریخ و سنہ یاد نہیں غالباً ۱۹۶۰؁ء کے آس پاس کی بات ہوگی، ایک روز میں معمولاً جناب شاہ معین الدین احمد ندوی کے برآمدے میں ان کے ساتھ عصر بعد چائے پی رہا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کے ایک ممبر اور اعظم گڑھ کے وکیل مسٹر رام دھن کے ساتھ جو بعد میں کانگریس کے ٹکٹ پر کئی بار پارلیمنٹ کے ممبر ہوئے جناب جگن ناتھ آزاد شاہ صاحب سے ملنے آگئے، شاہ صاحب نے ان کا بڑا پرتپاک استقبال کیا اور چائے سے تواضع کی، کچھ دیر تک ادہر ادہر کی باتیں ہوئیں پھر آزاد صاحب نے شاہ صاحب سے کہا میں جناب یحییٰ اعظمی سے ملنے کا خواہش مند ہوں، چنانچہ میں انہیں لے کر یحییٰ صاحب کے گھر گیا، مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اس طرح کچھ دیر ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔
۱۹۶۵؁ء میں دارالمصنفین کی گولڈن جبلی میں ملک کے دیگر اکابر کی طرح وہ بھی تشریف لائے تو پھر تجدید ملاقات ہوئی، اسی موقع پر انہوں نے مشہور فاضل مالک رام صاحب سے بھی ملایا، دونوں فضلا سے مل کر جو خوشی ہوئی اسے یاد کر کے اب بھی جھوم اٹھتا ہوں۔
دسمبر ۱۹۷۴؁ء میں شاہ صاحب کا انتقال ہوا تو وہ تعزیت کے لیے دارالمصنفین تشریف لائے، اسی زمانے میں بھوپال سے مولانا محمد عمران خاں صاحب بھی تعزیت کے لیے دارالمصنفین تشریف لائے تھے، کھانے، ناشتے اور دوسری مجلسوں میں سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب سے ان حضرات کی جو گفتگو ہوتی اس میں بھی شریک رہتا اور لطف اندوز ہوتا، اس کے بعد سید صباح الدین صاحب اپنی ذاتی اور دارالمصنفین کی ضرورتوں سے پاکستان تشریف لے گئے اور کئی مہینے ان کو وہیں کام کرنا پڑا، اسی اثنا میں آزاد صاحب کا مضمون ’’علامہ اقبال اور مغربی مفکرین‘‘ معارف میں اشاعت کے لئے آیا، اس کی رسید دیتے ہوئے میں نے ان کو لکھا کہ ابھی موصوف پاکستان ہی میں ہیں، آزاد صاحب نے جواب میں لکھا وہ سعی لا حاصل میں لگے ہوئے ہیں، اس کے بعد سے ان سے گاہے ماہے خط کتابت رہتی اور وہ صباح الدین صاحب کو بھی خط لکھتے تو مجھے سلام لکھتے۔
ایک دفعہ لکھنو میں مقبول احمد لاری صاحب کے یہاں ملاقات ہوئی تو دارالمصنفین اور مختلف علمی و ادبی مسائل پر دیر تک باتیں ہوتی رہیں، اقبال کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کا ذکر آیا تو کہنے لگے ہندوستان کی مسجدوں میں دو مینار ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے نظم کا یہ مصرعہ ع ’’اس کا منارۂ بلند عرش گہہ جبریل‘‘ میرے لیے باعث خلجان تھا کہ واحد ’’منارہ‘‘ کا استعمال ضرورت شعری یا کس بنا پر کیا ہے، میں اسپین گیا تو اسی خلجان کو دور کرنے کے لیے مسجد دیکھنے گیا، جس کا ایک ہی منارہ تھا۔
دہلی میں بھی بعض سمیناروں میں ملتے تو بڑی محبت اور خلوص سے پیش آتے، مولانا آزاد یونیورسٹی نے مولانا کے یوم پیدایش پر ایک پروگرام دہلی میں کیا تھا جس میں ترجمان القرآن کے حوالے سے میں نے اپنے مضمون میں مولانا آزاد کی مذہبی رواداری دکھائی تھی جس کی داد انہوں نے اور خواجہ حسن نظامی ثانی نے خاص طور پر دی تھی۔
ان سے تعلقات فزوں ہوئے تو ان کی جو کتاب چھپتی یا کوئی اور ان پر کتاب شایع کرتا تو معارف میں تبصرے کے علاوہ اس کا ایک نسخہ میرے لیے بھی بھیجتے، ایک بار حاجی ادریس دہلوی ان پر کوئی کتاب مرتب کررہے تھے تو انہوں نے اس کے لیے مجھ سے بھی مضمون کی فرمائش کی پھر آزاد صاحب کا بھی خط آیا کہ حاجی صاحب کی فرمائش پوری کروں، اب میرے لیے فرار مشکل ہوگیا اور میں نے ’’جگن ناتھ آزاد کا رنگ حرم‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا، جسے آزاد صاحب نے بہت پسند کیا، اس طرح ان سے اخلاص ومودت کا رشتہ بڑھتا رہا جو اب ان کی وفات کے بعد منقطع ہوگیا ہے تو میرے لیے ان جیسے پُرخلوص کی جدائی کا صدمہ ناقابل برداشت ہورہا ہے۔
جگن ناتھ آزاد نے اردو دنیا میں پہلے ایک شاعر کی حیثیت سے اپنا سکہ جمایا، انہوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے، غزل اور نظم دونوں پر یکساں قدرت تھی، ربا عیات ، قطعات اور بچوں کے لیے بھی نظمیں کہی ہیں، نظموں کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے، قومی نظمیں اور مرثیے بھی کہے ہیں جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد انداز کے ہیں، ان کی ایک طویل نظم جمہورنامہ اس میں ابتدائے آفرینش سے اس وقت تک دنیا کی سرگزشت بیان کی گئی ہے، اس کا ایک حصہ رسول اکرمﷺ کی ولادت باسعادت اور بعثت وغیرہ سے متعلق ہے، بڑا موثر اور دل کش ہے، یہ جب معارف میں چھپا تو اسلامی علوم کے فاضل یگانہ ڈاکٹر محمد حمید اﷲ کو بہت پسند آیا اور انہوں نے اس کا فرانسیسی ترجمہ شایع کیا، آزاد صاحب کامیاب غزل گو بھی ہیں مگر نظم نگار کی حیثیت سے ان کا پایہ زیادہ بلند ہے۔
جگن ناتھ آزاد اردو کے اچھے مصنف، دیدہ ور نقاد اور بلند پایہ محقق تھے، ان کی متعدد نثری تصانیف نے بھی ان کی عظمت میں چار چاند لگائے ہیں جو سوانح، خود نوشت حالات شخصی خاکوں، تنقید اور سفرناموں پر مشتمل ہیں مگر ان کا خاص موضوع اقبالیات ہے جس سے ان کو شروع ہی سے بڑا شغف تھا، اس موضوع پر انہوں نے مضامین اور تصنیفات کے انبار لگا کر اپنے کو اقبال کا سب سے بڑا عارف و مبصر ثابت کردیا اور ان کے افکار و خیالات کی ترجمانی و اشاعت کا حق ادا کرکے ہندوستان میں ان کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہی نہیں کیا بلکہ ان کی عظمت کا لوہا بھی منوایا، اقبالیات سے متعلق ان کی متعدد نثری تصانیف ہیں جن میں اقبال اور مغربی مفکرین معر کے کی کتاب ہے، اقبال پر انگریزی میں بھی دو کتابیں لکھی ہیں ان کی ہر دور کے علاوہ ان کے اہل خاندان کی تصویروں کا ایک البم ’’مرقع اقبال‘‘ کے نام سے شایع کیا تھا۔
جگن ناتھ آزاد کی تصانیف نظم و نثر کی تعداد قریباً ۶۰ ہے، حیرت ہوتی ہے کہ سرکاری اور دفتری کاموں میں مشغولیت اور فرایض منصبی ادا کرنے کے باوجود انہوں نے اتنے سارے علمی کام کس طرح انجام دیے، وہ اردو کے واحد ایسے خوش قسمت ادیب و شاعر ہیں جن کی شخصیت اور فن پر ان کی زندگی ہی میں درجنوں کتابیں اور بعض رسالوں کے خاص نمبر شایع ہوئے جن میں متعدد پی۔ ایچ۔ ڈی کے مقالے بھی ہیں، ان کی متعدد کتابوں کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے، ان کو بین الاقوامی شہرت نصیب ہوئی، وہ بیرون ملک کے مشاعروں، سمیناروں اور کانفرنسوں میں برابر جایا کرتے تھے، اردو کے شاید ہی کسی اہل قلم اور مصنف کی ایسی پذیرائی ہوئی ہو اور اسے اتنا حسن قبول ملا ہو، ان سے زیادہ اعزاز اور ایوارڈ بھی کسی اور کے حصے میں نہیں آیا ہوگا۔
غرض جگن ناتھ آزاد کے تصنیفی و تحقیقی کارناموں اور شعری و ادبی فتوحات کے حدود بہت وسیع تھے لیکن اس سے بڑھ کر ان کے اخلاق و کردار کی جہاں گیری تھی، وہ ایک نیک طینت اور شریف النفس انسان تھے اور ان کا دل اخلاق و سیرت کی عظمت و بلندی کی جلوہ گاہ تھا، ان کے دل کی دردمندی اور سیرت کی پختگی نے ہر شخص کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا، ان کے تعلقات کا دایرہ بہت وسیع تھا، جس میں علم و ادب کے ہر طبقے و درجے کے لوگ شامل تھے مگر ان کی مروت و شرافت اور دل نوازی نے سب کی تسخیر کرلی تھی، ۱۹۴۷؁ء کے انقلاب کے ستائے اور مغربی پنجاب کے ایک بے خانماں ہندو ہونے کے باوجود ان کا آئینۂ قلب تعصب، تنگ نظری اور فرقہ وارانہ نفرت کی گردو غبار سے صاف تھا، وہ زندگی بھر انسانی اخوت و محبت کی تلقین اور حق و انصاف کی آواز بلند کرتے رہے، احترام آدمیت، انسان دوستی، روشن خیالی، وسیع النظری، رواداری اور بے تعصبی کی روایتیں ان کو اپنے والد اور خانوادے سے وراثتاً ملی تھیں، ان کو برابر آگے بڑھاتے رہے، وہ ہمارے ملک کی مشترکہ تہذیب اور گنگا جمنی کلچر کے مجسم نمونہ تھے، آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو اور مسلمان خاص طور پر مظالم اور زیادیتوں کا نشانہ بنائے گئے، جگن ناتھ دونوں کو ان کا جائز حق دلانے کے لیے سرگرم رہے، اردو تحریک کے وہ ہمیشہ فعال رکن رہے اور آخر میں انجمن ترقی اردو ہند کے صدر بھی ہوئے، فرقہ دارانہ فسادات ہوں یا بابری مسجد کا انہدام سب نے ان کو رلایا اور تڑپایا، فرقہ واریت کے استیصال، ظلمت کدہ ہند کو بقعہ نور اور پرفتن دور کو پرامن بنانے کے ہمیشہ آرزو مند رہے، جامع مسجد دہلی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں ؂
ممکن ہو تو اس دور کے انداز بدل دے
انساں کا ذرا ذوق تگ و تاز بدل دے
مگر یہ حسرت لے کر وہ دنیا سے چلے گئے تاہم ان کی شاعری جن شریفانہ اور اسلامی جذبات پر مشتمل ہے وہ اس کا ثبوت ہے کہ تعصب اور تنگ نظری کے اس دور میں بھی انسانیت کا چراغ روشن ہے۔
انقلاب کی آندھی انہیں پاکستان سے ہندوستان اڑالائی تھی مگر ان کا دل برابر پاکستان میں اٹکا رہتا تھا اور اس میں کبھی اس کی بدخواہی کا خیال نہیں آنے دیا، تا عمر وہاں کے اپنے استادوں، بزرگوں اور دوستوں کو اپنی محبت و عقیدت کے نذرانے پیش کرتے رہے، پاکستان کے شہروں، دریاؤں اور دوسرے مناظر کا ذکر ہمیشہ درد و حسرت سے کرتے تھے، وہ ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں مقبول رہے، وہاں کی تقریبات میں بڑے اصرار سے بلائے جاتے تھے، علامہ اقبال پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کی صدارت کر کے ہندوستان کو بھی عزت و افتخار بخشا، جناب اسد ملتانی نے ان کی مشہور نظم ’’بھارت کے مسلماں‘‘ پر ان کے احسان کا اعتراف کرتے ہوئے بالکل صحیح کہا ہے:
جس دور میں نازاں ہوں تعصب پہ زن و مرد
جس دور میں ہر راہ سے نفرت کی اٹھے گرد
جس دور میں دل مہر و محبت سے ہوئے سرد
اس دور میں موجود ہوں تجھ ایسے بھی ہم درد
ہوں دیر میں یہ رنگِ حرم دیکھ کے حیراں ہمدرد مسلماں
(ضیاء الدین اصلاحی، ستمبر ۲۰۰۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...