Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر مقبول احمد

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر مقبول احمد
ARI Id

1676046599977_54338463

Access

Open/Free Access

Pages

679

آہ! جناب ڈاکٹر مقبول احمد مرحوم
دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے رکن اور کلکتہ کے مشہور سرجن پروفیسر ڈاکٹر مقبول احمد قریب دو ڈھائی سال سے کناڈا میں مقیم تھے، وہاں ان کی صحت بگڑتی گئی اور آخر ۱۰؍ اکتوبر کو فون سے ان کی وفات کی اندوناک خبر ملی، اناﷲ وانا الیہ راجعون، اس طرح ایک ایسی ہستی کی کتاب زیست کا ورق تمام ہوا جس کا ہر باب وصفحہ ایک خالص عبد مومن کی تصویر اور جس کا ہر نقش تابندہ اور رشک و تقلید کے لایق ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی پیدایش ۱۹۲۴؁ء میں بنارس میں ہوئی جہاں ان کے زمین دار جدامجد، اعظم گڑھ کے گاؤں راجہ پور سکرور سے منتقل ہوگئے تھے لیکن تعلیم، ملازمت، مستقل بودو باش اور میدان عمل کے لحاظ سے ڈاکٹر صاحب کا وطن کلکتہ ہی ہے، اس شہر مہاجراں کو مختلف علاقوں کی جن مذہبی، علمی اور ادبی شخصیتوں نے اپنے وجود کی برکتوں سے مثل قرطبہ و غرناطہ بنایا، ان کی فہرست میں ڈاکٹر صاحب کا نام مختلف حیثیتوں سے ہمیشہ نمایاں رہے گا۔
کلکتہ میڈیکل کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد وہ انگلینڈ اور فرانس گئے، ایف آرسی ایس کیا، وطن واپس آئے تو اسی کالج میں معلم ہوئے جہاں پہلے متعلم تھے، بچپن سے تعلیم تک کی تکمیل کی یہ کہانی انہوں نے دل چسپ تفصیل سے اپنی کتاب ’’صدائے جرس‘‘ میں بیان کردی ہے، سرجری کے فن میں ان کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی اور علم الجراحت میں ان کی چند نئی تحقیقات یورپ کے رسایل میں شایع ہوئیں تو بین الاقوامی سطح پر ان کا اعتراف کیا گیا، کلکتہ میں ان کے دست شفا اور مسیحائی کی دھوم تھی لیکن یہ ان کی زندگانی مقبول کا صرف ایک باب ہے، اس فن کو انہوں نے مال و منفعت کے حصول تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس کو ملک و ملت کی خدمت کا ایک بہترین وسیلہ بنایا، انہوں نے مرض اور مریض کو قریب سے دیکھنے، اصل سبب جاننے اور درد میں شریک ہونے کو اپنا شعار بنایا، ان کی یہی عادت ان کی زندگی کی فطرت ثانیہ بن گئی۔ جس کا ظہور ملک و قوم کی اصلاح کی شکل میں ہوا، خصوصاً مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی زبوں حالی بلکہ بربادی پر انہوں نے ایک حاذق، مخلص اور درد مند معالج کی حیثیت سے نظر کی اور ہر اس کام میں پیش پیش رہے جس سے قوم کا مزاج و قوام درست ہو، اس راہ میں انہوں نے اپنے وقت اور مال کی جس فیاضی و فراخی سے قربانی دی اس کی مثال شائد ہی ملتی ہے۔
۶۴؁ء میں مسلم مجلس مشاورت قائم ہوئی تو پیہم فسادات اور مایوسی و محرومی کی ماری مسلم قوم کو کچھ امید و راحت کا احساس ہوا، ڈاکٹر صاحب کے مزاج و طریقہ کار کے لیے یہ مجلس موزوں تھی چنانچہ انہوں نے مجلس سے رشتہ استوار کیا اور آخر تک بڑی وضع سے اسے نباہا، مفتی عتیق الرحمن عثمانی سے سید شہاب الدین تک مجلس مشاورت پر کیسے کیسے زمانے گزرے، مرکز میں یہ محض نام کے لیے رہ گئی لیکن ڈاکٹر صاحب کی قیادت میں مغربی بنگال میں یہ ہمیشہ سرگرم عمل اور نیک نام رہی اور صرف مجلس مشاورت ہی کیا ان کے درد کی سوغات تو ہر اس ادارے کے لیے تھی جو ان کی ملت کے لیے کسی شکل اور کسی درجے میں متحرک ہو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کورٹ کے وہ گویا مستقل ممبر تھے، وہاں کی ڈیوٹی سوسائٹی اور مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے احیا میں ان کے انفاس گرم کی تاثیر بھی شامل تھی، مغربی بنگال کے چوبیس پرگنہ ضلع میں سوسائٹی فاراسلامک ایجوکیشن کے وہ روح رواں رہے، اس سوسائٹی کے تحت ایک رہایشی اسکول کا وہ بڑے فخر سے ذکر کرتے کہ اس کی مثالی تعلیم سے شاید ان کی تمنا پوری ہو کہ سائنس، ٹکنالوجی اور آئی اے ایس جیسے مقابلوں میں مغربی بنگال کے مسلمان بچے بھی آگے آئیں، خود کلکتہ میں خدا جانے کتنے ایسے چھوٹے بڑے ادارے ہیں جن کی وہ بڑی خاموشی سے دست گری بلکہ سرپرستی کرتے تھے، کلکتہ میں امام حرم کا استقبال ہو، افغانستان پر روسی حملے کے خلاف احتجاج ہو، شاہ بانو کیس کے معاملے میں بے مثال اجتماع ہو، ڈاکٹر صاحب ہر محاذ پر عملاً موجود رہتے اور قلم کے ذریعہ تو وہ برابر مسلمانوں کے مسائل خصوصاًتعلیم اور معاش کے متعلق بڑی درد مندی سے اظہار خیال کرتے رہتے، خاص طور پر روزنامہ آزاد ہند میں ان کے یہ مضامین ہر صاحب درد کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے، ان کے ان مضامین کا مجموعہ جب کتابی شکل میں شایع ہوا تو اپنے نام کی طرح مقبول ہوا اور ارباب نظر نے بھی اس کی یہ کہہ کر داد دی کہ ’’فکر و فن میں بہ یک کمال ایک عطیہ ربانی ہے جو مبدء فیاض کی طرف سے اس شخص کو عطا ہوتا ہے جو دل درد مند، نگاہ بے داغ اور فکر بلند رکھتا ہو‘‘، اس کا انگریزی ترجمہ MAQBOOL'S DISSERTATIONS کے نام سے جناب رضوان اﷲ نے کیا اور یہ کلکتہ سے شایع ہوا، اس سلسلہ مضامین کا دوسرا حصہ بھی انہوں نے تیار کرلیا تھا، نقوش راہ کے نام سے اس کی کتابت بھی ہوچکی ہے، افسوس اس کی اشاعت کی خوشی ان کو اس زندگی میں نہیں ملی لیکن صدقۂ جاریہ کی شکل میں اس کا اجر بہرحال یقینی ہے، حیرت ہوتی ہے کہ علاج و معالجہ کی مصروف ترین زندگی میں وہ کس طرح لکھنے پڑھنے کے لیے وقت نکال لیتے تھے، اقبال کی شکوہ جواب شکوہ ان کی محبوب نظم تھی، یورپ و امریکہ کے سفروں میں ان کو شدت سے احساس ہوا کہ ان ملکوں میں آباد برصغیر کے باشندوں کی آیندہ نسل اردو سے ترک تعلق کے بعد قومی احساسات کو بھی خیرباد نہ کہہ دے، اس کے لیے انہوں نے اس نظم کے ترجموں میں جناب الطاف حسین سابق اڈیٹر ’’ڈان‘‘ کے ترجمے کو پسند کیا جو کبھی شایع ہو کر اب گویا نایاب تھا، ان کی صاحبزادی سے اخلاقاً اس کی طباعت نو کی اجازت لی اور اردو اور رومن رسم الخط میں اس کو بڑے اہتمام سے شایع کرایا، علامہ اقبال سہیل ان کے سسرالی عزیز اور پسندیدہ شاعر تھے، ان کے اشعار اکثر وہ دہراتے رہتے کہ،
مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے سناؤں کس کو
تپش شوق کا نظارہ دکھاؤں کس کو
ان کی ایک کتاب مسئلہ سود پر بہت پہلے ۳۵، ۳۰ کے آس پاس شایع ہوئی، اس کا ایک بوسیدہ نسخہ ان کو ملا تو مباحث و مشمولات کی وجہ سے ان کو موجودہ حالات میں اس کی اہمیت کا حساس ہوا، مسئلہ سود پر عام رائے کے برخلاف اس میں چند مجہتدانہ خیالات تھے، اس لیے ڈاکٹر صاحب نے سب سے پہلے اس کو مولانا ضیاء الدین اصلاحی صاحب مدیر معارف کے سپرد کیا اور علما سے رابطہ قائم کیا اور جب انشراح ہوا تب انہوں نے اس کی طباعت و اشاعت میں پہل کی، دہلی سے یہ کتاب ’’ربوا کیا ہے‘‘ کے نام سے بڑے سلیقے سے شایع ہوئی اور بعد میں اس کا انگریزی و عربی ترجمہ بھی شایع ہوا لیکن ان کی سب سے مفید و سبق آموز دلکش اور موثر کتاب ان کی خود نوشت سوانح حیات ’’صدائے جرس‘‘ ہے جس کے متعلق کہا گیا کہ ’’یہ اس سرگرم، مشغول، پاکیزہ اور قابل ستایش زندگی کی کہانی ہے جو اپنے اندر عبرتوں اور بصیرتوں کا لازوال خزانہ رکھتی ہے‘‘۔
دارالمصنفین سے ان کا تعلق غیر معمولی تھا، وہ اس کی ترقی و بہتری کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے، اس کی مجلس انتظامیہ کے وہ رکن تھے، ادھر علالت کی وجہ سے اس کی سالانہ نشستوں میں وہ شریک نہیں ہوپائے تو ان کو بڑا ملال رہا، ایک بار تو یہ کہہ کر استعفا بھیج دیا کہ علالت کی وجہ سے جب کچھ کر نہیں سکتا تو رکنیت کا حق کیسے ادا ہو، کناڈا میں جب بھی ان کی طبیعت ذرا بہتر ہوتی تو وہ فون کے ذریعہ یہاں کے ہر شخص اور کام کے بارے میں پوچھتے، جب ان کو معلوم ہوا کہ ایک لائبریری ہال کی تعمیر ہورہی ہے تو خوش ہوکر اس کی تکمیل کی دعا کی، دارالمصنفین کی کسی ناگزیر ضرورت کے بارے میں ان کو خبر ملتی تو جلد سے جلد اس کو پورا کرنے کے لیے بے قرار ہوجاتے، اپنی تمام کتابوں کی طباعت و آمدنی کا حق بھی انہوں نے دارالمصنفین کو دے دیا، ان کی مثالی شخصیت علامہ جمال الدین افغانی کی تھی، ان کی خواہش تھی کہ علامہ افغانی پر ایک عمدہ اور دارالمصنفین کے معیار کے مطابق کتاب شایع ہو، اس کے لیے بھی انہوں نے مالی معاونت فرمائی، دارالمصنفین کی مالی مشکلات کے بارے میں وہ بے چین رہتے، کناڈا جاتے وقت بھی ان کی زبان پر یہی جملہ تھا کہ وہاں جاکر کسی مستقل آمدنی کی فکر کروں گا، دارالمصنفین سے اس محبت کے بارے میں کہتے کہ اس مین وطنی نسبت بھی شامل ہے، ایسے محب و مشفق کا سانحہ ارتحال دارالمصنفین کے ہر فرد کے لیے سخت ذاتی المیے سے کم نہیں، آہ ایسی شرافت، معصومیت، سادگی اور انکسار کے مجسمے اب کہاں؟ کلکتہ میں ان کا دولت کدہ ایک عرصے سے کلکتہ کے عماید بلکہ ملک کے مشاہیر کا زیارت خانہ تھا، ڈاکٹر صاحب ان سب کے لیے وقت نکالتے، وقت کی قدر جیسی ان کے یہاں دیکھنے کو ملی، کہیں اور مشکل سے ملتی ہے، معمولات میں وقت کی سختی سے پابندی ان کی کامیاب زندگی کا بڑا سبب ہے اور یہ جوہر ان کو نماز سے حاصل ہوا، نمازوں کی یہ پابندی بڑی قابل رشک ہے، تلاوت قرآن مجید میں بھی شائد ہی کبھی ناغہ ہوا ہو، قرآن مجید سے خاص تعلق تھا، ان کی ذاتی لائبریری اردو، انگریزی ترجموں اور تفسیروں سے پر ثروت تھی، عزت نفس اور خوداری ان کی شخصیت کے نمایاں جوہر تھے، ان کی ان خوبیوں کا عکس ان کی خانگی زندگی پر بھی نظر آتا ہے، ان کی اہلیہ اور بچوں نے ہر جگہ اسلامی تشخص اور ماحول کی نمایندگی کی، ان کے دونوں صاحبزادے محمد طارق و محمد عارف اس وقت امریکا اور کناڈا میں اعلا عہدوں پر فائز ہیں، ان کی دونوں صاحبزادیاں بھی اعلا تعلیم یافتہ ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک مومن کی حیثیت سے زندگی گزاری، عقیدہ کی پختگی اور عمل کے اخلاص والوں کو ان لوگوں میں شمار کیا گیا ہے جن کی دوستی اﷲسے ہوتی ہے اور جن کو خوف و حزن کی انفعالی کیفیتوں سے ہمیشہ نجات ملتی ہے، ڈاکٹر صاحب کی زندگی کو قریب سے دیکھنے والے کہہ سکتے ہیں کہ دنیوی زندگی ان کے لیے بشری والی نعمت تو تھی ہی آخرت میں بھی ان کے لیے خوش خبری ہی ہے، ڈاکٹر صاحب کی تمنا تھی کہ ’’اﷲ میاں ایسی موت دیں کہ کلمہ طیبہ زبان اور دل دونوں پر ہو‘‘ ان کی دعا تھی کہ ’’اے اﷲ موت کے وقت یہ دل آپ کی محبت میں بے قرار اور تڑپتا ہوا ہو، وہی تڑپ، پرسرور تڑپ جو قطرے کو سمندر سے ملنے کے وقت حاصل ہوتی ہے، اپنے رب کے دیدار کا شوق ایسا غالب آجائے کہ ایک عالم مدہوشی ہو اور اسی عالم میں جب روح نکل رہی ہو تو لبوں پر ہلکا سا تبسم آجائے کیوں کہ سنا ہے کہ یہی مرد مومن کی علامت ہے‘‘، فون سے معلوم ہوا کہ وقت آخر یہی عالم تھا، ڈاکٹر صاحب کے ہونٹوں پر بلند آواز سے کلمہ کا زمزمہ جاری تھا، یقین ہے کہ ان کے چہرے پر وہی تبسم رہا ہوگا جس کی تمنا انہوں نے کی تھی، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سائے میں پناہ دے کر اس جنت کے انعام سے نوازے جس کو اس نے اپنے ان بندوں کے لیے بنایا جو صرف اس کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کے مرد مومن ہونے میں کس کو شبہ ہے، اللھم اغفرلہ وارحمہ۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، نومبر ۲۰۰۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...