Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > سیدعلی جواد زیدی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

سیدعلی جواد زیدی
ARI Id

1676046599977_54338465

Access

Open/Free Access

Pages

681

علی جواد زیدی کی رحلت
افسوس ہے کہ ۶؍ سمبر ۲۰۰۴؁ء کو جناب سید علی جواد زیدی لکھنو میں رحلت فرماگئے، ان کی وفات علمی و ادبی دنیا کا سخت حادثہ ہے، ان سے راقم کا ذاتی تعلق تھا اور وہ دارالمصنفین کے بڑے قدرداں اور اس کے نہایت مخلص خیر خواہ تھے، مرحوم تقریباً نوے برس کے ہوگئے تھے، عرصے سے بیمار تھے، کئی بار قلبی دورہ بھی پڑ چکا تھا لیکن اس پیری اور بیماری میں بھی ان کے ولولے اور حوصلے جوانوں کی طرح بلند تھے، کتنے ارمان اور کیسے کیسے علمی و ادبی منصوبے ان کے ذہن میں پرورش پاتے رہتے تھے، جب بھی ملاقات ہوتی تو ان کا ذکر دلچسپی سے کرتے تھے، اب شمع علمی کے ایسے پروانے، تلاش، تحقیق اور جستجو کے دیوانے اور شعر و ادب کے متوالے، فضل و کمال کی تحصیل میں سرگرداں اور تحریر و تقریر میں کامل الفن کہاں ملیں گے جن کو اردو، فارسی، عربی، انگریزی اور ہندی پر عبور اور سنسکرت سے واقفیت ہو اور وہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کا دلکش نمونہ، قوم وطن کی محبت میں سرشار اور اپنی مذہبی و اخلاقی قدروں کے پاسباں ہوں، دراصل وہ سانچا ہی ٹوٹ گیا جس میں علی جواد جیسے ذہین و طباع، صائب الراے، معاملہ فہم، عظمت و شرافت کے حامل، مہر و محبت کے پتلے، حلم و مروت کے پیکر اور وضع داری رکھ رکھاؤ اور انکسار کے مجسمے ڈھلا کرتے تھے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
علی جواد زیدی شاعر، ادیب، محقق، نقاد، خاکہ نگار، صحافی، عالم، دانشور، سیاست داں، مجاہد آزادی، فرض شناس اور ایمان دار افسر اور مختلف علوم و فنون میں دست گاہ رکھتے تھے، فلسفہ، تاریخ، اقتصادیات، سماجیات، لسانیات، ادبیات اور اسلامیات ہر میدان ان کی جولان گاہ تھا اور وہ گوناگوں اوصاف کے حامل، پروقار اور دل آویز شخصیت کے مالک تھے، ان کی سیرت کے جلوے گوناگوں اور رنگا رنگ تھے، وہ پاک دل، پاک باز، خوش طبع، خوش اطوار، نیک طینت، نیک نہاد، متواضع، خلیق و شریف النفس اور درد مند، محب وطن اور انسان دوست تھے، افسوس ہے کہ متانت، شائستگی، دل داری اور دل نوزی کا یہ پیکر ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نمایاں ہوتا ہے
وہ ۵؍ جمادی الاولیٰ۔ ۱۶؍ مارچ ۱۹۱۶؁ء کو اپنے نانہال کرہاں میں پیدا ہوئے تھے جو ان کے دادھیال محمد آباد گہنہ سے چند میل کے فاصلے پر تھا، یہ دونوں بستیاں پہلے اعظم گڑھ میں اور اب ضلع مؤ میں شامل ہیں، احمد آباد سنی اور شیعہ شرفا کی قدیم آبادی ہے، زیدی صاحب کے نانہال اور دادھیال کا تعلق سادات کے زمین دار گھرانے سے تھا، ان کا خاندان شرقی سلاطین کے زمانے میں جون پور میں آباد ہوا، اسے جون پور اور اعظم گڑھ کی سرحد پر واقع بجولی کے نوح میں ۲۲ گاؤں جاگیر میں ملے تھے، زیدی صاحب کے مورثِ اعلا حضرت سید کمال صاحب کشف بزرگ تھے، یہ جون پور میں قضا کے منصب پر فایز تھے مگر دنیا سے طبیعت اچاٹ ہوگئی تو بجولی میں اقامت اختیار کرلی اور عبادت و ریاضت میں اپنی زندگی گزار دی، ان کی وفات کے بعد خاندان کے لوگ بجولی کے قریب اعظم گڑھ کے موضع کیدلی پور میں آباد ہوگئے لیکن زیدی صاحب کے جدا علا سید عبدالعلی صاحب کیدلی سے محمد آباد کہنہ چلے آئے، کچھ عرصے بعد نانہال کے مورث اعلا میر شمس الدین عرف میر شمس محمدآباد چھوڑ کر کرہاں کے جنگل میں سکونت اختیار کر کے رشد و ہدایت میں مصروف ہوئے۔
زیدی صاحب کے خاندان کو شریعت و طریقت میں مرجعیت کے علاوہ علمی اور دنیاوی و جاہت بھی حاصل تھی، شعر و شاعری کا ذوق اور علم و فن سے وابستگی کئی پشتوں سے چلی آرہی تھی، نانہال اور دادھیال دونوں جگہ کے لوگوں کے پاس ذاتی کتب خانے تھے، مذہبی تقریبات، میلاد کے جلسے، مجلسیں، مقاصدے، مسالمے اور مشاعرے برابر ہوتے تھے، جن میں یہ بھی شریک ہوتے، اسی وجہ سے زیدی صاحب کو بچپن ہی سے شعر و سخن کا ذوق، علم و ادب سے شغف اور مطالعے کا چسکا لگ گیا تھا، ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، مولوی سید محمد تقی صاحب سے درسی کتابوں، آمد نامہ، گلزار دبستاں، کریما، گلستاں بوستاں اور دیوان حافظ وغیرہ کا درس لیا اور عربی نحوو صرف میں میزان، منشعب، صرف و نحومیر، پنج گنج، ہدایۃالنحو، کافیہ، صغری، کبری اور دینیات بھی ان ہی سے پڑھیں، ان کے والد تجارت کرتے تھے، اسی لیے ریاضی اور ہندی بھی اسی زمانے میں سیکھ لی تھی۔
باقاعدہ عربی پڑھنے کے لیے جامعہ ناظمیہ لکھنو میں داخلہ لیا لیکن ابھی یہ ۱۳ برس ہی کے تھے کہ والد بزرگوار سید علی امجاد افسر کا انتقال ہوگیا تو ان کے ایک عزیز حاجی سید علی جواد مرحوم انہیں ریاست محمود آباد (سیتاپور) جہاں وہ برسر منصب تھے لے آئے اور ۱۹۳۰؁ء میں کالون اسکول میں داخل کردیا جہاں سے ۱۹۳۵؁ء میں ہائی اسکول پاس کیا، ۱۹۳۷؁ء میں گورنمنٹ جوبلی انٹر کالج لکھنو سے انٹر کیا، پھر لکھنو یونیورسٹی سے ۱۹۳۹؁ء میں بی۔اے اور ۱۹۴۲؁ء میں ایل ایل بی کی ڈگری لی۔
لکھنو آکر پہلے تو وہ طلبہ سیاست میں الجھے پھر ملک کی سیاست میں بھی سرگرم حصہ لیا، ان کی شاعری کا آغاز وطن ہی میں ہوگیا تھا، شیخ ابوالحسن جرم محمد آبادی سے جو آرزو لکھنوی کے شاگرد تھے، زیدی صاحب کو شعری اسقام اور محاسن شعری کا علم ہوا، گیارہ برس کی عمر میں ان کے ماموں سید محمد رساؔ کو ان کے بعض اشعار سن کر بڑی حیرت ہوئی، اس لیے علی میاں کامل محمد آبادی کی غزل کا یہ مصرع طبع آزمائی کے لیے دیا تا کہ ان کا متحان ہوجائے ع شامیانہ بن گیا جب سرپہ چادر تان لی۔
زیدی صاحب نے چار پانچ شعر کہہ کر پیش کیا جن میں یہ شعر پسند کیا گیا:
ہے مرے بازار کی داد و ستد کچھ اور ہی
جان دی اس پر ہمیشہ جس نے اپنی جان لی
۱۲ سال کی عمر میں ایک نعتیہ قصیدہ کہا اور والد اور چچا کی موجودگی میں مقاصدہ میں اسے برسرمنبر پڑھا جس پر ان کو خوب داد ملی مگر چچا نے ناگواری ظاہر کی اور کہا کہ شعر و شاعری کے چکر میں پڑ کر برباد ہوجائیں گے، یہ قصیدہ اس وقت ہفت روزہ المصطفی جون پور میں شایع بھی ہوا۔
محمودآباد آئے تو گھر کی پابندیاں ختم ہوگئی تھیں اور یہاں شعری و ادبی سرگرمیوں کے لیے اور وسیع میدان مل گیا تھا، علمی و ادبی حلقوں سے شناسائی ہونے لگی، یہاں سے لکھنو بھی آنا جانا ہوتا تھا، وہاں کے اہل علم اور کبار شعرا سے ملاقات اور استفادہ کرتے، گورنمنٹ جوبلی انٹر کالج میں داخلہ لیا تو شعر و ادب سے شغف دیکھ کر انہیں کالج کی انجمن ادب اردو کا سکریٹری بنایا گیا، انجمن کے مشاعروں میں انعام حاصل کیا اور مشاعروں کی تاریخی اہمیت پر مضمون لکھا جو نیرنگ خیال لاہور میں چھپا، اس سے بڑا حوصلہ ملا، اب ان کے جراید و رسائل کے اڈیٹروں سے بھی تعلقات ہوگئے، منشی دیانراین نگم کے مشہور رسالہ زمانہ کان پور میں مضامین لکھے جن کا معاوضہ ملا، منشی جی نے انہیں ہونہار دیکھ کر کان پور سے بی اے کرنے اور اپنے اخبار ’’آزاد‘‘ میں معاونت کرنے کی دعوت دی جس کو زیدی صاحب نے منظور کرلیا، یہاں کوئی تکلیف نہیں تھی، بی اے میں داخلہ بھی لے چکے تھے مگر لکھنو جیسا علمی و ادبی ماحول نہیں تھا، اس لیے ان کا جی نہیں لگا اور وہ لکھنو آکر بی اے کرنے لگے۔
اس وقت لکھنو میں ترقی پسند تحریک کا بڑا زور تھا اور لکھنو یونیورسٹی میں خاص طور پر اس کا غلغلہ بلند تھا، ’’نیا ادب‘‘ اس تحریک کا ترجمان تھا، علی جواد زیدی بھی ترقی پسند مصنفین کی انجمن کے رکن ہوگئے، ان کے احباب نے ان کے احتجاج کے باوجود انہیں لکھنو اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر چن لیا، پھر آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سکریٹری اور ۱۹۴۱؁ء کے پٹنہ اجلاس میں آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جنرل سکریٹری منتخب کرلیے گئے، اس وقت دوسری جنگ عظیم چھڑی ہوئی تھی اور نوجوانوں اور طالب علموں کو گرفتار کیا جارہا تھا، جنگ کی ابتدا میں تمام سیاسی پارٹیاں اسے سامراجی جنگ تسلیم کرکے اس کے خلاف آواز بلند کررہی تھیں، ہر طرف جلسے جلوس، نعرے اور پرجوش نظمیں اور تقریریں ہورہی تھیں کہ اب برطانوی سامراج کی ریڑھ کی ہڈی توڑنے اور اس پر آخری وار کرنے کا وقت آگیا ہے، اتفاق سے اسی زمانے میں لکھنو یونیورسٹی کے کسی شعبے کا افتتاح کرنے کے لیے ہندوستان کی فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) کے چیف جسٹس اور دلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر آئے، ان کے خلاف زبردست مظاہرہ ہوا، اس میں اور اس وقت کی ہر سیاسی سرگرمی میں زیدی صاحب، علی سردار جعفری اور جلیل عباسی مرحوم پیش پیش ہوتے تھے، چنانچہ ان لوگوں کے خلاف وارنٹ جاری ہوا مگر طلبہ کے ہیجان اور دلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی بدنامی کے باعث گرفتاری رک گئی مگر کچھ ہی عرصے بعد ان کی قیادت میں طلبہ کی زبردست اسٹرایک اور جلسہ عام ہوا، اس دفعہ پھر ان کے خلاف وارنٹ جاری ہوا مگر طے پایا کہ طلبہ کی سالانہ کانفرنس تک جو ناگ پور میں ہونے والی تھی، یہ گرفتاری دینے سے بچیں چنانچہ اِدھر اُدھر چھپتے پھرے، اسی زمانے میں ان کی شادی ہونے والی تھی مگر اسے ملتوی کرادیا اور ناگپور کانفرنس میں شریک ہوئے اور برطانوی سامراج کے خلاف لہک لہک کر نظمیں پڑھیں، آخر گرفتار کر کے لکھنو لائے گئے، مجسٹریٹ ان کے چچا کا دوست تھا، اس کے اصرار کے باوجود یہ مقدمہ کی پیروی کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے اور عدالت میں بیان دیا کہ وہ برطانوی عدالت کو تسلیم نہیں کرتے، ان کے انکار پر انہیں چھ ماہ کی سزا ہوئی اور لکھنو سے بنارس سنٹرل جیل بھیج دیے گئے جہاں سردار جعفری اور مرحوم جلیل عباسی پہلے سے موجود تھے، جیل جانے سے ان کا یہ تعلیمی سال ضایع گیا اور ۱۹۴۲؁ء میں لا کر سکے۔
جیل سے رہا ہونے کے بعد جرمنی نے روس پر جب حملہ کردیا تو کمیونسٹوں نے جنگ کو سامراجی ماننے سے انکار کردیا اور اسے عوامی کہنا شروع کیا، یہیں سے ان کے اور غیر کمیونسٹ لوگوں کے راستے الگ الگ ہوگئے، اس کی وجہ سے اسٹوڈنٹس فیڈریشن بھی دو حصوں میں بٹ گیا، علی جواد زیدی صاحب سوشلسٹ اور قوم پرور گروہ کے سکریٹری تھے جس کے اکثر ارکان گرفتار ہوچکے تھے مگر انہوں نے گرفتاری سے بچنے کی حکمت عملی اختیار کی اور پورے ملک کا خفیہ دورہ کیا ۱۹۴۵؁ء میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن اسٹوڈنٹس کانگریس کے نام سے موسوم ہوئی، اب زیدی صاحب طالب علم نہیں رہے اس لیے طلبہ سیاست سے علاحدہ ہوگئے، چنانچہ ذریعہ معاش کی تلاش ہوئی سزایافتہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازمت نہیں مل سکتی تھی، اپنے وطن اعظم گڑھ میں اس وقت کے نامور وکیل اور مشہور قومی شاعر اقبال سہیل مرحوم کی رہنمائی میں وکالت شروع کی، کامیابی نہیں ملی تو غازی پور میں پریکٹس شروع کی، یہاں وکالت تو چلی مگر ادبی و سیاسی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے ان کا جی نہیں لگ رہا تھا، اب ملک آزاد ہوچکا تھا، ایک روز غازی پور میں ان کے دوست اور کانگریسی لیڈر کیشو دیومالویہ ملے جو اس وقت پارلیمنٹری سکریٹری تھے، وہ اپنے ساتھ زیدی صاحب کو لکھنو لائے، چند ماہ بعد اترپردیش حکومت نے انہیں اردو جرنلسٹ سکشن کا آفیسر انچارج مقرر کردیااور وہ محکمہ اطلاعات سے منسلک ہوگئے، ان کو صحافت کا اچھا تجربہ پہلے سے تھا، ملک کے اکثر اخباروں اور رسالوں میں ان کے مضامین چھپتے رہتے تھے، لکھنو کے کئی اخباروں میں اور بعض انگریزی اخباروں میں کام بھی کرچکے تھے، ان کے یہی تجربے اس ملازمت کے باعث بنے اور ترقی کر کے پبلی کیشنز آفیسر، اسسٹنٹ ڈایرکٹر اور ڈپٹی ڈایرکٹر کے عہدوں پر فائز ہوئے۔
یہاں ان کی ادارت میں ’’اطلاعات‘‘ نکلا جس میں صرف پریس نوٹ چھپتے تھے، اسے انہوں نے ’’نیا دور‘‘ کا نام دے کر ایک معتبر ادبی رسالہ بنادیا، جنوری ۱۹۵۶؁ء میں وہ گورنمنٹ آف انڈیا کے یونین پبلک سروس کمیشن کے لیے منتخب ہوئے اور ۱۹۵۷؁ء میں ڈیپوٹیشن پر ریاست جموں و کشمیر چلے گئے اور اس وقت کے وزیر اعلا کشمیر بخشی غلام محمد کے پی آر او ہوئے، ان کی کوششوں اور بخشی غلام محمد صاحب کی دلچسپی سے یہاں اکیڈمی آف آرٹس کلچر اینڈ لینگویجز کا قیام عمل میں آیا جس سے انہوں نے ایک اچھا ادبی رسالہ ’’شیرازہ‘‘ نکالا، کشمیر میں قیام کے زمانے میں وہ اس کی اکثر ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں دخیل رہے اور خود بھی گوناگوں مفید اور اہم علمی و تحقیقی کام انجام دیے۔
۱۹۶۲؁ء میں پھر وہ دلی آگئے اور ۱۹۶۷؁ء میں ڈھائی برس کے لیے بمبئی میں ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن آفیسر برائے مہاراشٹرا، گجرات و گوارہے۔ پھر دلی آکر ڈپٹی ڈایرکٹر جنرل نیوز آل انڈیا ریڈیو ہوئے، اسی زمانے میں گجرال کمیٹی کے ممبر جوائنٹ سکریٹری کی حیثیت سے اردو کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے پورے ہندوستان کا دورہ کیا۔
جون ۱۹۷۵؁ء سے جولائی ۱۹۷۸؁ء تک وہ آل انڈیا ریڈیو کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے مغربی ایشیا میں رہے، ان کا ہیڈکواٹر تہران تھا مگر افغانستان، کویت، بحرین، عمان، قطر، شارجہ، دوبئی، ابوظہبی، لبنان، سعودی عربیہ اور یمن بھی جانا ہوا، اس سے پہلے حکومت ہند کے ایک وفد کے ساتھ بھی افغانستان گئے تھے، طالب علمی کے زمانے میں جزایر انڈومان ونکوبار اور جزایرلکشادیپ کا دورہ کیا تھا، ۱۹۷۰ء میں امریکہ، فرانس، انگلستان، کناڈا، جاپان، ہانگ کانگ اور سنگاپور جانے کا اتفاق ہوا تھا۔
۱۹۷۸؁ء میں ریٹایرڈ ہوئے اور ۱۹۸۱؁ء میں اترپردیش اردو اکادمی کے صدر منتخب کیے گئے، ان کے دور میں اکادمی نے ترقی کی اور مختلف نئے کام انجام پائے، دو ماہی ’’اکادمی‘‘ کا اجرا ہوا، اس کے بعد وہ لکھنو ہی میں رہ کر خاموشی اور یک سوئی سے علمی و تحقیقی مشاغل میں مصروف رہے لیکن ۱۹۹۱؁ء میں بمبئی مستقل قیام کے ارادے سے گئے اور زینبیہ انسٹی ٹیوٹ کے دوماہی رسالے ’’العلم‘‘ کے اعزازی مدیر رہے، ۱۹۹۵؁ء میں پھر لکھنو آکر گومتی نگر میں اپنے ذاتی مکان میں مستقل رہایش اختیار کی اور بالآخر لکھنو کی خاک کا پیوند ہوگئے۔
علی جواد زیدی کا اصل کارنامہ ان کی تصنیفات ہیں جن کا سلسلہ طالب علمی ہی کے زمانے میں شروع ہوگیا تھا اور آخر آخر تک جاری رہا، حیرت ہوتی ہے کہ سرکاری ملازمت کے جھمیلوں میں رہتے ہوئے انہوں نے کس طرح یہ بیش بہا سرمایہ تیار کرنے کے لیے وقت نکالا، تصانیف کے علاوہ وہ ملک کے اکثر موقر رسایل و جراید میں برابر علمی و تحقیقی مضامین بھی لکھتے رہتے تھے اور کئی رسالوں کی ادارت بھی کی بلکہ بعض کے بانی مدیر بھی تھے، ان کی تصانیف و مقالات کے موضوعات بھی نہایت متنوع اور گوناگوں ہیں، ان کا شمار ملک کے صف اول کے اردو اہل قلم اور بلند پایہ شعر ا میں ہوتا ہے، انہیں نظم و غزل پر یکساں قدرت تھی، حسب ذیل شعری مجموعے چھپ گئے ہیں:
۱۔ رگ سنگ، ۲۔میری غزلیں، ۳۔دیار سحر، ۴۔انتخاب علی جواد زیدی، ۵۔نسیم دشت آرزو، (۶)تیشۂ آواز، ۷۔سلسلہ
علمی و ادبی تحقیق کے موضوع پر یہ کتابیں شایع ہوئی ہیں:
۸۔ہندوستان میں اسلامی علوم کے مراکز، ۹۔قصیدہ نگاران اترپردیش، ۱۰۔مثنوی نگاری، ۱۱و۱۲۔دہلی مرثیہ گو جلد اول و دوم، ۱۳۔میر انیس، ۱۴۔تاریخ مشاعرہ
مطبوعہ تنقیدی کتابوں کے نام یہ ہیں:
۱۵۔ تعمیری ادب، ۱۶۔تاریخ ادب اردو کی تدوین، ۱۷۔دو ادبی اسکول، ۱۸۔فکر و ریاض، ۱۹۔کمال ابوالکلام
جو کتابیں مرتب و مدون کرکے شایع کی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۲۰۔ پیام آزادی، ۲۱۔نغمہ آزادی، ۲۲۔اردو میں قومی شاعری کے سوسال (۱۸۵۷؁ء سے ۱۹۵۷؁ء تک)، ۲۳۔انوار ابوالکلام، ۲۴۔دیوان غنی کاشمیری، ۲۵۔انیس کے سلام، ۲۶۔انتخاب رند، ۲۷۔سرودہم سایہ، ۲۸۔رباعیات انیس، ۲۹۔مالک رام ایک مطالعہ
خاکہ نگاری میں دو کتابیں چھپی ہیں: ۳۰۔آپ سے ملئے، ۳۱۔ہم قبیلہ
ہندی میں: ۳۲۔نغمہ آزادی اور ۳۳۔غالب ایک پریچے اور انگریزی میں دس کتابیں لکھیں۔
مطبوعہ کے علاوہ متعدد کتابیں ابھی طبع نہیں ہوئی ہیں جن میں بعض غالباً نامکمل ہیں، اردو میں رام کتھا اور یادوں کی رہ گزر کو مکمل کرچکے تھے، اردو اور انگریزی میں جو مضامین لکھے ہیں وہ کئی جلدوں میں آئیں گے، دو تین برس قبل جناب سبط محمد نقوی نے ان کے مضامین کا ایک مجموعہ شایع کیا تھا، ان کی کتابوں اور مقالات سے علمی و تحقیقی کام کرنے والوں کو ہمیشہ فیض پہنچتا رہے گا۔
زیدی صاحب کی کتابوں کی بڑی پذیرائی بھی ہوئی، ان پر مرکزی اور بعض ریاستی حکومتوں اور اردو اکیڈمیوں اور اداروں نے انہیں ایوارڈ سے نوازا، اترپردیش کے سابق وزیر اعلا ہیم وتی نندن بھوگنا نے ۱۹۷۲؁ء میں ان کو تامراپترا سے نوازا اور حکومت ہند نے پدم شری کا خطاب دیا۔
ان کے قدر دانوں نے ایک بار انہیں ایک یادگار صحیفہ نذر کرنے کے لیے ایک تہنیتی کمیٹی بنائی، جب ان سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے ان قومی نظموں کا انتخاب شایع کرنے کا مشورہ دیا، جنہیں برطانوی حکومت نے ضبط کرلیا تھا، چنانچہ ’’ضبط شدہ نظمیں‘‘ کے نام سے کتاب شایع کی گئی جسے اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنے ہاتھوں سے زیدی صاحب کو دیا۔
علی جواد زیدی کا حلقہ تعارف بڑا وسیع تھا، ملک کے ہر طبقہ و مسلک اور ہر مذہب و ملت کے لوگوں سے ان کے تعلقات تھے، ان میں اصحاب علم و فضل ہی نہیں تھے بلکہ مشاہیر ارباب سیاست قومی رہنما اور وزرا اور اعلا حکام بھی تھے، ان کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جانے اور چیدہ لوگوں سے ملنے کے مواقع ملے، وہ جہاں جاتے اپنی خوش طبعی، شرافت اور دل نوازی کا نقش چھوڑ جاتے اور سب کو اپنا گرویدہ بنالیتے، ان کے تعلقات کا دایرہ چوٹی کے لوگوں یا بزرگوں اور ہم سروں ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ خوردوں اور کم تر درجے کے لوگوں سے بھی بڑی گرم جوشی سے ملتے، ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے اور ان سے اپنے علمی و تحقیقی کاموں میں مدد لیتے، اعظم گڑھ ان کا وطن اور لکھنو وطن ثانی تھا، دونوں جگہوں کے اکثر قابل ذکر لوگوں سے ان کے تعلقات تھے ’’یادوں کی رہ گزر‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ہی کوئی شاعر و ادیب ہو جس سے افادہ و استفادہ کا تعلق نہ رہا ہو، مولانا سہیل سے وکالت میں تلمذ کا شرف حاصل ہوا تو انہیں برابر یاد رکھا، ان پر مضمون لکھا جو ان کی کتاب ’’آپ سے ملئے‘‘ میں شامل ہے، ’’قومی شاعری کے سو سال‘‘ میں ان کی اور یحییٰ اعظمی مرحوم کی نظمیں شامل کیں۔
دارالمصنفین سے قلبی تعلق تھا، اعظم گڑھ میں قیام کے زمانے میں یہاں برابر آتے، کتب خانے کے علاہ مولانا عبدالسلام ندویؒ سے خاص طور پر استفادہ کرتے، ان کی کتابوں کے حوالے اپنی کتابوں میں دیے ہیں، شبلی ڈے کے موقع پر تقریریں کرتے شاہ معین الدین احمد ندویؒ اور سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم سے بڑے مخلصانہ روابط تھے، اپنے وطن محمد آباد آتے تو یہاں ضرور تشریف لاتے اور عموماً ایک روز و شب دارالمصنفین میں قیام بھی کرتے۔
جناب صباح الدین صاحب بھی لکھنو جاتے تو ان سے ضرور ملاقات کرتے، میرا بھی یہ معمول بن گیا تھا، زیدی صاحب کہتے تھے کہ میں تو جب بھی محمد آباد جاتا تھا تو میرے لیے دارالمصنفین کی حاضری لازمی ہوتی تھی، میں نے عرض کیا کہ میں بھی لکھنو آکر آپ سے نہیں ملتا تو بڑی خلش رہتی ہے، زیدی صاحب کا مطالعہ بہت وسیع اور علم مستحضر تھا، ان کی گفتگو علمی اور پراز معلومات مگر بہت دلچسپ ہوتی، اسے سن کر بہت سی گرہیں کھل جاتیں، وہ مجھ جیسے حقیر کا بڑا اعزاز کرتے اور دوسروں سے اتنا شاندار تعارف کراتے کہ میں شرم سے پانی پانی ہوجاتا، جس زمانے میں وہ اکادمی کے صدر تھے، میں ان سے ملنے بلہرا ہاؤس گیا تو انہیں مطالعہ میں مستغرق پایا، مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے، میں نے کہا میری وجہ سے آپ کا سارا انہماک ختم ہوگیا، اسی اثنا میں ڈاکٹر محمود الٰہی آگئے، وہ اس وقت اکادمی کے چیرمین تھے، زیدی صاحب نے ان سے میرا تعارف کرنا چاہا تو انہوں نے کہا، آپ ان کا تعارف مجھ سے کرائیں گے یا میں آپ سے ان کا تعارف کراؤں گا۔
وہ بہت کھلے اور روشن دماغ شخص تھے، ہمیشہ نیشنلسٹ اور سیکولر رہے لیکن عقیدتاً پکے مسلمان اور صوم و صلاۃ کے پابند تھے۔ البتہ فرسودہ رسوم و ظواہر، تعصب اور کورانہ تقلید کے خلاف تھے، رواداری اور انسان دوستی کی بنا پر ہر مذہب و ملت کا احترام کرتے تھے، فرقہ وارانہ جھگڑوں سے نفرت تھی، اختلاف اور الجھاؤ کی باتوں سے دور رہتے، ہر فرقہ و جماعت کے لوگوں سے تعلق رکھتے، ان کی زبان سے کبھی نفرت اور تعصب کی بات سننے میں نہ آتی، ہندو مسلم اختلافات، شیعہ سنی جھگڑوں اور اردو کے مسائل کو وہ وسیع پس منظر میں دیکھتے تھے، جذباتی اور سطحی باتیں کرنے کے بجائے ان کا رویہ حقیقت پسندانہ ہوتا تھا۔
اپنی رواداری اور بے تعصبی کی بنا پر اردو رام کتھاؤں پر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا، دو تین برس پہلے ایک روز فون کیاکہ رام لعل نابھوی کے اردو فارسی راماینوں پر جو مضامین معارف میں شائع ہوئے تھے، اس کے کچھ شمارے میرے پاس محفوظ نہیں، انہیں جلد بھیج دو، میں نے کہا میں نیا دور میں ’’یادوں کی رہ گزر‘‘ بہت شوق اور دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں مگر یہ تو بتایئے کہ کیا لکھنو ہی کی یادوں کا ذکر ہوگا یا اس کے باہر کی بھی یادیں قلم بند ہوں گی، کہنے لگے ہاں ایک صاحب نے اور شکایت کی کہ ع کہی حکایت ہستی تو درمیاں سے کہی۔ اسے ابتدا تا انتہا پہنچانے کا ارادہ ہے۔
میں ان سے بے تکلف ہوگیا تھا، صباح الدین صاحب کے انتقال سے پہلے یا بعد میں ایک دفعہ وہ دارالمصنفین آئے، کھانے پر وہی اور میں تھا، میں نے کہا اعتراضاً نہیں بلکہ اپنی واقفیت کے لیے دریافت کررہا ہوں کہ کیا اہل تشیع کے یہاں قرآن مجید چالیس پاروں میں تھا، انہوں نے فرمایا کہ مجھے تو یہ معلوم ہے کہ مابین الدفتین جو ہے وہی قرآن مجید ہے، میں نے کہا مولانا حمید الدین فراہیؒ نے سورۂ قیامہ کی تفسیر میں جمع قرآن پر بحث کرتے ہوئے محققین علمائے شیعہ کا یہی خیال بتایا ہے، پاروں اور رکوع کی تقسیم تو عجمیوں نے کی ہے، قرآن مجید تو اصلاً سورتوں اور آیتوں میں منقسم ہے، اگر اس کا کچھ حصہ ضایع ہوجاتا تو یہ اﷲ تعالیٰ کی حفاظت قرآنی کے وعدے کے خلاف ہوتا، میرے سوال کا مقصد یہ تھا کہ کیا متاخرین علمائے شیعہ میں کسی نے یہ بات لکھی ہے، انہوں نے کہا میرے علم میں نہیں۔
وہ بہت اصول پسند تھے، ان کے اوقات بہت منضبط تھے، وہ دفتری اوقات میں کسی سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے، دفتر میں شعر و ادب پر بھی بحث و گفتگو نہ کرتے اگر کوئی عزیز آجاتا یا شاعر آکر کچھ سنانا چاہتا تو اسے روک دیتے اور معذرت کرلیتے، زیدی صاحب میں بڑی خودداری تھی، خوشامد اور تملق کو پسند نہیں کرتے تھے، ان کے تعلقات وزرا اور اعلا عہدہ داروں سے تھے لیکن ملازمت میں آنے کے بعد وہ ان سے ملنے سے احتراز کرتے تھے، چاہتے تو اپنے لڑکوں اور عزیزوں کو اچھی اور بڑی ملازمتیں دلا سکتے تھے، سروجنی نائیڈو سے ان کی اچھی شناسائی تھی اور وہ ان کی شاعری کو بہت پسند کرتی تھیں، جب یوپی کی گورنر ہوکر آئیں تو اپنی بے نیازی اور بے غرضی کی وجہ سے ان سے ملنے کے روادار نہیں ہوئے، ایک روز گورنر صاحبہ نے خود انہیں چائے پر بلایا تب ہی گئے اور ملاقات کی لیکن اس میں غرور اور گھمنڈ کو دخل نہ تھا، اپنی علمی برتری اور دنیاوی وجاہت کے باوجود ان میں فخر و غرور کا کوئی شایبہ نہ تھا، ان کے جیسی بے نفسی اور فروتنی مجھے بہت کم لوگوں میں نظر آئی، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اعزہ کو صبر جمیل عطا کرے۔ (ضیاء الدین اصلاحی، فروری ۲۰۰۵ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...