Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مشفق خواجہ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مشفق خواجہ
ARI Id

1676046599977_54338466

Access

Open/Free Access

Pages

685

مشفق خواجہ
یہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ کراچی میں ۲۱، ۲۲؍ فروری کی درمیانی شب میں جناب مشفق خواجہ صاحب کا انتقال ہوگیا، وہ اردو کے ممتاز محقق، نقاد، کالم نویس اور مزاح نگار تھے، خواجہ صاحب کو دل کی بیماری تھی، گزشتہ برس اس کا کامیاب آپریشن ہوا تھا، مگر پھر گردے کی تکلیف شروع ہوگئی جو بڑھتی گئی، انتقال سے ۴-۳ روز قبل طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو وہ اسپتال میں داخل کیے گئے جہاں انتقال ہوگیا، خواجہ صاحب کو علم و ادب سے بڑا شغف تھا، انہوں نے اپنی ادبی، تنقیدی اور تحقیقی نگارشات سے اردو ادب میں اہم جگہ بنالی تھی، وہ بہت اچھے مزاح نگار بھی تھے۔ خامہ بگوش کے نام سے اس فن میں اپنا جوہر خوب دکھاتے تھے، مرحوم کو دارالمصنفین سے بڑا لگاؤ تھا، ابھی دو برس پہلے اس کی اکثر کتابیں منگائیں تھیں، معارف بھی برابر ان کے مطالعہ میں رہتا تھا، ہندوپاک میں زرمبادلہ کی دشواری سے اہل علم کو بڑی پریشانی ہوتی ہے، معارف نہ ملنے سے خواجہ صاحب بھی بہت پریشان رہتے، اس کا علم جناب عبدالوہاب خاں سلیم صاحب کو ہوا تو وہ ان کا چندہ بھیجنے لگے اور تاکید کی کہ پیسے کی وجہ سے ان کا معارف نہ بند کیا جائے، اﷲ تعالیٰ خواجہ صاحب کی مغفرت فرمائے۔
(ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۲۰۰۵ء)

کوئی دوسرا مشفق نہیں ہے
(ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)
انسان اپنی خلقت اور سرشت میں گوناگوں آرزؤں، خواہشوں اور تمناؤں کا مرقع ہے اور اس کی پوری زندگی ان ہی تمناؤں اور آرزؤں کی تکمیل و تزئین میں گزر جاتی ہے، خاک کا یہ پتلا بالعموم خواہشات نفس کا اسیر رہتا ہے اور حیات مستعار کی پوری نقدی کھیل تماشوں میں صرف کردیتا ہے، زر و مال کی طلب اور اس کی محبت نفس خواہشیں، نام و نمود اور شہرت کی تمنا، جاہ و منصب کی حرص اور مجموعی طور پر ایک خوش حال اور مال و متاع سے پر، ایک اونچے ’’معیار زندگی‘‘ کے لیے جدوجہد بیشتر انسانوں کو ایک کرب مسلسل میں مبتلا رکھتی ہے، یہی وہ اسلوب حیات (Life Style) ہے جسے قرآن حکیم میں ’’خُسران‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (انَّ الاِنسَانَ لفی خُسر[العصر: ۲])
خوش بخت ہیں وہ معدودے چند لوگ جو خواہشات نفس کے اس طغیان سے بچ بچاکر صحیح سلامت ساحل تک پہنچ جاتے ہیں، جناب مشفق خواجہ جنہیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، ایسے ہی معدودے چند لوگوں میں شامل تھے، (یہیں سمجھ میں آتا ہے کہ ’’کلیجہ منہ کو آنا‘‘ کسے کہتے ہیں اور اس میں کتنا رنج و غم، کتنا ہجر و فراق اور کتنی محرومی پوشیدہ ہے)۔
خواجہ صاحب ایک مہذب، مستغنی اور شایستہ انسان تھے، انہوں نے اس درجہ اپنی تہذیب نفس کرلی تھی کہ وہ ہر طرح سے نام و نمود، جاہ و منصب اور مال و منال کی ہر خواہش سے بے نیاز ہوچکے تھے، علامہ اقبال کا یہ مصرع ان پر صادق آتا ہے:
ایام کا مرکب نہیں ، راکب ہے قلندر
ادب کی دنیا میں اعتراف (recognition) آج کے ادیب اور شاعر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہم سب الاماشاء اﷲ اسی انسانی کمزوری کا شکار ہیں، جو کچھ ہم لکھتے ہیں، اس پر ہمیں داد ملنی چاہئے اگر کتاب چھپے (اور کیوں نہ چھپے بلکہ اگر ہر سال ایک نئی کتاب چھپے تو کیا خوب ہے!) فلیپ پر تعریفی کلمات، ایک تحسینی دیباچہ، چند توصیفی تقریظیں۔ پھر اخبارات و رسائل میں کچھ تبصرے۔ ایک دو شہروں میں بلکہ اگر ہوسکے تو بیرون ملک اردو کی نئی بستیوں میں تقریبات اجرائی و رونمائی، صاحب کتاب کے بارے میں کسی ادبی رسالے کا خاص نمبر یا گوشہ ہی سہی، اگر صاحب کتاب شاعر ہیں تو ان کا بلندپایہ کلام ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر بھی ہونا چاہئے، اب صاحب کتاب کو اس کتاب پر کوئی ادبی ایوارڈ بھی ملے اور ’’صدارتی تمغائے حسن کارکردگی‘‘ کی خواہش تو بالکل فطری ہے، مشفق خواجہ ان سب باتوں سے بے نیاز تھے۔
ہماری بعض جامعات میں زندہ شخصیات ادب پر سندی مقالے لکھوانے کی روایت موجود ہے، خواجہ ہر اعتبار سے اس کا استحقاق رکھتے تھے کہ ان کے علمی و ادبی کارنامے کو موضوع مقالہ بنایا جائے، مگر وہ اسے پسند نہیں کرتے تھے کہ ان پر کچھ لکھا جائے باوجود اس کے کہ علمی و تحقیقی کام کرنے والوں کے وہ قدردان تھے اور کام کرنے والوں کی ممکنہ حد تک اور خوش دلی کے ساتھ مدد کرتے، اپنے معاملے میں وہ کسی طرح کا تعاون کرنے سے صاف انکار کردیتے تھے، میرے علم میں ہے کہ پروفیسر تحسین فراقی صاحب نے اپنے ایک شاگرد حافظ محمد قاسم (متعلم ایم اے اردو، اورینٹل کالج لاہور) کے تحقیقی مقالے کا موضوع تجویز کیا، ’’مشفق خواجہ بہ طور مدون‘‘ جب خواجہ صاحب تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے اسے ناپسند کیا اور فراقی صاحب سے بھی خفا ہوئے، فراقی صاحب نے تو یہ موضوع میرٹ پر تجویز کیا تھا، خواجہ صاحب بہرحال اس کا استحقاق رکھتے تھے، مگر خواجہ صاحب کا خیال تھا کہ لوگ اسے ’’حق دوستی‘‘ پر محمول کریں گے، (یہ معلوم ہے کہ خواجہ صاحب فراقی صاحب کو بہت عزیز رکھتے تھے اور اس مقالے کے نگراں اورنگ زیب عالم گیر صاحب سے بھی خواجہ صاحب کو خاص تعلق خاطر تھا) بایں ہمہ مقالہ نگار نے اپنا کام جاری رکھا۔
ڈاکٹر اورنگ زیب عالم گیر صاحب نے خواجہ صاحب کے برادر بزرگ خواجہ عبدالقیوم اور بعض دیگر عزیزوں سے رابطہ قائم کیا تاکہ مقالے کے باب اول کے لیے خواجہ صاحب کے کچھ سوانحی حالات معلوم کیے جائیں، خواجہ عبدالقیوم صاحب اپنے چھوٹے بھائی کے مزاج سے واقف تھے، اس لیے انہوں نے ازراہ احتیاط معلومات فراہم کرنے سے پہلے مشفق خواجہ صاحب سے بات کی تو انہوں نے منع کردیا، چنانچہ عالم گیر صاحب مقالہ نگار کو خواجہ صاحب کے سوانحی اور شخصی حالات کے ضمن میں کوئی نئی بات یا مزید معلومات نہ مل سکیں، مقالہ بہرحال مکمل ہوگیا، طالب علم کو ڈگری بھی مل گئی، کچھ عرصے کے بعد شعبہ اردو کے مجلہ ’’بازیافت‘‘ (مدیر: تحسین فراقی) میں ’’کلیات یگانہ‘‘ پر مذکورہ طالب علم کا تبصرہ شائع ہوا تو خواجہ صاحب نے پھر تحسین صاحب سے خفگی کا اظہار کیا، فی الحقیقت وہ خلوص دل سے سمجھتے تھے کہ عالم اور شاعر و ادیب کے لیے شہرت اور نام و نمود مہلک ہے، ایک بار راقم الحروف کو خط میں لکھا: ’’ہوس، دولت و شہرت کی ہو، نفس امارہ کی یا کتابوں کی، اس کی کوئی انتہا نہیں، الحمدﷲ میں ہر معاملے میں قناعت پسند ہوں‘‘۔
ڈاکٹر طاہر مسعود کی روایت ہے: ’’وہ مجھ سے کہا کرتے تھے، آدمی اپنے کام سے پہچانا جاتا ہے، لہٰذا اصل اہمیت کام کی ہے، نام میں کیا رکھا ہے، شیطان سے زیادہ مشہور کون ہوگا، آپ کتنی ہی کوشش کرلیجئے شیطان سے زیادہ مشہور تو نہیں ہوسکتے‘‘۔ (قومی زبان، کراچی، مارچ ۲۰۰۵؁ء، ص۲۳)
مشفق خواجہ کی شخصیت کا ایک نہایت لائق تحسین پہلو یہ تھا کہ وہ اپنے نیاز مندوں، اساتذہ اور باصلاحیت طلبہ کو علمی و ادبی، تحقیقی و تنقیدی سرگرمیوں کے لیے آمادہ و تیار کرتے، کام کے موضوعات تجویز کرتے، جو جس لائق ہوتا اسے ویسا ہی کام تجویز کرکے سونپ دیتے، کسی کتاب یا مخطوطے کی تدوین کا فیصلہ ہوتا تو خود فوٹو کاپی بنوادیتے، متعلقہ موضوع پر جس قدر لوازمہ اور مواد ان کی دست رس میں ہوتا، بلاتامل مہیا کرتے اور جو چیز ان کے پاس نہ ہوتی، اس کی نشاندہی کردیتے، راقم اپنی فہم و دانست کے مطابق کسی نہ کسی علمی کام میں مصروف رہتا مگر جب بھی خواجہ صاحب سے ملاقات ہوتی تو وہ میرے لیے تدوین کا کوئی کام تجویز کردیتے، ایک بار انہوں نے مجھے کا (۱) دیوان فوٹو کراکے بھیج دیا کہ اسے مدون کرو، میں نے معذرت کی، یہ کام میرے بس کا نہیں ہے کیوں کہ مجھے عروض میں مہارت حاصل نہیں اور اس کے بغیر شاعری کی تدوین ناقص ہوگی، انہوں نے اس سے اتفاق کیا، اب انہوں نے عبدالرزاق کانپوری کی ’’یاد ایام‘‘ کا عکس بھیج دیا اور ساتھ ہی تدوین اور املا تک کے لیے ہدایات بھی لکھ بھیجیں، اسی طرح خواجہ صاحب نے تحسین فراقی صاحب کے لیے کئی علمی کام تجویز کیے، ان میں سے کچھ پایہ تکمیل کو پہنچے، جیسے ’’عجائبات فرنگ‘‘ کی تدوین یا مقالہ ’’اردو تنقید کے دس سال‘‘ اور کچھ ناتمام رہ گئے جیسے ’’مسیرطالبی‘‘ کا ترجمہ یا ’’عبرت الغافلین‘‘ کی تدوین وغیرہ۔
ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب سے انہوں نے ’’گلشن ہمیشہ بہار‘‘ مرتب کرایا، ڈاکٹر اورنگ زیب عالم گیر صاحب کو وہ خواجہ محمد شفیع دہلوی کی آپ بیتی ریکارڈ کرنے پر اکساتے رہے، انہیں ایک خط میں لکھا: ’’یہ کام بہت اہم ہے، اسے آپ دوسرے تمام کاموں پر ترجیح دیجئے، کسی نشست میں ان کے خاندانی حالات ٹیپ کرلیجئے، کسی میں دہلی کی ثقافتی زندگی کی تفصیلات، خواجہ صاحب کا وسیع حلقہ ارباب تھا، پہلے ان کے نام پوچھ لیجئے، پھر فرداً فرداً ہر ایک کی شخصیت کے بارے میں ان کے تاثرات، خواجہ صاحب نے ۴۷؁ء کا زمانہ نہایت پریشان کن حالات میں گزارا تھا، ہجرت کے حالات تفصیل سے پوچھئے، بمبئی میں فلمی دنیا کے حالات تو وہ خود ہی مزے لے لے کر بیان کریں گے، غرض کہ بات سے بات نکلتی آئے گی‘‘۔ (۶؍ جون ۱۹۸۶؁ء)
مقتدرہ قومی زبان نے ڈاکٹر جمیل جالبی کے زمانہ صدر نشینی میں ’’قومی انگریزی اردو لغت‘‘ شائع کی تھی، دوسرا منصوبہ ’’قومی اردو انگریزی لغت‘‘ کا تھا، جس کے مدیر اعلا جناب مظفر علی سید مقرر ہوئے تھے، اس سلسلے میں خواجہ صاحب نے انتخاب الفاظ کا کام ڈاکٹر عالم گیر صاحب سے کرایا تھا (آخر میں کچھ شمولیت محمد احسن خاں صاحب نے بھی کی) مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کیوں کہ اردو سے انگریزی ترجمے کا کام جن اصحاب کے سپرد کیا گیا، انہوں نے تھوڑا تھوڑا کام کرنے کے بعد اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیا۔
خواجہ صاحب ایک بے لوث، بے غرض اور نیک نفس انسان تھے، علمی و ادبی منصوبے تیار کرنا اور ایسے منصوبوں میں مصروف تحقیق کاروں اور عالموں کی فراخ دلی سے مددو اعانت کرنا ان کا شیوہ تھا، اپنی اس خوبی کی وجہ سے وہ ادبی دنیا کے تمام گروہوں، دھڑوں اور حلقوں میں یکساں طور پر مقبول تھے، اکاد کابر خود غلط قلم کاروں کو چھوڑ کر وہ ہر ایک کی ضرورت تھے، دوست دشمن (اگرچہ وہ کسی کو اپنا دشمن خیال نہیں کرتے تھے، ہاں، کسی نے خود کو ان کا ’’دشمن‘‘ فرض کرلیا ہو تو اس کی قسمت) ہر ایک کو ان کا تعاون میسر رہتا اور یہ کام، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، وہ کسی دنیاوی غرض کے لیے نہیں کرتے تھے، کیوں کہ ان کے بہ قول ’’نیکی کا اجر خدا ہی دے سکتا ہے، بندے کے بس کی بات نہیں‘‘۔ (مکتوب بنام اورنگ زیب عالم گیر، ۶؍ دسمبر ۱۹۹۷؁ء)
علم و ادب کا ایسا پر خلوص اور بے لوث خدمت گزار، اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا، شاید ہمیں اندازہ نہیں کہ طاہر مسعود کے بہ قول ’’کیسا قیمتی اور نادر روزگار آدمی ہمارے درمیان سے اٹھ گیا ہے‘‘۔ (قومی زبان، مارچ ۲۰۰۵؁ء، ص۲۵)
مشفق خواجہ خود ایک باکمال، کھرے ادیب، مزاح نگار، شاعر اور محقق تھے، تخلیق اور تحقیق دونوں میں انہوں نے قدراول کی چیزیں یادگار چھوڑی ہیں، ہمارے لیے ان کی شخصیت اور ادبی کارناموں میں کیا سبق پوشیدہ ہے؟ یہ کہ ستایش کی تمنا کی پروا کیے بغیر اپنا کام محنت اور کاوش اور دیانت داری کے ساتھ کیے چلے جاؤ، عزت، احترام، محبت اور شہرت بھی اگر حاصل ہوگی تو کام ہی کی بہ دولت حاصل ہوگی۔
ان کی شخصیت کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ وہ اسلام، پاکستان اور اقبال کے ساتھ ایک غیرمتزلزل وابستگی رکھتے تھے اور یہ وابستگی انہیں اپنے والد خواجہ عبدالوحید سے ورثے میں ملی تھی، وہ اپنے مخصوص شگفتہ اسلوب میں اشتراکیت، اباحیت، الحاد، آمریت پر تنقید کرتے، علمی و ادبی دنیا میں جعل سازی اور بناؤٹی رویوں پر خوب خوب چوٹ کرتے اور شہرت کی ہوس میں مبتلا اہل قلم پر اپنے مخصوص انداز میں کچھ ایسی لطیف طنز کرتے کہ مخالف بلبلا اٹھتا مگر لطف بھی لیتا، یہی وہ خوبی تھی جس کی بنا پر نہ صرف پاکستان کے تمام ادبی حلقوں بلکہ بھارت میں بھی مقبول تھا اور وہاں کے متعدد رسالوں اور اخباروں میں نقل کیا جاتا تھا، خامہ بگوش کی کالم نگاری میں وقفے بھی آتے رہے، چنانچہ ان کا تازہ کالم میسر نہ آتا تو بعض رسائل اپنے قارئین کے تفنن طبع کے لیے پرانے کالم ہی شایع کرتے رہتے تھے۔
۲۱؍ فروری ۲۰۰۵؁ء کو مشفق خواجہ کی وفات پر راقم الحروف نے( ’’نوائے وقت‘‘ کے لیے) اپنے فوری تاثر کا اظہار اس طرح کیا تھا:
’’مشفق خواجہ کی رحلت موجودہ صدی میں پاکستان کی علمی و ادبی اور تحقیق و تنقید کی دنیا کاسب سے بڑا سانحہ ہے، وہ ایک ایسی جامع الصفات ادبی شخصیت تھے، جس کی کوئی مثال، اردو کی معاصر ادبی دنیا میں نہیں ملتی، میرے ایک مرحوم دوست کو یہ ماننے میں تامل ہوا مگر آج ایک برس بعد بھی مجھے اپنے اس تاثر میں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، اس ایک برس میں مشفق خواجہ پر بہت کچھ لکھا گیا اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے مگر نہیں کہا جاسکتا کہ اس پیکر خلوص و دانش کی شخصیت کے سارے پہلو ہمارے سامنے آگئے ہیں یا اس کی علمی و ادبی مہارت، دنیائے علم و تحقیق کے سامنے پوری طرح منکشف ہوگئی ہے۔
اس عرصے میں جس سے بھی ملاقات ہوئی، جہاں بھی مشفق خواجہ کا ذکر آیا اور جو کچھ ان پر چھپا، ایک دو حضرات کے سوا سب کو ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان پایا، وہ انسان تھے، ان میں کمزوریاں بھی تھیں مگر بہ قول جمیل الدین عالی ’’ان کی خوبیاں، ان کی کمزوریوں کے مقابلے میں کئی ہزار گنا زیادہ تھیں‘‘۔ (قومی زبان، مارچ ۲۰۰۵؁ء، ص۱۰۰)
میں دعا گو ہوں کہ خدا ان کی کمزوریوں، عمل کی کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف کرے، ان کی مغفرت کرے اور ان کے درجات بلند کرے، آمین۔
مشفق خواجہ اول و آخر اور سر تا پیر ایک علم دوست شخص تھے، علم و ادب ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، ان سے مل کر، ان کے پاس بیٹھ کر، ان کی باتیں کرکے اور ان سے تبادلہ خیال کرکے اندازہ ہوتا تھا کہ ’’علم و ادب بہ طور اوڑھنا بچھونا‘‘ کیا مفہوم رکھتا ہے؟ راقم کو ان سے بارہا ملنے اور ان کی صحبت میں کئی کئی گھنٹے گزارنے کا موقع ملا، بلکہ د و ایک بار تو ناظم آباد کراچی میں، ان کے ہاں چند دن مقیم رہنے کا موقع بھی ملا، میں تو دن بھر ان کے کتب خانے کی سیر کرتا، کتابیں دیکھتا، نوٹس لیتا اور شام کو ہم روزانہ لمبی سیر کرتے، کسی جگہ کھانا کھاتے اور دنیا جہاں کی باتیں کرتے، لیکن ہر ملاقات یا صحبت کے اختتام پر تشنگی باقی رہتی اور یہ خواہش بھی کہ کچھ اور موقع ملے، باتیں ہوں، کچھ اور استفادہ کیا جائے۔
خوش بخت ہیں کراچی کے وہ ادیب، شاعر، دانش ور اور اہل قلم جو مشفق خواجہ ایسی نعمت سے مستفیض ہوتے رہے، اب وہ اس نعمت سے محروم ہوگئے ہیں ، لیکن یہ محرومی صرف کراچی والوں کی نہیں پوری اردو دنیا اور دنیائے علم وادب کی محرومی ہے۔
مرحوم ’’اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں‘‘، یہ ایک روایتی جملہ ہے لیکن یہ جملہ اگر کسی پر صادق ہوتا ہے تو مشفق خواجہ پر، انہوں نے اپنی دیگر مصروفیات کے باوجود تن تنہا ایسے بلند پایہ اور معیاری و مثالی تحقیقی کام انجام دیے جو اداروں کے کرنے کے تھے، اس کے باوجود یہ ایک سفاک حقیقت ہے کہ کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد، ابھی کتنے ہی کام مشفق خواجہ کے پیش نظر تھے، جو وہ انجام دینا چاہتے تھے، مکمل کرنا چاہتے تھے، بسے گفتینہا کہ ناگفتہ ماند، مرحوم اس آرزوئے ناتمام کے ساتھ عالم جاودانی کو رخصت ہوئے ہوں گے کہ کچھ اور مہلت ملے تو اپنے علمی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچادوں، مگر رہے نام اﷲ کا، ان کی بہت سی تحریریں، بہت سے مضامین، بہت سے تبصرے غیرمدون ہیں، یہ سب کئی جلدوں میں سمائیں گے۔
مشفق خواجہ کی شخصیت اور ان کی علمی نہاد و افتاد طبع کو سمجھنے کے لیے ان کے مکاتیب ایک بڑا قیمتی اور اہم ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں، جناب محمد عالم مختار حق نے اپنے نام مرحوم کے خطوط حواشی کے ساتھ مرتب کردیئے ہیں، یہ کتاب بہت جلد آنے والی ہے، راقم کے نام مکاتیب مشفق خواجہ کا مجموعہ بھی تیار ہے، چند خطوط ’’مخزن‘‘ میں چھپے ہیں اور ایک بڑی تعداد ’’الزبیر‘‘ اور ’’مکالمہ‘‘ میں آنے والی ہے، جو اصحاب مشفق خواجہ سے قربت و محبت اور ’’باما آشنا بود‘‘ کا دعویٰ رکھتے ہیں، اس محبت و تعلق کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے نام مرحوم کے خطوط، مختصر توضیحات کے ساتھ شائع کردیں اور اس کارِخیر میں تاخیر نہ کریں، رہا ان کی تحریروں کی تدوین کا کام یا ان کے ناتمام علمی و ادبی منصوبوں کی تکمیل تو وہ سارے علمی و ادبی ادارے جن کے مشفق خواجہ رکن رکین رہے، جن کی مختلف مجلسوں اور کمیٹیوں میں شریک ہوکر اپنا قیمتی وقت دے کر، وہ انہیں مشورے دیتے اور ان کی رہبری کرتے رہے، ان پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ خواجہ صاحب کے ناتمام علمی منصوبوں کی تکمیل اور ان کی تحقیقات ادبی کی تدوین کا اہتمام کریں، یہ ان کے ذاتی منصوبے نہیں تھے، اردو زبان و ادب کے ترقیاتی اجتماعی منصوبے تھے، جنہیں بروے کار لانا اور پایہ تکمیل تک پہنچانا، ان اداروں پر ایک طرح سے قرض ہے، ان میں انجمن ترقی اردو، مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادبیات اردو، مجلس ترقی ادب اور اقبال اکادمی جیسے ادارے شامل ہیں جو سب باوسائل ہیں اور بخوبی ایسا کرسکتے ہیں، ضرورت صرف احساس، نیت اور عزم کی ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ اپنی گوناگوں مصروفیات اور مشاغل کے باوجود انہوں نے ایسے پہاڑ کام کیوں کر انجام دیئے؟ میں سوچتا ہوں شاید اس لیے کہ وہ وقت کو اور زندگی کے ایک ایک لمحے کو خدا کی امانت سمجھتے تھے اور اس امانت کو انہوں نے دیانت اور احساس ذمہ داری کے ساتھ استعمال کیا، اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ ’’ہر گزرا ہوا لمحہ ہی انسان کا اصل نامہ اعمال ہوتا ہے، اگر یہ لمحہ بے کار گزرا ہے تو نامہ اعمال پر ایک سیاہ نقطے کا اضافہ ہوجائے گا‘‘۔ (مکتوب بنام محمد حمزہ فاروقی، ’’مخزن‘‘ نمبر ۱۰، ص۳۶) جو لوگ انہیں جانتے ہیں وہ گواہی دیں گے کہ مشفق خواجہ نے اپنے قلب شفاف کو سیاہ نقطوں سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔
وہ ایک بے مثال شخص تھے، اپنے اصول و نظریات اور آدرشوں کے ساتھ، اسلام، پاکستان، اردو اور ادب کے ساتھ ان کی وفاداری اور تعہد (Commitment) نہایت محکم، مستحکم اور استوار تھا، وہ ایک مخلص اور بے ریا انسان تھے، سچائی، راستی اور خیر کے قدردان اور علم بردار تھے، شہرت، نمود و نمایش، تصنع اور بناوٹ کو سخت ناپسند کرتے تھے اور انہیں گوارا نہ تھا کہ کوئی شخص خصوصاً ادیب، شاعر یا محقق یہ طرز عمل اختیار کرے۔
پاکستان ہی میں نہیں، بھارت ہی میں نہیں، پوری دنیا میں جہاں جہاں اردو زبان و ادب کا چرچا ہے:
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
کے مصداق مشفق خواجہ کا نام زندہ رہے گا اور وہ اردو ادب، اردو تحقیق و تدوین اور اردو طنز و مزاح کے ایک قابل فخر سپوت کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے اور بقائے دوام کے دربار میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا رہے گا۔
میرے عزیز دوست سجاد میر نے کیا عمدہ بات کہی ہے کہ ’’ادبی تحقیق کے میدان میں بڑے نام ہیں، مگر سچ کہتا ہوں، کوئی دوسرا مشفق خواجہ نہیں ہے․․․․․ ان جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے، اس شہر ہی میں نہیں، اس ملک میں بھی اور پورے برصغیر میں بھی بلکہ جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں وہاں تک‘‘۔ (نوائے وقت، لاہور، ۲۴؍ فروری ۲۰۰۵ء) ( مئی ۲۰۰۶ء)

(۱) کذا؟ مقالہ نگار نے صاحب دیوان کا نام نہیں لکھا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...