Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر نثار احمد فاروقی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر نثار احمد فاروقی
ARI Id

1676046599977_54338468

Access

Open/Free Access

Pages

691

پروفیسر نثار احمد فاروقی
دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی میں ۲۹؍ نومبر ۲۰۰۴؁ء کو علامہ شبلیؒ سمینار کا چوتھا اجلاس ہورہا تھا کہ یہ افسوس ناک خبر ملی کہ جید عالم اور اردو کے محقق، نقاد اور ادیب جناب نثار احمد فاروقی ۲۷ و ۲۸ نومبر کی درمیانی شب میں انتقال کرگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون، ان کی لاش دہلی سے امروہہ لائی گئی اور ۲۸؍ نومبر کو اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیے گئے۔
وہ بڑے صحت مند تھے مگر پچھلے کئی برس سے طبیعت خراب رہنے لگی تھی، گزشتہ سال جنوری کے آخر میں ان کے گھر ملاقات کے لیے گیا تو مجھے بہت مضمحل معلوم ہوئے، دریافت کرنے پر بتایا کہ رات ہی بمبئی سے آیا ہوں، وسط مارچ میں رام پور رضا لائبریری کے سمینار میں ملے تب بھی کچھ سست اور بجھے بجھے دکھائی دیے تاہم ان کی تقریر اب بھی کانوں میں گونج رہی ہے، دلی سے ان کا جاننے والا کوئی آتا تو وہ بھی ان کی علالت کا ذکر کرتا، دارالمصنفین کے سمینار میں اسی لئے شروع میں ان کو زحمت دینے میں تامل ہورہا تھا مگر ان کو مجھ سے اور دارالمصنفین سے جو لگاؤ تھا، اس کی وجہ سے طبیعت نہ مانی اور دعوت نامہ بھیج دیا، اسی دوران اخباروں میں پڑھا کہ وہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کے ہم راہ دوحہ (قطر) ایوارڈ لینے گئے ہیں، اس لیے ایک عزیز کو دستی خط دے کر اصرار کیا کہ آپ تشریف لاکر مفتخر فرمائیں، خطوط کا جواب وہ فوراً دیتے تھے مگر اس دفعہ کسی خط کا جواب نہیں آیا، جب سمینار میں دہلی اور دوسری جگہوں سے لوگ آنے لگے تو جناب شعیب اعظمی نے جو بٹلہ ہاؤس میں ان کے قریب ہی میں رہتے ہیں بتایا کہ وہ سخت بیمار ہیں، آنے کے لائق نہیں ہیں، آخریہ جاں گسل اطلاع آہی گئی، اسی وقت دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھ گئے بعض لوگوں نے تاثراتی تقریریں کیں اور تعزیتی قرار داد منظور کی گئی۔
زندگی انسان کی ہے مانند مرغ خوش نوا
شاخ پر بیٹھا، کوئی دم چہچہایا، اڑ گیا
نثار احمد فاروقی ۲۹؍ جون ۱۹۳۴؁ء کو امروہہ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے تھے، ان کا سلسلہ نسب بابا فرید گنج شکرؒ سے ہوتا ہوا امیر المومنین حضرت عمر فاروقؒ تک جاپہنچتا ہے، یہ خاندان پہلے پنجاب میں آباد ہوا، فیروز شاہ تغلق نے مراد آباد کا یہ وسیع علاقہ بابا صاحب کی اولاد کو بہ طور معافی دیا تھا، دنیاوی وجاہت کے ساتھ یہ خاندان صوفی مشرب اور طریقت میں ممتاز تھا، مولانا نسیم احمد فریدی نثار صاحب کے حقیقی چچا اور پروفیسر خلیق احمد نظامی کے پھوپھی زاد بھائی تھے مگر نثار صاحب کو شروع میں مشکل اور صبر آزما دور سے گزرنا پڑا، کم عمری میں والد کے فاترالعقل ہونے کی وجہ سے ان کی اور ان کے دوسرے بھائی بہنوں کی پرورش ان کے نانا شاہ سلیمان احمد چشتی نے کی، ان ہی سے فارسی اور عربی شروع کی، پھر حیدرآباد اور امروہہ کے مدارس میں زیر تعلیم رہے، گردش روزگار نے دہلی پہنچا دیا، پہلے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوئے پھر دہلی یونیورسٹی کی لائبریری میں ملازمت ملی، کچھ آسودگی نصیب ہوئی تو حصول علم کا داعیہ موجزن ہوگیا، پہلے ہائی اسکول اور انٹر کے امتحانات پاس کیے، پھر اور مشرقی و مغربی امتحانات دے کر یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں تدریسی خدمت پر مامور ہوئے اور پروفیسر اور کئی بار صدر شعبہ ہوکر وظیفہ یاب ہوئے۔
ذہانت کے ساتھ وہ بڑے محنتی تھے اس لیے راہیں خود بہ خود کھلتی گئیں، مطالعہ کا شوق تو تھا ہی، دلی یونیورسٹی کی لائبریری کے اردو سیکشن کے انچارج ہوئے تو سیکڑوں کتابیں پڑھ ڈالیں اور ہزاروں کے نام سے واقف ہوگئے، اس کی وجہ سے ان کی علمی استعداد اپنے ہم سروں سے بہت بڑھی ہوئی تھی، ان کے استحضار، کثرت علم و مطالعہ اور وسیع معلومات کی بنا پر طالب علمی ہی کے زمانے سے ان کے دوست احباب انہیں ’’علامہ‘‘ کہنے لگے تھے، رسمی تعلیم منقطع ہونے کے بعد بھی وہ برابر پڑھتے لکھتے اور علم کے شیدائی بنے رہے اور زندگی کے کسی موڑ پر بھی ان کی کدوکاوش، تلاش و جستجو اور تحقیق و تدقیق کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔
علم کی دیوانگی نے ان کو آرام و راحت سے بے نیاز کردیا تھا اور پڑھنا لکھنا ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہوگیا تھا، ان کا قلم برابر رواں دواں رہتا اور کبھی رکنے کا نام نہ لیتا، ان کی مضمون نگاری کی ابتدا بچپن ہی میں ہوگئی تھی اور انہوں نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جن کی وجہ سے وہ جلد ہی اہل علم کا مرکز توجہ بن گئے، وہ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر اچھی دست رس رکھتے تھے اور ہندی سے بھی واقف تھے، طبع زاد تصانیف کے علاہ کئی کتابوں کے ترجمے بھی کیے ادب، تحقیق، تنقید، تاریخ، سیر، تذکرہ، مذہبی علوم اور تصوف میں زندگی بھر ان کا قلم گل کاریاں کرتا رہا، ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مختلف ادبی دھاروں سے الگ رہ کر اپنی دنیا آپ پیدا کرتے رہے۔
اصلاً ان کا کام اردو میں ہے اور اس میں ادب و تصوف اور تاریخ و سیر سے ان کا خاص لگاؤ تھا، ان کی تصنیفات سے ان کے بلند ادبی ذوق اور تحقیقی و تنقیدی ژرف نگاہی کا اندازہ ہوتا ہے، اردو شاعری کے اساطین میرؔ، غالبؔ اور مصحفیؔ پر ان کا کام بڑی اہمیت کا حامل ہے، سب سے پہلے انہوں نے ذکر میرؔ کا اردو ترجمہ کیا جو ۱۹۵۷؁ء میں میرؔ کی آپ بیتی کے نام سے شایع ہوا، اس میں یہ انکشاف کیا ہے کہ ذکر میر سراج الدین علی خاں آرزوؔ کی ’’چراغ ہدایت‘‘ کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے اور میر کے عہد کی ایک بیاض سے ثابت کیا ہے کہ ع ’’کیا بود و باش پوچھو ہو یورپ کے ساکنو‘‘ میرؔ ہی کے اشعار ہیں، ۱۹۶۳؁ء میں جب وہ ایم۔اے کررہے تھے تو دلی کالج کا ضخیم میرؔ نمبر ان کی ادارت میں نکلا اور بعد میں اپنے مضامین کا مجموعہ ’’تلاش میرؔ‘‘ کے نام سے شایع کیا۔
غالبیات ان کی تحقیق و کاوش کا خاص محور تھا ’’تلاش غالب‘‘ ان کی مشہور کتاب ہے، اس میں غالب کے خطوط اور تحریروں سے ان کی سوانح عمری مرتب کی ہے اور غالب کے بعض غیر مطبوعہ خطوط بھی شامل کیے ہیں، ایک خط سر سید مرحوم کے نام بھی ہے، غالب سے متعلق لکھے گئے مضامین کا اشاریہ ’’غالب نما‘‘ کے نام سے مرتب کیا، دیوان غالب نسخہ امروہہ کی تدوین بیاض غالب کے نام سے کی، اسے دیوان غالب کی اولین روایت کہا جاتا ہے جسے توفیق احمد امروہوی نے بھوپال سے دریافت کیا تھا، نثار صاحب نے مالک رام صاحب کی ذکر غالب کا ہندی ترجمہ بھی کیا تھا۔
اردو کے مشہور زود گو اور قادر الکلام شاعر میر غلام ہمدانی مصحفی کی کلیات دیوان اول، ودوم شایع کر کے ان سے ہم وطنی کا حق ادا کیا، اس میں متن کی صحت کا بڑا خیال رکھا ہے اور مشکل الفاظ کے معانی بھی لکھے ہیں، مقدمہ میں ان کے سوانح، شاعرانہ کمالات اور تلامذہ کے حالات دیے ہیں، شعرائے اردو کے تذکروں پر بھی ان کا کام اہمیت رکھتا ہے، ان کا مرتب کردہ تذکرہ قدرت اﷲ شوق مجلس ترقی ادب لاہور نے ۱۹۶۶؁ء میں شایع کیا، ۱۹۶۸؁ء میں اس کی اور گل رعنا اور مجمع الانتخاب کی تلخیص تین تذکرے کے نام سے دہلی سے شایع کیا، اپنے مضامین میں ایک درجن سے زیادہ تذکروں کا تعارف کرایا۔
تصوف تو ان کے گھر کی چیز تھی، ان کے نانا ایک بزرگ صوفی اور سجادہ نشین تھے، ان کی پاکیزہ زندگی دیکھ کر انہیں تصوف سے بڑی رغبت ہوگئی تھی اور اس کی مخالفت میں ایک لفظ سننا پسند نہیں کرتے تھے، اس کا مطالعہ بڑی دقت نظر سے کیا تھا، ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کو جدید انداز میں پیش کر کے اس کی قدر و قیمت اور معنویت دکھائی ہے، ’’نقد ملفوظات‘‘ اور ’’چشتی تعلیمات اور عصر حاضر میں ان کی معنویت‘‘ اور ’’تذکرہ خواجہ معین الدین چشتی‘‘ اسی نوعیت کی کتابیں ہیں، انہوں نے تصوف کی قدیم کتابوں کو عصری رنگ اور اسلوب میں پیش کیا ہے، اس سلسلے میں فارسی متون کی تدوین اور ایڈیٹنگ کی اور ان پر محققانہ مقدمے لکھے جیسے مولانا تھانوی کی امداد المشتاق اور مرقومات امدادیہ، تذکرہ روضتہ الاولیا (غلام علی آزاد) قوام العقاید (خواجہ نظام الدین اولیا کے حالات) مقاصد العارفین (عضدالدین جعفری چشتی) تذکرہ مقالات الشعرا (قیام الدین حیرت اکبر آبادی) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
خواجہ نظام الدین اولیا اور ان کے سلسلے سے ان کو بڑا شغف تھا، ان کے اور دوسرے صوفیہ کی سیرت و سوانح اور تعلیمات پر انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے، ’’منادی‘‘ کا کوئی شمارہ ان کے مضامین سے خالی نہیں ہوتا تھا، صوفیہ کے پیغام کو عام کرنے کے لیے ان کے عرس میں سمینار کرانے کی روایت قائم کی۔
فارسی کی کئی کتابوں کو اردو کا جامہ پہنایا جیسے شاہ عبدالہادی کے مجموعہ ملفوظات ’’مفتاح الخزائن‘‘ (سید نثار علی بریلوی) میاں نور محمد چشتی کا مجموعہ ملفوظات ’’خلاصۃ الفواید‘‘ ملفوظات خواجہ زین الدین شیرازی ’’ہدایت القلوب‘‘ مرزا مظہر جان جاناں کے خلیفہ شاہ غلام علی نقشبندی کے ملفوظات ’’درالمعارف‘‘ ورسالہ و حدت الوجود ’’یقظۃ النائمین‘‘ (شاہ حامد ہرگامی) اور تاج الدین محمود کے فارسی رسالہ غایۃ الامکان فی درایۃ المکان کا انگریزی ترجمہ کیا۔
عربی زبان میں ان کی خدمات بھی قابل قدر ہیں، دلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے مدتوں سربراہ رہے اور انڈین کونسل فارکلچرل ریلیشنز کے عربی رسالہ ثقافۃ الہند کے برسوں اڈیٹر رہے، آزاد بلگرامی کی عربی کتاب ’’شفاء العلیل‘‘ کا متن ایڈٹ کر کے شایع کیا، ڈاکٹر جواد علی کی کتاب کا اردو ترجمہ تاریخ طبری کے مآخذ کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کے نام سے کیا، ایک مختصر رسالہ ’’اہمیۃ السیرۃ الطیبہ للعالم البشری‘‘ کے نام سے لکھا جس کا اردو ترجمہ ’’عالم بشریت کے لیے سیرت طیبہ کی اہمیت‘‘ کے نام سے کیا، آنحضرتؐ کے منتخب مکتوبات کا اردو ترجمہ کیا۔
ان کے علمی و تحقیقی بعض مجموعہ مقالات کا ذکر پہلے آچکا ہے ’’دید و دریافت‘‘ اور ’’دراسات‘‘ کے نام سے بھی مجموعے چھپے، ہندی میں ذکر غالب کے علاوہ مولوی عبدالحق کی چند ہم عصر کا ترجمہ کیا۔
ان کی گوناگوں علمی خدمات کا بڑا اعتراف کیا گیا، ان کی کتابوں پر مختلف اداروں اور اردو اکیڈمیوں نے ایوارڈ دیے، دہلی اردو اکیڈمی نے ان کی، مجموعی ادبی خدمات پر ایوارڈ دیا، عربی زبان کی خدمات کے اعتراف میں ۱۹۸۵؁ء میں انہیں صدراتی ایوارڈ سے نوازا گیا اور سب سے آخر میں گوپی چند نارنگ نے بزم ادب دوحہ (قطر) کا ایوارڈ دلایا، مختلف یونیورسٹیوں کے اکزامنر اور ان کی ڈین فیکلٹیوں اور متعدد اداروں اور کمیٹیوں کے ممبر رہے۔
نثار صاحب نے اپنے بارے میں خود لکھا ہے کہ وہ عہدوں کے حصول کے لیے کبھی سرگرداں نہیں رہے، خوددار تھے، خود بینی اور خود نمائی، خوشامد، تملق، سخن سازی، ریشہ دوانی اور مطلب برآری کے لیے داوں بیچ کے فن سے ناآشنا تھے، لگی لپٹی بات نہیں کرتے، صاف گوئی سے کام لیتے تا ہم مغلوب الغضب اور تنک مزاج تھے، بہت جلد برہم ہوجاتے تھے، اسی لیے اپنے دوستوں سے اکثر ان کی ان بن ہوجاتی تھی، کہا جاتا ہے کہ ۱۹۴۷؁ء میں اپنے قصبے اور دلی میں مسلمان گھرانوں کی جو حالت دیکھی تھی، اس کی تلخی ان کے رگ و ریشے میں سرایت کرگئی تھی، اس کی وجہ سے مزاج میں حدت آگئی تھی، گوبہ ظاہر کٹھور معلوم ہوتے تھے مگر اندر سے نرم تھے۔
انہیں دوسروں کا کام کر کے اور لوگوں کی مدد کر کے خوشی ہوتی تھی اور جب کسی کو پریشانی میں دیکھ کر اس کی مدد کرنے میں بے بس رہتے تو انہیں بڑی جھنجھلاہٹ ہوتی، ان کے دریائے علم کا بہاؤ کبھی رکتا نہیں تھا اور سب کے لیے ان کا فیض عام رہتا تھا، طالب علموں کی رہنمائی کرنے میں کبھی بخل سے کام نہ لیتے، تھیسس لکھنے میں ان کی پوری معاونت کرتے، مذہب و مسلک کے معاملے میں زیادہ متشدد نہ تھے، ہر مسلک و مشرب کے لوگوں سے ان کے تعلقات تھے، صوفیہ سے ان کو زیادہ عقیدت و شیفتگی تھی، اپنے تجربے کی بنا پر کہتے تھے کہ ’’انسان دوستی، درد مندی، حسن اخلاق، بے طمعی، پاکیزگی فکر اور اطمینان قلب صرف ایک سچے درویش کے پاس ہوتا ہے، باقی لوگ اس سے محروم ہیں، اس لیے خوار ہوتے ہیں‘‘، نثار صاحب کا عقیدہ مسلک اور عمل جو بھی رہا ہو، عام ادیبوں کی طرح وہ اپنے مذہب و ملت سے کبھی بے زار اور برگشتہ نہیں رہے، اﷲ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کاملہ سے نوازے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۲۰۰۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...