Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > چودھری سبط محمد نقوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

چودھری سبط محمد نقوی
ARI Id

1676046599977_54338471

Access

Open/Free Access

Pages

694

آہ! جناب چودہری سبط محمد نقوی
۱۸؍ فروری ۲۰۰۵؁ء کو جناب چودہری سبط محمد نقوی بھی داغ مفارقت دے گئے، وہ ۷۹ برس کے تھے، انتقال سے چند ہفتے پہلے سڑک کے ایک حادثے میں شدید زخمی ہوگئے تھے، علاج کے لیے لکھنو میڈیکل کالج میں داخل ہوئے اور کسی قدر شفایاب ہوئے تو لکھنو میں اپنی رہایش گاہ پر آگئے، ایام عزا شروع ہونے سے پہلے عشرہ مجالس میں شرکت کے لیے اپنے آبائی وطن اکبر پور چلے آئے، ایک رات اچانک طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور دسویں محرم آنے سے پہلے ہی انتقال فرماگئے۔
مرحوم کی تعلیم و تربیت لکھنو میں فرقہ امامیہ کی درس گاہوں میں ہوئی تھی، وہ اس فرقہ کے اکثر معروف و ممتاز خاندانوں سے بہ خوبی واقف تھے، اکثر عماید و مشاہیر علما کے صحبت یافتہ تھے، لکھنو اور اودھ کے اکثر علمی، تعلیمی، دینی، ادبی اور سیاسی حلقوں میں وہ مقبول و متعارف تھے، اہل تسنن سے بھی ان کے تعلقات تھے اور ان کے اصحاب علم کے قدر شناس تھے، مرحوم کی نماز جنازہ دونوں فرقوں کے اماموں نے پڑھائی، مولانا شبلیؒ کے بڑے مداح اور عظمت شناس تھے، مولانا نے موازنہ انیس و دبیر لکھا تو شیعوں اور سنیوں کا بھی ایک طبقہ ان سے بہت برہم ہوا لیکن مرحوم سبط محمد صاحب مولانا کے ہم نوا تھے جس کا برملا اظہار اپنی تحریروں اور ملاقاتوں میں کرتے تھے، دارالمصنفین سے بھی والہانہ تعلق رکھتے تھے اور اس کے معتدل روش کو بہت پسند کرتے تھے، جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم، مولوی حافظ عمیر الصدیق اور راقم سے بہت مخلصانہ تعلق رکھتے تھے، اپنے علمی و تحقیقی کاموں کے سلسلے میں یہاں تشریف بھی لاتے تھے، ۱۹۷۰؁ء کی دہائی میں غالباً پہلی بار یہاں تشریف لائے تو قریباً ایک ماہ قیام کیا اور جانے کے بعد ماہنامہ جامعہ دہلی میں ایک مضمون لکھا جس میں دارالمصنفین کی عظمت اور اس کے کارناموں کا اعتراف بڑی فراخ دلی سے کیا اور کتب خانے سے وابستہ تمام لوگوں کا ذکر نہایت اخلاص و محبت سے کیا۔
اور بھی کئی بار یہاں تشریف لائے، یہ ناممکن تھا کہ وہ اعظم گڑھ سے گزریں اور دارالمصنفین نہ تشریف لائیں، راقم بھی لکھنو جاتا تو ان سے ملاقات کرتا اور وہ بڑے تپاک سے ملتے، کبھی کبھی ان کو میری آمد کی خبر ہوجاتی تو خود بھی زحمت فرماکر میری قیام گاہ پر ملنے کے لیے آجاتے اور اگر کبھی اتفاقاً میں ان سے ملے بغیر چلا آتا تو فوراً خط آتا کہ ہم سے کیا خطا ہوئی جو یہاں تشریف نہیں لائے، وہ دارالمصنفین کے ہر کام کے لیے تیار رہتے، کئی بار خود اپنی سواری سے مجھے لے جاکر متعلقہ لوگوں سے ملاکر پرزور سفارش بھی کی، ایک مرتبہ میرا منجھلا لڑکا محمد طارق لکھنو اسٹیشن پر گاڑی چل جانے کے بعد اس پر سوار ہونے کی کوشش کررہا تھا کہ گرپڑا اور پاؤں ٹوٹ گیا، ریلوے پولیس نے بلرام پور اسپتال میں داخل کردیا، یہ خبر سن کر میں اپنے بڑے لڑکے محمد عامر کو لے کر وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ دارالمصنفین سے غالباً مولوی عمیر صاحب نے ندوہ فون کیا تھا اور مولانا سید محمد رابع ندوی کے ایما سے مولانا مفتی محمد ظہور ندوی اس کی عیادت کے لیے تشریف لائے تھے، اس کی وجہ سے مجھے خیال ہوا کہ اپنے بعض کرم فرماؤں کو فون سے مطلع کر کے آگے کی کاروائی ان کے مشورے سے کروں، مجھے یاد آتا ہے کہ اطلاع ملتے ہی سب سے پہلے مرحوم اور عبدالقوی خاں صاحب آگئے، مرحوم نے اس وقت یہ ظریفانہ فقرہ بھی کہا ’’یہ بہت دوڑ باگ کرتے تھے، بارگاہ الٰہی سے حکم ہوا کہ کچھ دنوں آرام کریں‘‘ وہ لڑکے سے بہت بے تکلف تھے۔
مرحوم عالم، دانشور، ادیب اور اہل قلم ہونے کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے، ان کا شمار سرکردہ سوشلسٹ لیڈروں میں ہوتا تھا، مشہور سوشلسٹ لیڈر ڈاکٹر رام منوہر کے خیالات سے بہت متاثر تھے، ان ہی کے اثرسے انگریزی کے بھی بڑے خلاف اور دیسی زبانوں کی ترویج کے پرجوش حامی تھے، اردو ان کی مادری اور اصلی زبان تھی لیکن اس کے خلاف اترپردیش کی حکومتوں اور سرکاری ملازمین کا رویہ ہمیشہ بڑا معاندانہ تھا، اس لیے اردو میں لکھے ہوئے خطوط محکمہ ڈاک ضایع کردیتا تھا، مرحوم چودہری صاحب اپنے خطوط پر مکتوب الیہ کا نام ہمیشہ اردو میں لکھتے تھے اور جگہوں کے نام وغیرہ انگریزی سے نفرت کی وجہ سے التزاماً ہندی میں لکھتے تھے، تمام سوشلسٹ لیڈروں بالخصوص اترپردیش کے وزیر اعلا بابو ملایم سنگھ یادو سے ان کے اچھے تعلقات تھے، ان کے فرقے کے بعض لوگوں کا جھکاؤ بی جے پی کی جانب رہتا تھا، اس کی کاٹ کے لیے ملایم سنگھ کی خواہش اور ایما سے وہ سماج وادی پارٹی کی کنویسنگ کے لیے اکثر شیعہ آبادیوں کا انتخابی دورہ کرتے تھے، اس طرح کے دورے میں وہ کئی بار اعظم گڑھ کے قصبہ مبارک پور آئے تو دارلمصنفین کو بھی میزبانی کا شرف بخشا، ملایم سنگھ یادو جب پہلی بار اترپردیش کے وزیر اعلا بنے تو سبط محمد صاحب کی حسن خدمت کے صلے میں انہیں اقلیتی مالیاتی کمیشن کا چیرمین بنایا اور جب زخمی ہوئے تو ان کی عیادت کے لیے اسپتال تشریف لائے، وہ اکبر پورمیونسپلٹی کے بھی چیرمین رہے۔
جناب سبط محمد نقوی اچھے صحافی اور کالم نگار تھے، قومی آواز اور لکھنو کے دوسرے اخباروں میں ان کے مضامین اور مراسلے برابر شایع ہوتے تھے، ان کا قیام پہلے اپنے آبائی وطن اکبر پور ہی میں تھا جہاں اپنی جائداد اور سیر کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے تھے، اس کے باوجود لکھنے پڑھنے کا کام بھی کرتے رہتے تھے، ادہر کئی برس سے لکھنو چلے آئے تھے اور امام باڑہ غفران تاب میں اقامت پذیر ہوگئے تھے، یہاں سے ان کی ادارت میں اردو اور ہندی میں دو ہفتہ وار اخبار ’’توحید میل‘‘ اور ’’ہماری توحید‘‘ کے نام سے نکلتے تھے جن کے اکثر صفحات فرقہ امامیہ سے متعلق مضامین اور خبروں کے لیے مختص ہوتے تھے، تاہم دوسرے علمی و ادبی مضامین، اداریے، خبریں، مراسلے اور ان کے جواب بھی خاصے کی چیز ہوتے تھے، ان سے ان کے پختہ مشق صحافی، منجھے ہوئے قلم اور رچی ہوئی تحریر کا اندازہ ہوتا ہے۔
وہ ذی علم اور لایق شخص تھے، اودھ کی شستہ زبان لکھتے اور بولتے تھے اور خود اودھ کی قصباتی شایستہ تہذیب کا نمونہ تھے، زبان و ادب کا بڑا اچھا اور لطیف ذوق تھا، ایک مرتبہ معارف میں اشاعت کے لیے ان کا ایک مضمون آیا تو خط لکھا کہ میں ’’لفظ‘‘ کو مونث بولتا اور لکھتا ہوں اس پر خط نسخ پھیر کر مذکر بنانے کی زحمت نہ اٹھائیں۔
ان کا قد دراز، جسم بھاری بھرکم اور آواز مہیب تھی، بہ ظاہر سختی اور درشتی سے بات کرتے لیکن دل کے بھلے اور نرم تھے، دوسروں کے درد و غم کو اپنا درد و غم سمجھتے اور سب کی مدد اور غم گساری کے لیے برابر تیار رہتے، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، اپریل ۲۰۰۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...