1676046599977_54338472
Open/Free Access
696
ڈاکٹر شوقی ضیف
۱۴، ۱۵؍ مارچ ۲۰۰۵ء کو شعبہ عربی علی گڑہ مسلم یونیورسٹی میں ’’دوسری جنگ عظیم‘‘ کے بعد ’’عربی ادب کے نئے رجحانات‘‘ کے عنوان سے ایک نیشنل سمینار ہوا جس کی روداد اپریل کے معارف میں شایع ہوچکی ہے، اس کے لیے راقم نے ’’ڈاکٹر شوقی ضیف: افضل العلما مولانا محمد یوسف کو کن کی نظر میں‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا تھا جس کو ۱۵؍ مارچ کو سمینار کے صبح کے اجلاس میں پڑھا، اسی روز شام کو پہلا اجلاس پروفیسر سلیمان اشرف (دہلی) کی صدارت میں شروع ہوا تو انہوں نے یہ افسوسناک اطلاع دی کہ ابھی خبر ملی ہے کہ ۱۱؍ مارچ بہ روز جمعہ ڈاکٹر شوقی ضیف کا انتقال ہوگیا، اسی وقت تاثراتی تقریریں ہوئیں، تعزیتی تجویز منظور کی گئی اور ڈاکٹر صاحب کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔
سمینار کے مندوبین کو شعبہ کی جانب سے جو کتابیں دی گئی تھیں ان میں ’’مجلۃ المجمع العلمی الہندی‘‘ کاتیئیسواں شمارہ بھی تھا، اتفاق سے اس میں بھی ڈاکٹر صاحب پر ایک مقالہ شامل تھا، اس سے اپنے مضمون میں کسی قدر اضافہ کر کے معارف کے قاریین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
ڈاکٹر شوقی ضیف بیسویں صدی کے عربی زبان کے مشہور مصنف اور بلند پایہ محقق و نقاد تھے، وہ جنوری ۱۹۱۰ء میں مصر کے ایک گاؤں ’’اولاد حمام‘‘ میں پیدا ہوئے، ان سے پہلے ان کے دو بڑے بھائی ایام شیر خوارگی ہی میں فوت ہوگئے تھے، اس لیے جب یہ پیدا ہوئے تو ان کے والدین کو بڑی خوشی ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب کا پورا نام احمد شوقی عبدالسلام ضیف تھا، ضیف ان کے خاندان کا لقب اور عبدالسلام والد کا نام تھا، ان کا اصلی نام احمد شوقی تھا مگر وہ اختصار کے خیال سے اپنے کو صرف شوقی ضیف لکھتے تھے، یہی ان کا قلمی نام تھا اور اسی سے ان کو شہرت ملی۔
بچپن میں وہ بیمار ہوگئے تھے، اس کی وجہ سے ان کی بائیں آنکھ میں تکلیف ہوگئی تھی، جس کا مناسب علاج نہ ہونے کی بنا پر اس کی بینائی بہت کم ہوگئی مگر داہنی آنکھ صحیح اور سلامت تھی اور اس کی روشنی تیز تھی۔
ڈاکٹر شوقی ضیف کی تعلیم گاؤں ہی میں شروع ہوگئی تھی لیکن جب وہ نو برس کے ہوئے تو ان کے والد اپنے کنبے کے ساتھ دمیاط چلے آئے، یہیں ڈاکٹر شوقی نے ایک برس سے بھی کم عرصے میں قرآن مجید حفظ کیا، جس دن انہوں نے حفظ مکمل کیا تھا، وہ دن ان کے گھر والوں کے لیے بڑی خوشی کا تھا، اس دن ان کے والد نے ایک جلسہ کیا اور ان کے استاذ کو ہدایا و تحایف سے نوازا۔
پہلے مرحلے کی تعلیم دمیاط ہی میں ہوئی، ۱۹۲۶ء سے ۱۹۲۸ء میں وہاں سے باہر جاکر دینی مدرسے میں دوسرے مرحلے کی تعلیم حاصل کی، اس زمانے میں روزنامے اور ہفتہ وار مجلے ان کے مطالعے میں آئے جن سے ان کا تعلیمی رخ تبدیل ہوا اور ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا جہاں ریاضی، طبیعیات اور کیمیا وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی، اس کے لیے کسی استاد کی رہنمائی کے بغیر ہی انہوں نے تیاری شروع کی اور ٹسٹ میں کامیاب ہوئے، دو برس تک اعدادی درجے میں رہے، ۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۱ء میں قاہرہ یونیورسٹی کے کلیۃ الآداب کے شعبہ عربی لغت میں ان کا داخلہ ہوا، یہاں ان کی اصلی زبان انگریزی اور ثانوی فرنچ تھی۔
۱۹۳۲ء اور ۱۹۳۳ء کے تعلیمی سال میں انہوں نے سریانی اور فارسی زبان پڑھی اور اس کے ساتھ ہی عربی ادب و تنقید اور نحو کا درس بھی لیا، فارسی کے استاد عبدالوہاب عزام تھے، ۱۹۳۳ء اور ۱۹۳۴ء میں وہ شیخ مصطفےٰ عبدالرزق کے لکچروں میں شریک ہوئے جو اسلامی فلسفہ پڑھاتے تھے، ڈاکٹر طہٰ حسین کی وجہ سے انہوں نے یہاں داخلہ لیا تھا، ان سے نقدالنثر اور موازنہ ابی تمام بحتری وکا درس لیا اور ان ہی سے مشہور فرانسیسی مورخ و فلسفی ٹین (Taine) کی تصنیف انگریزی ادب کی تاریخ کا مقدمہ بھی پڑھا، استاذ احمد امین سے علم الاخلاق کی کتابیں پڑھیں۔
۲۶ برس کی عمر میں ۱۹۳۵ء میں انہوں نے امتیازی نمبروں سے بی اے پاس کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی، اس کے بعد ایم اے میں داخلہ لیا، اس وقت کلیۃ الآداب کے سربراہ ڈاکٹر طہٰ حسین تھے، ان کے مقالے کا عنوان ’’ابوالفرج اصبہانی کی کتاب الاغانی میں نقدادب‘‘ تھا، یہی اہم کتاب ۱۲ جلدوں پر مشتمل ہے اور جاہلی اور اسلامی دور کی تین ابتدائی صدیوں کی شاعری اور شعرا کا مرجع ہے، اس کی تیاری میں ۱۹۳۸ء و ۱۹۳۹ء میں وہ بہت مشغول رہے، جب اس کا مناقشہ ہوا اور انہیں ڈگری مل گئی تو انہوں نے اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ انہیں اپنی علمی زندگی کے آغاز ہی میں عربی شعر و شعرا کے اس سب سے بڑے اور اہم ماخذ کے مطالعہ کا موقع میسر آیا۔
ایم اے کر چکے تو ڈاکٹر طہٰ حسین نے ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ’’چوتھی صدی ہجری میں عباسی دور کی شاعری‘‘ تجویز کیا، کئی برس کی محنت و مطالعہ کے بعد انہوں نے اپنا مقالہ مکمل کیا اور مناقشے کے بعد ۱۹۴۲ء میں شرف و امتیاز کے ساتھ ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹریٹ کے بعد انہیں قاہرہ یونیورسٹی کے کلیۃ الاداب کے شعبہ عربی لغت میں تدریس کی خدمت سپرد کی گئی، وہ طلبہ پر نہایت شفیق و مہربان تھے اور ان سے ان کے بڑے مخلصانہ روابط اور تعلقات تھے، ۱۹۴۸ء میں وہ معاون استاذ مقرر ہوئے اور ۱۹۶۸ء میں صدر شعبہ ہوئے، ۱۹۷۰ء میں اس عہدہ سے سبک دوش ہونے کے بعد بھی اس خدمت کو ۵ برس تک انجام دیتے رہے اس کے بعد بھی اس شعبہ میں استاذ متفرغ کی حیثیت سے وہ برقرار رہے۔
ڈاکٹر صاحب اپنے علمی کمالات کی وجہ سے ملک و بیرون ملک کے مختلف علمی، ادبی اور تحقیقی اداروں، اکیڈمیوں اور کمیٹیوں کے رکن بنائے گئے، ۱۹۸۸ء سے وفات تک وہ مجمع اللغۃ العربیہ قاہرہ کے جنرل سکریٹری رہے، ان کی کئی کتابوں پر مصر کی علمی و ادبی اکیڈمیوں اور انجمنوں اور خود حکومت نے بھی ان کو ایوارڈ عطا کیے، ۱۹۸۲ء میں ان کو عربی ادب کا سب سے بڑا فیصل ایوارڈ ملا۔
۱۹۴۵ء میں ۳۶ برس کی عمر میں ان کی شادی بلقیس خانم سے ہوئی جو قاہرہ یونیورسٹی کی کلیۃ الآداب میں ان کی شاگرد رہ چکی تھیں، ان سے ایک صاحب زادے عاصم اور صاحبزادی رندہ پیدا ہوئیں، صاحبزادے قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ کرنے کے بعد انجینئرنگ کالج میں استاذ ہیں اور صاحبزادی میڈیکل کالج سے فارغ ہونے کے بعد اس میں استاذ ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے تلامذہ کی تعداد کثیر ہے، ان میں مصر ہی نہیں کئی اور ملکوں فلسطین، شام، اردن، عراق اور سوڈان کے بھی شاگرد ہیں، ہندوستان کے مولانا محمد یوسف کو کن مدراسی کو بھی ان سے شرف تلمند حاصل تھا، انہیں ۱۹۵۷ء۔ ۱۹۵۸ء میں حکومت ہند کے وظیفے پر قاہرہ یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا تو ڈاکٹر شوقی ان کے استاذ اور تحقیقی مقالے کے نگراں ہوئے، مولانا یوسف مرحوم ایک سامع طالب علم کی حیثیت سے ان کی کلاسوں میں حاضر ہو کر ان سے استفادہ کرتے تھے، جب مولا یوسف نے ان سے اپنے اس ارادے کا ذکر کیا کہ وہ مولانا باقر آگاہ ویلوری مدراسی (م۱۲۲۰ھ؍ ۱۸۰۵ء) یا مولانا غلام علی آزاد بلگرامی (م۱۲۰۰ھ؍ ۱۷۸۵ء) پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے فرزدق اور اس کے شعر و ادب پر مقالہ لکھنے کا مشورہ دیا، چنانچہ موصوف نے پانچ مہینوں میں فرزدق پر بہت سارا مواد اکٹھا کیا لیکن اس کے بعد مصر چھوڑنے کا وقت آگیا اور وہ اپریل ۱۹۵۸ء میں ہندوستان واپس آگئے، مصر سے روانگی کے وقت ڈاکٹر صاحب نے انہیں یہ تحریر مرحمت کی:
’’قاہرہ یونیورسٹی کی کلیۃ الآداب اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سید محمد یوسف کوکن استاذ اردو مدراس یونیورسٹی ہندوستانی حکومت کے مبعوث ہوکر یہاں آئے اور مارچ ۱۹۵۷ء سے مارچ ۱۹۵۸ء کے اوایل تک شعبہ عربی کے بی اے اور ایم اے درجات میں استاذوں کی درس میں مسلسل شریک ہوکر مستفید ہوئے اور ڈاکٹر شوقی ضیف استاذ ادب عر بی کی نگرانی میں عربی ادب میں بحث و تحقیق کا کام بھی کرتے رہے، انہوں نے اموی عہد کے مشہور شاعر فرزدق کے بارے میں مفید اور عمدہ تحقیقات کی ہیں اور بڑی باریک بینی سے فرزدق کے مطبوعہ دیوان کا عالمانہ مقابلہ ان قلمی نسخوں سے کیا ہے جو قاہرہ کے مصری کتب خانے میں موجود تھے، اس کے علاوہ فرزدق کے اشعار میں جن اشخاص و اعلام کا ذکر ہے ان کی تحقیق اور چھان بین بھی کی ہے، ان کی بحث و تحقیق عربیت سے ان کی واقفیت کی دلیل اور نصوص و متون کی تحقیق و تدوین میں مہارت کا ثبوت ہے، انہیں اپنی تحقیق و مطالعہ کا کام برابر جاری رکھنا چاہیے‘‘۔
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کا دستخط اور مہرثبت ہے جس پر ۳؍ مارچ ۱۹۵۸ء کی تاریخ درج ہے مگر مولانا محمد یوسف صاحب ہندوستان آنے کے بعد درس و تدریس اور دوسرے علمی و تصنیفی کاموں میں ایسا مشغول ہوئے کہ فرزدق اور اس کی شاعری پر اپنے ادھورے کام کو مکمل نہیں کرسکے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ۱۹۸۲ء میں ڈاکٹر شوقی ضیف کو فیصل ایوارڈ ملا، اسی سال ان کے اس ہندوستانی شاگرد کو عربی کی مسلمہ قابلیت کا پریسیڈنٹ آف انڈیا کا ایوارڈ ملا۔
ڈاکٹر صاحب کے استاذوں کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں، ان میں ڈاکٹر طہٰ حسین، ڈاکٹر احمد امین، ڈاکٹر مصطفےٰ عبدالرزاق اور ڈاکٹر عبدالوہاب عزام سے وہ زیادہ متاثر تھے، قدما میں ثعالبی کے بھی مداح تھے اور اپنے اسلوب تحریر کو جاحظ کے طرز و اسلوب جیسا بتاتے تھے۔
گو وہ ڈاکٹر طہٰ حسین کے زیادہ عقیدت مند تھے تاہم کہیں کہیں ان سے ان کو اختلاف بھی تھا، امیر الشعرا احمد شوقی پر طہٰ حسین کی رائے پر نقد کیا ہے۔
ڈاکٹر شوقی ضیف کثیر التصانیف اور کبارمصنفین میں تھے، ان کی تالیف و تصنیف کا آغاز طالب علمی کے زمانے ہی میں ہوگیا تھا، ۱۳؍ ۱۴؍ برس کی عمر میں ابن ہشام کی نحو کی کتاب قطر الندی وبل الصدی کا ملخص تیا ر کیا تھا اور ۱۹ برس کی عمر میں تفسیر مجموعۃ من اجزاء القرآن کے نام سے دوسری کتاب لکھی جو کشاف و بیضاوی کا التقاط ہے۔
طالب علمی ہی کے زمانے میں انہوں نے مقالہ نگاری بھی شروع کردی تھی، ان کا پہلا مضمون مجلہ الرسالہ میں ۸؍ جنوری ۱۹۳۴ء کو ’’الوضوح والغموض فی الشعر‘‘ کے عنوان سے چھپا، یہ مصر کا اہم ہفتہ وار ادبی مجلہ تھا، اس میں جب ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹر طہٰ حسین، عقاد اور احمد امین جیسے اہل قلم کے ساتھ اپنا نام چھپا ہوا دیکھا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی، اس سے ان کا حوصلہ اتنا بڑھا کہ فوراً دوسرا مضمون ’’ماھیۃ الشعر‘‘ کے نام سے لکھا جو اسی مجلے کے اگلے شمارے میں ۱۵؍ جنوری کو چھپا، اس کے بعد اور بھی مضامین لکھے اور ان کا اور کتابوں کا تاعمر انبار لگاتے رہے، ذیل میں ان کی اہم تصنیفات کے نام اور کچھ مزید اطلاعات پیش کی جاتی ہیں، ڈاکٹر صاحب کی سب سے اہم اور معرکہ آرا کتاب تاریخ الادب العربی ہے جو نو جلدوں اور کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہے، ہر ہر جلد کی الگ الگ تفصیل ملاحظہ ہو:
۱۔ جلد اول: اس میں جاہلی عہد کا ذکر ہے، یہ پہلی دفعہ قاہرہ کے دارلمعارف سے ۱۹۶۰ء میں شایع ہوئی تھی اور پھر وہیں سے ۱۹۹۷ء میں اس کا انیسواں اڈیشن نکلا ہے جو ۴۳۶ صفحوں پر مشتمل ہے۔
۲۔ جلد دوم: اس میں اسلامی عہد کا ذکر دو حصوں میں کیا گیا ہے، پہلے حصے میں اسلام کے ابتدائی دور یعنی عہد رسالت اور خلافت راشدہ کی ادبی تاریخ قلم بند کی گئی ہے اور دوسرے حصے میں اموی دور کا تذکرہ ہے، اس کا پہلا اڈیشن ۱۹۶۳ء میں دارالمعارف قاہرہ سے نکلا تھا اور وہیں سے ۱۹۹۷ء میں سترہواں اڈیشن نکلا، یہ ۴۶۱ صفحے ہے۔
۳۔ جلد سوم: اس میں خلافت عباسیہ کے دور اول کی ادبی تاریخ بیان کی ہے، جس کا پہلا اڈیشن دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۹۶ء میں نکلا اور ۱۹۹۷ء میں وہیں سے چودہواں اڈیشن نکلا، اس کے صفحے ۵۷۶ ہیں۔
۴۔ جلد چہارم: یہ خلافت عباسیہ کے دوسرے اور آخری دور کی ادبی تاریخ ہے، اس کا پہلا اڈیشن دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۷۳ء میں اور نواں اڈیشن وہیں سے شایع ہوا، صفحوں کی تعداد ۶۶۰ ہے۔
۵۔ جلد پنجم: اس کا نام عصر الدول و لامارات رکھا اور یہ بجائے خود کئی جلدوں میں ہے، اس حصے میں جزیرۂ عرب، عراق و ایران کی مختلف ریاستی حکومتوں اور سلطنتوں کے دور میں عربی ادب کی تاریخ کا تذکرہ ہے، اس کا پہلا حصہ ۱۹۸۰ء میں اور تیسرا ۱۹۹۷ء میں دارالمعارف قاہرہ سے شایع ہوا اور ۶۸۸ صفحوں پر مشتمل ہے۔
۶۔ جلد ششم: یہ بھی عصر الدول والامارات ہی کا حصہ ہے اور اس میں شام و مصر کے عربی ادب کی تاریخ ہے، اس کا پہلا اڈیشن ۱۹۸۲ء میں اور تیسرا ۱۹۹۷ء میں دارالمعارف قاہرہ سے نکلا، اس کے صفحات ۸۴۶ ہیں۔
۷۔ جلد ہفتم: یہ بھی سلسلۂ دول و امارات کی کڑی اور اندلس کی تاریخ ادب عربی ہے، اس کا پہلا اڈیشن ۱۹۸۹ء اور دوسرا ۱۹۹۷ء میں دارالمعارف قاہرہ سے نکلااور ۵۵۲ صفحوں پر مشتمل ہے۔
۸۔ جلد ہشتم: یہ دول و امارات کے سلسلے کی چوتھی جلد ہے جس میں لیبیا، تونس اور صقلیہ کی تاریخ ادب عربی تحریر کی گئی ہے، اس کا پہلا اڈیشن دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۹۲ء میں نکلا تھا جو ۴۴۶ صفحوں پر مشتمل ہے۔
۹۔ جلد نہم: یہ بھی اسی سلسلے کی تاریخ ادب ہے، جس میں الجزائر، مغرب اقصی، مورتیانیا اور سوڈان کا ذکر ہے، اس کا پہلا اڈیشن دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۹۵ء میں نکلا اور ۷۰۶ صفحے کا ہے۔
مولانا محمد یوسف کو کن کی نظر سے ڈاکٹر شوقی ضیف کی تاریخ ادب عربی کی صرف ۵ جلدیں گزری تھیں، ان کا مبسوط تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ عربی ادب کی جو تاریخیں لکھی گئی ہیں، ان میں اس سے زیادہ مفید اور بہتر کوئی کتاب نہیں، موادو معلومات کی کثرت کے لحاظ سے یہ ان سب سے فایق ہے۔
۱۰۔ فصول فی الشعر و نقدہ: پہلی مرتبہ دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۷۱ء میں چھپی اور وہیں سے تیسری بار ۱۹۸۸ء میں شایع ہوئی اور ۳۶۸ صفحات پر مشتمل ہے، اس میں مختلف پہلوؤں سے عربی شاعری کا تحلیلی نقد کیا ہے جیسے عربی ورثہ کی قدر و قیمت، عربی شاعری کی غنائیت و موسیقی، شاعری کے مضامین و ہیئت، عباسی دور کے شعرا کی جدتیں، متنبی کی شاعری میں عربیت، ابوالعلا کی شاعری میں فلسفیانہ تفکر، عربی شاعری کی تاریخ میں اندلس کا تشخص و امتیاز، ابن سناء الملک کی شاعری میں مصری روح، ابن الفارض کے روحانی مجاہدات، بوصیری کی نعتوں میں حقیقت محمدی، گزشتہ صدی کی مصری شاعری میں صنایع، نئی عربی شاعری کے تغیرات، آزاد شاعری میں وزن کی شکست و ایقاع، حال کی شاعری کا ماضی سے رشتہ، جدید عربی شاعری میں شوقی کا درجہ و مرتبہ، حافظ کی شاعری کا تاریخی مطالعہ۔
۱۱۔ دراسات فی الشعر العربی: اس کا پہلا اڈیشن قاہرہ کے مکتبہ خانجی سے ۱۹۵۳ء میں نکلا اور ساتواں دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۹۷ء میں طبع ہوا، یہ ۲۹۲ صفحات پر مشتمل ہے، اس میں مندرجہ ذیل کو موضوع بنایا ہے:
حافظ ابراہیم کی شاعری میں وطنیت، اسماعیل صبری کے تغزل میں رقت و گداز، احمد محرم کی اسلامی الیڈ، رصافی کی شاعری میں انسانیت اور انسان دوستی، زہاوی کی شاعری کا علمی رنگ، عقاد کی ’’عابر سبیل‘‘ (مسافر) میں روزمرہ کے مسایل و موضوعات، عبدالرحمان شکری کی شاعری میں بدشگونی، خلیل مطران کی شاعری میں آزادی کے نغمے، شابی کے اشعار میں احساسِ درد و الم کی شدت، ابوشبکہ کی نظم ’’افاعی الفردوس‘‘ میں چیخ کی لذت، ایلیاابی ماضی کی شاعری میں فال، علی محمود طہٰ کے یہاں چیخنے اور گونجنے والے الفاظ، میخاییل نعیمہ کی ’’ھمس الجفون‘‘ میں نفسیاتی تاملات، ابوریشہ کی شاعری میں پیکر تراشی، امریکی مہجری شاعری میں مشرقیات کی جھلک۔
۱۲۔ البلاغۃ تطور و تاریخ: اس کا پہلا اڈیشن دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۶۵ء میں طبع ہوا اور ۱۹۹۷ء میں وہیں سے نواں اڈیشن نکلا، یہ ۳۸۴ صفحے کی کتاب ہے، اس میں جاہلی اور اسلامی دور میں فن بلاغت کی نشووارتقا اور عہد بہ عہد ترقی دکھائی ہے اور فن کے اور ممتاز اہل کمال کا تذکرہ کیا ہے۔
۱۳۔ الفن و مذاھبہ فی النثرالعربی: اس کو پہلی مرتبہ لجنتہ التالیف و الترجمہ والنشر قاہرہ نے ۱۹۴۶ء میں اور آخر میں بارہواں اڈیشن دارالمعارف قاہرہ نے ۱۹۹۷ء میں شایع کیا، یہ ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
۱۴۔ الفن و مذاھبہ فی الشعر العربی: اس کی پہلی اشاعت قاہرہ کی لجنتہ التالیف و الترجمہ والنشرنے ۱۹۴۳ء میں کی تھی اور دارالمعارف قاہرہ سے بارہواں اڈیشن ۱۹۹۷ء میں نکلا، یہ ۵۲۴ صفحے کی کتاب ہے، یہ ان کے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تھا، جس پر جامعہ قاہرہ نے جو اس وقت جامعہ فواد قاہرہ کہلاتا تھا، شرف و امتیاز کے ساتھ ڈگری عطا کی تھی اور جب یہ کتاب ۱۹۴۳ء میں شایع ہوئی تو مجمع الغتہ العربیہ نے ۱۹۴۷ء میں انہیں انعام بھی دیا۔
۱۵۔ الادب العربی المعاصر فی مصر: پہلا اڈیشن ۱۹۵۷ء دارالمعارف قاہرہ سے اور وہیں سے ۱۹۹۵ء میں گیارہواں اڈیشن نکلا، یہ کتاب ۳۱۰ صفحے کی ہے، اس میں ۱۸۵۰ء سے ۱۹۵۰ء یعنی سوبرس تک کے مصری شعرا اور شعری موثرات و عوامل کا تذکرہ ہے، اس میں مذکور چند مشاہیر شعرا کے نام یہ ہیں، بارودی، حافظ ابراہیم، شوقی، مطران، عبدالرحمان شکری، عباس محمود عقاد، ابراہیم ناجی اور علی محمود طہٰ، نثر نگاروں کے نام یہ ہیں:
محمد عبدہ، منفلوطی، مویلحی، لطفی السید، مازنی، ہیکل، طہٰ حسین، توفیق الحکم اور محمود تیمور۔
۱۶۔ شوقی شاعر العصر الحدیث: اس کا پہلا اڈیشن ۱۹۵۳ء میں اور تیرہواں اڈیشن ۱۹۹۷ء میں دارالمعارف قاہرہ سے نکلا جو ۲۸۶ صفحوں میں ہے۔
۱۷۔ البارودی رائد الشعرالعربی الحدیث: طبع اول ۱۹۶۴ء میں اور طبع خامس (پنجم) ۱۹۷۱ء میں دارالمعارف قاہرہ سے نکلا جو ۲۳۲ صفحوں میں ہے۔
۱۸۔ البحث الادبی۔ طبیعتہ ومناھجہ واصولہ و مصادرہ: دارالمعارف قاہرہ سے پہلا اور ساتواں اڈیشن ۱۹۷۲ء اور ۱۹۹۷ء میں نکلا، یہ کتاب ۲۸۰ صفحے کی ہے۔
۱۹۔ الشعر وطوابعہ الشعبیۃ علی مرالعصور: دارالمعارف قاہرہ سے پہلا اڈیشن ۱۹۷۶ء میں اور دوسرا ۱۹۸۴ء میں نکلا، صفحات ۲۵۶ ہیں۔
۲۰۔ تجدیدالنحو: دارالمعارف قاہرہ سے پہلا اڈیشن ۱۹۸۲ء میں اور چوتھا اڈیشن ۱۹۹۷ء میں نکلا، صفحوں کی تعداد ۲۸۲ ہے۔
۲۱۔ النقدالعربی: دارالمعارف قاہرہ سے پہلی دفعہ ۱۹۶۲ء میں اور آٹھویں دفعہ ۱۹۹۷ء میں چھپی، یہ ۲۵۰ صفحوں پر مشتمل ہے۔
۲۲۔ المدارس النحویہ: دارالمعارف قاہرہ سے پہلی بار ۱۹۶۸ء میں اور ساتویں بار ۱۹۹۷ء میں چھپی، ۳۷۸ صفحے کی کتاب ہے، اس میں نحو کے مختلف اسکولوں کے خصایص بیان ہوئے ہیں اور مشاہیر نحویوں کا تذکرہ ہے۔
۲۳۔ التطور والتجدید فی الشعر الاموی: پہلا اڈیشن لجنتہ التالیف و الترجمہ والنشر قاہرہ سے ۱۹۵۲ء میں اور دسواں اڈیشن دارلمعارف قاہرہ سے ۱۹۹۷ء میں نکلا، یہ ۳۴۰ صفحے کی کتاب ہے۔
۲۴۔ الشعر والغنافی المدینۃ و مکۃ لعصر بنی امیہ: اس کا پہلا اڈیشن دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۵۲ء میں اور وہیں سے ۱۹۹۷ء میں پانچواں اڈیشن بھی نکلا، یہ ۳۳۶ صفحے پر مشتمل ہے۔
۲۵۔ المقامہ: یہ ۱۰۸ صفحات پر مشتمل ہے، پہلی مرتبہ ۱۹۵۴ء اور پانچویں مرتبہ ۱۹۸۰ء میں دارالمعارف قاہرہ سے طبع ہوئی۔
۲۶۔ مجمع اللغۃ العربیۃ فی خمسین عاما: پہلی بار ۱۹۸۴ء میں قاہرہ کی مجمع اللغتہ العربی سے شایع ہوئی اور ۲۱۲ صفحوں پر مشتمل ہے۔
۲۷۔ تیسیرالنحوالتعلیمی (قدیما وحدیثا مع نھج تجدیدہ): ۲۰۸ صفحات پر مشتمل ہے پہلی بار ۱۹۸۶ء میں اور دوسری بار ۱۹۹۷ء میں دارالمعارف قاہرہ سے شایع ہوئی۔
۲۸۔ تحریفات العلمیۃ للفصحی: دارالمعارف قاہرہ سے پہلی بار ۱۹۹۳ء میں شایع ہوئی اور ۲۰۳ صفحات پر مشتمل ہے۔
۲۹۔ الوجیز فی تفسیر القرآن الکریم : پہلا اڈیشن دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۹۶ء میں نکلا اور ۱۰۵۲ صفحات پر مشتمل ہے۔
۳۰۔ تیسیرات لغویۃ: ۱۹۹۶ء میں دارلمعارف قاہرہ سے پہلی بار طبع ہوئی اور ۲۰۰ کی ہے۔
۳۱۔ الحضارۃ الاسلامیۃ من القرآن والسنۃ: ۳۳۴ صفحات پر مشتمل ہے اور ۱۹۹۷ء میں دارالمعارف قاہرہ سے پہلی بار طبع ہوئی ۔
۳۲۔ سورۃ الرحمان وسورقصار: اس میں اپنے سورہ رحمان اور مختصر سورتوں کے مطالعہ کا حاصل پیش کیا ہے جو پہلی دفعہ ۱۹۷۱ء میں اور چوتھی دفعہ ۱۹۹۷ء میں دارالمعارف قاہرہ سے چھپی تھی، صفحات کی تعداد ۴۰۶ ہے۔
ان کی جو تصنیفات کسی سلسلے میں داخل ہیں، ان سے جن کے نام معلوم ہوسکے، وہ حسب ذیل ہیں:
۳۳۔ ابن زیدون: ۱۲۴ صفحے پر مشتمل ہے دارالمعارف قاہرہ سے پہلی دفعہ ۱۹۵۴ء میں اور گیارہویں دفعہ ۱۹۸۱ء میں طبع ہوئی۔
مذکورہ بالا کتاب سلسلۂ اعلام العرب کی ہے، فنون الادب العربی کے سلسلے کی مندرجہ ذیل کتابوں کے نام ملاحظہ ہوں:
۳۴۔ النقد: ۱۱۲ صفحات پر مشتمل ہے، یہ دارالمعارف قاہرہ سے پہلی بار ۱۹۵۵ء میں اور پانچویں بار ۱۹۸۴ء میں شایع ہوئی۔
۳۵۔ الرثاء: یہ بھی اسی سلسلے کی کتاب ہے اور ۱۱۲ صفحے پر مشتمل ہے، پہلی دفعہ ۱۹۵۵ء میں اور چوتھی دفعہ ۱۹۸۷ء میں دارالمعارف قاہرہ سے شایع ہوئی تھی۔
۳۶۔ الترجمۃ الشخصیۃ: یہ پہلی دفعہ ۱۹۵۶ء میں اور چوتھی دفعہ ۱۹۸۷ء میں دارالمعارف قاہرہ سے چھپی اور ۱۲۸ میں ہے۔
۳۷۔ الرحلات: یہ بھی سلسلہ فنون ادب عربی میں شامل اور ۱۲۸ صفحے کی ہے جو ۱۹۵۶ء میں پہلی بار اور ۱۹۸۷ء میں چوتھی بار دارالمعارف قاہرہ سے طبع ہوئی تھی۔
حسب ذیل کتابیں سلسلہ اقرأ میں داخل ہیں:
۳۸۔ الفکاھۃ فی مصر: دو بار ۱۹۵۸ء اور ۱۹۸۵ء میں دارالمعارف قاہرہ نے شایع کی ہے اور ۲۰۸ صفحوں پر مشتمل ہے۔
۳۹۔ مع العقاد: پہلا اڈیشن ۱۹۶۴ء میں اور پانچواں ۱۹۸۸ء میں دارالمعارف قاہرہ سے نکلا اور ۱۷۶ صفحات پر مشتمل ہے۔
۴۰۔ البطولۃ فی الشعر العربی: یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۶۹ء میں اور دوسری مرتبہ ۱۹۸۴ء میں دارالمعارف قاہرہ سے شایع ہوئی اور ۱۶۰ صفحے کی ہے، اس میں وہ قصاید و قطعات نقل کیے گئے ہیں جو جاہلی، اسلامی، رومی، صلیبی اور مغلوں کی جنگوں یا موجودہ دور میں حصول آزادی کے معرکوں میں کہے گئے تھے۔
۴۱۔ معی، ج۔۱: اس کا پہلا اڈیشن ۱۹۸۱ء میں اور دوسرا ۱۹۸۵ء میں قاہرہ کے دارالمعارف سے نکلا، یہ ۱۳۲ صفحے کا رسالہ ہے۔
۴۲۔ معی،ج۔۲: اس کا پہلا اڈیشن دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۸۸ء میں نکلا جو ۲۰۸ صفحات پر مشتمل ہے۔
جو کتابیں تحقیق و تحشیہ کے بعد ایڈٹ کرکے شائع کیں وہ یہ ہیں:
۴۳۔ تحقیق کتاب الرد علی النحاۃلابن مضاء القرطبی: اس کا پہلا اڈیشن دارالفکر العربی قاہرہ سے ۱۹۴۷ء میں نکلا اور تیسرا اڈیشن دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۸۸ء میں نکلا، یہ ۱۵۲ صفحے پر مشتمل ہے۔
۴۴۔ تحقیق خریدۃ القصرہ وجریدۃ العصر للعماد الاصفھانی الکاتب (قسم شعراء مصر): اس کا پہلا اڈیشن ۱۹۵۱ء میں قاہرہ کی لجنتہ التالیف و الترجمہ والنشر نے شایع کیا جو ۲۹۶ پر مشتمل تھا۔
۴۵۔ رسایل الصاحب بن عباد : ۱۹۴۷ء میں پہلی دفعہ دارالفکر العربی سے چھپا اور اب بازار سے غایب ہے۔
۴۶۔ المغرب فی حلی المغرب (الجزہ الاول) لابن سعید الاندلسی: دارالمعارف قاہرہ سے پہلی بار ۱۹۵۱ء میں اور اخیراً چوتھا اڈیشن ۱۹۹۷ء میں طبع ہوا اور ۴۶۸ صفحات پر مشتمل ہے۔
۴۷۔ ایضاً (الجزء الثانی): یہ حصہ پہلی بار مطبع جامعہ قاہرہ سے ۱۹۵۳ء میں چھپا اور اخیراً چوتھا اڈیشن دارالمعارف قاہرہ سے ۱۹۹۷ء میں نکلا اور ۵۷۲ صفحوں پر مشتمل ہے۔
یہ کتاب بلاد مغرب کی تاریخ ہے جو ابن سعید علی مغربی (۶۱۲ھ۔ ۶۸۶ھ؍ ۱۲۱۴ء۔ ۱۲۸۶ء) کی تصنیف ہے، مصنف مورخ اور شاعر تھے، وہ غرناطہ کے مضافات میں پیدا ہوئے اور تونس میں وفات پائی، ادب و تاریخ سے شغف تھا، اشبیلیہ میں تعلیم حاصل کی، حج بیت اﷲ کیا اور حلب، دمشق، موصل، بصرہ، ارمینیا گئے اور اسکندریہ اور تونس میں اقامت پذیر ہوئے، فاتح ہلاکو سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔
۴۸۔ نقط العروس فی تواریخ الخلفاء لابن حزم الاندلسی: یہ کئی جلدوں میں ہے، جزء ثانی ۱۹۵۱ء میں مطبع جامعہ فواد قاہرہ سے طبع ہوا تھا۔
۴۹۔ تاریخ آداب اللغۃ العربیہ لجرجی زیدان: اصل کتاب چار حصوں میں ہے، ڈاکٹر شوقی ضیف نے چاروں پر تعلیقات لکھ کر شایع کیا، اس کا پہلا اڈیشن دارالہلال قاہرہ سے ۱۹۵۷ء میں شایع ہوا۔
۵۰۔ الدررفی اختصار المغازی والسیرلا بن عبدالبر: پہلا اڈیشن ۱۹۶۶ء میں اور تیسرا اڈیشن ۱۹۹۷ء میں دارالمعارف قاہرہ سے نکلااور ۳۵۶ صفحوں پر مشتمل ہے۔
۵۱۔ التراث والشعر واللغۃ: دارالمعارف قاہرہ سے پہلی دفعہ ۱۹۸۷ء میں چھپی اور ۲۸۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ (ضیاء الدین اصلاحی، مئی ۲۰۰۵ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |