Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا شاہ ابرار الحق حقی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا شاہ ابرار الحق حقی
ARI Id

1676046599977_54338475

Access

Open/Free Access

Pages

702

آہ! حضرت مولانا شاہ ابرارالحق حقی ؒ
افسوس کہ مشہور عالم، مصلح و مربی مولانا شاہ ابرارالحق کا انتقال ہر دوئی میں ۱۶؍ مئی کی شب میں ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون، قریب ۹۰ سال کی عمر پائی، ان کی وفات سے دینی و علمی خصوصاً اصلاح و ارشاد کے حلقوں میں جو ماتم برپا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی رحلت سے قوم و ملت کو کس درجہ نقصان و حرمان کا احساس ہے۔
وہ حکیم الامت مولانا تھانویؒ کی بزم دوشیں کی آخری شمع تھے، مولانا تھانویؒ سے براہ راست اکتسابِ فیض کی نسبت ان کی دینی و اصلاحی خدمات کی عظمت و وسعت اور فیض یا فتگان کی بے مثال کثرت میں ہمیشہ برکت کا سبب بنی رہی، مولانا تھانویؒ کے متعلق اہلِ دل کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے ان کے زمانے کے باصلاحیت لوگوں کو ان کے گرد جمع فرما دیا تھا‘‘، اس کی تصدیق واقعتا حضرت تھانویؒ کے سینکڑوں خلفا اور ہزاروں مریدوں کے جایزے سے ہوتی ہے جن میں ہر شخص آفتاب و ماہتاب تھا، مولانا ابرارالحق صاحب خانقاہ تھانہ بھون سے بیت کی اجازت پانے والوں میں سب سے کم عمر تھے، مولانا تھانویؒ کی مشہور اصول پسندی اور صحبت و بیعت کی اجازت کے باب میں شدت احتیاط کے باوجود ایک نوعمر کو خلافت و اجازت عطا کیے جانے سے کم سن مرید کی صلاحیت و عظمت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جس کی بعد کی زندگی کے ہرنقش نے ثابت کیا کہ نگاہ مرشد کیسی جو ہر شناس تھی۔
مولانا ابرارالحق سے قبل ان کے والد ماجد مولوی محمودالحق حقی بھی مولانا تھانویؒ کے دست گرفتہ اور مجاز صحبت تھے، مولانا تھانویؒ نے ایک بار اپنے ملفوظات میں معاملات کو دین سے الگ سمجھنے اور رکھنے کی بابت فرمایا کہ ’’لوگوں نے تو معاملات کو دین سے الگ ہی سمجھ لیا ہے حتیٰ کہ علما تقریریں کرتے ہیں، وعظ کرتے ہیں لوگوں کو دین کی تعلیم کرتے ہیں مگر کہیں معاملات کا ذکر نہیں آتا‘‘ اس ضمن میں انہوں نے مولوی محمود الحق حقی کا حوالہ دیا کہ وہ ہردوئی سے آئے اور کہنے لگے ہیں آج کل تصانیف دیکھتا ہوں، ان میں نماز روزے کے تو مسائل ہوتے ہیں مگر معاملات کی صفائی کا ذکر نہیں، اس کی وجہ میری سمجھ میں یہی آتی ہے کہ جن کے معاملات خود صاف ہوں وہ دوسروں کو بھی تعلیم کرنے کی ہمت کرسکتے ہیں، آج کل کے لوگ جو دوسروں کو اس کی تعلیم نہیں کرتے تو اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ خود ان کے معاملات صاف نہیں، مولوی محمود الحق کی عقیدت اس سے بھی ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کے اصرار کے علی الرغم صاحبزادہ ابرارالحق کی شادی حضرت تھانویؒ کی منشا و مرضی کے مطابق ڈاکٹر احمد علی شاہ کی صاحبزادی سے کردی۔
مولوی محمودالحق خود معاملات کی صفائی اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھنے کے لیے شہرت رکھتے ہیں، وہ ایم اے او کالج کے تعلیم یافتہ اور ہردوئی کے مشہور اور کامیاب وکیل تھے، اپنے پیشے کی مصروفیت کے باوجود دینی اور فلاحی اور تعلیمی کاموں میں پیش پیش رہتے، انہوں نے ہردوئی میں انجمن اسلامیہ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا اور اسی وجہ سے وہ ہردوئی کے سرسید کہلاتے تھے، ایسے پاکیزہ ماحول میں مولانا ابرار الحق کی تربیت ہوئی، مولانا تھانویؒ ان کے گھر تشریف بھی لایا کرتے تھے، ۱۹۱۵؁ء میں ایک سفر میں مولانا تھانویؒ کے ایک مجاز بیعت شیخ ثامن علی سندیلوی کی پہلی ملاقات شیخ تھانویؒ سے یہیں ہوئی تھی، مولانا کے والد نے ہردوئی میں توطن اختیار کرلیا تھا، حالانکہ وہ میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے لیکن مولانا ابرارلحق صاحب کا مستقل قیام یہیں تھا، ان کے ایک خاص مقرب و مسترشد جناب مولانا تقی الدین ندوی مظاہری کا خیال ہے کہ ان کے خانو ادہ کا تعلق شیراز ہند جون پور سے بھی تھا، مولاناے ہردوئی کا سلسلہ نسب حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ سے جاملتا ہے، حقی کی نسبت اسی سبب سے ہے۔
مولانا ابرارلحق کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی، اس کے بعد وہ مظاہر علوم سہارن پور میں داخل ہوئے، ان کے اساتذہ میں مولانا مفتی محمود حسن کا نام بھی ملتا ہے جو ان کے اور قاری صدیق احمد باندویؒ کے استاذ تھے، ان میں طالب علمی کے زمانے سے ہی سعادت اور صالحیت کے آثار نمایاں تھے اورمدرسہ کے طلبہ کے علاوہ اساتذہ بھی ان کے طرز اور طور طریق سے متاثر تھے، والد ماجد کے تعلق اور اس سے زیادہ اپنی طبعی اور ذہنی مناسبت کی وجہ سے وہ ہر ہفتے سہارن پور سے تھانہ بھون پابندی سے جاتے، خصوصاً تعطیل کی فرصت میں وہ اپنا سارا وقت خانقاہ تھانہ بھون ہی میں گزارتے، ان کے احوال ظاہری و باطنی اپنی جانب مولانا تھانوی کی توجہ اور عنایت کو مبذول کرانے میں بہت معاون ثابت ہوئے، ۱۹۴۳؁ء میں مولانا تھانوی کا جب انتقال ہوا تو ان کی عمر تیس سال کے قریب تھی اور اس وقت وہ مولانا تھانویؒ کی خلافت و اجازت سے سرفراز ہوچکے تھے، تعلیم سے فراغت کے بعد وہ درس و تدریس کی خدمت میں مصروف ہوگئے اور اس کا ٓغاز فتح پور ہنسوہ کے مدرسہ اسلامیہ سے ہوا اور ایک روایت کے مطابق ان کو نامہ خلافت یہیں ملا تھا لیکن ان کی تمام دینی، اصلاحی اور تعلیمی سرگرمی کا مرکز ان کا آبائی وطن ہردوئی ہی رہا، یہیں انہوں نے مدرسہ اشرف المدارس کی بنیاد رکھی اور بعد میں اس مجلس دعوۃالحق کا احیا کیا جو اصلاً ان کے پیرو مرشد کی قائم کردہ تھی، اﷲ تعالیٰ نے تقوی کی بنیاد پر قائم ان اداروں کو غیر معمولی مقبولیت عطا کی، مدرسہ کی شہرت ملک گیر ہوئی اور مجلس کے اثرات خیر تو عالم گیر ہوئے، قرآن مجید کی تلاوت و تجوید میں صحت کا نہایت التزام ان کے مدرسے کا امتیاز تھا، مولانا کی تعلیمی و اصلاحی کاوشوں میں قرآن مجید سے تعلق اور تلاوت سے تفہیم تک ہر مرحلے پر خاص اہتمام سب سے نمایاں ہے اور اس تعلق بلکہ شیفتگی کا سررشتہ بھی حضرت تھانویؒ سے ملتا نظر آتا ہے جن کے حسن صوت اور فن تجوید میں مہارت سے وابستگان تھانہ بھون ناآشنا نہیں اور جو قرآن مجید کے ترجمے کو محقق استاذ کے ذریعہ اور بغیر کسی تفسیر کی مدد کے براہ راست پڑھنے کو مستقل مقصود قرار دیتے تھے، مولانا ابرارالحق نے عام اور مروجہ نورانی قاعدہ کو اسی لیے بڑی اہمیت دی، اس میں چند اصلاحات بھی فرمائیں، بنیاد پر اس قدر توجہ دینے کا ثمرہ یہ ہوا کہ ان کے مدرسہ کے فارغین اب اس باب میں بجائے خود سند کا درجہ رکھتے ہیں، قرآن مجید کے غیر معمولی اہتمام کے بعد شریعت و سنت کی حفاظت اور تتبع، حیات ابرار کا سب سے نمایاں باب ہے، انہوں نے کثرت سے سفر کیے، ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں نے ان سے فیض حاصل کیا، مریدین و مرشدین کی اس درجہ کثرت کی مثال کم ہی نظر آئے گی، سنت کی اس قدر پاسداری اور اس کی ترویج و اشاعت کی فکر کا سرچشمہ بھی دراصل مولانا تھانویؒ کا وہ معمل ہے جہاں ساری توجہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی محبت و اطاعت پر تھی اور جہاں سنت کی کامل پیروی کا نسخۂ کیمیا بڑی حکمت سے تیار کیا جاتا تھا، مولاناے ہردوئی کی صفات میں وقت کی اہمیت، نظافت و نفاست، اصول و ضوابط کی شدت اور علما کی قدر و منزلت کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے اور یہی محاسن سوانح حکیم الامت کے بھی روشن عناوین ہیں اپنے شیخ کا ایسا عکس جمیل خود مرید کی شفافیت کی دلیل ہے اور اصلاً یہ مصلح اعظم اور دانا و مولاے کلﷺکا اعجاز فیض ہے جو سیرت طیبہ اور سنتِ کاملہ کے ہر جویاے صادق کے لیے ہمیشہ جاری و ساری ہے، اولیا اﷲ کی قرآنی پہچان یہی ہے کہ وہ ایمان اور تقوی یعنی عمل صالح کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں۔ مولاناے ہردوئی کے بارے میں یہ شہادت ایک خلقت کی زبان سے ادا ہورہی ہے اس لیے اس یقین میں شک نہیں کہ جس طرح حیات دینوی میں بشری کی نعمت ان کے لیے ظاہر ہوئی، حیات اخروی میں بھی یہ بشارت و مژدہ ان کے لیے ہے، وما عنداﷲ خیرللا برار۔ [النساء:۱۹۸] ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، جون ۲۰۰۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...