Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > الحاج ابراہیم سلیمان سیٹھ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

الحاج ابراہیم سلیمان سیٹھ
ARI Id

1676046599977_54338476

Access

Open/Free Access

Pages

703

الحاج ابراہیم سلیمان سیٹھ
افسوس ہے کہ الحاج ابراہیم سلیمان سیٹھ ۲۷؍ اپریل کو دل کا دورہ پڑنے سے بنگلور میں وفات پاگئے اور وہیں ۲۸؍ اپریل کو ان کی تدفین ہوئی، اس وقت مسلمانوں کے جو گنے چنے سیاسی قاید اور ملی رہنما رہ گئے تھے، ان میں ابراہیم سلیمان بڑے مخلص اور قدآور تھے۔
تقسیم ہند کے بعد جب پورے ملک میں مسلمان شکستہ خاطر اور پست حوصلہ ہورہے تھے تو اس وقت الحاج مولوی محمد اسماعیل مرحوم نے انڈین یونین مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی اور مصالح و حالات کے تقاضے سے اس کا دائرہ عمل کیر الا تک محدود رکھا، بعد میں دوسرے صوبوں میں بھی اس کو وسعت دینے کی کوشش کی گئی مگر اس میں کامیابی نہیں ہوئی تاہم کیرالا میں انڈین یونین مسلم لیگ نے مسلمانوں کی ہمت و حوصلہ بلند کیا اور ان کا وزن و وقار باقی رکھا، یہاں اس کا زور و اثر اتنا بڑھا کہ کوئی حکومت اس کے اشتراک کے بغیر نہیں چل سکتی۔
الحاج ابراہیم سلیمان سیٹھ شروع ہی سے مولوی محمد اسماعیل مرحوم کے معتمد اور قریب ترین رفیق تھے، ان کی زندگی ہی میں سیٹھ صاحب مسلم لیگ کے جنرل سکریٹری ہوگئے تھے اور ان کی وفات کے بعد اس کی مسند صدارت کو رونق بخشی، ان کی قیادت میں مسلم لیگ بڑی متحرک اور سرگرم رہی، اس کی کامیابی اور اترپردیش میں مسلم مسائل سے کانگریس کی سرد مہری اور متعصبانہ رویہ دیکھ کر مرحوم ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کو یہاں بھی مسلم مجلس قائم کرنے کا خیال ہوا لیکن ڈاکٹر صاحب کی بے وقت موت، اترپردیش کے سیاسی حالات کی پیچیدگی اور خود مسلم مجلس کی تقسیم در تقسیم کی وجہ سے مسلم مجلس کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکی۔
یہ مسلمانوں کی بڑی بدنصیبی ہے کہ جب ان کی کوئی تنظیم برگ و بار لاتی ہے تو وہ اپنوں کے عدم اخلاص و انشقاق اور اغیار کی سازشوں سے متفرق اور پراگندہ ہوجاتی ہے، سیٹھ صاحب جیسے مخلص اور بے لوث رہنما کو بھی آخر عمر میں یہی صدمہ اٹھانا پڑا اور وہ انڈین نیشنل لیگ قائم کرنے کے لیے مجبور ہوئے جس کے تا عمر وہی صدر رہے۔
ابراہیم سلیمان سیٹھ کے تعلقات اختلاف کے باوجود کانگریس کے لوگوں سے اچھے تھے اور وہ بھی سیٹھ صاحب کو سچا محب وطن سمجھتے تھے مگر ۱۹۹۲؁ء میں جب بابری مسجد کا انہدام ہوا تو وہ کانگریس سے سخت متنفر ہوگئے اور جب وزیراعظم نرسمہاراؤ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو مسلم لیگ کے ایک گروہ نے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا مگر سیٹھ صاحب نے حکومت کے خلاف ووٹ دیا، ان کی ایمانی حمیت اور ملی غیرت اصولوں اور مسلم مفادات پر کبھی کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوئی، ان کی پوری پارلیمانی زندگی مسلمانوں کے آئینی و دستوری حقوق و مفادات کے تحفظ میں گزری، صاف گوئی اور حق گوئی ان کا طرۂ امتیاز تھا، وہ ایک جری اور بے باک قاید تھے، پارلیمنٹ میں مسلم مسائل اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں پر ہمیشہ نہایت پرزور آواز بلند کرتے رہے۔
ان کی پارلیمانی زندگی کا آغاز راجیہ سبھا کی ممبری سے ہوا، پھر وہ مسلسل سات آٹھ بار لوک سبھا کے لیے منتخب ہوتے رہے جو اپنے آپ میں ایک مثال اور سیٹھ صاحب کی مقبولیت کا ثبوت ہے، وہ مسلمانوں کی مختلف دینی، ملی اور سماجی اداروں اور تنظیموں کے متحرک اور فعال رکن تھے، اپنی طویل سیاسی، سماجی اور ملی خدمات کی وجہ سے پورے ملک اور خاص طور پر کیرالا میں بڑی قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
ان سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی مرحوم کے ساتھ مسلم مجلس کے تعارف و توسیع کے لیے اترپردیش کا دورہ کرتے ہوئے دارالمصنفین اعظم گڑھ تشریف لائے، دوسری بار ان کا دورہ مسلم لیگ کی شاخیں قائم کرنے کے لیے ہوا تو اعظم گڑھ بھی آئے اور شہر میں جلسہ عام ہوا لیکن پریس کانفرنس کا پروگرام دارالمصنفین میں تھا، اس وقت ان کے زورِتقریر، حاضر جوابی، قوم و وطن اور مسلمانوں کے مسائل سے ان کی گہری واقفیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کا پورا اندازہ ہوا، تیسری بار ۱۹۹۲؁ء میں حج بیت اﷲ میں ان کا ساتھ ہوا، رابطہ عالم اسلامی کی دعوت پر یہ سفر ہوا اور مسجد خیف کے پاس پہاڑی پر رابطہ کے مبنی میں ان کے ساتھ ہی مقیم تھا، یہاں شب و روز ان کا ساتھ رہا، نمازوں، ارکان حج کی ادایگی اور کھانے پینے میں برابر ساتھ رہتا، وہ بڑھاپے میں ہم لوگوں سے زیادہ چاق و چوبند اور عبادت میں مستعد تھے، اخباری نمائندے اور ریڈیو والے آتے اور فرداً فرداً سب سے سوالات کرتے، ہم لوگ اپنی جان بچانے کے لیے سیٹھ صاحب کو آگے کردیتے، مکہ میں مقیم کیرالا کے مختلف طبقوں کے لوگ بھی بڑی تعداد مین ان سے ملنے اور ان کے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے اپنے نجی معاملات میں مدد کے طالب ہوتے، اس سے بھی ان کی مقبولیت کا پتا چلتا تھے۔
سیٹھ صاحب بڑے باغ و بہار، شگفتہ مزاج اور بے تکلف شخص تھے، اس سفر میں ان کی ایمانی و ملی حمیت و غیرت، شرافت، درد مندی، حسن خلق، منکسر المزاجی، ایثار اور اخلاص کے جو جلوے دیکھے ان کی چمک سے دل اب تک روشن اور گرم ہے، ان کی وفات سے ملی و سیاسی میدان میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا مشکل ہے، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ملک و قوم کو ان کا بدل عطا کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، جولائی ۲۰۰۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...