Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ملک فہد بن عبدالعزیز

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ملک فہد بن عبدالعزیز
ARI Id

1676046599977_54338478

Access

Open/Free Access

Pages

704

آہ ! پاسبان حرم ملک فہد
یکم اگست کو دنیائے اسلام پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ ملک فہد بن عبدالعزیز سعودی حکومت کا تاج و تخت چھوڑ کر اس ملک الملوک کی بارگاہ کبریا میں پہنچ گئے جس کے ملک و سلطنت کو کبھی زوال نہ ہوگا اور وہ ہمیشہ قائم و باقی رہے گا، کل من علیھا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ [الرحمن:۲۶۔۲۷]
وہ ۱۹۹۵؁ء ہی سے بیمار چل رہے تھے، ان کی معذوری کی وجہ سے حکومت کا کاروبار بڑی حد تک ان کے بھائی اور ولی عہد عبداﷲ بن عبدالعزیز انجام دینے لگے تھے، اس سال ملک فہد کی بیماری نے شدت اختیار کرلی تو ۲۷؍ مئی ۲۰۰۵؁ء کو ریاض کے خاص شاہ فیصل اسپتال میں علاج کے لیے داخل ہوئے، مرض میں تخفیف و اضافہ ہوتا رہتا تھا، آخر یکم اگست بروز دوشنبہ داعی اجل کا پیغام آگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
عالم اسلام اور پوری دنیا کے مسلمان ان کے انتقال سے غم زدہ اور سوگوار ہیں، ان کی ذات بڑی فیض بخش تھی، اور ان کے دریائے کرم اور جودوسخا کی بارش عام تھی، اس لیے ان کے غم میں سب کی آنکھیں اشک بار ہیں، ع عمت فواضلہ فعم مصابہ
اب ان کے بھائی عبدالعزیز نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ہے، اور لوگوں نے ان سے بیعت کرلی ہے، انہوں نے اپنے بھائی سلطان بن عبدالعزیز کو ولی عہد مقرر کیا ہے جو اس وقت تک دفاع اور سیاحت کے وزیر تھے، اﷲ تعالیٰ ان کو اپنی بھاری ذمہ داری اٹھانے کی قوت دے اور ان کی مدد کرے، ملک فہد کی تدفین منگل کے روز ۲؍ اگست کو ہوئی جس میں دنیا کے اکثر ملکوں کے سربراہوں اور نمائندوں نے شرکت کی، ہندوستان سے بھی ایک وفد جنازے میں شریک ہوا تھا۔
ملک فہد ۱۹۲۳؁ء میں پیدا ہوئے، ۲۷ برس کی عمر میں حکومت کے بعض عہدے اور ذمہ داریاں ان کو سپرد کی گئیں، ۱۹۵۳؁ء میں انہیں سعودی عرب کا پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا، اس سے پہلے ملک کی تعلیمی حالت بہتر نہیں تھی، انہوں نے ہمہ گیر نظام تعلیم قائم کر کے اپنی غیر معمولی لیاقت و قابلیت اور خوش انتظامی کا ثبوت دیا، محکمہ تعلیم میں متعدد اصلاحات کیں، تعلیم کو فروغ دیا، عصری اور پرفیشنل تعلیم کو رواج دیا، جن سے دوسرے ممالک کے طلبہ بھی مستفید ہورہے ہیں، پہلے درس گاہوں کی تعداد بہت کم تھی، ان کے دور میں ۷ یونیورسٹیاں ۸۳ کالج اور ۱۸ ہزار اسکول قائم ہوئے، جن میں ۳۵ لاکھ طلبہ تعلیم پارہے ہیں، شہروں کی طرح دیہاتوں کے لوگوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔
۱۹۶۲؁ء میں انہیں وزارت داخلہ سپرد کی گئی، ۱۹۷۵؁ء میں ملک فیصل کے بے رحمانہ قتل کے بعد جب ملک خالد سربراہ مملکت ہوئے تو یہ ولی عہد مقرر کئے گئے ۱۹۸۲؁ء میں ملک خالد کی وفات کے بعد ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آگئی، ڈپٹی پرائم منسٹر بھی رہے، بیچ بیچ میں وزارت کی ذمہ داریاں بھی انجام دیں اور بعض ملکوں میں ہونے والی تقریبات اور میٹنگوں میں سعودی عرب کی نمائندگی کی۔
ملک فہد کی حکومت کے زمانے میں سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال تھا، انہوں نے اس کے اور بعض دوسرے رونما ہونے والے واقعات اور پیچیدہ مسائل کی گتھیاں ہوش مندی اور تدبیر سے سلجھائیں، ان کے دور میں ملک میں خوش حالی آئی، تعمیر و ترقی اور رفاہ عام کے گوناگوں کام انجام پائے، سفر کی سہولت کے لیے وسیع اور کشادہ سڑکوں کا جال بچھا دیا، ٹریفک کی وجہ سے زمین دوز راستے اور سرنگیں تعمیر کرائیں، عرب جیسے بے آب و گیاہ ملک میں بجلی اور پانی کی ایسی فراوانی ہے کہ ہندوستان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کا نظام بہتر سے بہتر کرادیا، علاج کے لیے شفاخانے تعمیر کرائے، ملک کی معیشت کو ٹھوس اور بہتر بنانے کے لیے متعدد مفید اقدامات کئے، کرنسی کو گرنے اور افراط زر کا اثر نہیں آنے دیا، انڈسٹریاں قائم کیں، بینکنگ سسٹم کو رائج کیا، زراعت و تجارت کو فروغ دیا، تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا، ملک کو خوش حال، ترقی یافتہ، پرامن اور فلاحی اسٹیٹ بنانے کے لیے مختلف منصوبے اور اسکیمیں بنائیں، اس کا دفاعی اور حفاظتی نظام مستحکم کیا، شہروں کی تزیین و آرائش کا اہتمام کیا، جدہ کو بہت خوبصورت شہر اور ایسا مارکیٹ بنایا جہاں ضرورت کی ہر چیز مناسب قیمت پر مل سکتی ہے، غرض سعودی عرب کو مشرقِ وسطیٰ کا سب سے ترقی یافتہ اور جدید طرز کا ملک بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
ملک فہد کا سب سے زریں کارنامہ حرمین شریفین کی تعمیر میں توسیع و تزیین ہے، حرم کی توسیع دوبارہ کراچکے تھے، اور اب تیسری بار بھی ان ہی کے حکم سے توسیع کا کام شروع ہوا ہے، حرمین کی صفائی، ستھرائی اور نظافت کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ کہیں ایک تنکا بھی نظر نہیں آتا، حجاج کو راحت و سہولت بہم پہنچانے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھتے تھے، ان کی سہولت کے لیے قرآن مجید کے نسخے اور ٹھنڈے آبِ زمزم کے برتن مناسب جگہوں پر بڑے سلیقے سے رکھے ہوئے ہیں، عالم اسلام کے بہت سارے لوگوں کو سعودی عربیہ اور اس کے مختلف اداروں کی جانب سے حج کرانے کے لیے مدعو کرتے اور انہیں اپنا میزبان بناتے، اکثر ممتاز لوگوں کی ضیافت شاہی محل میں کراتے اور انہیں ملاقات کا شرف بخشتے۔
ملک فہد کا ایک بڑا کارنامہ قرآن مجید کے نسخوں کی عمدہ اور خوب صورت طباعت اور مختلف زبانوں میں ان کے ترجموں کی اشاعت ہے، جن کو ہر ہر ملک میں تقسیم کرانے کا اہتمام کیا، خوب صورت اور پاکیزہ مسجدیں بھی پورے سعودی عرب اور بلاد اسلامیہ میں تعمیر کرائیں، ان کی توجہ سے خاص طور پر مغربی ملکوں میں اذانوں کی آوازیں گونجنے لگیں، مغربی ملکوں اور اکثر دوسرے ملکوں کے مدارس کی وہی سرپرستی فرماتے تھے، اور ان کے اخراجات کے متکفل ہوتے تھے، دنیا کا کوئی ملک قدرتی آفات میں مبتلا ہوتا تھا تو وہ اس کی دل کھول کر مدد کرتے تھے، خدمت خلق میں ان کو لطف ملتا تھا، نہ صرف سعودی عرب بلکہ دنیا بھر کے ملکوں کے غریب اور نادار مسلمانوں کے لیے ان کا دریائے کرم ہمیشہ بہتا رہتا تھا۔
ملک فہد پر آئندہ کتابیں لکھی جائیں گی تو ان کی سیرت و کردار کی عظمت اور تدین اور پاک بازی کے جلوے بھی سامنے آئیں گے، حکومت کے ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز ہونے سے پہلے ممکن ہے ان میں شاہانہ خوبور ہی ہو مگر حکومت کا کاروبار سنبھالنے کے بعد شاہانہ جاہ و جلال اور رعونت کا کوئی اثر ان کی زندگی میں نہیں دکھائی دیتا، وہ نہایت متواضع اور عجز و انکسار کے خوگر تھے، اپنے کو خادم الحرمین الشریفین کہلانا پسند کرتے تھے، عام بادشاہوں کی طرح ان میں مطلق العنانی بالکل نہیں تھی، صرف مملکت کی فلاح و بہود، سعودی عرب کے عوام کی خدمت اور نفع رسانی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی امداد و اعانت ان کے پیش نظر رہتی تھی، وفات کے بعد بھی ان کا کوئی سوگ نہیں منایا گیا، معمولی آدمیوں کی طرح عام قبرستان میں دفن کئے گئے۔
ملک فہد اور آل سعود دین داری، عقاید کی پختگی، تصور توحیدی کی صحت، کفر و شرک کی بیزاری اور بدعات و محدثات سے اجتناب کے لیے مشہور ہیں، محمد بن سعود کا تعلق مشہور مصلح و داعی شیخ عبدالوہاب نجدی سے تھا، شیخ نے جس زمانے میں توحید خالص اور احیائے سنت کی تحریک شروع کی، اس زمانے میں نجد کے امیر محمد بن سعود تھے، انہوں نے شیخ کی اصلاحی تحریک کا پورا ساتھ دیا اور جب تمام عرب ان کے زیر اقتدار آگیا تو توحید خالص اور دین صحیح کا وہاں غلغلہ مچ گیا، شرک و بدعت کے تمام مظاہر و علامات مٹادی گئیں، پختہ قبریں منہدم کردی گئیں، اور اب سعودی حکم رانوں اور دوسرے بڑے لوگوں کی قبریں بھی سادے انداز کی بنائی جانے لگیں، چنانچہ ملک فہد بھی عام قبرستان میں دفن کئے گئے۔
سیاسی محاذ پر بھی ان کی حکمت عملی اور سیاسی بصیرت سے ان کے پورے ملک کو فائدہ پہنچا اور بعض مشکل مسائل کو حل کرنے میں وہ کامیاب رہے، عرب و اسرائیل اختلافات ختم کرانے اور فلسطین کا قضیہ حل کرانے میں انہوں نے بڑی جدوجہد کی، کویت کو عراق کے جارحانہ قبضے سے آزاد کرانے میں ان کا حصہ بہت نمایاں تھا۔
ملک فہد کے زمانے میں عراق و ایران کی برادرانہ جنگ کا جس میں امریکہ ہی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے، بعد از خرابی بسیار اختتام ہوا، اس میں سعودی عرب اور بعض دوسرے عرب ملکوں نے دل کھول کر عراق کی مدد کی تھی، جس کا صلہ صدام حسین نے یہ دیا کہ کویت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کرلینا چاہا جس کو امریکہ نے ناکام کردیا تھا، لیکن اب عراق کا خطرہ مستقل ہوگیا تھا، اس کی وجہ سے سعودی عرب کو ارض مقدس میں امریکی افواج کے قیام کی اجازت دینے کے لیے مجبور ہونا پڑا، اس کی اس مہمان پروری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ع جو بلا باہر سے آئی وہ مقامی ہوگئی۔
یہ دنیا کے مسلمانوں کی خلش اور بے چینی کا باعث ہوئی، ان کے خیال میں تثلیت کے فرزندوں نے میراث خلیل کو ہتھیا لینے کے لیے یہ سازش رچی ہے، اس کے بعد ہی سے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کا نام دفعتہ سنائی دینے لگا، نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی کوئی حقیقت بھی ہے یا میڈیا کے بل بوتے پر ان کی حقیقت تسلیم کرائی جارہی ہے تاکہ مسلم ممالک کو ایک ایک کر کے تاراج کردیا جائے چنانچہ دو مسلم ملکوں کو زیر و زبر کرنے کے بعد اب ’’امن عالم‘‘ کے سب سے بڑے ٹھیکادار کے نشانے پر تیسرا اسلامی ملک آگیا ہے۔
ابھی تک سعودی عرب امریکی دست درازی اور تعدی سے محفوظ ہے، لیکن یہ عارضی ہے یا پایدار یہ تو وقت بتائے گا، مگر دفاع و تحفظ کے نام پر امریکی فوجوں کی موجودگی ایک مستقل مسئلہ بن گیا ہے، جس کا اثر خاص طور پر مملکت کی معیشت پر دکھائی دیتا ہے، اخراجات اتنے بڑھتے جارہے ہیں کہ عوامی مفاد کے بہت سے ضروری اور ترقیاتی کام اور رعایتیں ختم کردی گئی ہیں، ملک و بیرون ملک کے مختلف نوعیتوں کے کام انجام دینے والوں کی تعداد میں تخفیف ہوتی جارہی ہے، اس کی وجہ سے امریکی افواج کی موجودگی کو نہ عرب عوام نے پسند کیا اور نہ دنیا کے مسلمانوں نے ان کی ناراضگی اور بے چینی کا اظہار بھی وقتاً فوقتاً ہوا ہے، وہ خود بھی امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر کو ناپسند کرتے تھے، اس نے افغانستان اور عراق کو تہس نہس کر کے جس طرح وہاں اپنا مستقل مسکن بنالیا ہے اور عراق کے تیل کے کنووں پر اپنا پنجہ گاڑ دیا ہے، اس سے وہ گھٹن محسوس کرتے تھے، امریکہ دونوں ملکوں میں شیعہ سنی اختلافات بھڑکا کر اور دوسرے گروہوں میں بھی انتشار پیدا کر کے وہاں اپنی فوجوں کے قیام کی گنجائش نکالے ہوئے ہے، یہ سب شاہ کی طبیعت پر بھی بار بن گیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے خلاف عراق و افغانستان میں جو نفرت اور بیزاری پائی جاتی ہے یا وہاں کے لوگ جس تشدد پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں اس کے ختم ہونے کی صورت یہی ہے کہ امریکہ اپنی جارحیت سے باز آئے اور عراق و ایران اور مسلم ملکوں سے اپنی فوجیں واپس بلا لے اور انہیں آزادی اور اپنی مرضی سے رہنے دے۔
تاہم فرماں روائے عرب اور پاسبان حرم کی وفات دنیا کا بڑا حادثہ اور امت مسلمہ کا سخت خسارہ ہے، ان کی دینی و اصلاحی خدمات گوناگوں تھیں، وہ قرآن مجید کے خادم اور متبعِ سنت تھے، ان کو دین و شریعت کے نفاذ، کتاب و سنت کی نشر و اشاعت، علم دوستی، علما نوازی، خدمتِ خلق، غربا پروری اور اہل اسلام کی ہم دردی و اعانت کے لیے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔
اﷲ تعالیٰ ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل دے، سعودی عرب اور دنیائے اسلام کو ان کا بد عطا کرے، ارض حرم کو محفوظ رکھے اور ملک فہد پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے۔ اللھم صبب علیہ شآبیب ورحمتک واغفرلہ۔ (ضیاء الدین اصلاحی،ستمبر ۲۰۰۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...