Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر رفیق زکریا

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر رفیق زکریا
ARI Id

1676046599977_54338479

Access

Open/Free Access

Pages

706

آہ ! ڈاکٹر رفیق زکریا
افسوس ہے کہ ۹؍ جولائی کو ڈاکٹر رفیق زکریا نے ممبئی میں داعی اجل کو لبیک کہا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ وہ مشہور عالم، دانشور اور ممتاز مصنف اور اسکالر تھے، ان کا شمار مسلمانوں کے لائق، قابل، صاحب کمال مدبر اور عالی دماغ لوگوں میں ہوتا تھا، وہ بڑے غور و فکر کے بعد بالغ نظری سے حالات و واقعات اور مسائل کا تجزیہ کر کے صحیح رخ اور سمت کا تعین کرتے تھے، ان کے استنباط اور بحث کے نتائج سے اختلاف کرنے والے بھی ان کی بصیرت، دیدہ وری، دقت نظر اور باخبری کا اعتراف کرتے تھے، ان کی وفات کے بعد ان کا خلا شدت سے محسوس کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر رفیق زکریا پر دل کا شدید دورہ پڑا تھا، جس سے سخت بے چینی اور سینے اور کمر میں بڑی تکلیف تھی، ابھی اسپتال لے جانے کی تیاری ہی ہورہی تھی کہ وقت موعود آگیا، ان کا آبائی وطن اورنگ آباد تھا، یہاں وہ اپریل ۱۹۲۶؁ء میں پیدا ہوئے تھے، یہ تقسیم سے پہلے ریاست حیدرآباد کا حصہ تھا، لسانی جارحیت اور اردو دشمنی نے ریاست حیدرآباد کے تمام اضلاع کو انڈین یونین کی کئی ریاستوں میں اس طرح منقسم کردیا کہ اردو کا کوئی مخصوص علاقہ نہ بننے پائے، چنانچہ اورنگ آباد اب مہاراشٹر میں شامل ہے، مرحوم کو ان کی وصیت کے مطابق یہیں ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
اورنگ آباد میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ممبئی یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور چانسلر گولڈ میڈل حاصل کیا، ڈاکٹریٹ کی ڈگری لندن یونیورسٹی سے حاصل کی اور بارایٹ لالنکنز ان سے کیا، واپس آکر وکالت شروع کی، طالب علمی ہی کے زمانے میں سیاست کی خارزار سے الجھ گئے اور طلبہ کے لیڈر بن کر ابھرے، ۱۹۴۲؁ء میں ’’ہندوستان چھوڑو‘‘ تحریک میں طلبہ کی قیادت کی اور گرفتار کئے گئے، پھر باقاعدہ کانگریس میں شامل ہوئے اور سرگرم سیاست میں حصہ لیا، اس کے ٹکٹ پر اورنگ آباد سے برابر صوبائی اسمبلی کے ممبر ہوتے رہے، ۲۵ برس تک مہاراشٹر کابینہ کے رکن اور مختلف وزارتوں پر فائز ہوئے، چار برس تک راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیرمین رہے، اپنی خداداد قوت گویائی، سیاسی بصیرت اور اصابت رائے کی بنا پر کئی بار اقوام متحدہ میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔
ڈاکٹر رفیق زکریا لکھنے پڑھنے میں اچھے اور مطالعہ کے شوقین تھے، قومی، سیاسی اور سماجی سرگرمیاں ان کے مطالعہ و تحقیق میں مانع نہیں ہوئیں اور صحافت، علم و ادب اور مطالعہ سے ان کا اشتغال قائم رہا، آخر میں سیاست کے گرتے ہوئے معیار اور اس میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی دیکھ کر وہ سرگرم سیاسی زندگی سے کنارہ کشی کر کے علمی و تحقیقی کاموں ہی کے لیے وقف ہوگئے اور ان کی تصانیف اور عالمانہ مقالے اصحاب نظر سے خراج تحسین وصول کرنے لگے۔
ڈاکٹر رفیق زکریا کی شناخت ایک سیکولر اور روشن خیال مسلمان صاحب علم و نظر کی ہے، وہ واقعات و حالات کو ان کے اصل پس منظر میں دیکھنے کے عادی تھے، ان کی بحث و نظر کا انداز معروضی ہوتا تھا، وہ جب اہل مغرب اور متعصب ہندوستانی مورخین کو اسلام اور مسلمانوں کی غلط ترجمانی اور اصل رنگ میں پیش نہ کرنے کا جواب دیتے اور صحیح پس منظر سامنے لاکر اسلامی کی اصلی اور حقیقی تصویر پیش کرتے تو کہا جاتا کہ انہوں نے جنت میں اپنی جگہ بنالی، چنانچہ رسوائے زمانہ سلمان رشدی کا ناول ’’شیطانی آیات‘‘ شایع ہوا، جس میں واقعات کو توڑ مروڑ کر رسول اکرمﷺ اور ازواج مطہرات کی شان میں نہایت بے ہودہ اور نازیبا باتیں کہی گئی ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے خالص علمی اور معروضی انداز میں اس کا نہایت مدلل جواب ’’محمد اور قرآن‘‘ کے نام سے لکھا، اور رشدی کے پیش کردہ واقعات و نتائج کو اصل ماخذ سے مقابلہ کر کے اس کے جعل و فریب کا پردہ چاک کردیا، اسی طرح انہوں نے اقبال کو فرقہ پرست کہنے والوں کا بہت مدلل اور عالمانہ جواب دیا۔
اس طرح کی کتابوں کی وجہ سے وہ اسلامی اسکالر اور اسلامیات کے ماہر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور کچھ لوگ ان کی بڑی قدر و منزلت کرتے ہیں، لیکن جب وہ گزشتہ صدی میں مسلمانوں کی قومی و ملی فکر اور تحریکوں اور سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کے جائزے کو اپنا موضوع بناتے ہیں اور مسلمانوں کی سیاسی و قومی زندگی کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے ہیں تو مسلمانوں کا وہ طبقہ جس کی گہری نظر گزشتہ حالات و مسائل پر نہیں ہے، اور جو حقایق و واقعات سے قطع نظر کر کے محض جذباتی انداز میں بحث و تجزیہ کا عادی ہے، وہ ڈاکٹر صاحب کو تجدد پسند قرار دے کر ان کی تنقیص کرتا ہے اور ان کی باتوں کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا، مثلاً ۱۹۹۶؁ء میں آل انڈیا ریڈیو کی دعوت پر ’’سردار پٹیل اور ہندوستانی مسلمان‘‘ کے عنوان سے انہوں نے دہلی کے نیشنل میوزیم آڈیٹوریم میں جو لکچر دیئے اور جن کا اردو ترجمہ بھی چھپ گیا ہے تو اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا، کیوں کہ سردار پٹیل کی زیادہ شہرت مسلم دشمن کی ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے منطقی و معروضی انداز میں ان کی تصویر کے دونوں رخ پیش کئے ہیں، انہوں نے جہاں یہ دکھایا ہے کہ سردار پٹیل نے بہت سے کام مسلمانوں کے مفاد میں کئے ہیں، وہ تحریک خلافت کے حامی تھے، بابری مسجد کے معاملے میں ان کا رویہ فرقہ پرستانہ نہیں تھا، لیکن جب دوسرا پہلو بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے معاملے میں ان کا موقف سخت تھا، وہ ان پر طعنہ زنی کرتے تھے، کانگریس کا ساتھ نہ دینے کو ناقابل معافی سمجھتے تھے، مسلم لیڈروں سے بے تکے سوالات کرتے تھے، اور بے رحمانہ انداز اختیار کرتے تھے اور اس کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ سردار دو قومی نظریہ اور تقسیم کے شدید مخالف تھے، ان کو تقسیم کے وقت مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا صحیح اندازا نہیں تھا، اسلام سے ان کی وقفیت واجبی تھی۔
یہ دونوں رخ پیش کر کے وہ کہتے ہیں کہ پٹیل ایک سیکولر اور اصول پسند شخص تھے، اگر مسلم دوست نہیں تو مسلم دشمن بھی نہیں تھے، بعض دوسرے لیڈروں کی طرح ان کا یہ خیال تھا کہ ’’جواہر لال کے مقابلے میں سردار پٹیل اچھے وزیر اعظم ہوتے، مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اس معاملے میں اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا تھا‘‘ اب چاہے کسی کو ان کے اس نتیجے سے اتفاق ہو یا اختلاف لیکن انہوں نے تجزیہ کرنے میں معروضی اور غیر جانب دارانہ طریقہ اختیار کیا ہے۔
حال ہی میں ان کی ایک اور کتاب ’’ہندوستانی مسلمان: انہوں نے کہاں کہاں غلطی کی ہے‘‘ شایع ہوئی ہے اس میں بتایا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے جذبات میں آکر تقسیم کا نعرہ بلند کیا جو تاریخی غلطی ہے اور جس کا خمیازہ وہ بھگت رہے ہیں، لیکن اب انہیں حقایق کا سامنا کرنا، ان سے ہم آہنگ ہونا اور اپنی دنیا آپ بنانا چاہئے، اس کتاب کا مقصد بھی واقعات و حقایق پیش کر کے لوگوں کو صحیح نتائج اخذ کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سیکولر مسلمان اور حقیقت پسند شخص تھے۔
وہ ہندومسلم اتحاد اور قومی یکجہتی وہم آہنگی کے قایل تھے، مسلمانوں کو اپنی پہچان بنائے رکھنے کے ساتھ ہی اپنے اندر روشن خیالی اور وسیع النظری پیدا کرنے اور قومی زندگی سے کنارہ کش نہ رہنے کی تلقین کرتے تھے، اور رجعت پسندوں اور فرقہ پرستوں کی جانب سے ان پر جو ناروا اور غیر ذمہ دارانہ اعتراضات کئے جاتے تھے، ان کا مسکت جواب بھی دیتے تھے، اسلام، اسلامی تاریخ، ہندوستانی اور مسلم سیاست پر ان کی گہری نظر تھی، اس لیے ان کے جواب میں بڑا وزن ہوتا تھا۔
اوپر جن کتابوں کا ذکر آیا ہے ان کے علاوہ بھی انہوں نے کئی اہم اور قابل قدر کتابیں لکھیں، رضیہ سلطان اور انڈین نیشنل کانگریس کی صد سالہ تاریخ پر ان کی کتابوں کو اعتبار حاصل ہوا، نہرو، جناح اور بے نظیر بھٹو کی شخصیتوں کا مطالعہ و تجزیہ بھی پیش کیا، فرقہ واریت اور ہندو مسلم منافرت کے وہ ہمیشہ مخالف رہے، ان کی کتاب The Widening Divide اس کا ثبوت ہے جس کا اردو ترجمہ ’’بڑھتے فاصلے‘‘ کے نام سے ہوا ہے، ایک کتاب میں گجرات فسادات کے بعد بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ جذبات اور نظریات کا جائزہ لیا ہے اور اس پر تشویش ظاہر کی ہے، ابھی حال میں لال کرشن اڈوانی نے پاکستان کے دورے میں مسٹر جناح کی تعریف میں جو بیان دیا تھا، اس پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مسٹر اڈوانی نے دو قومی نظریے، ہندوستان کی تقسیم اور اس کے بعد ہونے والے تشدد کی حمایت کی ہے۔
ڈاکٹر رفیق زکریا کو انگریزی میں بڑی مہارت تھی، ان کی اصل تصنیفی زبان یہی تھی، اردو میں بھی کتابیں لکھیں ان کی تمام کتابیں ان کے عمیق مطالعہ و تحقیق اور علم و نظر کی وسعت کا ثبوت ہیں، اسی لیے اکثر انگریزی کتابوں کے اردو ترجمے بھی ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب منجھے ہوئے اور مشاق اہل قلم ہی نہیں تھے، بڑے اچھے اور خوش بیان مقرر بھی تھے، اردو اور انگریزی دونوں میں پرمغز اور معلومات افزا تقریریں کرتے تھے، اکثر اداروں اور سمیناروں میں تقریروں کے لیے مدعو کئے جاتے اور اپنا جوہر دکھاتے، راقم کو بھی دوبار ان کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا، غالباً ۱۹۹۰؁ء میں سابق وزیراعظم مسٹر وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے منڈل کمیشن پر اظہار خیال کے لیے دانشوروں کی ایک میٹنگ بلائی تھی، اس میں پہلی بار ان سے ملاقات ہوئی اور ان کی بصیرت افروز تقریر سنی، دوبارہ ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے علامہ شبلی سمینار میں "علامہ شبلی کے عہد، اس کے تقاضوں کے لحاظ سے ان کا طریقہ عمل اور سرگرمیاں" پر ان کی مبسوط تقریر ہوئی جس سے اس عہد کی تاریخ پر ان کی گہری نظر کا اندازا اور یہ معلوم ہوا کہ وہ علامہ شبلی اور دارالمصنفین سے اچھی طرح واقف اور ان کی خدمات اور کارناموں کے قدرداں تھے، اس تعلق کی بنا پر انجمن اسلام ممبئی کے صدر ڈاکٹر محمد اسحاق جم خانہ والا کی دعوت پر ۲۰۰۰؁ء میں حارث سیرت لکچر دینے گیا تو انہوں نے خواہش کی کہ یہ کم مایہ رشدی کے جواب میں ان کی کتاب کے اجرا کی رسم ادا کرے، وہ اپنی علالت کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہیں کرسکے تھے، ورنہ عرض کرتا کہ:
غبار راہ کو بخشا گیا ہے ذوق جمال
خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے
ڈاکٹر رفیق زکریا کا تعلق جامعہ اردو سے گہرا تھا اور انہوں نے اردو اور تعلیم کے فروغ کے لیے سعی بلیغ کی، اسکول کے علاوہ ۱۵ کالج قائم کیے، ان کے ذریعے غریب اور پس ماندہ طبقے کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، ان کا گھرانا بھی اعلا تعلیم یافتہ تھا، ان کی بیگم فاطمہ صحافی اور سنڈے ٹائمز آف انڈیا کی اڈیٹر تھیں، ایک صاحبزادے فرید امریکہ کے ایک وقیع رسالہ نیوز ویک انٹرنیشنل کے اڈیٹر ہیں، دوسرے بیٹے ارشد امریکہ کے ایک بڑے مالیاتی ادارے کے چیف اگزیکیوٹیو ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے خیال میں اس زمانے میں عصری تقاضوں کو نظر انداز کر کے اسلام کی تعبیر و ترجمانی کا حق ادا نہیں ہوسکتا، آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمان جن سیاسی، سماجی اور تعلیمی مسائل سے دوچار تھے، اس سے وہ پوری طرح باخبر تھے اور اس میں وہ ان کی فکری رہنمائی برابر کرتے تھے، اور ملک کے دوسرے باشندوں کو بھی وہ ان کے حالات و مسائل سے واقفیت بہم پہنچاتے تھے، اﷲ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں سے چشم پوشی کرے، انہیں جنت الفردوس نصیب کرے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین!! (ضیاء الدین اصلاحی،ستمبر ۲۰۰۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...