Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر غلام مصطفےٰ [خان]

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر غلام مصطفےٰ [خان]
ARI Id

1676046599977_54338482

Access

Open/Free Access

Pages

709

آہ! ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خاں 
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
(رفیق احمد خان)
’’جناب مشفق خواجہ کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خان اور ڈاکٹر سید معین الرحمن نے بھی داغ مفارقت دیا، یہ دونوں بزرگ علم و ادب کے آسمان پر مہر و ماہ بن کر ضوفشاں تھے، یقینا قارئین معارف رفیق احمد خاں صاحب کے ممنون ہوں گے کہ انہوں نے ان دونوں مقتدر علمی و ادبی شخصیتوں پر مقالہ سپرد قلم کیا، عتیق جیلانی صاحب کے بھی ہم ممنون ہیں کہ انہوں نے بھی ڈاکٹر غلام مصطفےٰ صاحب پر اپنے مضمون سے قارئین معارف کو متمتع ہونے کا موقع بخشا، قارئین معارف کو مشفق خواجہ صاحب پر بھی کسی پاکستانی صاحب قلم کے مضمون کا انتظار رہے گا‘‘۔ (ض)
ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خاں صاحب (م ۲۵؍ ستمبر ۲۰۰۵؁ء) کے بارے میں کچھ عرض کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، وہ کسی تعریف یا تعارف کے محتاج نہیں، ڈاکٹر صاحب کی شخصیت قدر و منزلت کے اعتبار سے کئی پہلو رکھتی ہے، تاہم دو پہلو صاف، واضح اور روشن ہیں، ایک ’’محققـ‘‘ دوسرے ’’مذہبی اور روحانی عالم‘‘۔
تحقیق کے اصل اور حقیقی تقاضوں سے محققین و فضلا ہی آگاہ ہوتے ہیں اور وہی جانتے ہیں کہ انہیں کیوں کر نبھایا جاتا ہے، تحقیق ایک خاص طرز زندگی کا مطالبہ کرتی ہے، ڈاکٹر صاحب نے ایک مقام پر لکھا ہے ’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق کو بہ طور ایک طرز زندگی اپنانا ہی اولین اور بنیادی اور لازمی شرط ہے‘‘۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اسی خاص انداز سے گزار کر اس جہانِ فانی سے دائم آباد کو رخصت ہوئے، ان کی زندگی ہمارے لیے قابل فخر اور لائق تقلید ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی متعدد خوبیوں میں سے صرف دو کا تذکرہ کرنا نہایت ضروری سمجھتا ہوں کہ انہیں بنیادی اور اساسی حیثیت حاصل ہے، یعنی ’’احتیاط‘‘ اور ’’احترام‘‘ جس طرح ’’سچ‘‘ کی تلاش کو تحقیق کا لازمی عنصر قرار دیا گیا ہے، اسی طرح ’’احتیاط‘‘ کو بھی اس کا جز ولاینفک تسلیم کیا گیا ہے، بہ حیثیت محقق ڈاکٹر صاحب تمام زندگی سچ اور احتیاط کا دامن تھامے رہے۔
بہ حیثیت مذہبی اور روحانی عالم ڈاکٹر صاحب بلا امتیاز عمر اور علم، زبان، رنگ، نسل اور قومیت ہر ایک کا حد درجہ احترام کیا کرتے تھے، یہ انہی کا روحانی تصرف ہے کہ آج ان کے حلقۂ ارادت میں ہر زبان کے بولنے والے اور ہر طبقۂ فکر کے اشخاص یک جا اور یک جان ہیں اور ڈاکٹر صاحب سے عقیدت و محبت میں یکساں جذبات کے حامل ہیں۔
اس امر سے کون آگاہ نہیں کہ احتیاط اور احترام کے اختیار کرنے میں بلا کے حوصلے، برداشت اور استقلال کی ضرورت ہوا کرتی ہے، ہمیں اپنی زندگی میں کیسے کیسے مرحلے اور مواقع پیش آتے ہیں کہ صبر، حوصلے اور ہمت کا دامن چھوٹ جاتا ہے اور اس احتیاط اور احترام کے برتنے میں کیسی کیسی لغزشیں اور کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں، یقینا ڈاکٹر صاحب کے یہ دو وصفِ خاص بھی مثالی اور استثنائی شان رکھتے ہیں اور پیروی و تقلید کی دعوت دیتے۔
ڈاکٹر صاحب کے تلامذہ کی تعداد بھی خاصی ہے اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ بڑی تعداد ان تلامذہ کی ہے جو اب فضلا کے درجے پر فائز ہیں، انہوں نے اپنے نام سے اپنے استاد گرامی کے نام کی لاج رکھی اور سر فخر سے بلند کیا۔
بہ حیثیت محقق ڈاکٹر صاحب کے کام اور طرز زندگی کی پیروی و تقلید ان کے عزیز ترین شاگرد ڈاکٹر نجم الاسلام مرحوم (مدیر رسالہ تحقیق) نے سب سے زیادہ اختیار کی اور ویسے ہی نامور ہوئے اور برصغیر پاک و ہند میں استاد اور شاگرد کے مثالی رشتے کی یاد تازہ کردی۔
ڈاکٹر صاحب کے روحانی رنگ کو ان کے ایک اور عزیز ترین شاگرد ڈاکٹر مسعود احمد خاں صاحب نے قبول و مقبول کیا، وہ بھی اپنے استاد محترم کی طرح ارادت مندوں کے ایک بڑے حلقے کے مرکز و محور ہیں، ان کے فیوض و برکات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، اﷲ تعالیٰ سلامت باکرامت رکھے۔
اب میں ڈاکٹر صاحب کے چند اختصاصات و اولیات کا ذکر کرنا بھی ناگزیر سمجھتا ہوں:
۱۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلی مرتبہ جامعات میں ایم۔اے کی سطح پر اسلامیات، اقبالیات، فارسی اور عربی زبانوں کو نصاب میں داخل کیا۔
۲۔ نعتیہ شاعری کو بی۔اے کے نصاب میں نعتیہ مشاعروں کو ہم نصابی سرگرمی کے طور پر پہلی مرتبہ متعارف کروایا۔
۳۔ ڈاکٹر صاحب نے شعبۂ اردو جامعہ سندھ میں بہ حیثیت صدر شعبہ سب سے زیادہ مدت (۷۶ ۔ ۱۹۵۶؁ء) کے لیے خدمات انجام دیں۔
۴۔ برصغیر میں ڈاکٹر صاحبب پہلے استاد ہیں جن کی نگرانی میں زیادہ پی ایچ ڈی اسکالرز نے اپنے کام مکمل کیے۔
۵۔ پی ایچ ڈی کی سطح پر اردو اور قرآن کے حوالے سے مربوط و منضبط کام بھی سب سے زیادہ ڈاکٹر صاحب ہی کی نگرانی میں ہوئے۔
۶۔ ڈاکٹر صاحب وہ پہلے شخص ہیں جن کی زندگی میں پاکستان میں ان پر پی ایچ ڈی ہوا۔
۷۔ سندھی ادبی بورڈ کے مخطوطات کے ایک بڑے اور نادر و قیمتی ذخیرے کے کیٹالاگنگ کی جانب ڈاکٹر نجم الاسلام کو توجہ اور رہنمائی فراہم کرنے کا امتیاز بھی ڈاکٹر صاحب ہی کو حاصل رہا۔
۸۔ ڈاکٹر نجم الاسلام مرحوم کو ابیات شاہ کریم (اکتوبر ۱۹۸۷؁ء) اور ابیات سندھی (جنوری ۱۹۹۹؁ء) کے اردو منظوم ترجمے کی ترغیب بھی ڈاکٹر صاحب ہی کا امتیازی وصف ہے۔
اپنے علم کے مطابق اور بہت قلیل وقت میں، میں نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کے چند اختصاصات کا تذکرہ کردیا ہے، حقیقتاً ڈاکٹر صاحب کی خوبیوں اور کمالات کا نہ ہمیں صحیح علم ہے اور نہ ہم ان کو حیطۂ تحریر و بیان میں لانے کی قدرت و صلاحیت رکھتے ہیں، ’’اﷲ تعالیٰ ان پر لاکھوں کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے‘‘ اور ہمیں ان کی تقلید کا انہی جیسا شوق، جذبہ اور طاقت عطا فرمائے۔
علامہ اقبال نے اپنی والدہ سے شدید محبت کا اظہار ایک نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کیا تھا، ڈاکٹر صاحب کو علامہ اقبال اور ان کے خیالات سے بڑی محبت تھی، میں علامہ کی اسی نظم سے چند اشعار ڈاکٹر صاحبب کی یاد میں پیش کرتا ہوں اﷲ تعالیٰ آخرت میں انہیں اعلا درجات سے سرفراز فرمائے اور مجھ عاجز کو ان قلبی جذبات اور تعلق خاطر کے عوض نجات اخروی عطا ہو۔
یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے
( جنوری ۲۰۰۶ء)

 

’’گھنے سایہ دار پیڑ‘‘
(عتیق احمد جیلانی)
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ

Mمیں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
(مجیدامجد)
¦ دھوپ کی بے رحم تمازت اپنے سروں پہ سہ کر خلق خدا کو سکون اور سایہ دینے والے یہ پیڑ قدرت کی کتنی بڑی نعمت ہیں، اس کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جنہیں زندگی کے جلتے بلتے راستے میں کسی پیڑ کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں میسر آئی ہو۔ کیسے دکھ کی بات ہے کہ نصف صدی سے لاکھوں بندگان خدا سائے کے لیے جس برگد پر تکیہ کیے ہوئے تھے، آج وہ ان کے درمیان نہیں رہا۔
آج ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خاں جسمانی لحاظ سے ہمارے ساتھ نہیں مگر ان کی علمی یادگاریں اور ان کا روحانی فیضان تاقیامت باقی رہے گا، ان کی ساٹھ سے زائد علمی و ادبی تصانیف کا ایک ایک لفظ سرچشمۂ فیض اور نورِ ہدایت ہے، ان کے سچے پیروکاروں کی ایک بڑی جماعت ان کی زندگی کا ثبوت ہے، ان کی محبت میں دھڑکتے لاکھوں دل پکار پکار کر کہہ رہے ہیں ’’رفتیدولے نہ ازدل ما‘‘۔
اہل عشق خودی کے اس درجے پر ہوتے ہیں کہ بہ قول اقبالؔ:
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
اور حافظ شیراز نے ایسے ہی کا ملین کو پیش نظر رکھ کر یہ بصیرت افروز اور دل کشا شعر کہا تھا کہ:
ہر گز نمیرد آن کہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است ہر جریدۂ عالم دوام ما
خطۂ سندھ کے باشندوں پر ڈاکٹر صاحب کی ذات گرامی اﷲ کا خاص انعام ہے، انہوں نے عرصۂ دراز تک اﷲ کے بندوں میں محبتیں تقسیم کیں، وہ سراپا شفقت و عنایت تھے، ان کی شخصیت جلال سے زیادہ جمال کی آئینہ دار تھی، وہ اخلاق جمالی کا بہترین نمونہ تھے، فی زماننا ان کی ذات علما و اولیا وصلحائے سلف کے کمالات کی عمدہ مثال تھی، وہ بے غرضی، بے ریائی، استغنا، ہمدردی، خلوص اور عفو و درگذر کا پیکر تھے، ان ہی اوصاف کے سبب ان کی شخصیت میں خاص و عام کے لیے بے پناہ جاذبیت ہے اور بلالحاظ رنگ و نسل بے شمار لوگ ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہیں۔
وہ ہر ملنے والے پر بے پایاں توجہ اور بے انتہا محبت کی چھتری تان دیتے تھے، ہر شخص کو یہی محسوس ہوتا کہ وہی ان کے زیادہ نزدیک ہے، حسن سلوک اور خیر خواہی کا نورانی ہالہ ہر ملاقاتی اور ہر مہمان کو اپنے حصار میں لیے رہتا، دعاؤں کی بارش برستی ہی چلی جاتی، لطف اور توجہ کا چراغ تاریک ذہنوں اور بے نور دلوں کو منور کرتا چلا جاتا، گفتگو سماعتوں کے قفل توڑتی اور خاموشی دلوں کے دریچے کھولتی۔
ڈاکٹر صاحب نے کلام اقبالؔ کا گہرا مطالعہ کیا تھا، یہ اختصاص دوسرے بہت سے اہل علم کو بھی حاصل ہے مگر ڈاکٹر صاضن کا کمال یہ ہے کہ ان کی زندگی بھی افکار اقبال کے سانچے میں ڈھل چکی تھی، اقبالؔ کے معروف تصورات عشق، خودی، فقر، استغنا، مومن، شاہین وغیرہ کو ذہن میں لایئے اور پھر عملی مثال تلاش کیجیے تو بغیر کسی تردد کے زبان پر ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خاں کا نام آجاتا ہے۔
ان کی بہت سی صفات میں استغنا کی صفت نمایاں ترین تھی، انہوں نے کبھی دنیا کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا اگرچہ دنیا ہر سمت سے ان کی طرف ملتفت رہی، یہ بے غرضی کوئی معمولی خوبی نہیں، اس مقام تک پہنچنے کے لیے فضل الہٰی کے ساتھ ساتھ مسلسل ریاضت اور گہری بصیرت بھی درکار ہوتی ہے، دنیا کی محبت میں سرتاپا آلودہ ہم جیسے ناشناسانِ حقیقت کیا جانیں کہ:
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
ڈاکٹر صاحب جیسے مرد مومن کی خوبیاں اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے میں کلام اقبالؔ سے مدد لینا چاہوں گا، غور فرمایئے کہ ایک ایک لفظ کس طرح ڈاکٹر صاحب کی دل آویز شخصیت پر چسپاں ہوتا چلا جارہا ہے:
ہاتھ ہے اﷲ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز
اس تاثراتی تحریر کے اختتام پر یہی عرض کروں گا:
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگاے این فقیرے
دگر داناے راز آید کہ ناید
( جنوری ۲۰۰۶ء)

ڈاکٹر غلام مصطفٰے خان
(فیروزالدین احمد فریدی)
ڈاکٹر غلام مصطفی خان ایک نابغۂ روزگار شخصیت اور قرونِ اولیٰ کی یادگار تھے، وہ ۲۳؍ ستمبر ۱۹۱۲؁ء کو جبل پور مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے اور ۹۳ برس بعد ۲۵؍ ستمبر ۲۰۰۵؁ء کو اس منزل کی جانب روانہ ہوگئے جہاں سب کو ایک نہ ایک روز جانا ہے۔
ڈاکٹر صاحب تین برس کی عمر میں پکے نمازی تھے اور قرآن ختم کرچکے تھے، اپنی ۴۲ برس پہلے لکھی ہوئی کتاب ’’تاریخ اسلاف‘‘ میں انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے بچپن سے مسلسل بخار رہا کرتا تھا، گھر میں پیسے کی تنگی تھی، علاج نہیں ہوپارہا تھا، ایک دن والدہ نے کہا کہ بیٹا! تم قرآن پڑھو، اﷲ نے چاہا تو اچھے ہوجاؤ گے، بڑے بھائی نے پہلا پارہ پڑھایا، اس کے بعد میں ہر روز ربع پارہ خود ہی پڑھتا رہا، ایسی برکت ہوئی کہ چند دنوں میں ٹھیک بھی ہوگیا اور قرآن پاک بھی مکمل ہوگیا، ایک دن بیمار والد نے نماز کی ترکیب لکھادی، ان کی دعا ایسی لگی کہ میں کسی کے کہے سنے بغیر نماز پڑھنے لگا، شاید تین سال کا ہوں گا کہ نماز اور قرآن سے اس تعلق کی وجہ سے میرے چھوٹے چچا نے میرا نام ملاجی رکھ دیا اور محلے والے بھی مجھے اسی نام سے پکارنے لگے، پھر یہ ہوا کہ حصولِ تعلیم کے اسی شوق میں ایک دن میں خود ہی اسکول میں داخلہ لینے چلا گیا، وہاں کے استاد مجھے حیرت سے دیکھنے لگے۔
اس تین سالہ ملا جی نے جو داخلے کے لیے خود ہی اسکول پہنچ گیا تھا، بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی سے فارسی اور اردو میں ایم اے، ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی کیا، ناگپور یونیورسٹی نے انہیں ’’ڈی لٹ‘‘ کی اعزازی سند دی جس کی ایک وجہ ڈاکٹر صاحب کی اچھوتی تحقیق ’’فارسی پر اردو کا اثر‘‘ تھی، سندھ یونیورسٹی نے انہیں تاحیات پروفیسر امریطس کے منصب پر فائز کیا، اردو پر فارسی کے اثر کا ذکر تو سب نے سنا ہے لیکن یہ خیال ڈاکٹر غلام مصطفی خان کے ذہن رسا کو ہی آیا کہ فارسی پر اردو کا اثر ایک مکمل تحقیق طلب موضوع ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے ورثے میں تقریباً ایک سو کتابیں اور کئی سو عالم چھوڑے جو ان کے طالب علم رہے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں، ان کتابوں میں ’’اقبال اور قرآن‘‘ شامل ہے جس پر انہیں حکومت پاکستان سے لے کر مختلف ممتاز اداروں اور انجمنوں نے متعدد اعزازات دیئے جو ڈاکٹر صاحب کو ملنے پر زیادہ معتبر ہوگئے، ان کے سیکڑوں طلبا میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج اور چیف الیکشن کمشنر نعیم الدین اور پاکستان کے نامی گرامی ادیب ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی اور ابن انشا شامل ہیں۔
علم، معلّمی، ادب، تحقیق اور اعزازات اپنی جگہ لیکن جس آب حیات نے ڈاکٹر غلام مصطفی خان کو امر کردیا وہ ان کی فاتحِ زمانہ روحانی شخصیت تھی، یہ ایم اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی، پروفیسر امریطس اور ڈی لٹ فردِ فرید پاکستان کے ضلع بہاول پور کے ایک غیر معروف قصبے ’’خیر پور ٹامی والی‘‘ کے ایک بزرگ زوار حسین شاہ صاحب کا مرید اور خلیفہ تھا، بھلا سوچئے کہاں علی گڑھ؟ ناگپور؟ حیدرآباد (سندھ)؟ کراچی؟ اور کہاں خیرپور ٹامی والی؟ خدا کی باتیں خدا ہی جانتا ہے، ویرزقہ من حیث لا یحتسب۔[الطلاق:۳]
ڈاکٹر صاحب سے میری پہلی ملاقات دس برس پہلے، ۱۲؍ ربیع الاول ۱۴۱۶؁ھ بمطابق ۱۰؍ اگست ۱۹۹۵؁ء کو حیدرآباد (سندھ) میں ان کے گھر پر ہوئی، ملاقات کا ظاہری سبب میرا وہ کتابچہ بنا جو میں نے چند ماہ قبل ’’فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کی ایک جھلک‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا، ڈاکٹر صاحب صحن میں ایک چارپائی پر بیٹھے تھے، ٹانگیں نیچے لٹک رہی تھیں، انہوں نے کتابچے پر بابا فریدؒ کا نام پڑھا تو اسے بہت احترام سے اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا، بابا فریدؒ پر گفتگو شروع کی اور چند منٹ بعد ایسا لگا کہ وہ کہیں اور ہیں انہوں نے اپنے میٹھے اور دھیمے لہجے میں پاک پتن میں اپنی پہلی حاضری کی روداد سنائی، یہ روداد ان کی کتاب ’’تاریخ اسلاف‘‘ میں درج ہے جو ۱۹۶۳-۶۴ء میں شائع ہوئی تھی اور پھر یہی روداد ان کی اہم اور مختصر کتاب ’’فضل کبیر‘‘ میں بھی دہرائی گئی ہے جو ڈاکٹر صاحب کی حیات میں ۱۹۹۹؁ء میں طبع تو ہوگئی تھی لیکن ان کی ہدایت کے بہ موجب، اس کی تقسیم ان کے انتقال کے بعد کے لیے موخر کردی گئی تھی۔
۱۰؍ اگست ۱۹۹۵؁ء کو ڈاکٹر صاحب نے پاک پتن کی پہلی حاضری کے بارے میں جو کہا وہ ’’فضل کبیر‘‘ میں مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’ایک مرتبہ حضرت شاہ زوار حسین صاحب کی خدمت میں خیر پور ٹامی والا حاضر ہوا، میرے ساتھ علی گڑھ کے ہم جماعت دوست عبدالغنی اور کراچی کے سیٹھ عبدالغفار بھی تھے، وہاں سے ہم لوگ پاک پتن شریف حاضر ہوئے اس زمانے میں مزار شریف میں مغرب کی طرف ایک کھڑکی تھی، میں وہاں کھڑا ہوکر فاتحہ پڑھنے لگا تو بابا صاحبؒ نے ایک نظر مجھ پر ڈالی، میں تڑپ گیا اور لوٹ پوٹ ہوگیا، میں ’’اﷲ اﷲ‘‘ کہہ کر شور کرتا رہا، اپنے قابو میں نہ تھا، بہت سے لوگ جمع ہوگئے لیکن میرا شور کم نہ ہوا، پھر جمعے کی اذان ہونے لگی تو طبیعت قابو میں آئی، ہم لوگ وضو کرکے اگلی صف میں بیٹھ گئے، عبدالغنی صاحب میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے وہ روحانیت کے قائل نہیں تھے لیکن اب جوں ہی انہوں نے مجھے پکڑا، ان پر بھی کیفیات طاری ہوگئیں اور وہ بھی بے قابو ہوگئے اور کہنے لگے کہ بھائی! آج مجھے روحانیت کا قائل ہونا پڑا‘‘۔
۱۰؍ اگست ۱۹۹۵؁ء کو جب ڈاکٹر صاحب یہ روداد سنارہے تھے تو ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور موٹے موٹے آنسو ٹپ ٹپ ان کی بڑی بڑی اور انتہائی روشن آنکھوں سے ان کے بھرے ہوئے رخساروں پر گررہے تھے، سب حاضرین پر رقت طاری ہوگئی، میں اس وقت ملازمتِ سرکار میں تھا، میں نے درخواست کی کہ اگر وہ کچھ وقت نکال سکیں تو بابافریدؒ کے بارے میں میرے اس کتابچے کے پہلے اڈیشن میں پائی جانے والی غلطیوں کی نشان دہی کردیں اور متن کے بارے میں رہنمائی کریں، ڈاکٹر صاحب اس وقت ۸۳ سال کے پیٹے میں تھے، ہر روز دعا کے طالبوں اور علم اور روحانیت کے طلب گاروں کا ازدحام لگا رہتا تھا جو رات تک جاری رہتا، اﷲ کے اس دوست نے اپنی عدیم الفرصتی، پیرانہ سالی اور کمزوری کے باوجود، صرف ایک دو روز میں کتابچے کا ایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک حرف، کمال محبت اور محنت سے پڑھ کر ایک ایک شوشے اور نقطے تک کی جس عرق ریزی سے اصلاح کی اور کتابچے کے متن کے بارے میں مجھے جن بیش بہا مشوروں سے نوزا، اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔
۱۹۹۵؁ء کے بعد اس کتابچے کے مزید اڈیشن شائع ہوئے، ہر نیا اڈیشن نکلنے کے موقع پر میں ڈاکٹر صاحب سے درخواست کرتا کہ اپنے ارشادات سے نوازیں اور ان کے یہ ارشادات ہر نئے اڈیشن کا جھومر بنتے اور اسے برکت دیتے، ڈاکٹر صاحب نے مجھے جو چند خطوط لکھے، اس میں یہ فقرہ، ان کی پاکیزہ تحریر میں، خط کے آخر میں ہوتا تھا: ’’یقین جانیئے آپ کے لیے ہر روز دعا کرتا رہتا ہوں‘‘، ایک دفعہ میں نے انہیں لکھا تھا کہ اپنی والدہ کے گزرجانے کے بعد میں سوچتا تھا کہ اب دنیا میں کون راتوں میں میرے لیے دعائیں کرے گا، میں بھی کتنا بے خبر تھا؟۔
ڈاکٹر صاحب سے میری آخری ملاقات یکم جنوری ۲۰۰۵؁ء کو اسی گھر میں ہوئی جہاں ۱۰؍ اگست ۱۹۹۵؁ء کو پہلی حاضری ہوئی تھی، تب گرمیاں اپنے جوبن پر تھیں اور اب سردیاں عروج پر تھیں، ڈاکٹر صاحب صحن کی بجائے ساتھ والے کمرے میں پلنگ پر بیٹھے تھے، ٹانگیں نیچے لٹک رہی تھیں، میں نے اس بار ڈاکٹر صاحب کی یادگار تصنیف ’’تاریخ اسلاف‘‘ پیش کی اور درخواست کی کہ اگر زحمت نہ ہو تو اس پر اپنے دستخط کردیں، انہوں نے مجھ سے میرا قلم لیا اور دستخط کئے اور نیچے ۱۔۱۔۲۰۰۵ء لکھا، یہ تحریر دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک انتہائی ضعیف، بیمار اور ۹۲ سالہ شخص کی تحریر ہے جس کا آخری وقت آن پہنچا تھا۔۲۵؍ دسمبر ۲۰۰۵؁ء کو مغرب کے وقت، حیدرآباد (سندھ) سے چند کلو میٹر دوران کے مقام تدفین پر ہزاروں مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے جمع تھے جو نہ صرف حیدرآباد (سندھ) بلکہ کراچی، اندرون سندھ اور پنجاب سے آئے تھے لگتا تھا کہ جس نے جب اور جہاں یہ خبر سنی وہ اسی حال میں اٹھا اور سیدھا حیدرآباد کی طرف چل دیا، کراچی سے حیدرآباد جانے والی ہائی وے کے دونوں جانب، تاحدِ نگاہ، بسوں، ویگنوں اور کاروں کی قطاریں صف باندھے کھڑی تھیں، پولیس نے لاکھ کوشش کی لیکن اس رات اس قومی شاہراہ پر ٹریفک گھنٹوں معطل رہی۔
وہ آفتاب عالم تاب جو ۹۳ برس پہلے جبل پور میں طلوع ہوا تھا، آج ۴۰۔۱۲۔ بعد از دوپہر حیدرآباد میں غروب ہوگیا تھا، مغرب کی نماز کے بعد ان کا پاک جسم ان کی معطرلحد میں اتار دیا گیا، نوّے برس پہلے ایک ماں نے اپنے تین سالہ بیمار بیٹے سے کہا تھا: ’’میرے بچے! قرآن پڑھو، اﷲ نے چاہا تو ٹھیک ہوجاؤ گے‘‘، آج اس معصوم روح کو اس کے پالن ہارنے اپنے جواررحمت میں جگہ دے دی۔ ( جنوری ۲۰۰۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...