Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر سید معین الرحمن

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر سید معین الرحمن
ARI Id

1676046599977_54338483

Access

Open/Free Access

Pages

713

بہ یادِ سید معین الرحمن
(رفیق احمد خان)
ڈاکٹر سید معین الرحمن ایک طرح سے میرے خواجہ تاش تھے، مرزا غالب اور رشید احمد صدیقی سے میرا عشق روحانی، جذباتی اور زبانی ہے اور ان کا عشق شخصی، روحانی، فکری، ادبی اور تحقیقی اوصاف کا مرقع، ان کی تن دہی، سخت کوشی، برداشت، نفاستِ طبع اور حسن آرائی و حسن آفرینی اس کی شہادتیں۔
میں اپنے احباب سے ان کی خوش اخلاقی، خوش اطواری، شائستگی اور روایتی وضع داری سے متعلق باتیں سن ہی چکا تھا، ان کی شگفتہ و مرصع اور پرمغز و پراثر نثر دل میں گھر کرچکی تھی اور ان کی سرکشیدگی اور بلند قامتی بھی میرے دل و نظر میں ایک مقام و مرتبہ وضع کرچکی تھی، خط و کتابت کا آغاز ہوا تو میرے خیالات و تصورات کو یک گونہ تقویت حاصل ہوئی، میں اپنے اندر ان کے لیے اپنائیت محسوس کرنے لگا اور یوں نیاز حاصل کرنے کی تمنا جی میں سر اٹھانے لگی۔
اس قلبی لگاؤ کا نتیجہ تھا کہ جب کبھی ان کے خلاف کوئی زہر آلودہ تحریر پڑھی تو طبیعت مکدر ہوگئی اور ان کی قدر و منزلت میں کسی طرح کی بھی کمی محسوس نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ ہی محسوس کیا، ’’دیوانِ غالب، نسخۂ خواجہ‘‘ کے حوالے سے خواہ کچھ بھی کہا گیا یا لکھا گیا ہو مگر غالب سے غیر معمولی شیفتگی اور غالب کی طرف داری کا اس سے اچھا اور بڑا عملی ثبوت ادبی دنیا میں کم دیکھنے میں آئے گا، اس سے ہٹ کر دیکھیے تو پیش کش میں حسن اور سلیقے کا حسین امتزاج بھی کیا لائق تحسین نہیں، میر تقیؔ میر کا یہ مصرع صادق آتا ہے: ع
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
۲۰۰۳؁ء میں انجمن ترقی اردو، پاکستان کی صدی منائی گئی، سرسید یونیورسٹی، کراچی کے پائین باغ میں انجمن ترقی اردو پاکستان، علی گڑھ اولڈ بوائز اور سرسید یونیورسٹی، کراچی کے اشتراک سے تقریبات کا اہتمام کیا گیا، ایک روز مجھے بھی شرکت کا اعزاز حاصل ہوا، میرے علم میں تھا کہ لاہور سے نمایاں طور پر ڈاکٹر سید معین الرحمن اور ڈاکٹر تحسین فراقی مدعو ہیں، جاتے ہی میری مشتاق نظروں نے ڈاکٹر سید معین الرحمن کو تلاش کرلیا، میں نے بڑھ کر سلام کیا، انہوں نے جواب دیا اور سینے سے لگایا، خیریت دریافت کی، ان کا تپاک سے ملنا اور دیر تک خوش دلی سے باتیں کرنا بھلایا نہیں جاسکتا۔
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
جلسہ گاہ میں میرے پہنچنے سے قبل ہی ڈاکٹر صاحبب اپنے زریں خیالات کا اظہار فرما چکے تھے، شومی قسمت کہ میری سماعت متمتع ہونے سے محروم رہی، ڈاکٹر سید معین الرحمن سے میری یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی جسے میں بجاطور پر ایک یادگار ملاقات کہہ سکتا ہوں، دورانِ گفتگو میں نے ڈاکٹر صاحب سے ان کی ایک کتاب ’’شخصیات و ادبیات‘‘ سے اپنی دل چسپی ظاہر کی، انہوں نے لاہور پہنچتے ہی رجسٹر ڈاک سے میرے شوق کو تسکین کا سامان مہیا کیا، اسی دوران نہایت سلیقے سے لفافے میں ملفوف ایک مکتوب بھی عنایت فرمایا، اس مکتوب کو ایک طرح سے اطلاع نامہ کہا جاسکتا ہے، مناسب خیال کرتا ہوں کہ بہ جائے تلخیص کے مکمل مکتوب برائے مطالعہ پیش کیا جائے، ملاحظہ کیجیے:
جناب مکرم ۲؍ نومبر ۲۰۰۲؁ء
میں محکمہ تعلیم سے اڑتیس (۳۸) اور ’’جی سی‘‘ سے کوئی بائیس برس منسلک رہنے کے بعد ۴؍ نومبر ۲۰۰۲؁ء کو ریٹائر ہورہا ہوں۔ فروری ۱۹۸۱؁ء میں سینئر پروفیسر اور شعبۂ اردو، پنجابی کے سربراہ کے طور پر ’’جی سی‘‘ سے وابستہ ہوا، یہ میرا اعزاز ہے، میرے زمانہ تدریس کا بیشتر حصہ جی سی میں گزرا؛ اسے آپ کی اور ادارے کے دوسرے احباب اور بزرگوں کی عنایت اور خدا کا احسان جانتا ہوں۔
جی سی میں آیا تو یہاں اردو میں صرف انٹر اور بی۔اے تک کی کلاسز تھیں، بائیس برس کی عملی وابستگی کے بعد جارہا ہوں تو اطمینان ہے کہ مجھے پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ بنانے کا امتیاز حاصل ہوا، ایم۔اے (اردو) کے علاوہ ایم فل اور پی ایچ ڈی تک کے پروگرام رائج کرانے اور نصابات وضع کرنے اور منظور کرانے میں کامیابی پائی۔
اس تمام عرصے میں خود کسی قدر تصنیفی، علمی اور تحقیقی کام کرسکا، جسے ملک اور بیرون ملک کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں جگہ ملی۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ اطمینان اور افتخار کہ میں اپنے رفقا اور تلامذہ کو کارِ علمی میں مصروف رکھ سکا۔
مجھے ایم۔اے (اردو) کے ایک سو سے زیادہ تھیسس دیکھنے؍ کرانے کا موقع ملا، پی ایچ ڈی کے آٹھ دس کاموں کی نگرانی، رہنمائی اور تکمیل کی خوشی پائی، اب بھی متعدد اسکالرز پی ایچ ڈی کی سطح پر میرے ساتھ کام میں مصروف ہیں، کچھ ابتدائی مرحلے میں ہیں اور کچھ حدِّ آخر کے قریب۔
خدا کا شکر ہے کہ محکمۂ تعلیم حکومت پنجاب نے بھی عزت افزائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی، مجھی BS-21 میں لیے جانے والے ’’پہلے پروفیسر‘‘ کا غیر معمولی امتیاز حاصل ہوا، اس تمام عرصے میں مختلف انتظامی عہدوں کے لیے مجھ سے کہا جاتا رہا سکریٹری ایجوکیشن تک کے منصب کی پیش کش ہوئی، اسے میں نے عزت افزائی جانا لیکن تدریس سے وابستہ رہنے کو ترجیح دی۔ نتیجتاً مجھے علمی کاموں میں یکسوئی نصیب رہی اور میں اپنے میدان کار میں کچھ کرسکا، میرے ایک مہربان دوست کا شعر ہے کہ:
’’یہ آنے والا زمانہ بتائے گا تم کو!
مرا وجود زمیں پر خدا کا احساں تھا‘‘
مجھے اپنے بارے میں اس طرح کا تو کوئی گمان ہر گز نہیں لیکن کسی قدر یقین سا ہے کہ اس نواح میں ’’اچھا برا، کچھ اپنا اثر چھوڑ جاؤں گا‘‘۔
جی سی کے زمانہ قیام میں آپ نے مجھے جو عزت اور محبت دی، اس کا شکریہ تو ادا کرنا ممکن ہی نہیں بہر نوع آپ کے التفات کے لیے ممنون ہوں اور آپ کی دعاؤں کا طالب رہوں گا۔ (دستخط از سید معین الرحمن)
میں اسے خلاف موقع سمجھتا ہوں کہ اس مکتوب کے ذریعے مکتوب نگاری کی تحلیل نفسی کی جائے یا مکتوب کے مندرجات سے بحث کی جائے مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنی زندگی، اپنے کام اور اپنے دوستوں کے رویوں سے مطمئن اور خوش تھے، یہ ان کی اعلاظرفی تھی کہ انہوں نے اپنے تلخ، تکلیف دہ اور جان لیوا لمحات اور حادثات کا تذکرہ اس مکتوب میں نہیں کیا۔
۱۹۹۶؁ء میں، میں نے ان کی ادارت میں شائع ہونے والے گورنمنٹ کالج لاہور کے مجلے ’’تحقیق نامہ‘‘ پر تبصرہ کیا جو سہ ماہی ’’انشا‘‘ حیدرآباد سندھ میں شائع ہوا، میرے ایک دوست شاہ انجم بخاری نے انہیں اس کی اطلاع دی، ’’غالب نامہ‘‘ کی صورت میں الوقار پبلی کیشنز سے شائع ہونے پر میں نے انہیں خط لکھ کر چند نسخے دوستوں کے لیے قیمتاً طلب کیے تو وہ بہت خوش ہوئے، یوں خط کتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔
ڈاکٹر نجم الاسلام (م ۱۳؍ فروری ۲۰۰۱؁ء) کی وفات حسرت آیات پر انہوں نے بعض اخبارات اور پاکستان اور بیرون پاکستان بعض حضرات کو اس سانحے کی اطلاع دی، روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور میں یہ خبر ۱۵؍ فروری ۲۰۰۱؁ء کو شائع ہوئی جس میں اعتراف کیا گیا کہ ’’ڈاکٹر نجم الاسلام کی وفات کی خبر گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبۂ اردو کے سربراہ ڈاکٹر سید معین الرحمن نے دی تو لاہور کے علمی اور ادبی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی‘‘، مخدومی ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب کے نام ڈاکٹر سید معین الرحمن کا تعزیتی مکتوب ’’گوشۂ نجم الاسلام‘‘، رسالۂ سہ ماہی انشا حیدرآباد سندھ ۲۰۰۲؁ء کی زینت بنا، جب کہ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب کا جوابی مکتوب بہ نام ڈاکٹر سید معین الرحمن اور ڈاکٹر مختار الدین احمد اور ڈاکٹر نذیر احمد کے نام ان کے مکتوب اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا جوابی مکتوب ڈاکٹر سید معین الرحمٰن کے نام سہ ماہی انشا حیدرآباد سندھ کے ’’ڈاکٹر نجم الاسلام نمبر‘‘ (حصہ اول) مارچ ۲۰۰۲؁ء میں شائع ہوئے۔
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب کے نام ان کا مکتوب محررہ ۱۳؍ فروری ۲۰۰۱؁ء سے اقتباس دیکھئے:
’’دل پر ایک قیامت گرگئی۔ آپ کے فیضِ تربیت سے متمتع ہونے والوں میں وہ ارشد اور ارفع ترین تھے، ہمارے عہد اور اپنے ہم عمروں میں حد درجہ محتاط اور معتبر بے حد صاحب نظر، انتھک اور بہت خاموش اور کارگزار‘‘۔
کم لفظوں میں سلیقے سے پر تاثیر بات کہنے اور خاکہ کھینچنے کا یہ فن جہاں مبدٔ فیض کی فیاضیوں کا ایک کرشمہ اور غالبؔ اور رشید احمد صدیقی سے تعلق خاطر کی ایک زندہ مثال ہے، وہاں ان کے شوق، محنت اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا آئینہ دار بھی ہے، مکتوب کے اس اقتباس کو پڑھ کر رشید احمد صدیقی کے خاکے ’’مولانا محمد علی‘‘ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، رشید احمد صدیقی کا ایک ایک لفظ ایک ایک فقرہ مولانا کی محبت سے سرشار ہے، دفاع کرتا ہوا، داد دیتا ہوا، سینہ سپر بھی اور سینہ کوب بھی، دل شاد بھی اور دل فگار بھی، ان میں آنے والوں کے لیے عبرت کا سامان تھا، مگر: ع
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
وہ فقرے آج پھر ایک محمد علی، اس کے ماحول، اس کے دوستوں اور دشمنوں کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتے ہیں:
’’محمد علی کا قلب حزیں تھا لیکن روح تابندہ تپاں۔ محمد علی پر دولت و شہرت کی بارش ہوئی، محمد علی نے ان دونوں کو سیلاب کی طرح بہادیا، دونوں نے مفارقت کی، بدنامی اور مفلسی سے بھی سابقہ پڑا لیکن یہ چیزیں جسم و جاں کی تھیں، ان کی روح پاک تھی طاہر محمد علی کی ذہانت اور فطانت اب کہاں ملے گی، وہ ایک شیر کی مانند تھے جس کو شیروں سے نہیں، لومڑی اور بھیڑیوں سے سابقہ ہو، محمد علی کے باب میں بعض کہتے ہیں کہ وہ بڑے تھے لیکن ان کا کوئی کارنامہ نہیں ہے، یہ تنگ ظرفوں کا خیال ہے، محمد علی میں کم زوریاں بھی تھیں لیکن ان کی کمزوریاں ایک اچھے شعر کی کم زوریاں تھیں جن سے شعر کے لطف و بے ساختگی میں کوئی فرق نہیں آتا، محمد علی کی آغوش میں رحمت تھی، مرحوم آج خود ہماری آنکھوں سے خون بن کر ٹپک رہے ہیں‘‘۔ (گنج ہاے گراں مایہ)
۲۷؍ جولائی ۲۰۰۱؁ء کو ان کے ایک اور محبت نامے سے نظریں پر تسکین اور دل شاد کام ہوا۔
’’عزیز گرامی رفیق احمد خاں صاحب، سلام و سپاس
ڈاکٹر نجم الاسلام مرحوم کے ایک خط اور ایک ’پس نوشت‘ تحریر کا عکس آپ کی نذر ہے، اس خط کو میں نے فورٹ ولیم کالج، سے متعلق سید وقار عظیم کی کتاب کے تازہ اڈیشن میں محفوظ کردیا ہے، کتاب آپ کے لیے الگ رجسٹرڈ پیکٹ سے روانہ کرچکا ہوں، اسی پیکٹ میں ’معاصر‘ کا نیا شمارہ بھی رکھا ہے جس میں ’’نسخہ خُواجہ‘‘ کے بارے میں مضمون ہے، یہی مضمون آپ کی تحویل میں بھی ہے، ’’انشا‘‘ میں اگر آپ کوئی ’’مطبوعہ‘‘ تحریر شامل نہیں کرتے تو فبہا اور اگر ’’قندمکرر‘‘ کی روایت ہو تو سبحان اﷲ! خیر طلب‘‘۔ (دستخط: سید معین الرحمن)
یہ مضمون ’’دیوان غالب نسخۂ خواجہ‘‘ آغاامیر حسین، مدیر ماہنامہ ’’سپوتنک‘‘، لاہور کے قلم سے نکلا اور مارچ ۲۰۰۱؁ء کے شمارے میں شائع ہوا، جب کہ سہ ماہی انشا حیدرآباد سندھ کے شمارہ:۳۱ جولائی تا ستمبر ۲۰۰۱؁ء میں شامل ہوا، انشا شمارہ: ۱۸؍ جنوری تا جون ۱۹۹۸؁ء میں ڈاکٹر صاحب کا ایک مضمون ’’اعلامدارج میں مطالعۂ غالب‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا تھا، مرحوم نے ’’سپوتنک‘‘ کے تین شمارے میرے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے مرحمت فرمائے، مارچ و مئی ۲۰۰۱؁ء یہ شمارہ ماہر غالبیات کالی داس گپتا رضا کی یاد میں ’’راضی بہ رضا‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر سید معین الرحمن نے مرتب کیا تھا، اس میں ان کے نام گپتا رضا کے پندرہ عدد مکمل اور پانچ عدد مکتوبات کے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں اور گپتا رضا کی دو غیر مطبوعہ تالیفات پر ان کا مضمون شائع ہوا ہے، علاوہ ازیں گپتا رضا کے شعری مجموعے ’’احترام‘‘ پر تبصرہ بھی شامل اشاعت ہے، تیسرا شمارہ مئی ۲۰۰۲؁ء کا ہے جو آل احمد سرورؔ پر خاص نمبر ہے، اسے ’’سرورابدی‘‘ کے عنوان سے مرحوم نے مرتب کیا تھا، یہ شمارہ ۱۶۰ صفحات کو محیط ہے، ’’حرف چند․․․․․ بیاد سرور‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب نے آل احمد سرور سے متعلق اپنی یادوں کے مرقع نذر قارئین کیے ہیں۔
ڈاکٹر نجم الاسلام کی وفات کے فوراً بعد سہ ماہی انشا حیدرآباد سندھ کے تازہ شمارے میں ’’گوشۂ ڈاکٹر نجم الاسلام‘‘ شائع کیا گیا، اس کی وصول یابی کی رسید انہوں نے اس طرح دی:
’’انشا‘‘ کے دو شماروں پر مبنی پیکٹ وصول پایا، دلی شکریہ، احباب کو بھی پیش کردیا ہے، آپ کی سعی بڑی قابل قدر ہے۔
نجم الاسلام صاحب کا غم بڑا شدید ہے․․․․․․ مکتوبات کی جمع آوری بڑا مفید کام ہوگا مزید خط بھیجوں گا تحقیقی کام کے ارادے پر مستحکم رہیے گا‘‘۔
(لاہور، محررہ: ۲؍ مئی ۲۰۰۱؁ء)
میں نے علمی و ادبی اور تحقیقی حلقوں میں خطوط لکھے کہ سہ ماہی انشا حیدر آباد کی جانب سے ڈاکٹر نجم الاسلام نمبر نکالا جائے گا، آپ حضرات اپنے قیمتی خیالات سے مرحوم کی زندگی اور خدمات پر روشنی ڈالیے، بہ حمداﷲ ہم کامیاب ہوئے، اسی دوران میں نے ایک مطبوعہ مکتوب کے ذریعے یہ اطلاع بھی دی کہ راقم مرحوم کے مکتوب جمع کررہا ہے جن حضرات کی ان سے مراسلت رہی ہو وہ مکتوبات کی عکسی نقول ارسال فرمائیں تاکہ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا جائے، ڈاکٹر سید معین الرحمن غالباً اپنی مصروفیت کی وجہ سے کوئی مضمون تو تحریر نہیں کرسکے تاہم میری دل جوئی اور دل آسائی کی غرض سے ڈاکٹر نجم الاسلام کے چار عدد مکتوب بہ ذریعہ ڈاک ارسال فرمائے، بے حد افسوس ہے کہ وہ میرے اس منصوبے کو عملی صورت میں نہ دیکھ سکے، دیکھتے تو کتنا دل بڑھاتے، کن کن لفظوں سے میرے کام کی قدر کرتے اور سراہتے۔
مضمون کے اختتام پر ڈاکٹر سید معین الرحمن کے نام ڈاکٹر نجم الاسلام کے دو مکتوبات سے اقتباس پیش کرتا ہوں:
’’خوبصورت تحفہ، آپ کا مرتبہ ’’ـدیوان غالب‘‘ موصول ہوا، اس عمدہ تدوین اور پیش کش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، آپ کی تعارفی تحریر شوق اور دلچسپی سے پڑھی، ’’ـتوضیحات و تعلیقات‘‘ سے بھی مستفید ہوا، کس خوبی اور اخلاص کے ساتھ آپ نے اپنے ان بزرگوں کو یاد کیا ہے جن سے آپ مستفیض ہوتے رہے ہیں، یہ آپ کی سلامت طبع پر دال ہے اور پھر غالب و غالبیات سے آپ کی گہری وابستگی ہے اور قلبی تعلق ہے، وہ بھی بہ خوبی ظاہر و باہر ہے‘‘۔ (محررہ: ۹؍ دسمبر ۱۹۹۸؁ء)
’’آج کی ڈاک سے دیوان غالب نسخہ خواجہ کا ڈیلکس اڈیشن ملا، تہہ دل سے اس گراں قدر تحفے کا شکریہ ادا کرتا ہوں، الوقار پبلی کیشنز نے حسنِ طباعت کو درجۂ کمال پر پہنچا دیا ہے، اس دل کش نسخے کے آئینے میں آپ کے ذوق ترتیب و تدوین کا جمال پہلے سے بھی زیادہ نکھر کر سامنے آیا ہے، خدا نظرِبد سے بچائے اور سلامت بہ کرامت رکھے‘‘۔ (محررہ: ۴؍جنوری ۲۰۰۱؁ء)
ڈاکٹر سید معین الرحمن کے قلم سے نکلا ہوا ایک برجستہ فقرہ ملاحظہ فرمائیے:
’’صحت خستہ، فرصت کم اور کام بہت نتیجہ معلوم‘‘۔
(مالک رام کے غیر مرتب قلمی خط، از ڈاکٹر سید معین الرحمن، مشمولہ ’’ـالماس‘‘، ۷، ۲۰۰۴؁ء) درحقیقت یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ان کی اخیر زندگی کی تصویر پیش کرتا ہے، اس میں انہوں نے کس طرح اپنی صحت کی خستگی، عدیم الفرصتی، کثرت کار اور انجام سے باخبر ہونے کو ظاہر کیا ہے، یہ زندگی کے دو قطبین ہیں جن میں صبح و شام سمٹ کر آگئے ہیں، انجام سے آگاہ ہونے کے باوجود اپنی بھر قوت سے مصروف کار رہنا اور رفقا اور تلامذہ کو کار علمی میں مصروف رکھنا بجائے خود ایک بہت بڑا کام ہے اور کسی طرح بھی نظر انداز کیے جانے کے لائق نہیں بلکہ قابل تقلید ہے۔
اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم
گھبرا گئے ہیں بے دلی ہم زباں سے ہم
مشفق خواجہ کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد اردو دنیا کے لیے ڈاکٹر سید معین الرحمن کی وفات اس سال ۲۰۰۵؁ء کا دوسرا بڑا سانحہ ہے جو کسی طرح بھی قیامت سے کم نہیں کہ یہ دنیا اردو کے دو ایسے محسنوں سے خالی ہوگئی جو ایک عمر سے گل زارِ اردو کی آب یاری اور چمن بندی کی محنت اٹھانے میں ہمہ تن مصروف و مشغول تھے، جب تک جیے نگارِ اردو کے گیسو سنوارتے رہے اور نوع بہ نوع ستاروں سے اس کے فلکِ بے نظیر کو مزین کرتے رہے۔
’’یہ آنے والا زمانہ بتائے گا تم کو !
مرا وجود زمیں پر خدا کا احساں تھا‘‘
( جنوری ۲۰۰۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...