Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > عبداﷲ عباس ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

عبداﷲ عباس ندوی
ARI Id

1676046599977_54338484

Access

Open/Free Access

Pages

717

آہ! مولانا عبداﷲ عباس ندوی مرحوم
۱۰؍ دسمبر کے ’’تعمیر حیات‘‘ سے معلوم ہوا کہ مولانا عبداﷲ عباس ندوی اب روبہ صحت ہیں، اسی شمارے میں پروفیسر عبدالحلیم ندوی مرحوم کے متعلق خود مولانا کا ایک تعزیتی مضمون بھی نظر سے گزرا جس میں انہوں نے لکھا کہ پروفیسر مرحوم ان سے ایک سال سینئر اور مولانا معین اﷲ ندوی کے ہم درس تھے، ساتھ میں مولانا ظہور پرتاب گڑھی، مولانا عبدالغفار ندوی اور مولانا ابوالعرفان خاں ندوی بھی تھے، ان احباب کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ اب شائد ہی کوئی اس گروہ میں باقی رہا ہو، جو زندہ ہیں وہ کشتہ تیغ حیات ہیں، ان سطروں کو پڑھتے وقت کیا خبر تھی کہ کشتگان تیغ اجل کی مرثیہ خوانی کرنے والے کا ماتم اس قدر جلد کیا جائے گا، مولانا عرصے سے بیمار تھے اور ایک دن مخدوم گرامی مولانا تقی الدین ندوی کے فون سے معلوم ہوا کہ اب حالت بڑی تشویش ناک ہے، دو روز بعد وہ جنوری کے اخباروں میں ان کی وفات کی خبر آگئی اور اس طرح قریب اسّی (۸۰) سال پر محیط ایک اہل دل، صاحب اخلاص، دیدہ ور اور دردمند انسان کی داستان مکمل ہوگئی، اِناﷲ وَاِنا اِلیہ رَاجِعونْ۔
پھلواری شریف ان کا مولد ہے، ابتدائی تعلیم کے بعدوہ ندوے آگئے، جہاں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اور شاہ حلیم عطا جیسے اکابر کی سرپرستی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی توجہات نے ان کے مستقبل کی راہوں اور منزلوں کو متعین کردیا، فراغت کے بعد ندوے میں قرآن مجید اور لغت قرآن کریم کی تعلیم و تدریس سے ان کے علمی سفر کا آغاز ہوا، بعد میں وہ ندوے کے ادیب اول ہوئے، برطانیہ میں لیڈس یونیورسٹی سے لسانیات میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی، سعودی عرب میں نشریات کے ادارے سے وابستہ ہوئے، رابطہ عالم اسلامی کے مشیر اور مکہ مکرمہ کی معروف جامعہ ام القریٰ میں استاد مقرر ہوئے، اردو، عربی، انگریزی اور فرانسیسی میں ان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر رابطہ عالم اسلامی کے امین عام شیخ صالح التزاز نے ان کو رابطہ کے انگریزی ترجمان کی ادارت بھی سپرد کی، وہ کیمبرج یونیورسٹی کی لنگوسٹک سوسائٹی کے رکن بھی بنائے گئے، ترقی درجات کی یہ خبریں ہندوستان کی ملت اسلامیہ کے لئے فخر کے قابل تھیں، مکہ مکرمہ میں عربی زبان و ادب کی درس و تدریس اور ایک عالمی انگریزی مجلہ کی ادارت، ندوے کے بانیوں کے اس خواب کی خوبصورت تعبیر تھی کہ یہ ادارہ قدیم و جدید کا متوازن نقطہ اتصال ثابت ہو، جامعہ ملک عبدالعزیز سے مولانا کا رشتہ بڑا دیرپا ثابت ہوا، وہ وہیں کے ہوکر رہ گئے، اہل و عیال بھی سعودی شہری ہوئے لیکن ملازمت ہجرت اور توطن کے اس طویل عرصے میں وہ اپنوں سے بے گانے کبھی نہ ہوئے، ندوے سے ان کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا، خصوصاً مولانا سید ابوالحسن علی ندوی سے ان کا غیر معمولی تعلق، مرشد و مسترشد کے ان رشتوں کی یاد تازہ کرتا رہا جن سے ہمارے اکابر کی سیرتیں لبریز ہیں، اپنے استاد و مربی سے محبت بلکہ فدائیت کی ایسی مثالیں کم ملتی ہیں، وہ برابر ندوے آتے رہے اور مولانا ندوی کی نسبت سے مولانا کے اعزہ و احباب و تلامذہ بلکہ ندوے کے ذرے ذرے سے اخلاص و محبت کی داستانیں رقم کرتے رہے، مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی کے انتقال کے بعد وہ ندوے کے معتمد تعلیمات ہوئے اور اپنے مشوروں، تجربوں اور اثر و رسوخ سے وہ ندوے کی ہمہ گیر ترقی کے لئے مسلسل کوشاں رہے، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی جب تک میرکارواں تھے، مولانا عبداﷲ عباس کی حدی خوانی کا آہنگ قدرتاً بلند تھا لیکن میرکارواں کے رخصت ہونے کے بعد بھی ان کے جوش و جذبہ میں ذرا کمی نہ آئی، مولانا سید محمد رابع ندوی ناظم ندوۃ العلماء کو انہوں نے مولانا علی میاں ندوی کے نہ ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا، ہندوستان میں رابطہ ادب اسلامی کے جلسوں اور سمیناروں میں وہ برابر شامل ہوتے رہے، اس کے لیے انہوں نے صحت اور موسم کے شدائد کی پروانہ کی، آخری بار ان کو جامعہ اسلامیہ مظفرپور اعظم گڑھ کے حضرت شیخ الحدیث سمینار میں مقالہ پیش کرتے ہوئے دیکھا، درس و تدریس اور دوسرے ضروری مشاغل اور کثرت کار کے باوجود قلم و قرطاس سے ان کا رشتہ توانا رہا، ان کا علمی اور تحریری ذخیرہ خاصا ہے لیکن اصل سرمایہ قرآنیات ہی ہے، عربی اور انگریزی زبانوں میں تعلیم الغۃ القرآن، مذاہب المنحرفین فی التفسیر، ترجمات معانی القرآن وتطور فہم عندالعرب، النکت فی اعجاز القرآن خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان تصنیفات کے علاوہ قرآنیات سے متعلق انہوں نے کثرت سے مضامین لکھے، دیکھا جائے تو ان کی علمی و دینی خدمات کی داستان کا سرعنوان ہی خدمت قرآن ہے، پھلواری شریف کے مولانا مفتی محمد عباس نے جب اپنے نومولود بیٹے کو عبداﷲ کا نام دیاتھا تو کیا خبر تھی کہ اس اسم ظاہر کی معنویت کا اثر ایسا ہوگا کہ اسلام کی علمی تاریخ کے یکتائے عصر خصوصاً علوم القرآن میں بحرزخار کی حیثیت سے سب سے نمایاں نام کی کچھ برکتیں دور جدید کے اس عبداﷲ بن عباس میں بھی نمایاں ہوکر رہیں گی، اردو میں بھی ان کی کتاب ’’قرآن کریم تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا معجزہ‘‘ قریب دو سال پہلے دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد سے شائع ہوئی، اس کتاب کی تالیف میں یہ احساس کارفرما تھا کہ اعجاز القرآن کے اعتراف میں عربی زبان میں علمائے بدیع و بلاغت نے اپنی زندگیاں صرف کردیں مگر اردو میں خاص اس موضوع پر کتابیں نہیں ہیں، اس اظہار کے بعد ان کا یہ جملہ بڑا پرلطف تھا کہ ’’وجود سے انکار نہیں اپنی بے بضاعتی کا اقرار ہے‘‘، حیدرآباد ہی سے ان کی ایک عمدہ کتاب ’’تاریخ تدوین سیرت‘‘ بھی شائع ہوئی، جس کے متعلق اہل نظر نے لکھا کہ یہ سیرت نبویﷺ کی ایک نئے ڈھنگ کی کتاب ہے، سیرت اور صاحب سیرت سے عقیدت و فدائیت مولانا مرحوم کی کتاب حیات کا نمایاں عنوان ہے، جب نام ترا لیجو چشم میں آنسو بھر آوے کی عملی کیفیت کا مشاہدہ مولانا کے قریب رہنے والوں کو بارہا ہوا، ان کی آرزو تھی کہ مداحان سرور کائناتﷺ کے پائیں میں اذن باریابی ان کو بھی مل جائے ’’ردائے رحمت‘‘ اور ’’آداب و فضائل درود و سلام‘‘ کی شکل میں ان کی یہ آرزو بھی پوری ہوئی، ان دونوں کتابوں میں حرف حرف، جذبے کے خلوص بلکہ سوزدروں سے بیتاب و بے قرار نظر آتا ہے۔
مولانا عربی کے ادیب تھے لیکن اردو ادب میں ان کی نثر کم نہیں تھی، مولانا عبدالماجد دریا بادی ان کی تحریروں کے بڑے مداح تھے، صدق جدید میں انہوں نے لیڈس سے لکھے ہوئے ان کے خطوط اہتمام سے شائع کیے، ’’تعمیر حیات‘‘ میں اکثر اداریے ان کے قلم سے ہوتے، موضوعات کے تنوع کے باوجود ان کی ادبی شان ہمیشہ نمایاں رہی، انہوں نے دہلی سے ۸۰ کی دہائی میں رسالہ ذکر و فکر بھی جاری کیا، اس میں ان کی ادارتی تحریریں مذاکرات کے عنوان سے بہت مقبول ہوئیں، قومی و ملی مسائل پر ان کی گہری نظر اور پکڑ کا اندازہ ان اداریوں سے بہ خوبی کیا جاسکتا ہے، فتنہ استشراق، یہودیت، عیسائیت، عرب قومیت، فرقہ وارانہ ذہنیت، مدارس اور اردو جیسے مسائل پر ان کی یہ تحریریں بڑی وقیع ہیں، ان کی تحریروں کا ایک مجموعہ پروفیسر محسن عثمانی نے نگارشات کے نام سے مرتب کیا ہے لیکن ضرورت ہے کہ ان کے تمام متفرق مقالوں اور مضامین کے مجموعے شائع کیے جائیں۔
مولانا مرحوم نے اپنے استاد و مرشد مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کے سوانح بھی ’’میرکارواں‘‘ کے نام سے مرتب کیے، حضرت مولانا علی میاں کی خودنوشت ’’کاروان زندگی‘‘ کے بعد یہ کتاب اپنے موضوع پر سب سے بہتر شمار کی جاتی ہے۔
’’دارالمصنفین‘‘ اور ’’معارف‘‘ سے بھی ان کا رشتہ پرانا اور مستقل رہا، وہ یہاں کئی بار تشریف لائے اور اپنے قیام کے دوران اپنی محبتوں کی چاندنی بکھیرتے رہے، ان کا عقیدہ تھا کہ علامہ شبلی نے اسلامیات کا ربط ادبیات سے قائم کیا اور دین کو ادب کے قالب میں پیش کرنے کا رواج ڈالا، انہوں نے کہا اور لکھا بھی کہ دبستان شبلی کا اردو ادب پر یہ احسان ناقابل فراموش ہے کہ اس نے تاریخ کو داستان گوئی کی سطح سے بلند کرکے تحقیقات علمیہ کا درجہ دیا اور اسلامی علوم کو مواعظ کے گوشے سے نکال کر بحث و استدلال کا وسیع میدان عطا کیا، علامہ شبلی سے اپنی ہم آہنگی اور اثر پذیری اور سید صاحب، شاہ معین الدین ندوی اور سید صباح الدین عبدالرحمن سے ان کے روابط میں یہی جذبہ کارفرما تھا کہ ان سب نے توسط و اعتدال کی راہ اور قدیم و جدید کے درمیان طریق وسط کے اصول کی تشریح کی، سید صباح الدین عبدالرحمن کی تحریروں خصوصاً ان کی شذرات نگاری کی داد انہوں نے یہ کہہ کردی کہ ان میں شبلی کا جاہ و جلال، سید صاحب کی امانت علمی اور توازن کا امتزاج تھا، دارالمصنفین سے ایک عمر کے تعلق کا نتیجہ تھا کہ وہ اس کی ترقی اور کامرانی کے لیے فکرمند رہتے، مدیر ’’معارف‘‘ مولانا ضیاالدین اصلاحی سے ان کا یہ تعلق اسی طرح قائم رہا حتی کہ یہاں کے اصاغر کو بھی وہ بڑی عزت و محبت سے نوازتے، ان کی خدمت میں حاضری کا آخری موقع گزشتہ سال ندوے کے مہمان خانے اور اس سے متصل ان کی قیام گاہ پر ملا، اس وقت وہ اس خبر سے کبیدہ خاطر تھے کہ اعظم گڑھ سے منسوب ایک مشہور فن کارہ نے دارالمصنفین کی مالی اعانت کی پیش کش کی ہے، یہ کبیدگی محض ان کی ایمانی غیرت کے سبب تھی لیکن جب حقیقت حال سے وہ واقف ہوئے تو یہ تکدرفی الفوررفع ہوگیا، وہ یقینا فرقہ زہاد سے اٹھے تھے لیکن کامل ہوکر ندوے کے مذہبی اور لکھنؤ کے تہذیبی ماحول نے خوش فکری، خوش گوئی اور خوش سلیقگی کو اور دلکش بنادیا تھا، انکسار و تواضع کی لکھنوی روایات کے ساتھ ان کی وضع قطع بھی لکھنؤ کے قدیم شرفا کی یاد تازہ کرتی تھی، زندگی میں بھی وہ مقبول عام و خاص تھے، انتقال کے بعد جس طرح ان کا ماتم ہوا وہ ان کے نیک کاموں کی قبولیت کا مظہر ہے، یہ رشک کی بات ہے لیکن ان کی زندگی تو اسی وقت رشک کے قابل ہوگئی تھی جب ان کو مہبط قرآن کا جوار نصیب ہوا اور قیامت تک کے لیے آخری آرام گاہ بھی اسی رشک کائنات خطے میں مقدر ہوئی، اللھم اغفرلہ وارحمہ۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، فروری ۲۰۰۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...