Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا سید اسعد مدنی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا سید اسعد مدنی
ARI Id

1676046599977_54338485

Access

Open/Free Access

Pages

718

مولانا سید اسعد مدنی ؒ
افسوس صد افسوس کہ ۶؍ فروری کو مولانا اسعد مدنی نے داعی اجل کو لبیک کہا، اناﷲ وانا الیہ راجعون، ان کی وفات قوم و ملت کا بڑا خسارہ ہے۔
راقم نے انہیں کئی بار دیکھا اور اس حال میں دیکھا جب وہ صحت مند، توانا، تروتازہ، متحرک اور جوش عمل سے سر شار تھے لیکن ملاقات کا شرف دو تین بار ہی حاصل ہوا، مارچ ۱۹۸۸؁ء میں ان کے والد بزرگوار مولانا سید حسین احمد مدنیؒ پر مسجد عبدالنبی نئی دہلی میں سمینار ہوا تھا جس کے کنویز ڈاکٹر رشید الوحیدی مرحوم تھے، اس میں پہلی بار ان سے شرف نیاز حاصل ہوا، بڑی بشاشت اور گرم جوشی سے ملے، آخری بار ۱۹۹۲؁ء میں سعودی سفارت خانے سے حج بیت اﷲ کا ویزا لینے گیا تو دفعتاً ان پر نظر پڑی، لپک کر ملا، دریافت کرنے پر اپنے کو بتایا تو قریب کی کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا اور کچھ دیر تک باتیں کیں، غالباً بیماریوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، اس لیے مجھے بہت مضمحل اور بجھے بجھے سے نظر آئے۔
مولانا اسعد صاحب ۵؍ نومبر ۲۰۰۵؁ء کو وہیل چیئر سے گرگئے، سر اور دماغ میں چوٹ آئی، عصر کی نماز کی تیاری کررہے تھے کہ بے ہوش ہوگئے اور دہلی کے اپولو اسپتال میں داخل کیے گئے جہاں تین ماہ تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ۶ فروری کو ہزاروں لاکھوں عقیدت مندوں کو سوگوار اور اشک بار چھوڑ کر رفیق اعلا سے جاملے۔
اس وقت مسلمان بڑی ابتلا اور کشمکش کے دور سے گزر رہے ہیں، ملی قیادت کا میدان مولانا حفظ الرحمان مرحوم کے بعد ہی سے خالی چلا آرہا تھا، مولانا اسعد کی جرأت و بے باکی سے اس کی تلافی ایک حد تک ہوئی مگر ان کے اٹھ جانے سے پھر خلا ہوگیا اور مسلمانوں کی قومی بنیاد متزلزل ہوگئی۔
مولانا کے آبا و اجداد کا اصل وطن ٹانڈہ ضلع فیض آباد تھا لیکن مولانا اسعد صاحب کی پیدائش ۲۷؍ اپریل ۱۹۲۸؁ء کو دیوبند میں ہوئی، اعلا تعلیم دارالعلوم دیوبند میں حاصل کی، فراغت کے بعد چند برس مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہے، پھر دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور ہوئے، ان کو قوم و وطن کی خدمت کا جذبہ وراثتاً ملا تھا، قدرت نے قیادت کی صلاحیتیں بھی بخشی تھیں، ۱۹۶۰؁ء میں جمعیۃ علمائے اترپردیش کے صدر مقرر ہوئے، یہ بڑا پر آشوب دور تھا، سرکاری درس گاہوں خصوصاً پرائمری اسکولوں میں مشرکانہ عقاید و توہمات، ہند و میتھالوجی اور دیومالائی قصے کہانیاں نصاب تعلیم میں داخل کردی گئی تھیں جن کو پڑھ کر مسلمان بچوں کا اپنے عقیدہ و مذہب پر قایم رہنا اور دین و ایمان کو سلامت رکھنا ناممکن تھا، اس کے پیش نظر ۵۹۔۶۰، میں مرحوم قاضی عدیل عباسی نے بستی میں ایک دینی تعلیمی کانفرنس منعقد کی جس میں مسلمانوں کے ہر مکتب فکر کے لوگ شامل تھے، اسی وقت دینی تعلیمی کونسل کا قیام عمل میں آیا تھا، کانفرنس میں مولانا حفظ الرحمان ناظم عمومی جمعیۃ علمائے ہند بھی شریک تھے لیکن ۱۹۶۲؁ء میں ان کا انتقال ہوگیا، جمعیۃ کے زیر اہتمام ایک اور متوازی تحریک ’’دینی تعلیمی بورڈ‘‘ وجود میں آئی دونوں تنظیموں سے بڑا فائدہ ہوا اور گاؤں گاؤں میں مکاتب قائم ہوگئے مگر بعد میں جمعیۃ کے تعلیمی بورڈ کی سرگرمیاں کم ہوگئیں لیکن الحمدﷲ دینی تعلیمی کونسل اب بھی سرگرم ہے اور مکاتب کے قیام کے علاوہ نصابی کتابوں کے زہر کا تریاق بھی بہم پہنچا رہی ہے۔
اترپردیش میں مولانا اسعد مدنی کی قوت عمل اور قائدانہ جوہر کو دیکھ کر ۱۹۶۳؁ء میں انہیں آل انڈیا جمعیۃ کا ناظم عمومی مقرر کیا گیا اور ۱۹۷۳؁ء میں وہ آل انڈیا جمعیۃ کے صدر منتخب کیے گئے اور وفات تک وہی صدر رہے، مولانا حبیب الرحمان اعظمی کے انتقال کے بعد وہ امیر الہند بھی بنائے گئے۔
مولانا حفظ الرحمان شروع سے لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوتے تھے، ان کے انتقال کے بعد جمعیۃ کا کوئی نمائندہ پارلیمنٹ کا ممبر نہیں رہ گیا تھا مولانا اسعد ۱۹۶۸؁ء میں پہلی بار راجیہ سبھا کے ممبر منتخب کیے گئے اور پھر وقفہ وقفہ سے تین بار ممبر چنے جاتے رہے، اس طرح ۱۸ برس تک وہ راجیہ سبھا کے ممبر رہے، اس عرصے میں ایوان کے اندر اور باہر بھی وہ بہت کھل کر کانگریس کی غلطیوں اور فرقہ وارانہ رویے کی مذمت کرتے تھے اور فرقہ وارانہ فسادات اور مسلم مسائل پر بڑی جرأت و ہمت سے بے دھڑک آواز بلند کرتے تھے اور مسلمانوں کو باعزت مقام دینے اور ان کے جایز حقوق دلانے کے لیے جدوجہد کرتے تھے، مرارجی ڈیسائی وزیراعظم ہوئے تو مولانا نے ملک و ملت بچاؤ تحریک شروع کی تھی۔
مولانا عرصے تک کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبر رہے، اس کے علاوہ ملک و بیرون ملک کی جن تنظیموں اور اداروں سے ان کی وابستگی رہی، ان کے نام یہ ہیں:
راجیہ سبھا کی ضوابط کمیٹی۔ سرکاری یقین دہانی کمیٹی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ۔ رابطہ عالم اسلامی مکہ۔ شوریٰ دارالعلوم دیوبند۔ مرکزی وقف کونسل۔ ہمدرد ٹرسٹ دہلی۔ مرکزی حج کمیٹی۔ مجمع البحوث الاسلامیہ قاہرہ۔ موتمر اسلامی تیونیسیا۔ موتمر فقہی ریاض۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت وغیرہ۔
مولانا اسعد مدنی کو بہت سی خوبیاں اپنے والد ماجد سے موروثی طور پر ملی تھیں، تصوف و سلوک کے مراحل ان کی رہنمائی اور تربیت میں طے کیے تھے، ان ہی کی طرح ذکر، عبادت، ریاضت اور اوراد وظائف کی پابندی کرتے اور ا سمیں کبھی ناغہ نہ کرتے، والد کی وفات کے بعد اس میدان میں ان کی جانشینی بھی کی اور بیعت و ارشاد کا سلسلہ جاری رکھا، گوناگوں مشغولیتوں کے باوجود ارادت مندوں اور مسترشدین کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی نہ کرتے، مہمان نوازی، سخاوت اور فیاضی میں اپنے پدر بزرگوار ہی کی طرح حاتم طائی تھے، وہ روپے پیسے کو ہیچ سمجھتے تھے لیکن ان پر دولت کی بارش ہوتی تھی، ان کا کوئی کام پیسے کی وجہ سے نہیں رکتا تھا، ہر شخص کی ضرورتیں پوری کرتے، اس کے کام آتے اور مدد کرتے، کسی سائل کو محروم نہ کرتے، والد ہی کی طرح دسترخوان بہت وسیع تھا اور اس خوان یغما پر دوست اور دشمن کی تفریق نہ ہوتی، رمضان میں اعتکاف کے لیے لوگوں کا تانتا لگ جاتا، پہلے دیوبند کی مدنی مسجد میں پھر دارالعلوم کی رشید مسجد میں اعتکاف کرتے، معذوری کے زمانے میں بھی معتکف مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے بے چین رہتے، وہیل چیئر پر بیٹھ کر جایزہ لیتے اور ہر ایک کا خیال رکھتے والد ہی کی طرح مہمانوں کے لیے ہمیشہ بچھے رہتے ؂
وانی لعبد الضیف مادام نازلا
وماشیمۃ لی غیر ھاتشبہ العبدا
مولانا حسین احمد مدنیؒ اپنی تمام تر مشغولیتوں کے باوجود بہ کثرت سفر کرتے، مولانا اسعد کی جولان گاہیں اس برصغیر ہی تک محدود نہیں تھیں بلکہ عرب، افریقہ اور یورپ کے ملکوں کا سفر بھی برابر کرتے رہتے اور ملک کا تو ایک ایک گوشہ ان کاچھانا ہوا تھا، ابھی ایک سفر سے واپس نہیں آتے کہ دوسرا شروع ہوجاتا تھا
وما آب من سفر الا الی سفر
سال کے گیارہ مہینے سفر کے لیے وقف تھے مگر وہ جہاں بھی ہوتے رمضان سے قبل دیوبند پہنچ جاتے، شدید ضرورت بھی ہوتی تو رمضان میں سفر نہ کرتے۔
مولانا اسعد میں غیر معمولی قوت عمل اور خود ارادی تھی، وہ جس کام کو ٹھان لیتے اسے کر گزرتے، اس میں کوئی مشکل رکاوٹ نہیں بنتی تھی اور نہ سستی اور کاہلی ان کے قریب پھٹکتی تھی، نکتہ چینیوں کی پروا نہ کرتے مصلحت و احتیاط بھی مانع نہ ہوتی، حماسی شاعر کے بہ قول ؂
اذا ھم القی بین عینیہ عزمہ
ونکب عن ذکر العواقب جانبا
جمعیۃ علما کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آئی تو اسے متحرک اور فعال بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، قوم و ملت کے مفاد کے لیے نئے نئے مشکل منصوبے بناتے اور بے خطر ان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتے، دوسرے لوگ حیص بیص میں سوچتے ہی رہ جاتے تھے، مولانا کی تیزی، سرعت اور قوت کار کا ساتھ دینا سب کے لیے آسان نہیں تھا، وہ سب کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے، غالباً اسی سے لوگوں کو شکایت ہوجاتی اور وہ اپنی نئی راہیں تلاش کرنے لگتے، ایسے مراحل ان کی زندگی میں کئی بار آئے، بہت سے آزمودہ، تجربہ کار اور منجھے ہوئے لوگ جن کی زندگیاں جمعیۃ اور دارالعلوم کی خدمت میں گزری تھیں کنارہ کش ہوجانے اور اپنی راہ الگ نکالنے کے لیے مجبور ہوگئے۔
جمعیۃ مسلمانوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم تھا اور ان کے تمام طبقے اس میں شریک تھے، اس کی تاریخ شان دار اور ماضی تاب ناک ہے، گو اس میں علمائے دیوبند کا غلبہ ہمیشہ سے رہا لیکن دوسرے طبقوں اور جماعتوں سے وہ کبھی خالی نہیں رہی مگر آہستہ آہستہ وہ اس سے کنارے ہوتے گئے اور اب تو خود علمائے دیوبند بھی اس سے کنارہ کش ہوگئے ہیں اور اس کا دایرہ بہت محدود اور سمٹ گیا ہے۔
گو یہ سب مقدرات ہیں تاہم سب کو ساتھ لے کر چلنا وہ بھی درد مندوں اور مخلصوں کو بڑی خوبی ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ مولانا اسعد بڑے متحرک، فعال اور عزم و خودارادی کا پیکر تھے، وہ جب جمعیۃ علما کے قائد ہوئے تو اس کے صف اول کے اکثر قائدین وفات پاچکے تھے اور جو رہ گئے تھے وہ اس سے الگ تھلگ ہوگئے تھے، ان حالات میں جب کہ آئے دن ملک میں فساد اور مسلمانوں کی جان و مال کا اتلاف ہورہا تھا، اکیلے اپنی جان اور عواقب و نتائج کی پروا کیے بغیر ہول ناک فرقہ واریت کے دہکتے شعلوں میں کود پڑنا اور فسادات اور قدرتی آفات میں لٹے پٹے، تباہ حال لوگوں کی مدد، راحت رسانی اور باز آباد کاری کے کاموں میں جٹ جانا وہ رتبہ بلند ہے جو کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، یہی ان کے صاحب عزیمت اسلاف کا شیوہ تھا۔
اکیلے اور تنہا ہوکر بھی انہوں نے جمعیۃ علما کو اس کی خصوصیات کے ساتھ نہ صرف باقی رکھا بلکہ اپنی تنظیمی صلاحیتوں اور محنت وجاں فشانی سے بعض حیثیتوں سے اسے ترقی بھی دی، ان سے پہلے جمعیۃ کا دفتر پرانی دہلی کی تنگ و تاریک گلی قاسم جان میں تھا، اسے وہ نئی دہلی کی مسجد عبدالنبی میں لائے اور دفتر کو اس عظمت رفتہ کی حامل جماعت کے شایان شان اور ویران مسجد کو آباد کردیا، اس کے آس پاس کی زمینیں بھی دوڑ دھوپ اور سعی و محنت سے حاصل کر کے شان دار مدنی ہال، محمودیہ لائبریری اور دوسری عمارتیں تعمیر کرائیں اور ایک سنگلاخ وادی پر خارکوگل وریحاں سے آراستہ کردیا۔
اسی طرح ان کے ہاتھ میں آنے کے بعد دارالعلوم کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئیں اور ان کی بہ دولت بہت سے تعمیری و رفاہی کام انجام پائے جن میں وسیع و عریض مسجد رشید سب سے نمایاں ہے۔
مولانا اسعد نے بڑی مشغول اور مجاہدانہ زندگی گزاری، عقاید و شعائر اسلام کا تحفظ، خلق خدا کو فیض رسانی، دین و ملت اور قوم و ملک کی خدمت ان کا نصب العین تھا، وہ ملک میں مسلمانوں کو باعزت زندگی اور ان کے جایز حقوق دلانے کے لیے ہمیشہ سرگرم اور فکر مند رہے، اﷲ تعالیٰ ان کی ان دینی و قومی خدمات کو قبول فرمائے اور بہشت بریں میں جگہ دے، پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین!
مولانا کی تدفین میں شرعی حکم کے مطابق بڑی تعجیل کی گئی پھر بھی ڈیڑھ لاکھ آدمی جنازے میں شریک ہوئے جو ان کی مقبولیت کی دلیل ہے، رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ۔
(ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۲۰۰۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...