Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > رشید حسن خان

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

رشید حسن خان
ARI Id

1676046599977_54338486

Access

Open/Free Access

Pages

720

شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
(ڈاکٹر شمس بدایونی)
۲۶؍ فروری بروز اتوارصبح کے سات بجے تھے، میں سفر کے لیے تیار ہوکر پور ٹیکو کے قریب پہنچ چکاتھا، معاًفون کی گھنٹی بجی، میں واپس ہوا، ریسیور اٹھایا اُدھر سے آواز آئی ’’میں حنیف نقوی۔ رشید حسن خاں صاحب کا رات انتقال ہوگیا آپ ان کی تدفین میں شریک ہوسکتے ہیں‘‘۔ میں کسی اہم وجہ سے اپنے سفر کو ملتوی نہیں کرسکا اور تدفین میں شریک ہونے سے معذور رہا، مگراس دن ایک اضمحلال کی کیفیت طاری رہی، ان سے ملاقاتیں اور فون پر کی گئی باتیں یاد آتی رہیں، ان کی اعتماد ویقین سے بھرپور آواز، کاٹ دار جملے، بے تکلف لہجہ، کچھ خاص تکیہ کلام، ہاں بھائی، ارے بھئی، دیکھئے، یہ جو ہیں نا، ہاں بس ان کے لہجے اور بیان کا طنطنہ سماعت پر بار بار دستک دیتا رہا، میں کبھی محظوظ ہوتا رہا اور کبھی ملول، اب یہ آواز سننے کو کہا ملے گی؟ کون اس طرح دو ٹوک انداز میں پکارے گا؟۔
۱۔ ’’ہیلو۔ ارے بھئی! آپ کہاں ہیں؟ ایک ماہ ہوگیا آپ کا کوئی فون نہیں آیا دیکھئے شمس صاحب! کم از کم مہینے میں ایک بار ضرور فون کیجیے۔ یا پھر تعلق منقطع کرلیجیے‘‘۔
۲۔ ’’ہیلوجی میں شمس بول رہا ہوں۔ ہاں بھئی شمس صاحب کیسے ہیں آپ؟ آپ کے بچے کیسے ہیں؟ کیسی ہے ہماری بہو؟ اور ہمارے لطیف صاحب ٹھیک ہیں! کاروبار کیسا چل رہاہے آپ کا؟ کیا لکھ رہے ہیں آج کل آپ؟۔
دیکھئے شمس صاحب میں برابر سن رہا اور پڑھ رہاہوں کہ آپ لگاتار سمیناروں میں شرکت کررہے ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے، آپ کو جم کر سنجیدگی کے ساتھ کسی موضوع پر تین چار سال کام کرنا چاہیے، بس اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو خود کو ضائع کردیں گے، ارے بھائی، میں یہ سب اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں آپ سے کچھ بہتر توقعات رکھتا ہوں، باقی ’’آپ کی مرضی‘‘۔
۳۔ ’’ہاں شمس صاحب، وہ جوفلاں صاحب ہیں نا، وہ تو فرقہ ملا متیہ سے متعلق معلوم ہوتے ہیں، ان کی تحریروں میں معائب کے کیڑے بری طرح بلبلا رہے ہیں اور آپ لکھتے ہیں کہ وہ عالم وفاضل ہیں، بھائی یہ سب کیا ہے؟ کیا آپ بھی اوروں کی طرح دنیا ساز بن گئے؟ دیکھئے شمس صاحب ایک بات سمجھ لیجیے، تحقیق شرک کو گوارا نہیں کر تی، آپ اگر کسی کو ناراض نہیں کرسکتے تو قلم رکھ دیجیے۔ دنیا میں بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں کیا ضروری ہے کہ آپ تحقیق ہی کریں‘‘۔
۴۔ ہیلو۔ کہیے شمس صاحب کیسے ہیں آپ؟ جی، میں ایک مضمون نواب محمد یار خاں امیرؔ پرلکھنا چاہتا ہوں، مواد اکٹھا کرلیا ہے، رکیے شمس صاحب، کیا آپ نے ناظم رام پوری کا یہ شعر سنا ہے:
غلطی غیر گفتار کی دیکھی ناظمؔ
جب میں جاتا ہوں تو کہتا ہے نواب آتے ہیں
سمجھ گئے نا؟۔ جی میں سمجھ گیا صحیح تلفظ نوّاب ہے۔ ہاں اب بتائیے، کیا امیرؔ کے حالات وکلام یکجا کرنا ٹھیک ہوگا؟․․․․․ سنیے شمس صاحب، امیر ادب میں صرف اپنے ایک شعر:
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
کی وجہ سے مشہور ہیں اور مشہور رہیں گے بس، اس سے زیادہ ان کی اہمیت نہیں، آپ ان پر اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟ دیکھئے موضوع کی ترجیح کو ذہن میں ضرور رکھا کیجیے، قاضی عبدالودود نے رضا عظیم آبادی پر تحقیق کی، بلاشبہ اعلا درجہ کا کام کیا، رضاؔ بے چارے کو کیا ملا؟ وہ آج بھی غیر معروف اور غیر اہم شاعر ہے، آپ کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے اپنا وقت ایسے ویسے کاموں میں برباد نہ کیجیے، صرف ڈھنگ کے کام کیجیے، جیسے آپ پہلے بھی کرچکے ہیں۔
دن بھر میں ان کی آواز کی قید میں رہا، وہ مجھے مخاطب کرتے رہے اور میں ایک نیاز مند کی طرح سنتا رہا، رات کو جب گھر واپس لوٹا تو گیارہ بجے شب ان کے بیٹے خورشید حسن خاں کو میں نے فون کیا، تب معلوم ہواکہ ۲۵؍ اور ۲۶؍ فروری کی درمیانی شب دو بج کر چالیس منٹ پر ان کو دل کا دورہ پڑا اور روح پرواز کرگئی، ۲۶؍ فروری کی شام پانچ بجے باڑوزئی پشاوری قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔
یہ یاد نہیں کہ رشید صاحب سے میرے تعلق کی ابتدا کب ہوئی تاہم اتنا ضرور یاد ہے کہ ۱۹۸۸؁ء میں جب میری کتاب ’’اردو نعت کا شرعی محاسبہ‘‘ شائع ہوئی تو اس پر انہوں نے غالب نامہ دہلی (جنوری ۱۹۸۹؁ء) میں تبصرہ لکھا تھا، اس وقت تک میرے اوران کے بیچ شناسائی کا رشتہ قائم نہیں ہوا تھا، یہ میری خوش نصیبی تھی کہ انہوں نے میری طلب وخواہش کے بغیر محض موضوع کے بدیع ونادر ہونے کے سبب تبصرہ لکھا اور خوب لکھا۔
۱۹۹۵؁ء میں جب میرا علمی مقالہ ’’نظامی بدایونی اور نظامی پریس کی ادبی خدمات‘‘ چھپ کر منظر عام پر آیا تو اس کی ایک کاپی خاں صاحب کو بھی ارسال کی گئی، خاں صاحب نے ۹؍ جون کومجھے ایک طویل خط لکھ کر مقالے کی خوب داد دی، میرے دل میں خاں صاحب کے علم وفضل، احتساب وسخت گیری کاجو رعب ودبدبہ تھا اس خط کو پڑھ کر وہ احساس ان سے نیاز مندی اور ان کی محبت میں تبدیل ہوگیا، اس وقت وہ دہلی میں تھے، اسی خط میں انہوں نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ آج کل وہ مثنویات شوق مرتب کررہے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں مثنوی ’’زہر عشق‘‘ کے نسخہ نظامی (بدایوں) کی تلاش تھی، جس کا طبع ثانی شمس الرحمن فاروقی سے مل گیا لیکن طبع اول ۱۹۱۹؁ء نہیں مل سکا، اسی خط میں انہوں نے لکھا کہ:
’’آپ کے نظامی صاحب نے مجھے بہت پریشان کر رکھاہے، آج کل زہر عشق کا نسخہ نظامی میرے پاس نہیں تھا، بارے شمس الرحمن فاروقی صاحب نے بھیج دیا اور ایک نسخہ بدایوں سے آگیا، اس میں مرحوم نے تنسیخ ممانعت کے آرڈر کانمبر بھی لکھا ہے مگر حسب معمول ادھوری بات لکھی ہے اور انداز بیان بڑا مبہم ہے، کچھ بھی واضح نہیں ہوتا، میں نے الٰہ آباد آرکائیوز میں اس نمبر کے آرڈر کو نکلوانا چاہا، معلوم ہوا کہ وہاں ۱۸۵۷؁ء تک کے کاغذات ہیں، بعد کے کاغذلکھنؤ میں ہیں، اب لکھنؤ آرکائیوز کے لیے دو حضرات کو لکھا ہے، دیکھئے کیا رہتا ہے، مرحوم اگر ذراسی وضاحت کردیتے تو اس قدر پریشانی نہ ہوتی، قطعہ تاریخ کا بھی احوال یہی ہے، شوق کی عمر اس وقت ۷۷ برس کی تھی اور ذاکر ۲۷ برس کے تھے، اس کو معاصرت اور مصاحبت کیسے کہیں گے؟ پھر حوالہ حسب معمول ادھورا بلکہ مجہول، اب اس کی تصدیق کے لیے سرگرداں ہوں، ہاں آپ یہ پتہ لگا سکتے ہیں کہ ذاکر مرحوم لکھنؤمیں کس زمانے میں تھے اور کیا کرتے تھے؟ ہے کوئی صورت‘‘۔ (خط مکتوبہ۹؍ جون۱۹۹۵؁ء؁)
اسی سلسلے کی بعض باتیں اور بھی تھیں جو بعد کے کئی خطوط میں زیر بحث آئیں، مثلاً ایک خط میں انہوں نے مجھے لکھا:
’’کتاب میں ص۴۱۷ پر ذاکر بدایونی کا قطعہ تاریخ مشمولہ زہر عشق درج کیا گیا، اس میں تین باتیں ایسی ہیں جن سے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں، (۱)آخری مصرعے کے آخر میں ’’کذا‘‘ ہے، یہ کیوں آیا ہے؟ اس کا تعلق پورے مصرعے سے ہے یا کسی خاص لفظ سے؟ (۲)’’آیی‘‘ لکھا گیا ہے، مگراصل نسخے (زہر عشق طبع ۱۹۲۰؁ء) میں ’’آئی‘‘ ہے، اسے کیوں بدلا گیا، جب کہ بہ قول اساتذۂ فن تاریخ ’’آئی‘‘ کے ۲۱ عدد ہوتے ہیں اور وہی یہاں مراد لیے گئے ہیں، (۳)چوتھے مصرعے میں ’’رہنمائی‘‘ ہے مگر اصل نسخے میں اس کی جگہ ’’رونمائی‘‘ ہے، اسے کیوں بدلا گیا؟
’’میں نے ازراہ احتیاط (نہ کہ ازراہِ اعتراض) یہ باتیں پوچھی ہیں کہ شاید طبع اول (۱۹۱۹؁ء) میں اسی طرح ہو، وہ اشاعت یعنی طبع اول مجھے نہیں ملی، دوسری اشاعت (۱۹۲۰؁ء) میرے سامنے ہے‘‘۔ (خط مکتوبہ ۷؍ فروری ۱۹۹۶؁ء)
خطوط کے مذکورہ اقتباسات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ متن کے اجزا کو کتنی باریک بینی سے دیکھا کرتے تھے اور ان کے تحریری اختلافات کو آخری حدتک حل کرنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔
رشید حسن خاں جن دنوں مثنویات شوق مدون کررہے تھے، انہوں نے اس کے طویل مقدمے کے بعض حصے مختلف مضامین کی صورت میں ہم عصررسائل میں شائع کرائے، جولائی ۱۹۹۶؁ء کے آج کل (دہلی) میں ان کا ایک مضمون ’’مثنویات شوق منیع اشاعت‘‘ شائع ہوا، جس میں انہوں نے مثنویات یا ان میں سے کسی ایک مثنوی کی اشاعت پر حکومت کے ذریعے لگائی گئی پابندی کی روایت کو بعض دلائل کی بنیاد پر قطعی طور پر رد کردیا اور نظامی بدایونی (ف۱۹۴۷؁ء) کے تنسیخ ممانعت اشاعت کے آرڈر اور اس کے نمبر وتاریخ کے اندراج کو بھی فرضی قرار دیا، اس مضمون پر کاظم علی خاں (لکھنؤ) اور بعض دوسرے اہل قلم نے آج کل میں خطوط لکھ کر خاں صاحب کے نتائج وخیال کی تردید کی، راقم الحروف نے اس سلسلے میں خاں صاحب کو خط لکھا، جس کے جواب میں انہوں نے لکھا:
’’نظامیؔ کا آرڈر نمبر ہو یا مولانا حالیؔ، سید ضامن علی اور ایسے ہی دوسرے بزرگوں کی روایتیں جب تک ان کا قابل قبول ثبوت نہ ملے، یہ قابل استدلال نہیں ہوسکتیں، ہمارے بزرگ بہت زود یقین اور خوش گمان تھے، اس لیے ہمیں ان کی تحریروں سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے مگر آداب تحقیق کے تحت، آپ کے انداز نگارش سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ مولانا نظامی ہیرو بن گئے ہیں، دیکھئے ہیرو ورشپ درست انداز فکر نہیں، نسخہ نظامی میں پانچ شعر الحاقی ہیں توکیا انہیں مان لیا جائے گا؟ اس طرح مت سوچا کیجیے، ایوان اردو کے حالیہ شمارے میں جو تحریریں شائع ہوئی ہیں اس میں الحاقی اشعار کا کچھ بیان آگیاہے، مجھے قاضی عبدالودود صاحب کایہ قول ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ مردوں کا حق ہم پر زندوں سے زیادہ نہیں، راوی مرحوم ہو یا زندہ ایک ہی طریق کار اختیار کیا جائے گا، قبول روایت میں‘‘۔ (خط مکتوبہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۶؁ء)
اسی سلسلے کا ایک مضمون ایوان اردو دہلی (اپریل ۱۹۹۸؁ء) میں بہ عنوان ’’مثنویات شوق۔ لکھنوی معاشرت کے آئینے میں‘‘ شائع ہوا تھا جو بڑا ہنگامہ پرور ثابت ہوا، اس مضمون میں خاں صاحب نے شررؔ کی گذشتہ لکھنؤ اور حکیم نجم الغنی خاں کی تاریخ اودھ کے حوالے سے لکھنؤ کی عیش و نشاط کی زندگی کا ایک خاص انداز میں تذکرہ کیا تھا اور اس معاشرے میں طوائف کے کردار کو جزوِ زندگی دکھایا تھا، معاشرے کے سواداعظم پر ارباب نشاط کے تسلط کو شوق کے اشعار کا پس منظر قرار دیتے ہوئے شوق کی مثنویات کو لکھنوی معاشرت کا آئینہ دار بتایا تھا، بعض حلقوں نے اس مضمون کو اہالیان لکھنؤ کی تذلیل سمجھا، چناچہ پروفیسر نیر مسعود نے اس کا جواب ایک مراسلے نما مضمون کی صورت میں دیا جو ’’بہ نام رشید حسن خاں‘‘ کے عنوان سے ایوان اردو (دہلی) کی جولائی ۱۹۹۸؁ء کی اشاعت میں شامل ہوا، یہ بڑا سخت جواب تھا جس میں رسمی آداب واخلاق کو بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا، میں اس مضمون کو پڑھ کر لرز گیا اور کئی مرتبہ میرے لبوں پر یہ مصرعہ آگیا:
مشکل بڑی پڑے گی برابر کی چوٹ ہے
لیکن خاں صاحب نے خاموشی اختیار کرلی، دونوں قلم کا رذی علم وذی احترام، میں نے مدیر ’’ایوان اردو‘‘ کو ایک خط لکھا جو ستمبر ۱۹۹۸؁ء کے شمارے میں شائع ہوا، خط حسب ذیل ہے:
’’ایوان اردو کے تازہ شمارے میں پروفیسر نیر مسعود صاحب کا مراسلہ نما مضمون نظر سے گزرا، نیر صاحب اور رشید حسن خاں صاحب، دونوں میرے کرم فرما ہیں اور دونوں بزرگوں کا بڑا احترام ان کی علمی خدمات اور ایک خاص ذہنی معیار کے سبب میرے دل میں ہے، لیکن ان کے مضمون کے تیور دیکھ کر مجھے سخت صدمہ ہوا، ایک معاصر دوسرے معاصر کے لیے کیسے رطب اللسان ہوتا ہے، اس کا نمونہ نیر صاحب کے تبصرہ فسانۂ عجائب مرتبہ رشید حسن خاں مشمولہ کتاب نما (دہلی) میں دیکھا تھا اور ایک معاصر اپنے معاصر کے لیے کیسے دل آزار بن جاتا ہے، اس کا یہ دوسرا نمونہ ہے، ایک ہی قلم سے بہت مختصر سے وقت کے اندر دو متضاد تحریروں نے مجھے تذبذب میں ڈال دیا، بڑے لوگوں سے بڑے اخلاق کے مظاہرے کی توقع کی جاتی ہے، میری مودبانہ گزارش ہے کہ نیر صاحب نے اگر اپنے خیالات پیش کرنے میں عجلت اور جذباتیت سے کام لیا ہے تو جناب رشید حسن خاں ایسا نہ کریں، اگر اس علم و فضل کے لوگ ایک دوسر ے کے لیے ادب واحترام کی تمام حدیں توڑ دیں گے تو ہم جیسے ادب کے طالب علم کس کو اپنا آئیڈیل بنائیں گے‘‘۔
اسی شمارے میں پروفیسر عبدالحق (دہلی) اور لطیف صدیقی (لکھنؤ) کے مضامین شائع ہوئے جس میں انہوں نے نیر صاحب کی تحریر کو جذباتی، غیر سنجیدہ اور غیر علمی اسلوب کا حامل بتایا، دونوں مضمون نگاروں نے یہ تاثر بھی دیا کہ دراصل خاں صاحب کو یوپی اردو اکیڈمی کے آزاد ایوارڈ ملنے سے لکھنؤ کے بعض حلقے رنجیدہ ہیں اور شاید یہ مضمون اسی رنجیدگی کے آنسوؤں سے لکھا گیا ہے۔
اس سلسلے میں خاں صاحب نے مجھے جو خط لکھا اس کا کچھ حصہ یہاں نقل کردینا ضروری سمجھتا ہوں، انہوں نے لکھا:
’’میں ۲۷؍ ستمبر (۱۹۹۸؁ء) کو دو ماہ کے بعد واپس آسکا، یہاں آپ کا خط محفوظ تھا، مطبوعہ خط پہلے ہی پڑھ چکا تھا، اس کا شکریہ، متعدد لوگوں نے مجھ سے نیر صاحب کے لب و لہجے کی شکایت کی، انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا ہے، میرا کچھ نہیں بگڑا، علمی مسائل تبرائی زبان میں زیر گفتگو نہیں آسکتے، آپ محمد شاہ رنگیلے کی خرابیوں کو بیان کیجیے کوئی دہلی والا برا نہیں مانے گا، یہ نہیں سمجھے گا کہ دہلی کی تہذیب کو برا کہاجارہا ہے، اس کے برخلاف لکھنؤ کے کسی مسخرے حکمراں (نصیر الدین حیدریا واجد علی شاہ) کی واقعی خرابیوں پر کچھ کہیے، سمجھا جائے گاکہ پورے لکھنؤ، لکھنوی تہذیب اور پوری شیعہ کمیونٹی پر حملہ کیا گیا ہے، یہ وہی اقلیت کی نفسیات ہے جس میں لسانی یا مذہبی اقلیتیں اکثر مبتلا رہتی ہیں‘‘۔
بہ ہرطور اس کے بعد سے بھی مجھ سے ان سے مراسلت حسب سابق برقرار ہے، ادہر پرسش احوال کے دو خط یکے بعد دیگرے آئے ہیں، مشیر لکھنوی کی ہرسیہ گوئی مشہور ہے، میرے بھائی نے نثری ہرسیہ لکھا ہے، خیریہ ان کا معاملہ ہے، وہ جانیں، ایوان اردو میں لطیف صدیقی کی تحریر آپ نے پڑھی ہوگی، ان کا خط بھی میرے پاس آیا تھا، میں نے مزید کچھ لکھنے سے منع کردیا، غیر علمی با تیں جس قدر کم ہوں اتنا ہی اچھا ہے، مرحوم سید مسعود حسن رضوی ادیب، مولانا نجم الغنی خاں کو ’’تخم الغبی‘‘ کہا کرتے تھے، یوں کہ انہوں نے پوست کنندہ حالات لکھے ہیں تاریخ اودھ میں۔
ہاں! کتاب نما کے حالیہ شمارے میں جن صاحب کا تبصرہ مثنویات شوق پر پڑھا، اصلا ًیہ سارا معاملہ اس مولانا آزاد ایوارڈ کا تھا، اکبر حیدری صاحب نے کراچی کے طلوع افکار میں بھی کچھ گل افشاں فرمائی ہے، انعام کا اعلان ہوتے ہی یہی تحریر انہوں نے قومی آواز میں چھپوائی تھی، لب لباب یہ تھا کہ بڑے غیر مستحق شخص کو اب کے یہ انعام دیا گیا ہے، انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ روزانہ نیرمسعود صاحب کے یہاں جاتے ہیں، خیر حیدری صاحب کو میں غیر مکلف مانتا ہوں بہ لحاظ تحقیق، یوں وہ کیا اور ان کی بات کیا‘‘۔ (خط مکتوبہ ۴؍ اکتوبر ۱۹۹۸؁ء)
سطور بالا میں جو کچھ مذکور ہوا اس کا تعلق یا تو فون پر کی گئی گفتگو سے ہے یا نصف ملاقات یعنی مراسلت سے، ان سے با لمشافہ ملاقاتیں بہت کم ہوئیں، باوجود اس ذہنی قربت، ہم خیالی اور محبت کے ملاقات کے مواقع بہت کم حاصل ہوئے ،ایک خط میں اس بات کو انہوں نے کس خوب صورت پیرائے میں لکھا ہے:
’’بریلی آنا نہیں ہوپاتا، یوں کہ بہت قریب ہے، قربت کے یہ کرشمے اکثر دیکھنے میں آتے رہتے ہیں، آدمی اپنے سے قریب بھی اسی لیے نہیں ہوپاتا کہ وہ اپنے سے دور نہیں ہوتا، اسی لیے تصوف میں عرفان ذات پر بہت زور دیا گیا ہے، بہ ہر صورت کبھی تو توفیق رفیق ہوگی‘‘۔ (خط مکتوبہ ۱۴؍ اگست ۱۹۹۶؁ء)
خاں صاحب سے پہلی ملاقات دسمبر ۱۹۹۵؁ء میں غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی میں سہ روزہ سمینار (۲۲،۲۳،۲۴؍ دسمبر) کے دوران ہوئی، اس ملاقات میں انہوں نے محبت و شفقت کے جتنے جام تھے سبھی لنڈھادیے، انہوں نے سمینار میں مجھے خودسے علا حدہ نہیں ہونے دیا، دوپہر کا کھانا بھی ساتھ ہی کھایا، میں مرغ و بریانی کے مزے لے رہا تھا، انہوں نے محض سبزیوں کے سلاد پر قناعت کرلی تھی، سمینار کے مختلف اجلاسوں میں بھی وہ مجھے اپنے پاس بیٹھنے کی تاکید کرتے رہے، گفتگو کے دوران وہ میری ذہنی سطح، مطالعے اور مشاہدے، مزاج و نفسیات کو ماہرانہ انداز میں جا نچتے اور آنکتے رہے، انہوں نے متعدد علمی موضوعات پر گفتگو کی، اس وقت وہ دہلی یونی ورسٹی کے گوا ئر ہال میں رہتے تھے، سمینار کے اجلاسوں میں وہ شریک ہوتے اور شام کو واپس چلے جاتے۔
۲؍ فروری ۱۹۹۶؁ء کو وہ تمام اسباب لے کر دہلی سے شاہ جہاں پور آگئے اور یہیں انہوں نے اپنے گھر پر لکھنے پڑھنے کی بساط بچھادی، اس دوران ان سے مراسلت کا سلسلہ جاری رہا۔
۷؍ اکتوبر ۱۹۹۷؁ء کو میں ملاقات کے لیے شاہ جہاں پور ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا، بہت خوش ہوئے اور بڑی تواضع کی، چلتے وقت تین کتابیں نذر کیں، مثنوی زہر عشق جدید تحقیق وتبصرہ کی روشنی میں از عشرت رحمانی، مقالات صدیقی (ج،۱) از عبد الستار صدیقی اور نجوم الفرقان فی اطراف القران، موخر الذکر کتاب قران کریم کے الفاظ کا اشاریہ ہے جو ۱۸۹۸؁ء کا مطبوعہ ہے۔
خاں صاحب کا گھر سادہ سا بنا ہوا تھا، جس کمرے میں میں بیٹھا تھا، اس کی نوعیت ڈرائنگ روم کم ریڈنگ روم کی سی تھی، چاروں طرف کتابیں سلیقے کے ساتھ لگی ہوئی تھیں، سینٹر ٹیبل کے پاس ہی کسی چھوٹی ٹیبل یا اسٹول پر ادبی رسائل سلیقے سے رکھے ہوئے تھے، کمرے میں ایک طرف ایک ریڈنگ ٹیبل بھی تھی جو ضخیم لغات کی جلدوں سے لدی ہوئی تھی، اسی ٹیبل پر پین اسٹینڈ میں بہت سے پین اور داہنی طرف ایک ٹیپ ریکارڈر اور بہت سے کیسٹ رکھے ہوئے تھے، میں نے بڑی حیرت اور استعجاب سے پوچھا جناب ٹیبل پر ٹیپ ریکارڈر کا موجود ہونا آپ کا اس سے غیر معمولی شغف ظاہر کرتا ہے، کہنے لگے ہاں بھئی لکھتے پڑھتے وقت ہلکی میوزک سننے کا عادی ہوں، اس سے تکان نہیں ہوتا، میں نے کہا میوزک آپ کے مطالعے یا تحریر میں خلل انداز نہیں ہوتی، کہنے لگے با لکل نہیں یہ میری عادت ہے۔
۱۹۹۷؁ء میں ایک مرتبہ پھر غالب انسٹی ٹیوٹ کے سمینار میں ملاقات ہوئی، اس مرتبہ وہ شاہجہاں پور سے دہلی تشریف لے گئے تھے، ایک اجلاس میں ان کی صدارت اور میری نظامت تھی، اجلاس کے اختتام کے بعدانہوں نے مجھ سے کہا، آپ نے نظامت اچھی کی، الفاظ کی ادائیگی ٹھیک تھی مگر ایک لفظ کا تلفظ وہ نہیں ہے جو آپ نے ادا کیا، بھائی صحت تلفظ کا بھی خیال رکھیے۔
جولائی ۱۹۹۸؁ء میں رضا لائبریری رام پور کے سمینار میں بھر پور ملاقات ہوئی، اسی ملاقات میں یہ طے پایا کہ ماہ بہ ماہ ایک نشست بریلی میں رکھی جائے اور خاں صاحب اس میں بہ طور خاص شریک ہوں، چناچہ وہ میری دعوت پر ۸؍ نومبر۱۹۹۸؁ء کو بریلی تشریف لائے اور میرے غریب خانے پر دن گزار کر شام کو شاہجہاں پور کے لیے واپس ہوگئے، اس موقع پر وہ میرے لیے اپنی تین تصانیف بھی لائے تھے، میں نے ان کی ذہنی ضیافت کے لیے چند مقامی ادیبوں ڈاکٹر لطیف حسین ادیب، محمد عرفان، ڈاکٹر مصطفی حسین نظامی، قنبر سعید اور چند اردو دوستوں کو مدعو کرلیا تھا، اچھی نشست رہی، تقریباً دو گھنٹے کی اس نشست میں املا، تلفظ اور زبان کے بہت سے مسائل زیر گفتگو آئے، رشیدصاحب کی گل افشانیِ گفتار دیکھنے کی تھی۔
ان سے جب سے تعلق قائم ہوا تب سے انہوں نے اپنی ہر نئی کتاب دستخط کرکے مجھے ضرور بھیجی اور میری حقیر رائے جاننے کے بھی خواہش مند رہے، میں نے ان کی دو کتابوں ’’مثنویات شوق‘‘ اور ’’زٹل نامہ‘‘ پر تبصرہ لکھے جو بالترتیب ہماری زبان دہلی (اگست تا اکتوبر ۱۹۹۸؁ء) اور شاعر ممبئی (نومبر ۲۰۰۴؁ء) میں شائع ہوئے، اول الذکر تبصرے کو انہوں نے پسند فرمایا اور جی بھر کر دعائیں دیں لیکن دوسرے تبصرے کو پڑھ کر وہ کچھ کبیدہ خاطر ہوگئے اور کچھ دن فون پر ہاں ٹھیک ہوں تک گفتگو محدود رہی، پھر وہ گفتگو بھی بند ہوگئی، اس تبصرے میں میرے درج کردہ تسامحات ان کی رنجیدگی کا باعث نہیں تھے بلکہ رنجیدگی کا باعث وہ عبارت تھی جس میں میں نے لکھا تھا کہ رشید صاحب نے طویل بیماری کے سبب یہ کام بہت عجلت میں کیا ہے اور ان کے دوسرے تدوینی کاموں سے یہ فرو تر ہے۔
آخر آٹھ نو ماہ بعد ان کا فون آیا، شمس صاحب میں رشید حسن خاں بول رہا ہوں، آپ تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ پر ایمان رکھتے ہیں، سچ سچ بتایئے آپ مجھ سے ناراض کیوں ہے؟ میں نے کہا قبلہ میں آپ سے ناراض ہونے کی جسارت کیسے کرسکتا ہوں، آپ تو میرے بزرگ ہیں، محسن ہیں، کہنے لگے دیکھئے منافقانہ با تیں نہ کیجیے، سچ سچ بتایئے آپ اب فون کیوں نہیں کرتے؟ میں نے کہا جانے بھی دیجیے۔
میری ان کی کوئی لڑائی ہے
اب چلا جاؤں اب صفائی ہے
کہنے لگے خیر جانے دیا لیکن رابطہ ضرور رکھیے، میرے دل میں آپ کی بڑی قدر ہے، دل کے معاملا ت تھوڑے بہت آپ بھی جانتے ہی ہوں گے؟ آج کل کیا لکھ رہے ہیں؟
(۲)
رشید حسن خاں کی حیات، شخصیت اور تحقیقی و تنقیدی کام ہر طرح کے پیشہ وارانہ تصور سے خالی تھا، انہوں نے تحقیق کے جو پیمانے بنائے تھے، ان پر سودوزیاں سے بالا ہوکر تحقیقی کام نہایت تحمل اور صبر وضبط کے ساتھ کرتے رہے، انہوں نے جو کام بھی کیاہے، وہ ہماری تاریخ ادب کا زریں باب ہے، سطور ذیل میں ان کی حیات و خدمات کا مختصر تعارف پیش کیا جارہا ہے:
اضلاع روہیل کھنڈ میں شاہجہا ں پور، بریلی اور رام پورمیں پٹھانوں کے خیل (گروہ) کثرت سے آباد ہوئے، اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں روہیلوں کے عروج اور ان کی ریاست کے قیام کے زمانے میں افغانستان اور صوبہ سرحد سے کافی تعداد میں پٹھان ان علاقوں میں وارد ہوئے اور یہیں بس گئے، رشید حسن خاں بھی بہ قول ان کے بیٹے خورشید حسن خاں نسباً یوسف زئی تھے اور اپنے طور وطریق سے مکمل پٹھان تھے، وہ پٹھانوں کی فطرت سے بہ خوبی آشنا تھے جس کا ذکر بھی نہایت دلچسپی سے کرتے تھے، ان کے والد کا نام امیر حسن خاں تھا جو محکمہ پولیس میں داروغہ تھے، انگریزوں اور انگریزی تعلیم کو برا سمجھتے تھے،انہوں نے تحریک عدم تعاون کے زمانے میں نوکری سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
خاں صاحب کی تاریخ پیدایش از روئے تعلیمی اسناد ۱۰؍ جنوری ۱۹۳۰؁ء تحریر کی گئی ہے (رشید حسن خاں اطہر فاروقی، دہلی ۲۰۰۲؁ء، ص۹) جو غلط معلوم ہوتی ہے کیوں کہ ۱۹۳۹؁ء میں انہوں نے شاہجہاں پور کی آرڈی نینس فیکٹری میں ملازمت کا آغاز کیا تھا، ظاہر ہے ۹ سال کی عمر میں تو ان کو ملازم نہیں رکھا گیا ہوگا۔
خاں صاحب یکم اگست ۱۹۹۸؁ء کو ممبئی علاج کے لیے گئے تھے، اسی زمانے میں روزنامہ انقلاب ممبئی کے لیے ڈاکٹر صاحب علی نے ان سے انٹرویو لیا تھا، اس انٹرویو (مطبوعہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۹۸؁ء) میں خاں صاحب کے تعارف میں ادارے کی طرف سے جو نوٹ دیا گیا ہے، اس میں خاں صاحب کی تاریخ پیدایش دسمبر ۱۹۲۵؁ء دی گئی ہے، اخبار کا تراشہ خاں صاحب نے خود مجھے بھیجا تھا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اخبار میں شائع کردہ تاریخ خاں صاحب کی فراہم کردہ تھی، اگر یہ غلط ہوتی تو خاں صاحب اس کو قلم زد کرتے یا اس سے مطلع کرتے، لہٰذا یہ طے ہے کہ ان کی صحیح تاریخ پیدایش دسمبر ۱۹۲۵؁ء ہی ہے، اس سال پیدایش سے ان کی ملازمت کے آغاز کا سنہ بھی درست قرار پاجاتا ہے، یعنی وہ بہ وقت ملازمت ۱۴ سال کے تھے۔ ۱؂
خاں صاحب کی تعلیم کو بھی باضابطہ نہیں کہا جاسکتا، ان کا داخلہ شاہجہاں پور کے عربی مدرسے بحرالعلوم میں کرایا گیا تھا لیکن وہ درس نظامی مکمل نہیں کرسکے اور معاشی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے ملازمت پر مجبور ہوئے، انہوں نے پرائیوٹ طور پر اردو، عربی، فارسی کے امتحانات پاس کیے، لکھنؤ یونی ورسٹی سے دبیر کامل اور الہ آباد بورڈ سے مولوی کا امتحان پاس کیا اور کثرت مطالعہ سے اپنے علم میں برابر اضافہ کرتے رہے، باضابطہ یونی ورسٹی ایجوکیشن سے محروم رہے، ۱۹۴۷؁ء میں آرڈی نینس فیکٹری کی ملازمت سے برطرف کردیے گئے، ملازمت سے بر طرف کیے جانے کا سبب خاں صاحب کا مزدور یونین بنانے میں حصہ لینا اور اس یونین میں جوائنٹ سکریٹری کا عہدہ قبول کرنا تھا، اس فیکٹری میں تیس ہزار سے زائد آدمی کام کرتے تھے۔
ملازمت سے بر طرف ہوجانے کے بعد بالترتیب مدرسہ فیض عام اور اسلامیہ ہائر سیکنڈری اسکول شاہجہاں پور میں مدرس مقرر ہوئے، ۲؂ اگست ۱۹۵۹؁ء میں شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی میں ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر ان کاتقرر عارضی تھا، ۱۹۶۴؁ء میں اسے کل وقتی منظوری حاصل ہو گئی، تقریباً تیس سال ملازمت کرنے کے بعد ۳۱؍ دسمبر ۱۹۸۹؁ء کو وہ اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
سبکدوش ہونے کے بعد ایک مدت تک وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ انہیں دہلی میں رہنا چاہیے یا واپس اپنے وطن لوٹ جانا چاہیے، آخر ۲؍ فروری ۱۹۹۶؁ء کو وہ دہلی سے مستقل طور پر شاہجہاں پور آگئے اور لکھنے پڑھنے کے مشاغل میں مصروف ہوگئے، چند سال پیشتر ان کو ذیابطیس کا مرض لاحق ہوگیا تھا جس کے زیر اثر انجائنا کا شکار ہوئے، ادبی کام اس حال میں بھی جاری رکھا، سمیناروں میں شرکت بند کردی تھی، متقاعد زندگی گزار رہے تھے۔
مارچ ۲۰۰۳؁ء میں ان کی اہلیہ نے وفات پائی، اس صدمہ کا انہوں نے کسی سے ذکر بھی نہیں کیا، بالآخر ۲۶؍ فروری ۲۰۰۶؁ء کو ان کا بھی وقت موعود آپہنچا، پس ماند گان میں انہوں نے دو بیٹے خورشید حسن خاں، خالد حسن خاں اور بیٹی نادرہ بیگم زوجہ مقصود حسن خاں یادگار چھوڑیں، خاں صاحب کے دونوں بیٹے اردو ٹیچر ہیں۔
خاں صاحب نے ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ۳۲ کتابیں لکھیں، ۱۳ کتابیں مکتبہ جامعہ کے لیے تیار کیں جن میں سے چند دستیاب نہیں ہوسکیں، مطبوعہ کتب کے اسمامع سنین ومقام اشاعت حسب ذیل ہیں:
مقدمہ شعر و شاعری (دہلی ۱۹۶۹ء) انتخاب نظیر اکبر آبادی (دہلی ۱۹۷۰ء) انتخاب شبلی (دہلی ۱۹۷۱ء) انتخاب مراثی انیس ودبیر (دہلی ۱۹۷۱ء) دیوان خواجہ میر درد (دہلی ۱۹۷۱ء) انتخاب سودا (دہلی ۱۹۷۲ء) انتخاب کلام ناسخ (دہلی ۱۹۷۲ء، کراچی ۱۹۹۶ء) اردو املا (دہلی ۱۹۴۷ء) اردو کیسے لکھیں (دہلی ۱۹۷۵ء) زبان اور قواعد (دہلی ۱۹۷۶ء، ۱۹۸۳ء) ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ (دہلی ۱۹۷۸ء، لکھنؤ، لاہور ۱۹۸۹ء) تلاش و تعبیر (دہلی ۱۹۸۸ء) فسانہ عجائب (دہلی ۱۹۹۰ء، لاہور ۱۹۹۰ء، دہلی ۱۹۹۶ء) باغ و بہار (دہلی ۱۹۹۲ء، لاہور ۱۹۹۲ء) تفہیم (دہلی ۱۹۹۳ء) انشاء اور تلفظ (دہلی ۱۹۹۴ء) عبارت کیسے لکھیں (دہلی۱۹۹۴ء) انشائے غالب (دہلی ۱۹۹۴ء، کراچی ۲۰۰۱ء) مثنوی گلزار نسیم (دہلی ۱۹۹۵ء) مثنویات شوق (دہلی۱۹۹۸ء، کراچی ۱۹۹۸ء) تدوین، تحقیق، روایت (دہلی ۱۹۹۹ء) املائے غالب (دہلی ۲۰۰۰ء) مثنوی سحرالبیان (دہلی ۲۰۰۰ء) مصطلحات ٹھگی (دہلی ۲۰۰۲ء) زٹل نامہ (دہلی ۲۰۰۳ء) کلاسیکی ادب کی فرہنگ ج؍ ۱ (دہلی ۲۰۰۳ء)۔
ان کا آخری تدوینی کام لفظیات غالب ہے، جسے انہوں نے ’’گنجینہ معنی کا طلسم‘‘ نام دیا ہے، یہ دو جلدوں پر مشتمل ہوگا، تقریباً ۱۵۰۰ صفحات پر، غالب کے اردو کلام میں مستعمل الفاظ کے نوعیتِ استعمال پر بحث کی گئی ہے، جلداول جس کی کتابت ہوچکی ہے، جلدہی انجمن ترقی اردو ہند شائع کرے گی۔
تین کتابیں غرائب اللغات، امراؤ جان ادا اور قصائد سودا کی تدوین بھی ان کے پیش نظر تھی، اس سلسلے کا مواد وہ برابر اکٹھا کررہے تھے لیکن ان پر کام کرنے کی نوبت نہیں آسکی۔
خاں صاحب کے پسندیدہ موضوع ادبی تحقیق اور تدوین رہے ہیں لیکن ادب میں ان کا اختصاص ادبی تحقیق اور تدوین متن کے ساتھ ساتھ املا، لغت، زبان و قواعد کے مسائل اور عروض بھی رہے ہیں، ان کی جملہ تصانیف ان موضوعات میں سے کسی نہ کسی کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں۔
خاں صاحب نے ہندو پاک کی مختلف جامعات میں اصول تحقیق وتدوین اور مشرقی شعریات پر تقریباً دو درجن لکچر دیے، املا پر متعدد ورکشاپ کنڈکٹ کیں، شعبہ اردو جموں یونی ورسٹی اور شعبہ اردو بمبئی یونی ورسٹی میں بہ حیثیت وزیٹنگ فیلو متعینہ مدت میں لکچر دیے۔
خاں صاحب کو ملک اور بیرون ملک کے تقریباً ایک درجن انعامات و اعزازات سے نوازا گیا، مثلاً دہلی ساہتیہ کلاپریشد ایوارڈ ۱۹۷۷ء، غالب ایوارڈ ۱۹۷۹ء، نیاز فتح پوری ایوارڈ (کراچی) ۱۹۸۹ء، محمد طفیل ادبی ایوارڈ (لاہور) ۱۹۹۰ء، کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ۱۹۹۱ء، ابوالکلام آزاد ایوارڈ ۱۹۹۷ء۔
میری نظر میں ان کو اب تک کاسب سے بڑا اعزاز و اکرام انجمن ترقی اردو ہند دہلی نے دیا تھا، انجمن کی نشر و اشاعت کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ خاں صاحب کی کسی بھی کتاب کے مسودے کو اشاعت کی منظوری حاصل کرنے کے لیے کمیٹی کے سامنے نہ رکھا جائے بلکہ مسودہ موصول ہوتے ہی بغیر کسی تاخیر کے شائع کردیا جائے، انجمن کی تاریخ کا شاید یہ سب سے انوکھا فیصلہ تھا جو ہر لحاظ سے مفید مطلب ثابت ہوا، ایک مصنف کی کتاب اگر اشاعت سے محروم رہے یا اس کی اشاعت میں توقف یا التوا پیدا ہوجائے تو اس کے آیندہ کے تصنیفی منصوبے متاثر ہوجاتے ہیں، خاں صاحب اس معنی میں خوش نصیب مصنف تھے کہ ان کی ہر نئی کتاب تصنیف و تکمیل کے دوران ہی اشاعت کے مراحل طے کرنے لگتی تھی، خاں صاحب کو اشاعت کے مراحل سے بے نیاز کرنے اور ان کے خاص اختیار کردہ املا، توقیف نگاری، اعراب نگاری کو برقرار رکھنے کی انجمن نے جو مثال قائم کی، اس کے لیے وہ تمام اردو حلقے کے شکریے کی مستحق ہے، دو مصرعوں پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں:
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
( اپریل ۲۰۰۶ء)

۱؂ ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیب نے راقم کو خاں صاحب کی وفات کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا تھا ’’مجھ سے چار چھ سال بڑے تھے، عمر ۸۲، ۸۴ برس کی ہوگی‘‘۔ (مکتوب ۲۸؍ فروری ۲۰۰۶؁ء)
۲؂ ادیب صاحب کے محولہ مکتوب گرامی میں یہ بھی تحریر ہے کہ ’’میں ان کو اس وقت سے جانتا تھا جب کہ وہ اپنی نوجوانی کے ایام میں بریلی میں مقیم تھے‘‘۔ (بنام ضیاء الدین)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...