Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا مجیب اﷲ ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا مجیب اﷲ ندوی
ARI Id

1676046599977_54338487

Access

Open/Free Access

Pages

726

آہ ! مولانا مجیب اﷲ ندوی
افسوس ہے کہ دارالمصنفین کے سابق رفیق، جامعتہ الرشاد کے بانی و ناظم مولانا مجیب اﷲ ندوی نے داعی اجل کو لبیک کہا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ ان علما میں تھے جو اسلامی علوم سے واقف ہونے کے ساتھ ہی زمانے کے حالات قوم و ملت کے مسائل اور اپنے ملک اور دنیائے اسلام کے واقعات سے بھی باخبر رہتے تھے، ان کا انتقال ۱۲؍ مئی ۲۰۰۶؁ء کو مغرب کے وقت لکھنو کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں ہوا، دوسرے روز صبح کو ان کی لاش اعظم گڑھ لائی گئی اور اسی دن سہ پہر کو جامعتہ ارشاد کے جس کمرے میں وہ رہتے تھے اسی سے متصل پورب کی طرف کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی، مولانا بڑے چاق و چوبند اور چلت پھرت کے آدمی تھے، سفرکثرت سے کرتے تھے مگر گزشتہ دو تین برس سے طول عمر اور ضعف و علالت کے باعث جامعتہ الرشاد کے باہر نکلنا بند کردیا تھا مگر اس معذوری اور خانہ نشینی کے باوجود ان کا ذہن و دماغ پوری طرح کام کرتا تھا اور لکھنے پڑھنے کا مشغلہ بھی ایک حد تک جاری تھا شروع سے وہ نماز کا بڑا اہتمام کرتے تھے، سفر حضر ہر جگہ جماعت سے نماز ادا کرتے تھے مگر آخر میں ضعف اتنا بڑھ گیا کہ مسجد کی حاضری موقوف ہوگئی جس کا انہیں بڑا ملال رہتا تھا۔
انتقال سے کئی ہفتے پہلے ان پر غشی طاری ہوئی اور بات چیت بند ہوگئی اور بالآخر وہ وقت آپہنچا کہ ان کی جوش عمل سے سرشار، متحرک جدوجہد سے معمور اور ہر دم رواں دواں رہنے والی زندگی کا خاتمہ ہوگیا اور قوم و ملت کا یہ ہم درد اور بہی خواہ اپنے مالک حقیقی سے جاملا۔
مولانا کا آبائی وطن غازی پور ضلع کا موضع کسمی خورد تھا لیکن ان کی پیدائش اعظم گڑھ میں ہوئی جہاں ان کے والد محکمہ پولیس میں ملازم تھے، مولانا کا بچپن یہیں کے قصبات میں گزرا اور بعد میں ان کی علمی و عملی، دینی و تعلیمی اور قومی و ملی سرگرمیوں کا خاص مرکز بھی یہی ضلع بنا اور وہ اسی کی خاک کا پیوند بھی ہوئے۔
ناظرہ، حفظ قرآن اور اردو فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں عربی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جامعہ مظہرالعلوم میں داخل کیا گیا جہاں کئی برس گزارنے کے بعد انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلما میں داخلہ لیا اور مولانا شبلی فقیہ جیراج پوری، مولانا شاہ حلیم عطا، مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا عبدالسلام قدوائی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد ناظم ندوی اور مفتی محمد سعید وغیرہ کے درس سے فیض یاب ہوئے اور ۱۹۴۵؁ء میں فراغت حاصل کی۔
یہ تحریک آزادی کے شباب کا زمانہ تھا، مولانا کی بے چین و بے قرار طبیعت کا رجحان کانگریس اور جمعیتہ علمائے ہند کی طرف تھا اور ان میں جوش و خروش سے حصہ لیا لیکن ان کا اصل مزاج دینی تھا، اس لیے جلد ہی سیاسی سرگرمیاں چھوڑ کر مولانا محمد الیاس کا ندھلوی کی دینی تحریک میں شامل ہوگئے اور تعطیل کے ایام تبلیغی جماعتوں کے ساتھ گزارتے، پھر وہ جماعت اسلامی ہند میں شامل ہوئے اور ایک عرصے تک اس میں سرگرم رہے، وہ جس تحریک یا جماعت سے وابستہ ہوتے اس کے لیے رات دن ایک کردیتے اور اس میں اس قدر سرگرمی سے حصہ لیتے کہ سب کو پیچھے چھوڑ دیتے، اس سے ان کی غیر معمولی قوت عمل اور جوش و ولولہ کا اندازا ہوتا ہے۔
مولانا مجیب اﷲ ندوی کی طالب علمی کے زمانے میں مولانا سید سلیمان ندوی ندوۃ العلما کے معتمد تعلیم تھے، سید صاحب وہاں جاتے تو کلاسوں میں جاکر طلبہ کو درس دیتے، اکثر منتہی اور فارغ طلبہ رمضان کی تعطیل میں اعظم گڑھ آجاتے اور سید صاحب انہیں اور رفقائے دارالمصنفین کو قرآن مجید اور حجتہ اﷲ البالغہ کا درس دیتے، مولانا مجیب اﷲ ہونہار بھی تھے اور حافظ قرآن بھی، سید صاحب کو ان کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوگیا تھا اس لئے جس سال یہ آخری درجے میں تھے۔ سید صاحب نے انہیں رمضان المبارک میں دارالمصنفین آنے کی دعوت دی اور کہا، آپ مجھے تراویح میں قرآن مجید سنایئے اور میں آپ کو قرآن مجید پڑھاؤں، ان کی یہی آمد دارالمصنفین میں قیام کی تقریب بن گئی اور پھر وہی ہر سال تراویح پڑھانے لگے، شہر میں رہنے لگے تو قریب کی مسجد میں وہی امامت کرتے اور تراویح پڑھاتے تھے، میرا جب دارالمصنفین سے تعلق ہوا تو مجھے بھی اپنی مسجد میں تراویح پڑھنے کے لیے اصرار سے بلاتے اور میں نے کئی سال ان کی اقتدا میں پڑھا بھی، وہ قرآن بہت اچھا پڑھتے تھے،مجھے بڑا لطف ملتا تھا، جب تک ان میں قوت تھی، اپنی مسجد میں خود ہی تراویح پڑھاتے تھے۔
سید صاحب ۱۹۴۶؁ء میں قاضی القضاۃ ہو کر بھوپال تشریف لے گئے، اس لیے مولانا مجیب اﷲ صاحب کو دارالمصنفین میں ان کے ساتھ زیادہ رہنے کا موقع نہیں ملا تاہم اس قلیل عرصے میں بھی وہ ان کی صحبتوں اور علمی مجلسوں میں شریک رہتے تھے اور ان کے علمی کاموں میں مراجع کی تلاش میں مدد کرتے تھے، کبھی کبھی سفر میں بھی ان کی رفاقت کی، ایک دفعہ پشاور کے سفر میں سید صاحب ان کو اپنے ساتھ لے گئے، مولانا محمد یوسف بنوری نے ان سے سوال کیا، بیضاوی کا متن کہاں ہے؟ یہ جواب نہ دے سکے تو سید صاحب نے فرمایا کہ وہ ان کے سینے میں ہے، ایک دفعہ مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی بہار جارہے تھے، انہوں نے سید صاحب کو اطلاع دی کہ میں فلاں ٹرین سے اعظم گڑھ آکر آپ سے ملنا چاہتا ہوں، کسی کو اسٹیشن بھیج دیجیے گا، سید صاحب نے یہ خدمت ان کے سپرد کی، مولانا سیالکوٹی تہجد گزار تھے، سویرے تہجد کے لیے مسجد گئے، مولانا مجیب اﷲ صاحب فرماتے تھے کہ اس وقت فجر کی اذان میں یا مولانا مسعود علی صاحب دیتے تھے، اس روز مولانا سیالکوٹی نے غلس میں اذان دی اور قدرے انتظار کر کے تنہا غلس میں نماز ادا کرلی، یہ جب مسجد آئے تو انہوں نے کہا یہاں اسفار میں نماز ہوتی ہے، کیا جماعت سے نماز پڑھنا افضل ہے یا اپنے مسلک کے مطابق غلس میں، مولانا نے فرمایا میں مسافر تھا، مجھے وقت معلوم نہیں تھا، جماعت سے نماز پڑھنا ہی افضل ہے مگر یہ دیر تک بحث کرتے رہے، ناشتے کے وقت مولانا نے سید صاحب سے فرمایا کہ فجر کے وقت ان صاحب زادے نے مجھے کافی تنگ کیا، مولانا مجیب اﷲ صاحب عمر بھر سید صاحب کی عقیدت کا دم بھرتے رہے، ان سے والہانہ تعلق کی بنا پر ان پر سمینار بھی کرایا تھا۔
راقم مولانا مجیب اﷲ صاحب کے نام اور ان کی کتاب ’’اہل کتاب صحابہ و تابعین‘‘ سے اس وقت واقف ہوا جب مدرستہ الاصلاح میں زیر تعلیم تھا،اس وقت مولانا جماعت اسلامی کے سرگرم رکن تھے اور مدرسے میں بھی اس کا بڑا اثر تھا اور وہاں اس کے اکثر پروگرام بھی ہوتے تھے جن میں مولانا مجیب اﷲ صاحب بھی تشریف لے جاتے تھے، یہاں ان کو دیکھنے کے باوجود ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہ کرسکا مگر جب ۱۹۵۷؁ء میں میرا بھی درالمصنفین سے تعلق ہوا تو ان سے میری قربت بہت بڑھ گئی وہ مجھے اکثر اپنے گھر بلاتے اور بڑی شفقت اور دل جوئی کرتے، میں ان سے ہر ہر معاملے میں مشورہ کرتا، میرے والد اور بھائیوں سے بھی ان کا بڑا تعلق ہوگیا تھا اور وہ ہم لوگوں کی دعوت پر دو ایک بار میرے گھر بھی تشریف لے گئے۔
اتفاقاً اسی زمانے میں مدرستہ الاصلاح کے ذمہ داروں نے جماعت کے بعض ارکان کا تعلق مدرسہ سے ختم کردیا، اس سے قدرتاً جماعت کے لوگ بہت برہم ہوئے، مولانا مجیب اﷲ صاحب بھی بڑے طیش میں تھے اور وہ مجھے دیکھتے ہی اپنا غصہ ظاہر کرنے لگتے، حالاں کہ میرا کوئی ذمہ دارانہ تعلق اس وقت مدرسے سے نہ تھا، اسی موڑ پر انہیں جامعۃ الرشاد کے قیام کا خیال آیا اور بے سروسامانی کے باوجود ۱۹۶۲؁ء میں جامعۃ الرشاد قائم کردیا۔
شروع میں یہ مدرسہ شہر کی دفتری مسجد میں تھا جس کے مولانا امام تھے اور اسی کے قریب ان کی رہایش گاہ تھی، مدرسین اور طلبہ کی رہائش کے لیے بھی قریب ہی کرایے کا ایک مکان لے لیا جو چند کمروں، ایک برآمدے اور ایک صحن پر مشتمل تھا، شروع ہی میں ان کو اچھا اسٹاف اور کارکن اور طلبہ بھی مل گئے جن میں اکثر مدرستہ الاصلاح سے علاحدہ کئے گئے یا خود سے علاحدہ ہوجانے والوں پر مشتمل تھا، البتہ مالیات کی فراہمی میں کچھ زحمتیں اٹھانی پڑیں تاہم جماعت اسلامی کی تنظیم سے ان کو اس میں بھی بڑی مدد ملی، اس وقت مولانا جماعت سے وابستہ تھے مگر جب انہوں نے جامعہ کو جماعت کے حوالے نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو جماعت کی تائید وہم دردی ختم ہوگئی لیکن وہ ساری مشکلات پر قابو پاتے رہے اور مدرسہ بھی ترقی کے مراحل طے کرتا رہا، اسی زمانے میں وہ جماعت اسلامی سے علاحدہ ہوگئے اور مولانا شاہ وصی اﷲ سے بیعت ہوئے اور ان کے انتقال کے بعد مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھی کی طرف رجوع ہوئے۔
جب ان کی ساری قوت مدرسے پر صرف ہونے لگی تو درارالمصنفین کے اس وقت کے ذمہ داروں نے ان کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ یا تو وہ یک سوئی سے مدرسے ہی کے لیے اپنے کو فارغ کرلیں یا اس کی نگرانی کسی اور کو سپرد کر کے عام نگرانی کی حد تک اس سے وابستہ رہیں مگر انہوں نے غور و فکر اور راے مشورے کے بعد یہی فیصلہ کیا کہ وہ صرف مدرسہ کی خدمت میں مصروف رہیں گے کیوں کہ اس کا کام اتنا پھیل گیا تھا کہ اسے چھوڑ دینا مشکل تھا، اب اﷲ پر بھروسہ کر کے اور اپنے بعض رفقا اور خاص معاونین کو لے کر انہوں نے جامعۃ الرشاد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، اس کے لیے بیرون ملک گئے، ایک وسیع زمین حاصل کی جس پر عالی شان اور مستحکم عمارتیں اور خوب صورت مسجد تعمیر کرائی اور بڑے صبر و استقلال سے جامعتہ الرشاد کو پایہ تکمیل کو پہنچایا، اس سے ان کی مضبوط قوت ارادی اور آہنی عزم و ارادے کا پتا چلتا ہے، وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک کہ جامعۃ الرشاد کی حالت اطمینان بخش نہ ہوگئی، اس زمانے میں انہوں نے اپنی ساری دلچسپیاں اور ہر طرح کے مشاغل کو خیر باد کہہ دیا تھا۔
مولانا مجیب اﷲ صاحب میں گونا گوں علمی و عملی صلاحیتیں تھیں اور وہ بڑے متحرک اور فعال تھے، تصنیف و تالیف سے انہیں بڑی مناسبت تھی، دارالمصنفین سے ان کی دو کتابیں شائع ہوئیں ’’اہل کتاب صحابہ و تابعین‘‘ اور ’’تبع تابعین‘‘ اول الذکر کا مقدمہ بڑی دیدہ ریزی سے لکھا، دوسری کتاب میں امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے حالات بھی بڑے تلاش و تفحص سے لکھے لیکن اس سے اہم چیز ان کے فقہی و اجہتادی کارناموں پر بحث و گفتگو ہے، اس کے علاوہ معارف کے لیے انہوں نے درجنوں عالمانہ و محققانہ مضامین لکھے، ان کی فقہ پر بڑی گہری نظر تھی، ان کے اکثر فقہی مضامین کو اہل علم نے بہت پسند کیا اور ان کے ملک کی بعض زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے، ادب سے بھی شغف تھا مگر اس کی طرف کم توجہ کی۔
انہیں درس و تعلیم اور طلبہ کی ذہنی و دماغی اصلاح و تربیت سے بڑی دلچسپی تھی، جامعۃ الرشاد اسی ذوق کا مظہر ہے، جب اترپردیش میں دینی تعلیمی کونسل قائم ہوئی اور مکاتب کے قیام کی تحریک شروع ہوئی تو انہوں نے اعظم گڑھ اور اس کے ملحق اضلاع کا طوفانی دورہ کیا اور گاؤں گاؤں میں مکاتب کا جال بچھا دیا۔
ان میں اچھی انتظامی صلاحیت تھی، جامعۃ الرشاد کو بڑے حسن و خوبی سے چلایا اور اس کے زیر اہتمام کئی کامیاب علمی و دینی پروگرام کیے۔
قومی و ملی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، اعظم گڑھ میں مسلمانوں کے کسی علمی، تعلیمی، دینی اور ملی کام میں اس وقت تک جان نہ پڑتی جب تک وہ اس میں شامل نہ ہوتے، ہندوستان کے مسلمانوں پر آئے دن جو افتاد آتی رہتی ہے اس سے بہت کبیدہ رہتے تھے، ان کی مظلومی اور بے بسی دیکھ کر تڑپتے تھے، معاندین اسلام اور فرقہ پرستوں کے خلاف برابر علمی و عملی قلمی جہاد میں مصروف رہتے، اجودھیا کی بابری مسجد ہو یا مسلم کش فسادات اور پولس کی بربریت، ہر معاملے میں بے خطر کود پڑتے اور جان کی بازی لگادیتے، بڑی سی بڑی قربانی دیتے اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے۔
ان کی دینی، علمی اور فقہی عظمت کا اعتراف پورے ملک میں کیا گیا، کبار علما اور اہل مدارس سے ان کے روابط تھے، ہر جگہ کی تقریبات اور پروگرام میں مدعو کیے جاتے تھے، ان کی اصلاحی، معاشرتی اور ملی خدمات کو مسلمانوں کی آل انڈیا تنظیمیں قدر و عظمت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور ان کے مشوروں اور تجربوں سے فائدہ اٹھاتی تھیں، وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، ملی کونسل اور فقہ اکیڈمی کے موقر رکن تھے۔
جامعۃ الرشاد کے استحکام کے بعد وہ بڑی یک سوئی کے ساتھ تصنیف و تالیف کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور اس کے لیے ندوۃ التالیف و الترجمہ کا شعبہ تائم کیا اور وہاں سے اپنے پرانے مضامین کتابی صورت میں شائع کرنے کے علاوہ بعض ہلکے پھلکے رسالے اور کتب بھی شائع کیں اور ماہنامہ ’’الرشاد‘‘ نکالا، اس کے اداریے عموماً بہت پسند کئے جاتے تھے جن میں ملک و ملت کے موجودہ مسائل پر بحث و تجزیہ کیا جاتا تھا، ’’سیرۃ النبیﷺ‘‘ کا ساتواں حصہ جو معاملات پر مشتمل تھا، نامکمل رہ گیا تھا، وہ کہتے تھے میں اسے مکمل کروں گا اور غالباً اس سلسلے کے بعض مضامین لکھے بھی، اس میں شبہ نہیں کہ ان میں بڑی صلاحیتیں تھیں اور ان کی اٹھان بھی بہت شان دار تھی مگر دارالمصنفین سے وابستگی کے زمانے میں ان کے قلم سے جس معیار کی تحریریں شائع ہوئیں وہ معیار بعد کی تحریروں کا نہیں رہا، ان کی اصل جگہ دارالمصنفین تھی لیکن مزاج میں وارستگی اور طبیعت میں اتار چڑھاؤ تھا، کسی نظام کی پابندی اور دوسرے کی ماتحتی اور مداخلت پسند نہیں کرتے تھے۔
مولانا کے تعلقات ہر طبقے کے لوگوں سے تھے اور سب سے اچھا برتاؤ کرتے تھے لیکن اگر کسی کی بات یا کوئی ادا پسند نہیں آتی تو موقع بے موقع ٹوک دیتے تھے جس کے انداز میں بڑی شدت ہوتی تھی مگر بہت جلد سنبھل جاتے، کسی کے خلاف اپنے دل میں کینہ و کدورت نہ رکھتے، ان کی وفات بڑا حادثہ اور مسلمانوں کا شدید خسارہ ہے، اﷲ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس نصیب کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔
(ضیاء الدین اصلاحی، جون ۲۰۰۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...