Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا حکیم محمد مختار اصلاحی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا حکیم محمد مختار اصلاحی
ARI Id

1676046599977_54338488

Access

Open/Free Access

Pages

728

آہ ! مولانا حکیم محمد مختار اصلاحی
مولانا حکیم محمد مختار اصلاحی کا انتقال ۱۱؍ جون کو ہوا مگر کچھ پتا نہیں چلا، ممبئی کے اخبار یہاں نہیں آتے، وہاں سے آنے والوں نے بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا، ان کے عزیزوں اور صاحبزادوں کو اتنے جاں کاہ حادثے میں ان کے اس دور افتادہ قدرداں اور نیازمند کا خیال نہیں آیا، جولائی کا ترجمان اصلاحی ۱۱؍ جولائی کو آگیا تھا مگر اسی روز میری چھوٹی بہن نسیمہ اﷲ کو پیاری ہوگئی تھی، کئی روز بعد گھر سے آنے پر اسے کھولا تو سرورق پر حکیم صاحب کی تصویر کے نیچے یہ مصرعہ درج تھا:
؂ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
دل کا عجیب حال ہوگیا، بہن کا غم تازہ ہی تھا کہ اب اس مسیحا نفس کی بات بھی گئی۔
موت برحق ہے، کسی کو اس سے مفر نہیں، حکیم صاحب تو عمر طبعی کو پہنچ گئے تھے مگر ان کے جیسے کرم فرما اور اپنے سے اس قدر ٹوٹ کر ملنے اور چاہنے والے کا صدمہ ناقابل برداشت تھا، ان کی یاد بھلائے نہیں بھولتی ؂
آئی جو یاد ان کی تو آتی چلی گئی
ہر نقش ما سوا دل سے مٹاتی چلی گئی
وہ ضلع جون پور کے مشہور مردم خیز قصبہ صبر حد میں ۱۵؍ جون ۱۹۱۵؁ء کو ایک متوسط زمیں دار گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کے والد ممبئی میں رہتے تھے، اردو اور فارسی کی تعلیم دادا کے زیر نگرانی گھر پر ہوئی، اعلاتعلیم مدرستہ الاصلاح سرائے میر میں حاصل کی، جہاں مولانا شبلی متکلم ندوی اور مولانا امین احسن اصلاحی وغیرہ سے درس لیا، جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی ان کے ہم سبق تھے۔
مدرستہ الاصلاح سے فراغت کے بعد علی گڑھ کے طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور ۱۹۳۹؁ء میں والد کے پاس ممبئی تشریف لے گئے اور پھر وہیں کے ہوگئے، محمد علی روڈ پر فینسی محل میں مطب شروع کیا اور اس کا نام اصلاحی دواخانہ رکھا، اب ان کے چھوٹے صاحبزادے حکیم محمد طارق اصلاحی وہاں بیٹھتے ہیں۔
ممبئی جیسے ہنگامہ خیز اور بڑے شہر میں جہاں ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکٹر، طبیب، دواخانے اور اسپتال تھے، ان کی موجودگی میں بہت جلدشہرت و مقبولیت اور غیر معمولی کامیابی حاصل کرلینے اور اپنی حذاقت و مہارت کا سکہ جمالینے میں حکیم صاحب کے ملکۂ خداداد، ذہانت و قابلیت کے علاوہ ان کی محنت، جاں کاہی، باقاعدگی، اصولی پسندی، استقلال، میانہ روی، یک سوئی، پیشے سے خلوص، مریضوں سے ہم دردی، فیض رسانی اور خدمت خلق کے جذبے کو بھی بڑا دخل تھا، اگر ان کا مقصد حصول زر ہوتا تو جدید طریقہ علاج یا کسی اور پیشے کو اختیا ر کرتے مگر انہوں نے مخالف ہوا میں بھی طب یونانی کا چراغ روشن رکھا جو ان کا بڑا کارنامہ ہے۔
حکیم صاحب بڑے عزم و حوصلے کے آدمی تھے، بڑھاپے میں بھی نہایت چاق و چوبند رہتے، کبھی ہمت نہ ہارتے، اپنی دھن میں لگے رہتے، اپنے اصل پیشے سے کبھی بے پروائی نہ برتتے، دوسرے کام ان کی نظر میں ضمنی اور ثانوی تھے، اصل توجہ طبابت پر ہوتی اور اس میں نئی جدت و اختراع کرتے رہتے، ان میں جوانوں سے زیادہ قوت عمل اور جوش تھا، انہوں نے جب مجھے بے تکلف بنالیا تو میں کہا کرتا تھا ’’جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب‘‘۔
حکیم صاحب کا دائرہ فیض ممبئی تک محدود نہ تھا، ان کا اصل مرکز تو ممبئی میں فینسی محل کا اصلاحی دواخانہ تھا مگر اس کی شاخیں دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئی تھیں، نہرو نگر کرلا ایسٹ میں اصلاحی ڈرگ کے نام سے دواؤں کو جدید طرز پر تیار کرنے کے لیے ایک فیکٹری قائم کی گئی جس میں ہر قسم کے پیڑ پودے اور جڑی بوٹیاں مہیا کی گئی تھیں، دوارکا پوری کرلا ویسٹ میں اصلاحی یونانی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کھولا جس میں جدید طرز کے آلات اور مشینوں سے دوائیں تیار ہوتی تھیں، دہلی اور حیدر آباد میں بھی اصلاحی دواخانے کی شاخیں قائم ہوگئی تھیں، ان کے کاموں کے پھیلاؤ اور وسعت کی بنا پر ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ آپ تو حکیم عبدالحمید ثانی ہیں۔
وہ کھانے پینے اور رہنے سہنے میں بڑے محتاط تھے، ان کی خوراک بہت کم اور سادہ تھی، مجھے ان کے یہاں کئی بار کھانا کھانے اور ناشتہ کرنے کا اتفاق ہوا، جس میں اور بھی لوگ مدعو ہوتے تھے، حکیم صاحب ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھتے مگر خود کھانے کے بجائے دوسروں کی پلیٹ میں چیزیں ڈالتے رہتے، ایک دفعہ میں نے کہا آپ تو حکیم عبدالحمید ثانی معلوم ہوتے، میں ایک مرتبہ ہمدرد نگر میں اوصاف علی صاحب کے ساتھ قیام پذیر تھا، حکیم عبدالحمید صاحب نے لال کنواں کے پاس اپنے گھر کھانے کی دعوت کی، وہاں آٹھ دس آدمی اور رہے ہوں گے، حکیم عبدالحمید صاحب سب کے ساتھ بیٹھے مگر ایک لقمہ بھی نہیں لیا، دریافت کرنے پر بتایا کہ وہ رات میں کھانا نہیں کھاتے اور دن میں بھی دہی اور تھوڑا سا جوس ان کی غذا تھی، دارالمصنفین آتے تو اس کا انتظام کیا جاتا۔
حکیم محمد مختار صاحب صبح سویرے اٹھتے، ضروری کاموں سے فارغ ہوکر لوکل ٹرین سے دواخانے جاتے اور پھر عشاء کے وقت لوکل ٹرین ہی سے واپس آتے، آخر میں یہ معمول بدل گیا تھا، غالباً دو بجے دن میں واپس آجاتے، دوسرے وقت ان کے صاحبزادے مطب میں رہتے، ایک دفعہ میں نے ایک صاحب سے کہا کہ حکیم صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے وسعت اور کشادگی دی ہے، انہیں اپنی گاڑی سے مطب آنا جانا چاہیے، وہ خواہ مخواہ زحمت اٹھا کر ٹرین سے آتے جاتے ہیں، انہوں نے کہا یہ صحیح ہے کہ اپنی ذات پر زیادہ خرچ کرنا حکیم صاحب کے مزاج کے خلاف ہے مگر ممبئی میں لوکل ٹرینوں سے آنے جانے میں بڑا وقت بچتا ہے، اپنی گاڑی میں اس ہنگامہ خیز اور بھیڑ بھاڑ کے شہر میں بڑا وقت لگ جاتا ہے، بعد میں اس کا تجربہ خود مجھے بھی ہوا، ایک دفعہ میں مولانا مستقیم احسن اعظمی کے یہاں مدن پورہ میں تھا وہاں سے مجھے، انہیں اور ان کے گھر والوں کو حکیم صاحب کے یہاں دعوت میں آنا تھا، مولانا مستقیم صاحب نے گاڑی کرلی مگر گھنٹوں تاخیر سے پہنچے۔
حکیم محمد مختار اصلاحی کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی تنہا ان کی طبی مہارت و حذاقت ہی کی بنا پر نہیں تھی بلکہ ان کے علم و وقار، شرافت و شائستگی، عالی ظرفی و وسیع القلبی، رکھ رکھاؤ، وضع داری، حسن اخلاق اور باہمہ و بے ہمہ رہنے کی وجہ سے بھی وہ ممبئی کے ہر طبقے میں معزز و محترم سمجھے جاتے تھے، جس مجلس میں پہنچ جاتے ا س کی رونق بڑھادیتے، ان کی رائے کا بڑا وزن محسوس کیا جاتا تھا، وہ اصلاً تو صرف اپنے پیشے اور فن سے سروکار رکھتے تھے تاہم معاشرتی اور قومی انجمنوں اور علمی و ادبی اداروں سے بھی ان کی وابستگی رہتی تھی مگر ان میں ایک حد تک اور بڑے اعتدال ہی سے حصہ لیتے تھے، مہاراشٹر کی جمعیۃ علما سے بھی ان کا تعلق تھا، طبیہ کالج، وقف بورڈ اور حج کی کمیٹیوں کے ممبر تھے، جن اداروں اور انجمنوں سے ان کا عملی تعلق نہیں ہوتا تھا ان کی بھی مالی مدد کرتے تھے، حکیم صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے بہت نوازا تھا مگر ان کی دولت ان کے آرام و تعیش کے بجائے ضرورت مندوں پر صرف ہوتی تھی، اپنے آبائی وطن صبرحد کے جامعہ فاروقیہ ، سرسید انٹر کالج اور گرلس ہائی اسکول کی برابر مدد کرتے رہتے تھے، ہارون صاحب پرنسپل صابو صدیق نے مولانا عبدالسلام ندوی پر کامیاب سمینار کرایا تو ان سے کہا کہ اقبال سہیل صاحب پر بھی آپ سمینار کرائیں، اس کا نصف خرچ میں دوں گا، وہ جامعہ فاروقیہ صبرحد کے سالانہ جلسوں اور مشاعروں میں شرکت کے لیے ممبئی سے تشریف لاتے اور ان کے مصارف کے بہت کچھ وہی متکفل ہوتے تھے، مدرستہ الاصلاح سے بھی ان کا بڑا تعلق تھا، اس کی مجلس عام کے سالانہ جلسوں میں بھی تشریف لاتے، ان ہی کی کوشش اور دلچسپی سے ’’حکیم محمد مختار اصلاحی پالی ٹکنک کالج‘‘ قائم ہوا۔
انہوں نے بڑی مشغول زندگی گزاری اور یہی ان کی کامیابی اور ترقی کا اصل راز ہے، مطب کی حد سے بڑھی ہوئی مصروفیت میں بھی ان کے لکھنے پڑھنے اور مطالعہ و تحقیق کا شوق کم نہ ہوا تحریر و تصنیف کا شغل جاری رہتا، ان کی ادارت میں ماہ نامہ ’’تندرستی‘‘ اور پندرہ روزہ ’’مسیحا‘‘ عرصے تک شائع ہوتے رہے جن سے طب اور اردو زبان دونوں کی خدمت ہوئی ’’اطبا اور ان کی مسیحائی‘‘ ان کی بڑی مفید اور پراز معلومات کتاب ہے، دوسری کتاب ’’بری عادتیں۔ نقصانات اور تدارک‘‘ اخلاقی اور طبی حیثیت سے بڑی مفید اور قابل قدر ہے۔
مرحوم حکیم صاحب کی زندگی بڑی سادہ مگر بہت مرتب تھی، وہ بڑے صفائی پسند تھے، ان کی کوئی چیز منتشر اور بے سلیقہ نہیں ہوتی تھی، کمرہ آرایش اور زیبایش کے سامان سے خالی ہوتا تھا مگر میز پر کاغذ، کتابیں، پنسل اور قلم اور الماریوں میں کتابیں بڑے مرتب طور سے سلیقے سے رکھی ہوتی تھیں، خط کتابت اور دوسری ضروری چیزوں کا ریکارڈ رکھتے تھے، لوگوں کے خطوط کی الگ الگ فائلیں بنالی تھیں۔
ممبئی کے ہر طبقے میں وہ معروف و متعارف تھے، ملک کے مشاہیر علما و اطبا سے ان کے تعلقات تھے، ممبئی کے لوگوں میں مولانا مختار احمد ندوی کے اس لحاظ سے بڑے مداح تھے کہ وہ برابر فلاح و بہود کے کام کرتے رہتے ہیں، ملک کے ہر علاقے میں مساجد تعمیر کرائیں، الدارالسلفیہ قائم کیا، بہت سی اہم کتابیں شائع کیں ’’البلاغ‘‘ کے نام سے اچھا رسالہ نکالا، مؤ اور مالیگاؤں میں طلبہ و طالبات کے کالج قائم کیے اور ان کی شان دار عمارتیں بنوائیں، مالیگاؤں میں سائر اسپتال اور طبیہ کالج کھولے جس میں حکیم محمد مختار اصلاحی کا بھی بڑا تعاون تھا، کالج کے ابتدائی دور میں اپنے بڑے صاحبزادے حکیم محمد فیاض کو اس کا نظم و نسق درست کرنے کے لیے پرنسپل بنایا، ان کے دل میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی بڑی عزت تھی، وہ جب ممبئی آتے تو حکیم صاحب ان سے ملنے جاتے اور مولانا کو بھی اپنے یہاں مدعو کرتے، مولانا بھی ان کا بڑا خیال کرتے، ۱۹۷۵؁ء میں دارالعلوم کا پچاسی سالہ جشن منایا گیا تو اس میں حکیم صاحب کو بھی مدعو کیا اور وہ تشریف بھی لائے، مولانا امین احسن اصلاحی کے علم و فضل اور تقریر و تحریر کے بہت معترف تھے، ان سے خط کتابت بھی رہتی تھی، علامہ شبلی اور مولانا حمیدالدین فراہی سے غیر معمولی عقیدت تھی، ایک بار میں نے ان سے عرض کیا کہ دارالمصنفین کی جو کتابیں عرصے سے نہیں چھپ رہی ہیں ہم لوگوں نے ان کی دوبارہ اشاعت کا پروگرام بنایا ہے اس نئے بوجھ کا متحمل دارالمصنفین نہیں ہوسکتا، انہوں نے کہا میں تمہارا مطلب سمجھ گیا، مولانا شبلی کی کوئی کتاب ہو تو اسے میرے خرچ سے چھپوا دو عرض کیا سیرۃالنبی حصہ اول کی طباعت کے لیے علامہ کی پوتی صاحبہ رقم دے چکی ہیں، انہوں نے فرمایا حصہ دوم کے لئے مجھ سے ایک لاکھ روپے لے لیجئے، مولانا حمیدالدین صاحب کے متعلق فرمایا کہ ان سے تعلق جوڑنے کے لیے اپنی لڑکی کا رشتہ ان کے پوتے پروفیسر عبیداﷲ فراہی سے کیا، ان دونوں حضرات کی یادگار مدرستہ الاصلاح اور دارالمصنفین سے ان کو عشق تھا، مدرستہ الاصلاح کو ان کی خاص دین حکیم مختار اصلاحی پالی ٹکٹنک کالج ہے، اس کی جو چھوٹی کمیٹی حکیم صاحب نے بنائی تھی اس میں فرط تعلق و اعتماد کی بنا پر میرا نام بھی رکھا تھا۔
دارالمصنفین سے بھی ان کا تعلق بڑا گہرا تھا، شاہ معین الدین احمد صاحب جامعہ فاروقیہ صبرحد کے جلسوں کی مستقل صدارت کرتے تھے پھر صباح الدین صاحب اور اس خاکسار کو بھی یہ عزت بخشی گئی، میں نے انہیں پہلی بار طالب علمی میں مدرستہ الاصلاح کی مجلس عام کے سالانہ جلسوں میں دیکھا، پھر شاہ صاحب کی معیت میں جامعہ فاروقیہ صبر حد کے سالانہ جلسوں میں ملا، اس کے بعد ۱۹۷۳؁ء کے آخر میں میرے والدین حج بیت اﷲکے لیے جا رہے تھے تو میں انہیں چھوڑنے ممبئی گیا، اسی سلسلے میں ان کے مطب سے گزرا تو ان سے ملنے گیا، اپنا تعارف کرایا، انہوں نے آنے کا مقصد دریافت کیا، بتانے پر فرمایا کہ میں تو بندرگاہ پر نہیں ملوں گا لیکن حکیم نورالدین اصلاحی جن کو تم جانتے ہو تمہاری مدد کریں گے، میں ان سے کہہ دوں گا۔اب یہ خیال نہیں آتا کہ ان سے اتنے زیادہ تعلقات کب ہوئے کہ میں ممبئی جاؤں یا وہ ادہر آئیں تو دونوں کو ایک دوسرے سے ملے بغیر چین نہیں ملتا تھا، میں نے دارالمصنفین کی طرف ان کی غیر معمولی توجہ دیکھ کر اس کی مجلس انتظامیہ کی رکنیت کے لیے ان کا نام تجویز کیا تو ارکان نے بہ اتفاق منظور کرلیا مگر پہلے تو عدیم الفرصتی پھر ضعف کی وجہ سے کسی جلسے میں شریک نہیں ہوسکے، ان کو دارلمصنفین کی مالی حالت کے استحکام کی بڑی فکر رہتی تھی، اس کے لیے اکثر اپنی تجویزیں مجھے بھیجتے، ممبئی میں مولانا عبدالسلام ندوی پر جب سمینار ہونا طے پایا تو انہوں نے مجھے لکھا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر تم لوگوں کا اجتماع یہاں کروں ، ہم لوگوں نے کوشش کی مگر کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی البتہ انجمن اسلام ممبئی کے صدر ڈاکٹر اسحاق جم خانہ والا اعظم گڑھ آنے کے لیے تیار ہوگئے، حکیم صاحب کو پتا چلا تو وہ بھی آنے کے لیے آمادہ ہوگئے، سب نے ہوائی جہاز کے ٹکٹ بھی لے لیے مگر رضوان فاروقی صاحب کی شدید علالت کی وجہ سے یہ پروگرام منسوخ ہوگیا۔
چند برس سے حکیم صاحب خانہ نشین ہوگئے تھے، مطب جانا موقوف ہوگیا تھا، ان کا فلیٹ جامع مسجد کرلا کے سامنے ’’نورجہاں‘‘ بلڈنگ کی چوتھی منزل پر تھا، اس سے نیچے نہیں اترتے تھے، یہ کیفیت کئی برس سے تھی تاہم ان کی موجودگی ہی ان کے عزیزوں اور فرزندوں کے لیے بڑا سہارا تھی، مدرسۃ الاصلاح اور حکیم محمد مختار اصلاحی پالی ٹکنک کالج کے کارکنوں اور اس ناچیز کے لیے باعث تقویت تھی، افسوس اب یہ سہارا نہیں رہا، اﷲ تعالیٰ ان کو اعلا علیےن میں جگہ دے، پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے اور ان کے قائم کردہ اداروں کا فیض باقی رکھے اور انہیں فروغ بخشے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، اگست ۲۰۰۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...