1676046599977_54338489
Open/Free Access
731
پروفیسر خورشید الاسلام
پروفیسر خورشید الاسلام ۱۸؍ جون کو علی گڑھ کی خاک کا پیوند ہوگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ جولائی ۱۹۱۹ء میں مراد آباد اور بجنور کی سرحد پر واقع ایک گاؤں امری میں پیدا ہوئے، یہ اور مشہور شاعر اختر الایمان گہرے دوست تھے اور فتح پوری ہائی اسکول میں ساتھ ہی پڑھتے تھے اور دونوں اسکول کے مشہور ڈبیٹر اور بہترین مقرر تھے، بی اے کرنے کے بعد خورشید الاسلام صاحب کچھ عرصے رسالہ ’’آج کل‘‘ کے سب اڈیٹر رہے اور ۱۹۴۳ء میں ایم اے کرنے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آئے، یہاں پھر اختر الایمان کا ساتھ ہوا اور دونوں ۱۹۴۴ء میں یونیورسٹی کی نمائندگی کے لیے حیدر آباد گئے اور ہفت روزہ اردو کانگریس میں شریک ہوئے، خورشید الاسلام صاحب ۱۹۴۵ء میں ایم اے کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لکچرر ہوگئے اور ۱۹۷۳ء میں پروفیسر ہوئے،اور جب پروفیسر آل احمد سرور سبکدوش ہوئے تو یہ صدر شعبہ ہوئے۔
مضمون نگاری شروع کی تو مولانا شبلی پر ہاتھ صاف کیا، مولانا پر ان کا یہ مضمون ان کی کتاب ’’تنقیدیں‘‘ میں شامل ہے، اس کا آغاز اس طرح کیا ہے ’’شبلی پہلے یونانی تھے جو مسلمانوں میں پیدا ہوئے‘‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مضمون ان کی علمی شہرت کا باعث بنا اور مولانا ابوالکام آزاد نے اس کو بہت پسند کیا، ان کی سفارش پر خورشید صاحب کو لندن یونیورسٹی میں ملازمت مل گئی مگر راقم نے سنا ہے کہ مولانا نے ان کے نام ہی کو غلط قرار دیا کہ اس میں مضاف و مضاف الیہ دولسانی ہیں۔
بہرحال وہ لندن یونیورسٹی میں تدریسی خدمت پر مامور رہے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے شائع ہونے والی اردو انگریزی لغت کے اڈیٹر بھی مقرر ہوئے، انہوں نے یونیسکو پروجیکٹ کے تحت ’’غالبؔ۔ حیات اور خطوط‘‘ پر کام کیا علی گڑھ کے علمی و تحقیقی مجلہ ’’فکر و نظر‘‘ کے مدیر بھی رہے۔
خورشید الاسلام صاحب اچھے استاد اچھے نثر نگار ناقد کی حیثیت سے مشہور ہیں لیکن ان کی شاعری بھی پرکشش ہے تین شعری مجموعے چھپ گئے ہیں، رگ جاں، خستہ خستہ اور شاخ نہال غم، عصری حیثیت کی حامل ایک غزل کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
رات بھی ہے کچھ سونی سونی ، دن بھی کچھ ویران سا ہے
پھول بھی ہیں کچھ سہمے سہمے ، باغ بھی کچھ حیران سا ہے
قریہ قریہ اوج پہ سر ہیں، نوک سناں سر سبز بھی ہے
خنجر جھمکیں لعل سے گویا ، گردن پر احسان سا ہے
دن سے جو بھی رات ملی ہے ، گریہ کہ دیوار سی ہے
رات سے جو بھی دن پایا ہے ، نوح کا طوفان سا ہے
بستی بستی آگ لگے اور گلیوں گلیوں خون بہے
قدرت کا یہ کھیل نہیں ہے ، قدرت کا فرمان سا ہے
اﷲ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے اور انہیں اپنی رحمت کا ملہ سے نوازے، پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، اگست ۲۰۰۶ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |