1676046599977_54338491
Open/Free Access
732
احمد ندیمؔ قاسمی کی رحلت
مشہور ترقی پسند ادیب و شاعر جناب احمد ندیم قاسمی طویل عرصے سے اردو کے افقِ شعر و ادب پر ضوفشاں تھے، افسوس ہے کہ ۱۰؍ جولائی کو وہ وفات پاگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
انہیں پھیپھڑے کی تکلیف اور تنفس کا عارضہ پہلے سے تھا، اس بار دل کی بیماری میں مبتلا ہوئے اور لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بڑی نگہ داشت والی یونٹ میں داخل کیے گئے تھے لیکن بیماری دل نے کام تمام کردیا اور اردو زبان نے اپنا ایک قد آور ادیب و شاعر، بڑا افسانہ نگار اور ممتاز صحافی اور کالم نگار کھودیا۔
ان کا اصل نام احمد شاہ تھا لیکن دنیائے شعر و ادب میں احمد ندیم قاسمی کے نام سے معروف ہوئے، وہ مغربی پنجاب کی وادی سون سیکسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں ۲۰؍ نومبر ۱۹۱۶ء کو پیدا ہوئے تھے لیکن ان کے فکر و عمل کی جولان گاہ لاہور تھا اور یہی آخر میں ان کا مدفن بھی بنا۔
احمد ندیم قاسمی پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد جلد ہی صحافت کے میدان میں وارد ہوئے، اس میں ان کا جوہر خوب کھلا، ان کا تعلق درجنوں اخبار اور رسائل سے رہا، ۱۹۴۳ء سے ۱۹۴۵ء تک ’’ادب لطیف‘‘ سے منسلک تھے، ۱۹۴۷ء میں ’’سویرا‘‘ کی ادارت سنبھالی، نقوش میں بھی اپنا نقش چھوڑا، امتیاز علی تاج کے رسالے ’’پھول‘‘ اور ’’تہذیب نسواں‘‘ سے وابستہ ہو کر ادب اطفال اور نسائی ادب میں اپنا سکہ جمایا، ’’امروز‘‘ ترقی پسند تحریک کا آرگن تھا، اس میں ’’پنچ دریا‘‘ کے نام سے فکاہی کالم لکھ کر اپنی خوش طبعی اور بذلہ سنجی کا ثبوت دیا اور کالم نگاری میں امتیازی درجہ حاصل کیا، وہ اس میں پنجاب کے مشہور صحافی عبدالمجید سالک کو اپنا استاد مانتے تھے، بعد میں وہ اس اخبار کے اڈیٹر بھی ہوگئے تھے لیکن ۱۹۶۰ء میں جنرل ایوب خاں نے اسے سرکاری انتظام میں کردیا تو وہ اس سے الگ ہوگئے مگر کالم نگاری کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کا عنوان بدل کر ’’عنقا‘‘ کردیا۔ ’’حریت‘‘ کراچی کے بھی اس کالم کو زینت بخشی، ۱۹۶۳ء میں خود اپنا رسالہ ’’فنون‘‘ نکالا جس کا شمار بڑے معیاری ادبی رسالوں میں ہوتا ہے، وہ بہت عرصے سے لاہور کے مشہور ادبی ادارے ’’مجلس ترقی ادب‘‘ کے ڈائرکٹر چلے آرہے تھے۔
مرحوم ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے اور اسے تروتازگی اور طاقت و توانائی دینے کے لیے ان کی زندگی وقف تھی، اس ادبی تحریک سے وابستگی کی بنا پر وہ اس کے حلقے میں بہت مقبول تھے، کچھ عرصے تک انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سکریٹری بھی رہے اور ۱۹۵۱ء میں انہیں پبلک سیفٹی کے تحت نظر بند کرلیا گیا تھا۔
مرحوم قاسمی صاحب کے کمالات کی اصلی تماشا گاہ ان کی شاعری اور افسانہ نگاری ہے، ان اصناف میں ان کا ادبی سرمایہ کمیت و کیفیت دونوں اعتبار سے باوزن اور اہم ہے، افسانے میں پریم چند کی طرح ان کا موضوع دیہات ہوتا تھا، ان کے افسانوں میں پنجاب کے دیہاتوں کی بڑی حقیقت پسندانہ عکاسی کی گئی ہے، اس لیے وہ بجاطور سے پنجاب کے پریم چند کہے جاتے تھے، ان کے افسانوں کے بے شمار مجموعے شائع ہوئے اور بعض افسانوں کو بڑی شہرت و قبولیت نصیب ہوئی جیسے ’’ہیروشیما سے پہلے اور ہیروشیما کے بعد، الحمدﷲ، کفن دفن، ست بھرائی، سناٹا، آتش گل، نمک حلال، کفارہ‘‘ وغیرہ۔ شاعری میں بھی ان کی حیثیت مسلم ہے، نظم پر بڑی قدرت تھی اور دونوں میں متعدد مجموعے یادگار چھوڑے، ان کی نظموں میں بھی ایک افسانوی فضا ہوتی ہے جو گاؤں کی معصوم اور سادہ محبت کی دل کشی لیے ہوتی ہیں۔
احمد ندیم کی زندگی اور فکر و فن کا مشن امن، صلح و آشتی اور انسان دوستی تھا، ہند و پاک کو بھی وہ اخوت و محبت کا درس اور نفرت و دشمنی چھوڑدینے کا پیغام دے گئے ہیں، کہتے تھے کہ عام آدمی نہ لڑائی چاہتا ہے اور نہ دشمنی۔
قاسمی صاحب کے ادبی و تنقیدی مضامین کے دو مجموعے بھی چھپے ہیں ’’ادب کی تعلیم کا مسئلہ‘‘ اور ’’تہذیب و فن‘‘، انہوں نے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ برابر جاری رکھا اور اخیر عمر تک اسے منقطع نہیں ہونے دیا، ا س لیے ان کی ادبی خدمات گوناگوں اور متنوع ہیں، ۵۰ سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں جن کی بڑی پذیرائی ہوئی، پاکستان کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ ’’نشان امتیاز‘‘ اور ادب کے لیے ’’صدارتی میڈل‘‘ سے ان کی عزت افزائی کی گئی، اﷲ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے سوگوار خاندان کا غم والم زائل کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، ستمبر ۲۰۰۶ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |