Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر عبدالمغنی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر عبدالمغنی
ARI Id

1676046599977_54338492

Access

Open/Free Access

Pages

733

پروفیسر عبدالمغنی کی رحلت
۵؍ ستمبر کو اردو کے ممتاز ادیب و نقاد پروفیسر عبدالمغنی اپنے مالک حقیقی سے جاملے، ان کے دماغ پر فالج کا حملہ ہوا تھا، علاج کے لیے پٹنہ کے ایک اسپتال میں داخل کیے گئے تھے، وہیں صبح سات بجے داعی اجل کا پیغام آگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ صوبہ بہار کے ضلع اورنگ آباد کے ایک دینی گھر انے میں ۴؍ جنوری ۱۹۳۶؁ء کو پیدا ہوئے تھے، ان کے والد ماجد مولانا عبدالرؤف اورنگ آبادی ندوی ایک ممتاز عالم تھے جن کے مضامین معارف میں چھپتے تھے اور ایک بھائی پروفیسر اقبال حسین مظفرپور یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر رہ چکے ہیں، عبدالمغنی صاحب نے ابتدائی تعلیم اورنگ آباد کے مدرسہ اسلامیہ میں حاصل کی تھی اور یہیں غالباً انہوں نے قرآن مجید بھی حفظ کیا تھا، عربی درسیات کی تکمیل مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں کی تھی، پھر جدید تعلیم کے لیے انگریزی اسکولوں اور کالجوں کا رخ کیا، فراغت کے بعد پٹنہ یونیورسٹی کے کسی کالج میں انگریزی کے استاد ہوگئے، وہ ایک اچھے اور نیک نام استاد تھے، انگریزی میں چند کتابیں بھی لکھیں مگر ان کی اصل تصنیفی زبان اردو تھی، ان کا شمار اردو کے زود نویس اہل قلم اور مصنفین میں ہوتا ہے وہ قلم برداشتہ لکھتے تھے۔
مرحوم کو اپنی مادری زبان اردو سے عشق تھا، علاوہ کثرت تصنیف کے وہ اردو تحریک کے بڑے سرگرم مجاہد بلکہ بہار میں اردو تحریک کے صف اول کے قائد تھے اور مدت دراز تک انجمن ترقی اردو کی بہار شاخ کے صدر تھے، ان کی عملی قوت اور تنظیمی صلاحیت نے بہار کی انجمن ترقی اردو کو بہت متحرک و فعال اور دوسری ریاستی انجمنوں سے زیادہ کارگزار بنا دیا تھا، عبدالمغنی صاحب کی سعی و جاں فشانی سے ۱۹۸۰؁ء میں سب سے پہلے بہار کی ریاست میں اس وقت کے کانگریسی وزیر اعلا پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے اردو کو علاقائی اور دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جس سے وہاں کے اردو دانوں کا فائدہ ہوا اور سرکاری ملازمتیں بھی ملیں اور ملک کی دوسری ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کا راستہ ہم وار ہوا لیکن دوسری ریاستوں میں سکنڈ لینگوئج ہونے کے بعد بھی اردو زبان کا زیادہ بھلا نہیں ہوا، بعض ریاستوں میں اردو ٹیچر اور مترجم رکھے گئے تو اس میں ایسی بے ضابطگی، دھاندلی اور بدعنوانی کی گئی کہ اردو سے بالکل نابلد لوگ اردو ٹیچر اور مترجم مقرر کردیے گئے اور جن کو کسی قدر اردو کی شدھ بدھ بھی تھی تو ان سے اردو کا کوئی کام ہی نہیں لیا گیا، حکومتیں تو جھانسا دیتی ہی ہیں، اس پر نوکر شاہی کے کھیل الگ، اس کے لیے اردو والے بھی کم قصور وار نہیں ہیں۔
پروفیسر عبدالمغنی کا پایہ اردو ادب و تنقید میں بلند تھا، انہوں نے جب اس میدان میں قدم رکھا تھا تو اس وقت ترقی پسند تحریک کا بول بالا تھا اور اردو شعر و ادب اور تنقید و تحقیق پر جن لوگوں کی اجارہ داری ہوگئی تھی ان کی بڑی تعداد خدا و مذہب بیزار تھی، مگر عبدالمغنی صاحب پر مذہب کی خاندانی چھاپ گہری تھی اس کے علاوہ ان پر مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ اور ڈاکٹر اقبالؒ کے خاص اثرات تھے اور وہ مولانا ابوالکام آزادؒ کے دینی افکار سے بھی متاثر تھے، اس لیے ترقی پسند تحریک کے جلوے ان کی نگاہوں کو خیرہ نہیں کرسکے اور انہوں نے اس کے متوازی ادب اسلامی کی تحریک سے اپنا رشتہ جوڑا، خود ان کے وطن میں تنقید میں کلیم الدین احمد اور تحقیق میں قاضی عبدالودود کا طوطی بول رہا تھا، ان کی موجودگی میں بھی انہوں نے اپنی ایک حیثیت بنائی، یہ ان کا کمال تھا۔
اکثر ترقی پسند ادیبوں سے ان کی نوک جھونک رہتی تھی، میں نے بعض سمیناروں میں لوگوں کو ان پر آوازے کستے اور ان کی اسلام پسندی پر طنز و استہزا کرتے دیکھا مگر وہ اس کی کچھ پروا نہیں کرتے اور اپنی بات پوری قوت سے کہتے اور مخالف نقطہ نظر کی پرزور تردید کرتے جاتے، تحریر کی طرح ان کو تقریر کا بھی خدا داد ملکہ تھا، برجستہ تقریریں کرتے اور دیر تک بڑی روانی سے بولتے تھے۔
عبدالمغنی صاحب میں گوناگوں عجیب خصوصیات پائی جاتی تھیں، اردو کے بڑے مصنف و مقرر تو تھے ہی انگریزی کے بھی استاد اور مصنف و مقرر تھے، عربی کے منتہی اور انگریزی پر عبور تھا، ہندی سے بھی واقف تھے، سیاسی، مذہبی، ملی اور قومی ہر محاذ پر سرگرم رہتے تھے، مسلم مسائل، پرسنل لا، تعلیم، اردو، فرقہ وارانہ فسادات، مسلم یونیورسٹی، انتخابات وغیرہ پر ان کے مدبرانہ مضامین اور بیانات اکثر اخباروں میں چھپتے رہتے تھے، مذہبی جلسوں میں تقریریں کرتے، محلے کی مسجد میں نماز اور رمضان میں تراویح پڑھاتے، قرآن بہت اچھا پڑھتے تھے، سیاسی اور قومی جلسوں میں بھی اسٹیج پررونق افروز ہوتے، علمی و ادبی سمیناروں میں شریک ہوتے اور مشاعروں کی صدارت کرتے۔
ان کی تصنیفات کے موضوعات بھی متنوع تھے، ان کا اصل موضوع ادب و تنقید تھا جس میں نقطہ نظر، جادۂ اعتدال، معیار و اقدار، فروغ تنقید، زاویے وغیرہ جیسی وزن دار کتابیں لکھیں، اقبالیات میں اقبال اور عالمی ادب، اقبال کا نظام فن اور اقبال کا نظریہ خودی اور تنویر ادب وغیرہ کو اعتبار حاصل ہوا، غالب، میر، فیضی، قرۃالعین حیدر اور برنارڈشا کے فکر و فن سے بحث کی، مولانا مودودیؒ کی ادبی خدمات اور مولانا ابوالکلام کے اسلوب نگارش کو موضوع گفتگو بنایا، ہندوستان کے بعض بدنام مسلم سلاطین، اورنگ زیب عالم گیر، محمود غزنوی اور ٹیپو سلطان نے بھی انہیں اپنی جانب متوجہ کیا، مسلمانوں کی تعلیم، ہندوستان میں مسلم اقلیت کے مسائل اور دہشت پسندی اور اسلام پر کتابچے لکھے، قرآن مجید سے انہیں بڑا شغف تھا اور اس پر کئی مختصر کتابیں لکھیں، وہ ایک صحافی اور کالم نگار بھی تھے، اردو کے علاوہ انگریزی اخباروں میں بھی مستقل کالم لکھتے تھے، ’’مریخ‘‘ کے نام سے اپنا ایک ادبی رسالہ بھی نکالا جو وقفے وقفے سے مدتوں نکلتا رہا۔
عبدالمغنی صاحب کھرے ایمان دار اور بے داغ شخص تھے لیکن اس وقت ملک کے تمام شعبوں کی طرح محکمہ تعلیم میں بھی بدعنوانی سرایت کرگئی ہے، اکثر لوگ اسی کے خوگر اور عادی ہوگئے ہیں، اتفاق سے اگر ان میں کوئی پاک صاف آدمی پہنچ جاتا ہے اور وہ غلط کاموں میں نہ ان کا تعاون کرتا ہے اور نہ وہ انہیں ناجائز طریقوں سے نفع و استحصال کا موقع دیتا ہے تو لوگ اس کے دشمن ہوجاتے ہیں اور اس کے خلاف سازشیں کر کے اسے مختلف الزامات میں متہم کردیتے ہیں جس کے بعد یا تو وہ خود بھاگ کھڑا ہوتا ہے یا مقدمات کے جال میں پھنسا دیا جاتا ہے، علمی و تعلیمی ادارے بھی ان بدعنوانیوں اور بدعنوان لوگوں سے پاک نہیں رہ گئے ہیں، عبدالمغنی صاحب چند برسوں کے لیے جب متھلا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنائے گئے تو غالباً اسی طرح کی سازش کے نتیجے میں وہ گرفتار کرلیے گئے تھے، ضمانت پر رہا ہوئے، کئی برس سے مقدمہ چل رہا تھا، ابھی اس کا تصفیہ بھی نہیں ہوا تھا کہ وقت موعود آگیا، وہ ضمانت پر جب رہا ہوئے تھے تو میں پٹنہ گیا ہوا تھا، وہاں ڈاکٹر خلیق انجم اور پروفیسر نثار احمد فاروقی بھی آئے تھے، طے ہوا کہ تینوں آدمی چل کر ان سے مل لیں، رضوان احمد نے جو اس وقت بہار اردو اکیڈمی کے سکریٹری تھے بتایا کہ وہ ملنے سے عموماً اختراز کرتے ہیں لیکن ہم تینوں گئے، معلوم ہوا کہ گھر پر موجود نہیں ہیں، ہم لوگ اپنا اپنا نام بتاکر چلے آئے۔
بشری لغزشوں سے کوئی شخص مبرا نہیں ہوتا، عبدالمغنی صاحب میں بھی انانیت، ترفع اور خودرائی تھی اور انہیں اپنی علمی فضیلت و برتری کا احساس بھی رہتا تھا جو اہل علم کو زیب نہیں دیتا تاہم ان کے علمی کمالات اور ادبی و تنقیدی خدمات مسلم ہیں، وہ مسلمانوں کی علمی، تعلیمی اور معاشی پس ماندگی دور کرنے اور ان کے گوناگوں پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے فکر مند رہتے تھے، اﷲ تعالیٰ عالم آخرت میں ان کے درجات بلند کرے اور عزیزوں کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، اکتوبر ۲۰۰۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...