Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > عثمان غنی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

عثمان غنی
ARI Id

1676046599977_54338493

Access

Open/Free Access

Pages

734

عثمان غنی
افسوس ہے کہ مشہور صحافی اور قومی آواز کے لائق مدیر جناب عثمان غنی ۲۴؍ اگست کی شب میں انتقال کرگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
مرحوم عرصہ سے بیمار اور کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے، علاج کے لیے میڈیکل کالج میں داخل تھے، وہیں پیام اجل آگیا، ۲۵؍ اگست کو جمعہ کی نماز کے بعد امین آباد کچہری روڈ کی مرکز والی مسجد میں ان کی پہلی نماز جنازہ مولانا متین میاں فرنگی محلی کی اقتدا میں ادا کی گئی اور دوسری جنازہ کی نماز عیش باغ کی مسجد میں عید گاہ کے نائب امام مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے پڑھائی اور عیش باغ کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔
عثمان غنی صاحب کی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور لکھنو یونیورسٹی میں ہوئی تھی، ان کی صحافتی زندگی کا آغاز علی گڑھ ہی میں ہوگیا تھا جب انہوں نے اپنے بعض ساتھیوں سے مل کر یونیورسٹی ٹائمز نکالا تھا، پھر وہ اردو کے مشہور جریدہ ’’قومی آواز‘‘ سے اس وقت منسلک ہوئے جب وہ مرحوم حیات اﷲ انصاری کی ادارت میں نکلتا تھا، ان کے اور جناب عشرت علی صدیقی کے دور ادارت کے بعد یہ اس کے چیف ایڈیٹر ہوئے لیکن اسی دور میں نامساعد حالات کی بنا پر اخبار بند ہوگیا، اس کے بعد عارضی طور پر انہوں نے ’’قومی خبریں‘‘ کی ادارت سنبھالی، اس کے بعد کسی اور اخبار کی ادارت کی پیش کش قبول نہیں کی۔
عثمان غنی مرحوم کے اداریے پر مغز اور متوازن ہوتے تھے، اردو اور انگریزی دونوں پر انہیں پوری قدرت تھی، سائنس، تاریخ، سیاست اور نئے علوم پر ان کی اچھی نظر تھی، وہ اصلاً سائنس کے طالب علم تھے لیکن ریاضی بھی ان کی دلچسپی کی چیز تھی، ہر موضوع سے متعلق ان کی معلومات تازہ ترین ہوتی تھیں، انہوں نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کا سفر کیا تھا۔
مرحوم کا تعلق صحافیوں کی اس نسل سے تھا جب صحافت کا وقار و معیار بلند تھا اور وہ سچائی اور حقیقت کی ترجمان اور جانب داری اور سطحیت سے عاری ہوتی تھی، افسوس کہ اب اس کے نمونے ختم ہوتے جارہے ہیں اور نئی نسلوں کی بے راہ روی صحافت میں بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔
ان سے میری ملاقات صرف دو تین بار ہوئی، جب بھی ان کے دفتر گیا وہ بڑی خاموشی سے اپنے کام میں منہمک ملے، ہر بار بڑے اخلاق، شرافت اور خلوص و ہمدردی سے ملے، میں نے انہیں بہت کم سخن، خاموش طبع، سنجیدہ اور متواضع پایا لیکن ان کے بے تکلف دوستوں کا بیان ہے کہ ان کو لطیفے اور چٹکلے خوب یاد تھے، اشعار بھی بے شمار یاد تھے، شاعروں اور ادیبوں کے دلچسپ جملے اور فقرے بڑے مزے سے بیان کرتے تھے، ان کی واقفیت اور معلومات کا دائرہ بھی بہت وسیع تھا، ان سب سے وہ اپنے قریب تر ساتھیوں کو محظوظ کرتے رہتے تھے۔
اﷲ تعالیٰ اس شریف النفس انسان کو اپنے دامن عفو و رحمت میں جگہ دے اور اعزہ کو صبر و تسلی بخشے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، اکتوبر ۲۰۰۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...