Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نجیب محفوظ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نجیب محفوظ
ARI Id

1676046599977_54338494

Access

Open/Free Access

Pages

735

نجیب محفوظ کا انتقال
۳۰؍ اگست ۲۰۰۶؁ء کو مصر کے مشہور ادیب اور ناول نگار اور ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والے پہلے عرب مصنف نجیب محفوظ کا انتقال ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ ۱۱؍ دسمبر۱۹۱۱ء کو قاہرہ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، اس وقت ان کا خاندان محلہ جمالیہ میں رہتا تھا، ۱۹۲۴؁ء میں یہاں کی سکونت ترک کر کے وہ نئے طرز کے محلہ عباسیہ میں منتقل ہوگیا جہاں ان کا بچپن اور شباب گزرا، چالیس برس کی عمر میں ان کی شادی ہوئی تو یہاں کا مکان بھی چھوڑ دیا۔
ان کے والد پر جوش وطن پرست تھے اور مصر کے قوم و وطن پرست لیڈروں سے والہانہ تعلق رکھتے تھے، نجیب محفوظ گو خاموش طبع اور شورش و ہنگامہ سے دور رہتے تھے لیکن مصری قوم پرستی کی تحریک کے ہم نوا تھے، ان کو اپنے شہر سے ایسی محبت تھی کہ اس کی گلیوں اور محلوں کے نام پر کئی ناول لکھے۔
ابتدائی مرحلے کی تعلیم مکاتب اور اسکولوں میں حاصل کرنے کے بعد جامعہ فواد (قاہرہ یونیورسٹی) میں داخل ہوئے اور ۱۹۳۴؁ء میں بی اے کی ڈگری لی، فلسفہ ان کا خاص مضمون تھا۔
نجیب محفوظ زمانہ طفولیت سے ہی مطالعہ کے شوقین تھے، شروع میں قصے کہانی کی کتابیں پڑھتے تھے، عمر کچھ زیادہ ہوئی تو تاریخی ناولوں سے شغف ہوا، پھر اپنے عہد کے مشاہیر مصنفین طہ حسین، عباس محمود عقاد، سلامہ موسیٰ، مازنی، حسن زیات، ہیکل اور توفیق الحکیم وغیرہ کی نگارشات ان کے مطالعہ میں آئیں اور یہ ان کے خیالات سے متاثر ہوئے، سلامہ بن موسی کا رنگ ان پر زیادہ چڑھا ہوا تھا، یہ ایک قبطی عیسائی ادیب تھا جو اپنی اباحیت پسندی کی وجہ سے مسلمانوں میں مبغوض تھا، سلامہ نے التربیۃ کے نام سے اپنے خودنوشت سوانح لکھے تھے جس کا انگریزی ترجمہ ہوچکا ہے۔
نجیب محفوظ ادب و تنقید کی کتابوں کی طرف متوجہ ہوئے تو قدما کی امہات کتب کا مطالعہ کیا اور جاحظ کی البیان والتبیین، ابوعلی قالی کی امالی اور ابن عبدربہ کی العقد الفرید پڑھیں، نثری تصنیفات سے ان کا رخ نظم کی جانب مڑگیا تو خاص طور پر ابوالعلا معری، متنبی اور ابن الردمی کی شاعری کا مطالعہ کیا اور ان پر اس کے بھی اثرات پڑے۔
انہوں نے انگریزی اور فرنچ زبانیں بھی سیکھیں اور یورپ کے ادب اور لڑیچر کا گہرا مطالعہ کیا، روسی، برطانوی اور فرانسیسی ادیبوں کی کتابیں برابر ان کے مطالعہ میں رہتی تھیں، ٹالسٹائی، دوستوفسکی، والٹرسکاٹ، برنارڈشا اور شیکسپیر ان کے محبوب مصنفین تھے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد وہ جامعہ مصر یہ کے انتظامی شعبے سے منسلک ہوئے، اس کے بعد ۱۵ برس تک وزارت اوقاف سے وابستہ رہے، مساجد کی نگرانی اور دوسرے انتظامی امور اسی وزارت سے متعلق تھے، اس لیے ان کو مختلف لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، دینی حلقوں کے خیالات و رجحانات سے واقفیت ہوئی اور محکمہ کے کلرکوں، منشیوں اور اہل کاروں کی کام چوری، سست روی، تساہل پسندی، کاموں کو ٹالنے اور دیر سے نپٹانے کی ذہنیت کا اندازہ ہوا۔
۱۹۵۴؁ء میں ان کا تقرر وزارت ثقافت میں بہ طور ڈائرکٹر ٹیکنیکل ایجوکیشنل ہوا جس کا کام صنعتی اور ٹیکنیکل اسکولوں کی نگرانی تھی، اس کے بعد وہ سنیما تنظیم کے ڈائرکٹر ہوئے، ۱۹۷۱؁ء تک وہ ان سرکاری عہدوں پر فائز رہنے کے بعد سبک دوش ہوئے اور ’’الاہرام‘‘ کے ادبی سیکشن سے وابستہ ہوگئے۔
۱۹۲۵؁ء میں جب کہ وہ ابھی طالب علم تھے ان کے لکھنے کا آغاز ہوگیا تھا، شروع میں شعر بھی کہتے تھے، ملازمت کے زمانے میں بھی ان کے لکھنے پڑھنے کا شغل جاری رہتا تھا، ابتدا میں چھوٹے افسانے لکھے،پہلا افسانہ ’’فترۃ الشباب‘‘ (زمانہ شباب) کے نام سے لکھا تھا، ۱۹۳۰؁ء میں نجیب محفوظ نے پہلا مقالہ ’’احتضار معتقدات و تولد معتقدات‘‘ (اعتقادات کی شکست وریخت) کے نام سے لکھا جو سلامہ موسیٰ کے ہفتہ وار میگزین ’’مجلۃ الاسبوعیۃ الجدیدہ‘‘ میں شائع ہوا پھر اس کے اڈیٹر کی تحریک سے برابر افسانے لکھنے لگے اور ناول کا سلسلہ بھی شروع کیا جو روزنامہ اور ہفتہ وار اخباروں اور ماہناموں میں بالاقسط چھپتے تھے الاہرام میں بھی ان کے ناول اور افسانے برابر قسط وار شائع ہوتے تھے ان کے ناولوں کا پلاٹ اور تانا بانا الف لیلہ کی داستانوں سے ملتا جلتا ہے، ان میں قاہرہ کے قدیم محلوں کے رہنے والوں کی معاشرتی زندگی، ان کے رسم و رواج، ان کے احساسات و جذبات اور رجحانات و میلانات کی بڑی خوب صورتی کے ساتھ ترجمانی کی گئی ہے خود ان کے پرانے محلہ جمالیہ کو بھی ان کے ناولوں میں مرکزی مقام حاصل ہے۔
طبع زاد ناولوں اور افسانوں کے علاوہ انہوں نے بہت سے ترجمے بھی کئے قدیم مصر پر جیمز بیلی کی ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ مصر القدیمہ کے نام سے کیا قوم پرستی کی تحریک سے وابستگی کی بنا پر نجیب محفوظ کو مصر کے فرعونی عہد کی تاریخ و تمدن سے بڑی دل چسپی تھی، ان کے ابتدائی تین ناول فراعنہ مصر کے عہد سے متعلق ہیں لیکن ان کے عام ناول اپنے عہد کے معاشرتی و تمدنی حالات کے عکاس ہیں۔
نجیب محفوظ کو غیر معمولی اور عالم گیر شہرت اپنے ناولوں کی بہ دولت ملی، ان کے کچھ مقبول ترین ناولوں کے نام یہ ہیں:
القاہرۃ الجدیدہ، ثلاثیۃ بین القصرین۔ خان الخلیلی۔ زقاق المدق۔ البدایہ والنھایہ۔ بین القرین۔ قعر الشوق۔ اولاد حارتنا۔ السکریہ۔ اللص و الکلاب۔ ثرثرۃ فوق النیل۔
’’ثلاثیۃ‘‘ میں ایک مسلمان تاجر خاندان کی تین نسلوں کی روداد اس طرح بیان کی ہے جس سے قاہرہ کے ایک خاص خطے کی معاشرت سامنے آگئی ہے، ’’خاں الخلیلی، السکریہ، زقاق المدق، بین القصرین‘‘ وغیرہ قاہرہ کے قدیم محلوں سڑکوں اور گلیوں کے نام ہیں، اس میں دکھایا ہے کہ ان کے باشندوں کے قدیم طور طریقوں اور رہن سہن پر آج بھی عہد مملوک کا سایا چھایا ہوا ہے، ’’بدایہ و نھایہ‘‘ میں مصر کی تحریک آزادی کی داستان ہے، ’’اللص والکلاب‘‘ میں ایک ایسے ڈاکو کا ذکر ہے جو بد عنوان معاشرے سے برہم اور بے زار ہوکر امرا کے یہاں چوری اور ڈاکہ زنی کر کے غریبوں اور ناداروں کی مدد کرتا ہے ’’ثرثرۃ فوق النیل‘‘ میں نیل پر آباد لوگوں کے معمولات اور رویے پر گفتگو ہے اور یہ اس نوجوان طبقے کا مرقع ہے جو اعلاتعلیم یافتہ، ذہین اور باشعور ہونے کے باوجود نشے کی عادت بد میں پڑ کر اخلاقی و روحانی بحران میں مبتلا ہوگیا ہے اور دریاے نیل پر اپنی علا حدہ دنیا بسالی ہے جو بہت جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔
غرض نجیب محفوظ کے ناولوں میں مصر خصوصاً وہاں کے شہروں کی معاشرت اور طرز زندگی کی مکمل عکاسی کی گئی ہے، وہ اس معاشرے کے نباض تھے، اس لیے اس کے خیالات، اس کے خلفشار، انتشار اور غیر یقینی کیفیات کا اظہار کرتے جن سے مصری معاشرہ روز مرہ کی زندگی میں دوچار رہا۔
نجیب محفوظ بڑے زود نویس اور کامیاب مصنف تھے، وہ برابر تصنیف و تالیف میں منہمک رہتے تھے، روزآنہ چار پانچ گھنٹے تحریر و تصنیف کا کام انجام دیتے تھے، انہوں نے ۵۰ سے زیادہ ناول، سیکڑوں افسانے اور ۵ ڈرامے لکھے، ان کی اصل خوبی حسن تحریر اور پختگی فن ہے، انہیں زبان و بیان پر بڑی قدرت تھی، عامی زبان لکھنے سے بچتے تھے، بعض نقادوں کا خیال ہے کہ ۱۹۵۲؁ء سے پہلے ان کی تحریروں میں بڑی واقعیت، حقیقت پسندی اور عہد و ماحول کی صحیح تصویر کشی ہوتی تھی اور وہ رموزو اشارات اور علامتوں سے خالی ہوتی تھیں لیکن ۱۹۵۲؁ء کے انقلاب کے بعد ان کے قلم کا انداز تبدیل ہوگیا اور وہ رمز و علامت اور اشارے کنایے کا سہارا لینے لگے تھے، اس زمانے کی تحریروں میں قدیم و جدید کی کشمکش، روایت و جدت کے تصادم اور رجعت پسندی اور ترقی پسندی کے ٹکراؤ کا تذکرہ رہتا تھا۔
نجیب محفوظ کے اکثر ناولوں کے انگریزی و فرانسیسی میں ترجمے ہوگئے ہیں اور یہ بہت مقبول ہیں، ’’واکیرو ٹرائلوجی‘‘ کو ان کا شاہ کار کارنامہ خیال کیا جاتا ہے، ’’پیلس آف واک‘‘، ’’پیلس آف ڈیزائر اور شوگر سٹریٹ‘‘ بھی مشہور ناولوں میں ہیں، ’’ثرثرۃ فوق النیل‘‘ کا انگریزی ترجمہ ’’ایڈرفٹ آف دانائیل‘‘ کے نام سے ہوا۔ پاکستان میں نیر عباس زیدی صاحب نے اس کا اردو ترجمہ ’’آب نیل پہ آوارگی‘‘ کے نام سے کیا ہے، ان کی کتابوں کی مقبولیت کا یہ بھی ثبوت ہے کہ ان کے ۱۵ ناولوں پر فلمیں بن چکی ہیں۔
نجیب محفوظ کی عظمت و شہرت میں چار چاند اس وقت لگا جب ۱۹۸۸؁ء میں انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا، یہ انعام سویڈن کے مشہور سائنس داں الفریڈ نوبل (م۱۸۹۶؁ء) کے نام سے موسوم ہے، اس نے ڈائنامیٹ بم اور بہت سے دھماکہ خیز گولے ایجاد کیے تھے، اس کی ان ہلاکت خیز ایجادات کے صلے میں یورپ کے ملکوں نے اسے بہت سے گراں قدر انعامات سے نوازا، اس کے علاوہ باکو (روس) کے تیل کے کنوؤں میں اس کی شراکت داری بھی تھی، اس طرح اس نے بے حساب دولت جمع کی تھی اور اپنی زندگی میں ایک ٹرسٹ قائم کر کے کروڑوں پونڈ اس کی تحویل میں دے دیے تھے اور وصیت کی تھی کہ اس رقم کے منافع سے ہر سال سائنس میں نئی دریافت کرنے والے سائنس داں یا علم و ادب کی غیر معمولی اور نمایاں خدمت کرنے والے کو اس کے نام سے موسوم انعام دیا جائے جس کی مالیت اس زمانے میں دس ہزار پونڈ سے لے کر تیس ہزار پونڈ ہوتی تھی۔
یورپ کے فضلا اور ماہر سائنس دانوں کو برابر نوبل انعام ملتا رہتا ہے، متحدہ ہندوستان میں رابند ناتھ ٹیگور اور چندرونکٹارامن (مدراس یونیورسٹی) بھی اس انعام سے سرفراز ہوچکے ہیں لیکن کوئی مسلمان ابھی اس کے قابل نہیں سمجھا گیا تھا، اس سے نصف صدی قبل طہٰ حسین کا نام بعض لوگوں نے پیش کیا تھا لیکن یہودی اور عیسائی کار پردازوں کے تعصب کی وجہ سے یہ تجویز رد ہوگئی تھی، نجیب محفوظ پہلے مسلمان اور عرب مصنف تھے جن کو یہ انعام عطا کیا گیا، کئی برس ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام (پاکستان) کو بھی سائنس کا نوبل انعام ملا تھا اور اب اس سال ۲۰۰۶؁ء میں بنگلہ دیش کے ماہر اقتصادیات اور گرامین بینک کے بانی پروفیسر محمد یونس اور ان کے ساتھ ان کے گرامین بینک کو ملا ہے جو 1-4 ملین ڈالر ہے، نجیب محفوظ نے انعام پانے پر کہا تھا کہ مجھ سے پہلے یہ انعام طہ حسین، عقاد اور توفیق الحکیم کو ملنا چاہیے تھا، اس انعام سے پہلے مصری حکومت نے انہیں اپنا سب سے بڑا ایوارڈ قلادۃ النیل عطا کیا تھا۔
نجیب محفوظ کی جس کتاب پر یہ اعلاترین انعام انہیں عطا کیا گیا تھا، وہ ان کی ایک متنازع کتاب ’’اولاد حارتنا‘‘ (ہمارے محلے کے بچے)ہے، یہ ناول ۱۹۵۹؁ء میں لکھا گیا تھا، جس پر دینی حلقوں کو بڑا اعتراض تھا اور مصر میں اس پر پابندی لگادی گئی تھی لیکن جب نوبل انعام ان کو دیاگیا تو یہ پابندی ختم کردی گئی تھی، مذہبی طبقوں کے خیال میں اس میں رمزیت و ایمائیت سے کام لے کر انہوں نے دینی عقائد و تصورات کا مذاق اڑایا ہے اور اﷲ تعالیٰ اور انبیا کا نامناسب طور سے تمثیلی ذکر کیا ہے، وہ دین اور عقیدہ تقدیر کو مادی ترقی اور اصلاحات میں رکاوٹ خیال کرتے تھے، مجرم کو خطا کار نہیں سمجھتے تھے، ان کے خیال میں وہ جرائم کا ارتکاب اپنے اس ماحول کے ظلم کی وجہ سے کرتا ہے جس میں وہ زندگی گزارتا ہے، جب اس پرانی کتاب پر ان کو انعام دیا گیا تو لوگوں نے یہ بھی خیال کیا کہ دین کے استخفاف اور تمسخرہی کی بنا پر وہ انعام کے مستحق قرار پائے ہیں، اس لیے اس وقت بھی ان کے خلاف بڑا ہنگامہ اور شورش برپا ہوئی اور ۱۹۹۴؁ء میں ایک شدت پسند شخص نے ان پر قاتلانہ حملہ کردیا جس میں وہ بچ تو گئے لیکن ان کا دایاں بازو بے کار ہوگیا اور وہ لکھنے سے معذور ہوگئے، ۲۰۰۵؁ء میں ان کی جو آخری کتاب شائع ہوئی تھی وہ ان کے مختصر افسانوں کا مجموعہ ہے۔
یہی متنازعہ کتاب جس کی بنا پر ان کی ذات کو بڑی مخالفتوں اور تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا، انقلاب و تجدد پسندوں اور اشتراکیت و مارکسزم کے حامیوں میں اس کی بڑی پذیرائی ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی، کیونکہ ان کے خیال میں یہ مارکس کے افکار سے ہم آہنگ ہے اور اس میں رجعت پسندانہ اور ترقی پسندانہ کشمکش کا تذکرہ ہے۔
نجیب محفوظ نے مخالفین کے جواب میں کہا ہے کہ یہ کتاب بہت پہلے کی ہے اب میں ان خیالات سے باز آگیا اور تائب ہوچکا ہوں، الحاد کی وادی سے نکل چکا ہوں، انعام لینے کے لیے سفر بھی نہیں کیا، میرے ناولوں میں کسی محلے کی تصویر کشی ہوتی ہے، لوگوں نے اس کا جو مفہوم سمجھا ہے وہ سرے سے میرا مقصود نہیں ہے۔
لیکن اس میں شبہ نہیں کہ وہ ترقی پسند اور آزادی رائے اور روشن خیالی کے حامی تھے اور اس میں عام سطح سے آگے نکل جاتے تھے، مارکسزم کے اثرات بھی ان پر تھے، انہوں نے سلمان رشدی کی مدافعت کی اور جب امریکہ کے اشارے پر مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ عمل میں آیا تو نجیب محفوظ نے اس کی حمایت کی، وہ عرب اسرائیل تعلقات کے بھی حامی تھے، اﷲ تعالیٰ ان کی لغرشوں سے درگزر فرمائے اور ان کی عاقبت بخیر کرے۔
نجیب محفوظ کی تدفین پورے قومی و فوجی اعزاز کے ساتھ ہوئی اور ان کے جسد خاکی کو مصر کے قومی پرچم میں لپیٹا گیا، مصر کے صدر حسنی مبارک، ان کے وزرا اور اعلا سرکاری عہدے دار ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور جامع ازہر قاہرہ کے شیخ محمد سعید طنطاوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ (ضیاء الدین اصلاحی، نومبر ۲۰۰۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...